اور جب اُس نے لکھ دیا کہ ایسا ہونا ہے۔
تو ایسا ہونا ہی تھا۔
یہ کیسے ممکن تھا کہ
ہم وہاں نہ جا پاتے۔
اور اس زمیں پر ہمارے قدم نہ ثبت ہوتے۔
اور اس فضا میں ہم سانس نہ لیتے۔
اور وہ لمحے وہاں نہ گذارتے۔
جن کا فیصلہ ازل سے ہو چکا تھا۔
اور ہم اس ہوا کو اپنے سینے میں نہ اتارتے جو ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی
تھی۔
اور کون ہے جو اُس کے لکھے کو ٹال سکتا ہے۔
تو میں
کیا بتاوں ان کا میرا سامنا کیسے ہوا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سکندر اعظم کے پیروکار تو نہیں تھے پھر بھی اس کی راہ پر، اس کے نقش قدم
پر چل پڑے تھے۔ اگرچہ ہمارے اور اس کے درمیان کئی صدیاں حائل تھیں۔ فرق صرف
اتنا تھا کہ وہ جہاں گردی کے ساتھ ساتھ جہاں گیری کی ہوس میں مبتلا تھا اور
ہم جہاں دیدنی کی خواہش رکھتے تھے۔
ہماری اس جہاں گردی کے سزاوار اس کی سپاہ کے وہ گھوڑے تھے۔ جو کئی صدیاں
پہلے اس علاقے کی ناموافق آب و ہوا کا شکار ہو کر بیمار ہو گئے تھے۔
سکندر کو اپنے ہم نفسوں کی کتنی پرواہ تھی جو اس کو ان بےزبانوں کی پرواہ
ہوتی۔
لیکن اُس سب سے بڑے چارہ ساز کو یہ بے زبان بھی پیارے تھے جس نے انہیں
تخلیق کیا تھا۔
اور اُس سب سے بڑے چارہ ساز نے ان بے زبانوں کے من میں یہ بات ڈالی کہ تم
ان پتھروں کو چاٹو تو ٹھیک ہو جاو گے اور ایسا ہی ہوا۔
اور اس طرح وہ پتھر دریافت ہوئے۔
جن کو آج ہم بھی چاٹتے ہیں۔
حالانکہ ہم بیمار نہیں۔
پھر بھی چاٹتے ہیں۔
اور ہم گھوڑے بھی نہیں۔
لیکن پھر بھی چاٹتے ہیں
اور ہمارے اکثر پکوان ان پتھروں کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔ چاہے چٹکی بھر ہی
استعمال ہوں اور یہ پتھر بھی ان بے حساب اور بے شمار نعمتوں میں سے ہیں۔ جن
کے بارے میں فرمایا گیا ہے۔
" اور تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاو گے؟"
ان پتھروں کی سیر کرنے کے لئے سالانہ 250000 سیاح آتے ہیں۔ اور اس سال کے
سیاحوں میں ان دو گاڑیوں کے نفوس بھی شامل تھے۔ جن میں سے ایک سیالکوٹ سے
چلی تھی اور دوسری لاہور سے روانہ ہوئی تھی۔ اور دونوں گاڑیوں کی منزل ایک
تھی۔
" کھیوڑہ سالٹ مائینز "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم چل تو پڑے تھے۔
کیا ہم سیالکوٹ سے 165 کلومیٹر کی دوری پر اس پوٹھوہاری خطے کی زیارت کر کے
واپس آ سکتے ہیں؟
اتنے قلیل وقت میں۔
ہمارے پاس کوئی گارنٹی نہیں تھی۔
پھر بھی ہم چل پڑے تھے۔
اور یہ خطہ ۔
سیالکوٹ سے 165 کلومیٹر، اسلام آباد سے 166 کلومیٹر جنوب کی طرف اورلاہور
سے تقریباً 200 کلومیٹرکی دوری پر ضلع جہلم کی تحصیل پنڈ دادنخان کے شمال
میں واقع ہے۔
