عید کا موقع ہو اور بچے،بوڑھے ،جوان اور خواتین اس کی
تیاریوں میں مصروف نہ ہو ں یہ ہو ہی نہیں سکتا ،امت مسلمہ کی شان ہے کہ وہ
عید کی خوشیاں نا صرف اپنوں کے ساتھ بانٹتے ہیں بلکہ غیروں کو بھی اس خوشی
میں نہیں بھولتے۔اگر عید کے مفہوم پر روشنی ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ
عید کا بنیادی مقصد ہی دوسروں کے ساتھ خوشیوں کو بانٹنا ہے۔مسلمان سال میں
دو عیدیں مناتے ہیں ایک عید الفطر ،دوسری عید الاضحی۔بلاشبہ دونوں عیدیں اﷲ
کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہیں کیونکہ مسلمان عیدالفطر پرفطرانہ کے ذریعے اپنی
خوشیوں کو غریبوں اور مستحقین کے ساتھ مل کر مناتا ہے اور عید الاضحی
مسلمانوں کو ایثار اور قربانی کا درس دینے کے ساتھ سنت ِ ابراہیمی کی یاد
تازہ کرنے کا ذریعہ بنتی ہے ۔عید الاضحی میں کچھ دن ہی باقی ہیں ،امسال عید
الاضحی 2ستمبربروز ہفتہ کومذہبی جوش وخروش کے ساتھ منائی جائے گی اس لیے ہر
طرف عید کی تیاریاں اپنے عروج کو پہنچ چکی ہیں ،خواتین بیک وقت شاپنگ اور
گھر کی صفائی ستھرائی میں مگن ہیں تو بچے جانوروں کا گھر میں آنے کا بے
صبری سے انتظار کر رہے ہیں ،جن گھروں میں قربانی کے جانور آ چکے ہیں وہاں
کی تو رونق قابل دید ہے،نیز کچھ گھروں میں چاند رات کو ہی قربانی کے لیے
جانور لائے جانے کی روایت بھی پائی جاتی ہے۔
یہ تو سب جانتے ہیں کہ عید الاضحی پر قربانی کے لیے جانور خریدنے کے لیے
مویشی منڈی جانا پڑتا ہے ،اس لیے ہر سال کی طرح اس سال بھی ملک بھر میں بڑے
اور چھوٹے پیمانے پر سرکاری و غیر سرکاری سطح پر مویشی منڈیاں قائم کی گئی
ہیں جہاں ملک بھر سے ہر نسل اور قسم کے جانور قربانی کے لیے لائے گئے ہیں
اور بیوپاریوں نے بھی ان کو جاذب ِ نظر بنانے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑی۔شہریوں کی بڑی تعداد قربانی کے جانورخریدنے کے لئے ان منڈیوں کارخ کر
رہی ہے،جن میں بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔جن کاشوق دیدنی ہے۔مگر المیہ
یہ ہے کہ خریدار اور تاجر دونوں ہی مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہیں۔خریدار
شکایت کر رہے ہیں کہ جانوروں کی قیمتوں میں گزشتہ سال کی نسبت اس سال
30سے40فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے اس کے برعکس بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ
مہنگائی کی وجہ سے جانور پالنے کے اخراجات بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ سے قیمتوں
میں اضافہ کرنا ہماری مجبوری ہے۔منڈیوں میں آنے والے صاحب ثروت افراد تو من
پسند جانور منہ مانگی قیمت دے کر خرید لیتے ہیں مگر ان میں ایسے بھی لوگ
ہیں جو ریٹ نہ بننے کی وجہ سے کئی کئی روز منڈی کا رخ کرتے ہیں اور بالاآخر
بحث و مباحثہ کے بعد جانور خریدنے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔
لاہور میں سگیاں پل، ٹاؤن شپ ،ایل ڈی اے ایونیو،بتی چوک کے قرب و جوار،شاہ
پور کانجراں ،مناواں ،چائنہ سکیم میں تو بڑی منڈیاں لگائی گئی ہیں اس کے
علاوہ بھی شہرِ لاہور میں چھوٹے پیمانے پر کئی جگہوں پر جا بجا مویشی منڈیا
ں نظر آ رہی ہیں ،اس کے علاوہ ملتان،نیاموآنہ مویشی منڈی فیصل آباد،جہلم
،گوجرانوالہ اور دیگر شہروں میں بھی مویشی منڈیا ں قائم کی گئیں ہیں،نیز
پشاور ،کوئٹہ ،روالپنڈی میں بھی مویشی منڈیا ں جانوروں سے سجا دی گئی
ہیں۔کراچی کی اگر بات کریں تو کراچی میں سہراب گوٹھ کے قریب ایشیاء کی سب
سے بڑی مویشی منڈی کے قیام کے لئے 800 ایکڑ سے زائد کا رقبہ مختص کیا گیا
ہے جس میں وی آئی پی بلاک سمیت 25 سے زائد بلاک قائم کئے گئے ہیں۔ اس کے
علاوہ بیوپاری اور عوام کی سہولیات کے لئے کھانے پینے کے اسٹالز، پارکنگ
اور اے ٹی ایم کی سہولت بھی دی گئی ہے تاکہ جانوروں کی خریداری کرنے والے
افراد کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جہاں امسال 3 لاکھ کے
قریب جانور لائے گئے ہیں جن میں 40سے50ہزار سے زائد بکرے،ڈیڑھ سے 2لاکھ بڑے
جانور (بیل،بچھیا اور گائے)جبکہ1ہزار سے زائد اونٹ ہیں ۔
قربانی کے جانور خریدنے کے لیے 3چیزیں ذہن نشین رکھنی چاہیے،جانور خوبصورت
ہے،بھاری کتنا ہے اور پیسے کتنے ہیں۔اس بار مویشی منڈی میں ریٹ بہت زیادہ
ہیں یعنی ایک بڑے سائز کا بیل 5لاکھ سے35لاکھ تک کا اوردرمیانے سائز
کا1لاکھ سے4لاکھ تک اور چھوٹے سائز کا بیل 1لاکھ سے 70ہزار تک مل رہا ہے۔یہ
تو بس بیل کی قیمتوں کا ریٹ ہے ،جب میں نے مویشی منڈی کا دورہ کیا تو بکرے
کی ایک جوڑی کا ریٹ معلوم کیا توبیوپاری نے اس کی قیمت 80ہزار بتائی ،جب اس
سے کہا کہ دینے والی قیمت بتاؤ تواس نے بتایا کہ 70ہزار میں فائنل کر دوں
گا۔جو ابھی بھی بہت زیادہ تھی۔وہاں موجود شہریوں کا کہنا تھا کہ جانوروں کی
قیمتیں گزشتہ سال کی نسبت زیادہ ہیں،خریداری کے لیے آئے ایک خریدار نے با ت
کرتے ہوئے بتایا کہ منڈی کا بھاؤ بہت زیادہ ہے ،امید نہیں ہے کہ انہی پیسوں
میں جانور خریدنے میں کامیاب ہو نگے ،بلکہ پیسے اور لانے پڑیں گے۔یہی وجہ
ہے کہ منڈیوں میں خریدار تو بہت نظر آئیں گے مگر خریدتے ہوئے کم نظر آرہے
ہیں اور لوگ صرف جانوروں کے ریٹس سن کر خاموشی سے چلے جاتے ہیں۔ جانوروں کی
قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے غریب تو قربانی کا تصور بھی نہیں کرسکتا جبکہ