سطح سمندر سے اس کی بلندی 288 میٹر ہے۔
اگرچہ اس کی دریافت سکندر اعظم کے دور میں ہو چکی تھی لیکن اس کی باقاعدہ
تجارت مغلیہ دور میں شروع ہوئی۔ پھر بھی یہ خطہ تاج محل جیسی توجہ حاصل نہ
کر سکا۔
اور جب برطانوی سامراج ان علاقوں پر قابض ہوا تو اس خطے کی حالت نا گفتہ بہ
تھی۔
گو برطانوی سامراج کا ہماری تاریخ میں کردار خاصہ متنازعہ ہے، پھر بھی اس
نے کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں۔
1872ء میں برٹش گورنمنٹ نے کھیوڑہ سالٹ مائینز کو ڈیویلپ کیا۔
کھدائی کے لئے تنگ سرنگوں اور داخلی راستے کو کشادہ کیا گیا۔ جس سے لیبر کی
نقل و حرکت میں آسانی پیدا ہو گئی۔ کھدائی کئے ہوئے نمک کے ذخیرہ کی خاطر
وئیر ہاوس تعمیر کئے گئے۔ 2 فٹ گیج کی چھوٹی کھیوڑہ سالٹ مائن ریلوے لائن
بھی اسی دور میں بچھائی گئی جو نمک کو سرنگ سے باہر لانے کے لئے استعمال کی
جاتی ہے۔
معدنیات سے بھرپور یہ پہاڑ پوٹھوہار سے دریائے جہلم اور دریائے سندھ کے
ملاپ تک تقریباً 200 کلومیٹر درمیانی علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔
ان معدنیات میں کیلشیم، میگنیشیم، پوٹاشیم، سلفیٹ، آئرن، زنک، کاپر اور کئی
دوسری دھاتیں شامل ہیں۔
کھیوڑہ کے نمک کو ہمالیں نمک بھی کہا جاتا ہے۔ اور یہ شیشے جیسی شفاف حالت
کے علاوہ سفید، پنک اور سرخی مائل رنگوں میں بھی نکلتا ہے۔ اور یہ % 99
خالص نمک ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کے کل محفوظ ذخائر82 سے 600 ملین ٹن کے ہیں۔
برطانوی دور میں 28 ہزار ٹن سالانہ سے شروع ہونے والی پیداوار 2003ء میں
385000 ٹن سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ کھدائی کی مین سرنگ 140 سال سے زیادہ
عرصہ گذرنے کے باوجود آج بھی فعال ہے۔ 19 مختلف سطحوں پر کھدائی کا کام
جاری ہے اور 40 میٹر گہرائی تک کھدائی کی جا چکی ہے۔سرنگ کے اندر سارا سال
درجہ حرارت 18 سے 20 درجے سنٹی گریڈ رہتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک فیملی ٹرپ تھا۔ جس میں ہمارے خاندان کے اکثر افراد شامل ہو رہے تھے۔
کچھ سیالکوٹ سے
اور کچھ لاہور سے
گو یہ نصف صدی کا قصہ نہیں
دوچار برس کی بات ہے
پھر بھی ان دنوں ان علاقوں میں سیلولر نیٹ ورک اتنے مربوط نہیں تھے۔
دونوں گاڑیوں کا رابطہ جڑتے جڑتے منقطع ہوجاتا اور منقطع ہوتے ہوتے پھر جڑ
جاتا۔
تاریخ گواہ ہے کہ لاہور والوں کو سٹریٹیجک برتری حاصل رہی ہے جس کا فائدہ
وہ ہمیشہ اٹھاتے رہے ہیں۔ تو یہ کیسے ممکن تھا کہ اس بار سیالکوٹ اپ سیٹ
کرنے میں کامیاب ہو جاتا اور اہل سیالکوٹ وہاں پہلے پہنچ جاتے۔
لیکن یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ تعبیر کسی کے بھی حصے میں آئی ہو۔ لیکن