کم آمدنی والا سفید پوش طبقہ بھی جو پہلے پوری گائے یا بکروں کی قربانی
کرلیا کرتا تھا بری طرح متاثر ہوا ہے اور سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے
اپنی انفرادی قربانی ترک کردی ہے اور گائے میں حصہ لینے پر مجبور ہوگیا ہے۔
مویشی منڈیوں کی حالت زار اور بیوپاریوں مسائل
اس سال قریبا تما م ہی منڈیوں کی حالت اس حد تک خراب ہے کہ بیوپاری بہت
پریشان نظر آ رہے ہیں ،ایک طرف تو وہ دور دراز علاقوں سے سفر کر کے اچھی
خاصی رقم لگا کر شہر وں میں آئیں ہیں تاکہ ان کو اپنی سال کی محنت کا اچھا
معاوضہ مل سکے مگر ان کو قدم قدم پر پریشانیوں نے گھیرا ہوا ہے تو دوسری
طرف انتظامیہ کی طرف سے ان کو کوئی خاص سہولیات فراہم نہیں کی گئیں۔ میں نے
جب سگیاں پل کے قریب مویشی منڈی کا دورہ کیا تووہاں کی حالت تمام منڈیوں کی
حالت کی عکاس تھی۔جب ہم نے بیوپاریوں سے پوچھا کہ خریدار جانور مہنگے ہونے
کی شکایت کیوں کر رہے ہیں تو ان کا کہنا ہے کہ بسوں، ٹرکوں کے کرایوں اور
ٹیکسوں میں دوگنا اضافے کے بعد ہم 12سے15کلوگوشت والا بکرا یا چھترا 20ہزار
روپے میں کیسے فروخت کر دیں جبکہ ان جانوروں کے لئے چارہ، ٹینٹ اور ہم نے15
دن تک یہاں رہنا ہے وہ پیسہ کہاں سے نکالیں۔ جو ٹرک گزشتہ برس لاہور آنے کا
35000روپے کرایہ مانگتے تھے اب50سے55ہزار روپے مانگتے ہیں،نیز ہم ان
جانوروں کو بڑی محنت سے پالتے ہیں ۔بعض لوگ اتنی کم قیمت لگاتے ہیں کہ جس
سے ہماری لاگت بھی پوری نہیں ہوتی ۔لوگ دیکھنے آتے ہیں ،خریدتے کم ہیں وہ
چاہتے ہیں کہ ہم 15ہزار میں ان کو بکرا دے دیں مگر یہ ہمارے لیے ممکن نہیں
ہوتا۔میانوالی سے آئے ہوئے ایک بیوپاری منیر نے کہا کہ وہ لگ بھگ 100 بکرے
لے کر آئے ہیں مگر ابھی تک بس چند ایک ہی فروخت ہوسکے ہیں۔ ان کے بقول گاہک
اتنی کم قیمت پر اصرار کرتا ہے کہ وہ بھی اپنے جانوروں کی طرح بے زبان
ہوجاتے ہیں اور سوائے نفی میں سر ہلانے کے ان کے پاس کوئی جواب نہیں۔عامر
سہیل تلہ گنگ سے 80 چھوٹے جانور لے کر آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا’’ لوگ صرف
جانور دیکھ کر واپس چلے جاتے ہیں، مول تول ہوتی ہے اور بس، جب ہمیں جانور
مہنگے ملے ہیں تو سستا کیسے بیچیں‘‘۔اسی طرح صرف سگیاں ہی نہیں بلکہ ٹاؤن
شپ،ایل ڈی اے ایونیو ،بتی چوک ،شاہ پور کانجراں میں بھی بہتر انتظامات نہ
ہونے پربیوپاری پریشانی کا شکار ہیں۔ناصرف سہولیات کا فقدان ہے بلکہ پرچی
مافیا نے رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں جس کے باعث مویشی منڈی تک ایک جانور کے
پہنچنے پر 5سے6ہزار روپے بٹور لیے جاتے ہیں ،صرف یہی نہیں بلکہ مویشیوں کو