خواب اہل سیالکوٹ ہی دیکھتے ہیں۔
اور تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں۔
چنانچہ جہلم، پنڈدادنخاں، چکوال، چوآسیدن شاہ سے گذرتے ہوئے جب ہم کھیوڑہ
پہنچے تو سورج نصف النہار سے آگے بڑھ چکا تھا۔ اور اہل لاہور ہمارا انتظار
کر رہے تھے ، جو قیامت کا انتظار ہرگز نہیں تھا۔ اور انتظار کر کر کے اگرچہ
وہ سوکھے نہیں تھے۔ پھر بھی ان کی واپسی کا نقارہ بجنے کو تھا اور وہ اپنی
دکانیں بڑھا رہے تھے۔
چنانچہ اہل جنوں بڑی شتابی سے ایک دوسرے سے ملے اور اس کے بعد
نہ جنوں رہا نہ پری رہی
جو رہی تو بس دلبری رہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس سفر کے دوران اگرچہ کچھ ناگفتنی حالات بھی پیش آئے۔ لیکن وہ تاریخ
کا حصہ نہ بن سکے۔
اور یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا
کہ
جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے
اور یہ داستاں وہ داستاں ہے
جو کبھی داستانوں میں نہیں ہوگی
کہ یہ ہمارے پیش رو کا کہنا تھا۔
اور جب اہل لاہور واقعی پہاڑ اوجھل ہو گئے تو ہم نے بھی کوچہء دلدار کا رخ
کیا۔
لیکن
ایک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا۔
اور یہ دریا کونسا تھا؟
یہ دریا ٹکٹ گھر کی کھڑکی کے آگے لگی کیو تھی۔
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم پاکستانی کبھی بھی کیو کے قائل نہیں رہے تو اب
کیسے ہو جاتے۔
اور جب کھیوڑہ کا اژدہا ہمیں نگلنے کو تھا تو ہم برطانوی استعمار کی بچھائی
ہوئی دو فٹ گیج کی چھوٹی لائن پر چلنے والی ریل گاڑی پر بیٹھے خراماں
خراماں اس کے پیٹ میں جا رہے تھے۔ گو یہ سرنگ شیطان کی آنت نہیں تھی۔ لیکن
اس کی چھوٹی بہن ضرور لگتی تھی۔
اور جب ہم مائن کے اندر بنے ہوئے اسٹیشن پر اُترے تو کسی اور ہی دنیا میں
پہنچ گئے تھے جو روئے زمین پر نہیں تھی۔
یہ ایک ایسی ونڈرلینڈ تھی، جس میں ہم سب ایلس بنے گھوم رہے تھے۔
ہم مال روڈ پر چل رہے تھے۔ اور یہ دنیا کی واحد مال روڈ ہے جس پر کوئی گاڑی
نہیں چلتی۔ بلکہ اس پر وہ مخلوق چلتی ہے جس کو اشرف ہونے کا دعویٰ ہے۔
حالانکہ عملاً اکثریت اس بات سے عاری ہے۔
چلتے چلتے میں جیسے زمیں میں گڑ گیا۔ میرے پاوں وہی پتھر بن گئے تھے جو
ہمارے آس پاس اور سروں پر تھے۔
میرے سامنے شاعرمشرق مجھے گُھور رہے تھے۔
" وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود "
گو یہ شاعرمشرق نمک کے بنے ہوئے تھے لیکن ان کے چہرے پر وہی چمک اور مٹھاس
تھی جو خفگی کے باوجود ان کی اپنائیت کا پتہ دیتی تھی۔
میں نے اپنی نظریں جھکا لیں۔
کیونکہ بات تو سچ تھی
اور بات تھی رُسوائی کی
قریب ہی بادشاہی مسجد کے مینار اس قوم کی بے حسی پر نوحہ کناں تھے۔ جب یہ
مسجد بنی تھی تو بہت کلرڈ اور چمکدار تھی۔ لیکن اب ہم اپنے اعمال سے اس کا
حسن گہنائے جا رہے ہیں۔
اور یہ صرف اس مسجد کا المیہ نہیں
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اس کے پہلو میں مینار پاکستان بے کسی کی تصویر بنا کھڑا تھا۔
میرا جی چاہا کہ جا کر اسے تسلی دوں کہ کیا ہوا جو اس قوم نے تمہاری قدر
نہیں کی۔ حوصلہ رکھو۔ تمہاری قدر کرنے والے اور تمہیں پوچھ کر چلنے والے
آتے ہی ہوں گے۔
لیکن میں اس کے پاس جانے کی ہمت نہ کر سکا اور اپنے قومی مزاج کے مطابق اس
سے منہ موڑ کر آگے چلنے لگا۔
اسمبلی ہال سے کچھ فاصلے پر چاغی کی پہاڑیاں مستقبل کی طرح چمک رہی تھیں۔
اور وہاں پر شیش محل بھی تھا۔ جو کسی مغل حکمران نہیں، بلکہ ان محنت کشوں
کی بدولت تھا۔ جو ہماری خاطر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر زمیں کی تہوں میں
زیست کا ساماں کرتے ہیں۔
اب ہمارے سامنے ایک ایسی چیز تھی جو پاکستانی ہونے کے باوجود پاکستانی نہیں
تھی۔
اور یہ ایک ایسی دیوار تھی
جو پاکستانی ہونے کے باوجود چین کی تھی۔ حالانکہ چین نے اس پر دعویٰ نہیں
کیا تھا۔
اور اسی ونڈر لینڈ میں نمک کے خوبصورت بلاکس سے وہ نام بھی لکھا ہوا تھا جو
تعریف کیا گیا ہے۔ اور کڑورں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن ہے۔
مجھے احساس ہی نہ ہوا تھا کہ یونہی ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہم کہاں آ گئے تھے؟
میرے عین سامنے ایک پُل صراط تھا۔ جس کے نیچے کوئی ستون نہیں تھا۔ اور 25
فٹ کی گہرائی میں وہ پانی تھے جو کسی بھی عاشق کی آنکھ سے نکلنے والے آنسو
سے زیادہ نمکین تھے۔ مجھے اپنے وہ تمام کرتُوت یاد آنے لگے جن کو بھولے
ہوئے بھی زمانے گذر چکے تھے۔ لیکن مجھے پھر بھی شرم نہ آئی کہ اس پانی کو
چُلو میں بھر کر اس کا بہتر استعمال کرتا۔
مجھے شرم آئی تو صرف اتنی آئی کہ
اب ختم ہوئی بارش سنگ۔
اور
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو۔
اور وہاں کی آب و ہوا ایسی تھی کہ ہمارے نتھنے اور منہ نمکین ہو چکے تھے۔
اور لعاب دہن نگلنے میں مزا آتا تھا۔
اگر آتا تھا۔
اور جب بارش سنگ ختم ہو چکی تو اُس نے ہمیں کُوچ کا حکم دیا۔ جس نے ہمیں
یہاں بلایا تھا۔
اگرچہ ہم کُوچ کرنے کو تیار نہ تھے۔
لیکن پھر بھی کُوچ کرنا پڑا۔
کیونکہ ہم وہ بھکاری تھے جن کے پاس چناو کا اختیار نہیں تھا۔
اور جب ہم واپس ہوئے تو
وہی کارواں وہی راستے
وہی زندگی کے مرحلے
مگر اپنے اپنے مقام پر
کبھی ہم نہیں کبھی تم نہیں
اور کون ہے جو اُس کے حکم کو ٹال سکتا ہے۔ |