پانی پلانے کا کوئی خاص انتظام ہے نہ ہی جانوروں کے لیے چھت ہے۔نیزبیمار
جانوروں کے علاج معالجے کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے۔ اندھیرے کے باعث
نوسرباز جعلی نوٹ دے جاتے ہیں۔ ایک بیوپاری کو نامعلوم نوسرباز نے ایک لاکھ
80 ہزار روپے جعلی نوٹ دے دئیے۔ صرف لاہور ہی نہیں کراچی اور اسلام آباد
سمیت ہر بڑے شہر میں یہی صور ت حال ہے،ہزاروں جانور کھلے آسمان تلے کڑکتی
دھوپ میں کھڑے رہنے پر مجبور ہیں۔بیوپاریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت سائبان
نصب کر کے سائے کا انتظام کیا ہے لیکن وہ اس قدر ناقص ہے کہ سائبان کے اندر
سے بھی دھوپ آتی ہے۔سہراب گوٹھ مویشی منڈی کی حالت زار تو طوفانی بارش کے
بعد مزید ابتر ہو گئی ہے ،انتظامیہ کی جانب سے تمام انتظامات کے دعوئے صرف
دعوئے ہی ثابت ہوئے۔بارش اور کیچڑ کی وجہ سے جانوروں میں بیماریاں پھیلنے
کا خدشہ پیدا ہو گیا ،منڈی میں خرید و فروخت کی سر گرمیاں شدید متاثر ہو ئی
ہیں جس کی وجہ سے مویشیوں کی قیمتوں پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔گندگی اور
کیچڑ کی وجہ سے منڈی میں چلنا تک مشکل ہو گیا ہے جبکہ جانوروں کے لیے چارہ
بھی نایاب ہو گیا ہے جس کی وجہ سے جانوروں کی خوراک کے لیے بیوپاری مارے
مارے پھرنے پرمجبور ہو گئے ہیں۔بیوپاریوں کو یہ بھی شکایت ہے کہ سرکاری
منڈیوں میں چارپائی اور جانور رکھنے کے لیے 30ہزار روپے وصول کئے جاتے ہیں
اور ہر ناکے پر پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے لوگ ان سے الگ پیسے وصول کر رہے
ہیں۔نیا موآنہ منڈی میں سینکڑوں جانوروں کے لیے ایک یا دو ہی ڈاکٹرز موجود
ہیں جو ناکافی ہیں نیز انسانوں کے لیے بھی کوئی ڈاکٹر میسر نہیں اور نہ ہی
فسٹ ایڈ کا کوئی انتظام کیا گیا ہے۔ جانوروں کو منڈی میں داخل کرنے سے پہلے
سپرے بھی نہیں کیا جاتا۔نیا موآنہ مویشی منڈی میں ایک بیوپاری نے شکایت کی
کہ مویشی منڈی کی زمین پختہ ہے جس کی وجہ سے جانوروں کے پاؤں خراب ہو نے کی
وجہ سے وہ بخار میں مبتلا ہو رہے ہیں اور ادویات ہم اپنے خرچے سے لے رہے
ہیں۔نیز پانی کی عد م دستیابی کی وجہ سے کیچڑ زدہ بکرے کوئی نہیں لیتا
،سمجھ نہیں آتی کہ ان کو کیسے نہلائیں اور یہ بھی سچ ہے کہ مٹی سے لدے
جانور دیکھنے میں بھی خوبصورت نہیں لگتے۔
مویشی منڈی میں موجود اسلام الدین نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ ہم
عید قرباں کے لیے تقریباً 2 سال پہلے سے ہی تیاری کرتے ہیں۔ہر سال کے
مویشیوں کو تیار کرنے کے لیے دو سال کا وقت درکار ہوتا ہے۔ بکروں کی افزائش
سے لے کر قربانی تک تیار ہونے تک کافی محنت لگتی ہے روزانہ کی بنیاد پر ایک
بکرے کا خرچہ تقریباً 80 روپے یومیہ ہوتا ہے اسی طرح اگر بکروں میں اعلیٰ
قسم کے بکرے جن میں کاموری کا شمار ہوتا ہے کو تیار کیا جائے تو اس کا خرچہ
ڈبل ہو جاتا ہے۔ فارموں میں جو بکرے تیار کیے جاتے ہیں ان کی خوراک دوسرے
بکروں سے مختلف ہوتی ہے۔ ان بکروں کوعید پر خصوصی نمائش کے لیے تیار کیا
جاتا ہے۔ ایسے بکروں کو خوراک میں دودھ، دیسی گھی، بادام، اچار مغز وغیرہ
دیا جاتا ہے اسی وجہ سے ان بکروں کی صحت 2.5 من سے تجاوز کر جاتی ہے اور
قیمت بھی لاکھوں روپے میں ہوتی ہے۔ پنجاب اور سندھ بھر میں ایسے کئی فارم
موجود ہیں جو اعلیٰ نسل کے بکرے تیار کرتی ہے۔آج بھی کئی فارموں میں 280کلو
تک کے بھاری جسامت والے بکرے موجود ہیں ان کی قیمت 5لاکھ سے زائد ہوتی ہے۔
کانگو وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر
عید الاضحی کی آمد پر کانگو بخار کے کیسز بڑھنے کا خدشہ ہے۔قومی ادارہ صحت
نے خطرہ کی گھنٹی بجا دی ہے۔ کانگو وائرس بھیڑ ،بکروں،گائے،اونٹ ،بیل اور
دنبے کے بالوں میں چھپی چیچڑیوں میں پایا جاتا ہے۔جب یہ چیچڑی کسی جانور یا
انسان کو کاٹ لے تو وائرس متحرک ہو جاتا ہے۔کانگو وائرس متاثرہ جانور کی
قربانی کے خون،ٹشو یا سیال مادہ میں بھی منتقل ہو سکتا ہے۔کانگو بخار کی
مخصوص علامات میں اچانک تیز بخار،کمر ،پٹھوں اور گردن میں درد ،کھنچاؤ
،متلی ، قے ،گلے کی سوزش ،جسم پر سرخ رنگ کے دھبے ،مسوڑھوں ،ناک ،اندرونی
اعضاء سے خون آناشامل ہیں۔واضح رہے کہ کانگو بخار جان لیوا ہے اس لیے اس سے
بچاؤ کے لیے احتیاط بہت ضروری ہے۔
٭مویشی منڈی جاتے ہوئے ہلکے رنگ کے پوری آستینوں والی کپڑے اور آگے سے بند
جوتے پہنیں۔
٭جیسے ہی آپ مویشی منڈی میں داخل ہوں تو ماسک ضرور چڑھا لیں۔
٭مویشی منڈی سے واپس آتے ہی نہا لیں۔
٭قربانی کا جانور خریدتے وقت اس بات کا مکمل یقین کر لیں کہ اس کے جسم پر
چیچڑ یاں نہ ہوں ۔
٭قربانی کا گوشت بناتے ہوئے اور دھوتے ہوئے دستانے ضرور استعمال کریں۔
٭قربانی کے جانوروں کا گوشت اچھی طرح پکا کر کھائیں۔
٭قصائی اور متاثرہ شخص کی قربت رکھنے والوں کو کانگو بخار سے متاثر ہونے کا
خطرہ زیادہ ہے۔
جانوروں کی سجاوٹی اشیاء کا بڑھتا ہوا رجحان
سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لئے ملک بھر کی مویشی منڈیوں میں گہما گہمی
بڑھتی جا رہی ہے۔قربانی کے جانوروں کی سجاوٹ بھی پورے عروج پر پہنچ گئی ہے
خاص طور پر بچے تو اپنے بکروں یا بیلوں کو سجا سنوار کر اپنے دوستوں میں
اپنی ناک اونچی کرنے کے خواہش مند ہیں۔مویشی منڈیوں میں جانوروں کی ادائیں
ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں، خریداروں کو لبھانے کے لئے
بیوپاریوں نے بھی اپنے جانوروں کی دلچسپ سجاوٹ کی ہیں۔مویشی منڈیوں میں
سجاوٹی اشیاء کے سٹالز بھی نظر آتے ہیں ،اس کاروبار سے سینکٹروں لوگوں کا
روزگار وابستہ ہے۔منڈی میں آنے والے خریدار بھی اپنی پسند کا جانور خریدنے
کے بعد اپنی پسند کے زیورات لیتے ہیں تاکہ وہ جس جانور کی قربانی کرے وہ سب
سے منفرد اور خوبصورت دکھائی دے۔جانوروں کو مختلف زیورات،خوبصورت جھانجروں
،پھولوں اور مالاؤں سے سجانے کا زیادہ شوق ننھے بچوں کو ہوتا ہے جو ان
جانوروں کی خود سے زیادہ حفاظت کرتے ہیں۔جھانجر چھوٹی 50روپے، بڑی 100 روپے
اسی طرح ہار 100 سے 250 ،گھنٹی والا ہار 80 سے 150، جانور کو باند ھنے والی
خوبصورت رسی 100 روپے میں فروخت کی جارہی ہے۔ دوسری طرف بیوپاری بھی بچوں
کی ضد دیکھتے ہوئے جانوروں کو سجا کر بیچ رہے ہیں تاکہ انہیں زیادہ دام مل
سکیں۔سٹال مالکان کا کہنا ہے مہنگائی کی وجہ سے جانوروں کی سجاوٹ کا رجحان
کم ہوتا جا رہا ہے اور کم قیمت والی اشیاء ہی فروخت ہو رہی ہیں۔جانوروں کی
سجاوٹ میں مختلف شوخ رنگوں کے مہروں کا بھی استعمال بڑھ گیا ہے جن کی قیمت
500 سے 800 روپے تک ہے اور انھیں پہنا کر جانوروں کی خوبصورتی میں مزید
اضافہ ہو جاتا ہے۔قربانی کے جانوروں کو پہنائی جانے والی پائل کی آواز اتنی
منفرد ہے کہ اسے سن کر ہی گھروں میں موجود افراد جن میں خواتین اور بچے بھی
شامل ہیں بے ساختہ کھڑکیوں اور بالکونی کا رخ کرتے ہیں۔ جانوروں کی سجاوٹ
اپنی جگہ ،لیکن ساتھ ساتھ بعض افراد انہیں مہندی اور دیگر رنگ لگا کر مزید
خوبصورت بنا دیتے ہیں۔
نقش و نگار ی سے مزین اونٹ
ہر سال کی طرح اس سال بھی اونٹ منڈی میں قربانی کے لئے لائے جانے والے
اونٹوں پر شتر کاتروں کے ہاتھوں نقش نگاری کیے ہوئے اونٹ فروخت کے لئے
موجود ہیں، اونٹوں پر نقش نگاری کرنے والے فنکاروں کو مقامی زبان میں
شترکاترے کہا جاتا ہے ، فارسی میں اونٹ کو شتر کہتے ہیں اور کاتر کا مطلب
نقش و نگار بنانے والا،کندہ کاری اور شترکاری میں فرق بس اتنا ہے کہ کندہ
کاری میں عموماً ہتھوڑی اور چھینی استعمال ہوتی ہے جبکہ شتر کاری میں صرف
قینچی چلتی ہے ، مویشی منڈی میں موجود تھر سے آئے نظام الدین نے میڈیاکو
بتایا کہ گاہک نقش و نگار سے مزین اونٹ بہت زیادہ پسند کرتے ہیں اور یہ
فروخت بھی زیادہ ہوتے ہیں، وہ اونٹ پر موجود بالوں پر قینچی سے نقش و نگار
بناتے ہیں ایک اونٹ پر4 سے5 گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے پھر اس پر مزید
خوبصورتی کے لے مہندی اور کالا رنگ لگایا جاتا ہے ، اور ایک اونٹ کا معاوضہ
3 سے ساڑھے 3 ہزار روپے ہے۔ ایک اور کاریگر ناصر نے بتایا بیشتر لوگ اپنے
اونٹوں کے جسموں پر پھول بنواتے ہیں کچھ اپنا نام لکھواتے ہیں جبکہ کئی لوگ
اونٹ کے جسم پر اونٹ کی شبیہ بنوانا پسند کرتے ہیں۔ معاوضہ کام کے حساب سے
ہوتا ہے پھول بنوانے کی فیس2 ہزار سے 5 ہزار روپے تک ہے۔ نام لکھوانے کا
1500 سے تین ہزار روپے جبکہ اونٹ کی تصویر بنانے کا معاوضہ 10 ہزار روپے تک
ہے ان کا کہنا ہے کہ پھول بنانے کیلئے2دن جبکہ اونٹ کی تصویر بنانے کیلئے
چار سے پانچ دن درکار ہوتے ہیں۔
جانوروں کی بیماریاں اور ان کا گھریلو علاج
جانوروں میں پائی جانے والی عام بیماریوں میں منہ خورا، کھر بخار شامل
ہیں۔کسی جانور کو منہ خوراکی بیماری ہوجاتی ہے تو جانور خوراک کرنا بند کر
دیتا ہے۔ اس کے آسان گھریلو علاج ہی ہے کہ جانور کو گرم روٹی کھلائی جائی ،
انڈے اور سرسوں کے تیل کو مکس کر کے بوتل کے ذریعے ان کے منہ میں ڈالا جائے
اور سب سے بہترین طریقہ علاج بروقت ویکسین دینا ہے۔اسی طرح کھر کی بیماری
جانوروں کے کھروں میں زخم ہو کانے کو کہا جاتا ہے۔ اسی صورت میں ان کے
کھروں میں مٹی کا تیل ڈالنے سے مزید زخم میں اضافہ نہیں ہوتا اور زخم ٹھیک
ہوجاتا ہے۔
آئیے آپ کو 2017کے ان جانوروں سے ملواتے ہیں جن کی خوبصورتی نے مویشی
منڈیوں کی رونق دوبالا کی ہو ئی ہے
بادشاہ خان بیل :
سبی کا سب سے بڑا جانورجسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے سبی میں 2فروری کے
میلے میں 2017کا سب سے بڑا جانور ہونے کا ایوارڈ حاصل کیا ہے۔ساڑھے سات فٹ
کا ،وزن35من کاسفید رنگ کا یہ بیل واقعی بہت بڑاجانور ہے۔اس کی قیمت 35لاکھ
مقرر کی گئی ہے ۔
لال بادشاہ:
سہراب گوٹھ مویشی منڈی میں ’لال بادشاہ‘بیل شہریوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا
ہے۔جس کی قیمت 25لاکھ مقرر کی گئی ہے۔
بلیک کنگ:
کراچی میں سہراب گوٹھ مویشی منڈی میں بلیک کنگ بیل کے چرچے عام ہو ئے تو
سابق کرکٹر محمد یوسف نے جب سے دیکھا تو کچھ اور نا دیکھ سکے اور 10لاکھ
میں خرید کر گھر لے آئے۔
4سینگوں والے دنبے:
کراچی میں سپرہائی وے پر قائم کی جانے والی مویشی منڈی میلے میں فروخت کے
لیے لائے جانے والے 4 سینگوں والے 2 دنبے خریداروں کی توجہ کا مرکز بنے
ہوئے ہیں ، خصوصاً بچوں کی بڑی تعداد ان دنبوں کے ساتھ تصاویر اور سیلفیاں
بنا رہے ہیں ،تاہم فروخت کے لیے لائے جانے والے دنبوں میں سے ایک کی قیمت
محض 60 ہزار روپے طلب کی جا رہی ہے۔
شیرو،ہیرا اور مٹھو نامی بکروں کی دھوم:
نیا موآنہ مویشی منڈی میں موجود شیرو،ہیرا اور مٹھو نامی بکروں کی خوبصورتی
بھی خریداروں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے ۔یہ تینوں جانور اپنی خوبصورتی میں
بے مثال ہیں ان کا وزن چار ،چار من ہے۔سارا سال ان کوبادام،دودھ،مکھن اور
چوری کھلا کر پالا گیا ہے۔
دلبر اور کالو بیل :
ملتان میں بونیر پل کے قریب مویشی منڈی میں دو بیل دیکھ کر شہری دنگ رہ گئے
،دلبر اور کالو بیل نا صرف جسامت میں اچھے خاصے ہیں بلکہ ان کی قیمت بھی
چھ،چھ لاکھ مقرر کی گئی ہے۔دلبر کے مالک کے بیل کے جسم پر خوبصورت دل کا
نشان بھی بنایا گیا ہے اور اس پر جیوئے دل بر شوق سے لکھوایا بھی ہے۔کالو
کو
دیکھنے والے دوسرے بیوپاری بھی ان کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے ،دیسی
گھی،دودھ،مکھن اور گندم کی خوراک پر پالے جانے والے کالو اور دل بر شہریوں
کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔
کوڈو بیل:
کراچی میں سہراب گوٹھ مویشی منڈی میں کوڈو بیل اپنی انفردیت کی وجہ سے
شہریوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے،اس کی قیمت 4لاکھ مقرر کی گئی ہے۔
ٹیڈی نسل کے دو خوبصورت بچھڑے:
سرمہ والا میں ٹیڈی نسل کے دو بچھڑے جو بہت ہی کم لمبائی کے ہیں۔گھینی نسل
کے چھوٹے بیل نے اپنی خوبصورتی کی بنا پر مقبول ہو رہے ہیں۔
نایاب نسل کی بچھیاں:
سہراب گوٹھ کے VIPبلاک میں سنہرے رنگ کی نایاب نسل کی بچھیاں بھی موجود ہیں
جن کی خوبصورتی کے چرچے دور دور تک سنائی دے رہے ہیں ان میں سے ایک کی قیمت
12لاکھ مقرر کی گئی اور فائنل10لاکھ میں مل جائیں گی۔
سہراب گوٹھ کے VIPبلاک میں آسٹریلین بیل:
یہاں تمام جانور VIPہوتے ہیں ،واضح رہے کہ آسٹریلین اور دیدی نسل میں فرق
یہ ہے کہ دیسی نسل کے بیل کا کوہان بنا ہوا ہوتا ہے اور آسٹریلین کراس کا
کوہان نہیں ہوتا۔ان VIPبلاکس میں پیور آسٹریلین ،پیور دیسی اور آسٹریلین
کراس بیل ہوتے ہیں جن کی کم سے کم قیمت 5لاکھ اور زیادہ سے زیادہ 15لاکھ کے
جانور ہوتے ہیں۔آسٹریلین بیل کی جوڑی کی قیمت ساڑھے 14لاکھ مقرر کی ہے،جوڑی
میں سے ایک جانور 14من کا ہے ۔اسی طرح ساہیوال آسٹریلین کراس بیل کی قیمت
6لاکھ ،برئیڈ سپیشل بیل کی قیمت ڈیڑھ لاکھ،آ سٹریلین فریزین پیور بیل کی
قیمت 15لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔دیسی اور آسٹریلین کراس نسل کے ایک بیل کی
قیمت 22لاکھ مقرر کی گئی ہے جبکہ ساہیوال سائیڈ کے پیور دیسی بیل کی قیمت
25لاکھ مقرر کی گئی ہے۔
ٹائیگر نسل کے خوبصورت بیل کی جوڑی:
سہراب گوٹھ میں ٹائیگر نسل کے خوبصورت بیل کی جوڑی ہے جو اپنی چیتاجلد اور
گرے رنگ کی وجہ سے انفرادیت کے حامل ہیں ان میں سے ایک بیل کی قیمت 20لاکھ
مقرر کی گئی ہے یعنی جوڑی کی قیمت 40لاکھ ہے۔
سبی کا بیل:
سفید رنگ،اونچا لمبا قد7فٹ،چم چم کرتا روپ ،یہ ہے سبی کا خوبصورت بیل جس کی
قیمت 40لاکھ مقرر کی گئی ہے۔ |