پاناما فیصلہ ایک پیغام ہے جو دور تک جائے گا ۔ایک
عمومی پیغام جو سب کیلئے ہے ، کہ اگر آپ حق پر ہیں اور آپ کے ساتھ زیادتی
ہوتی ہے تو اس کے خلاف بساط بھر لڑیں کیوں کہ برداشت کرنا ظالم کا ساتھ
دینے اور اس کا ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔یہ کیس ایسے تمام لوگوں کو
راستہ دکھاتا ہے ،بلکہ اس راستے کو آسان بھی کرتا ہے ۔اور اس کیس نے عدلیہ
کو بھی ایک بہت اہم پیغام پہنچایا ہے ۔ یہ کہ اس ملک میں اس کی بڑی اہمیت
اور،بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے ۔ کوئی بھی شخص ،خواہ وہ کتنا ہی مقتدر اور
طاقتور ہو ،قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہئے ۔حکومتوں کو بھی قانون کے
دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہئے وہ تجاوز کریں تو انہیں روکنا عدلیہ کی
ذمہ داری ہے ۔وہ یہ بھاری ذمہ داری نیک نیتی سے اٹھائے گی تو اﷲ اسے طاقت
بھی دے گا اور عزت بھی وہ سچائی کے حق میں فیصلہ کرے گی تو حکومت کو من
مانے او ر اور غیر قانونی فیصلوں سے روکنے کیلئے فوج کو مداخلت نہیں کرنی
پڑے گی اور نہ ہی وہ کوئی مداخلت کا جواز پیش کر پائے گی ۔لاقانونیت کو
لاقانونیت سے روکنے کا رجحان پیدا نہیں ہو گا یہ اسلامی ملک ہے قانون اوپر
سے نیچے تک سب کیلئے ایک ہی ہونا چاہئے اور انصاف بھی اوپر سے نیچے تک سب
کو ملنا چاہئے میرے نزدیک اس ملک میں عدلیہ ہی سب سے اہم ادارہ ہے پاناما
کیس میں وزیر اعظم کی نا اہلی کا فیصلہ بہت خوش آئند ہے ،اور اس میں مقتدر
لوگوں کیلئے بھی ایک پیغام ہے ۔ عدلیہ کے پاس اپنے فیصلوں پر عمل درآمد
کرانے کیلئے فوج کی طرح ہتھیار نہ سہی لیکن طاقت ضرور ہے ۔عدالت کے فیصلے
ماننا ، ان پر عمل کرنا اور کرانا انتظامیہ یعنی حکومت کی ذمہ داری ہے اور
ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں فیصلہ حکومت کے خلاف ہے جس نے اسے
ماننے سے انکار کر دیا ہے عدلیہ کا احترا م اگر حکومت یا مقتدر لوگ نہیں
کریں گے تو عام لوگ بھی اس روش کو اپنائیں گے معاشرے میں بگاڑ ، بدامنی اور
لاقانونیت جو پہلے سے کسی حد تک پائی جاتی ہے اور بڑھے گی اور بات فوج تک
جائے گی مہذب معاشرے اسی لئے عدلیہ کی طاقت کو فوج سے بڑھ کر تسلیم کرتے
ہیں کہ غلبہ اسلحہ اور ہتھیاروں کو نہیں ، علم اور عقل و دانش کو حاصل
ہو۔عدلیہ کے ہر فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کیا جائے تاکہ آئین و قانون کی
بالادستی اور حکمرانی ہو ۔لیکن ان چند مطلق العنانی کے شوقین لوگوں نے جس
طرح پہلے بیورو کریسی کو اپنے قابو میں کر کے انہیں غیر مستحکم کر رکھا ہے
اب وہی لوگ عدلیہ پر بھی پے در پے وار کر رہے ہیں جو اس ملک ،قوم اور
معاشرے کیلئے تباہ کن ہے ۔ان کے یہ حملے مختلف صورتوں میں ہیں کبھی اسلام
آباد سے لاہور براستہ جی ٹی روڈ ریلی نکال لیتے ہیں اور جگہ جگہ عوام سے
پوچھتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا ؟ بھائی عوام نے تو آپ کے ساتھ کوئی زیادتی
نہیں کی اسی عوام نے آپ کو اسلام آباد پہنچایا اور آپ نے ان کے مینڈیٹ کا
یہ صلہ دیا کہ ان کے کپڑے بھی اتار لئے ! سٹیل کے کاروبار کے ٹائیکون جندال
کے ساتھ آپ کے ایسے مراسم ہیں کہ وہ خود آپ کی دہلیز پر آتا ہے اور پیشکش
کرتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داری سے آپ کا پیسہ اپنے پاس امانت رکھ سکتا ہے جب
تک آپ کی اس کیس سے جان نہیں چھوٹ جاتی سمجھ میں نہیں آتا کہ میاں صاحب صرف
آٹھ ارب ڈالر کے چار فلیٹس کو بچانے کی خاطر تیس ارب ڈالر کے اشتہارات شائع
کروا چکے ہیں ۔لفافہ گرو پ صحافیوں سے بیوروکریسی کو غیر مستحکم کرنے اور
ان کے خلاف ساشیں رچانے کا کام لیا جا رہا ہے،جب اور کہیں بس نہیں چلا تو
چند بکاؤ وکلاء برادری کے لوگوں کو ہاتھ میں کر کے بار میں بھی اپنے حق میں
نعرے لگوئے اور تاثر یہ دیا گیا کہ وکلا ء بھی عدالت عالیہ کے فیصلے کے حق
میں نہیں جبکہ ایک خبر یہ بھی پھیلی ہوئی ہے کہ فی وکیل تین ہزار روپے اور
کھانے کا خرچ نواز شریف نے بار کو ادا کیا ہے ۔سنا تھا کہ جلسو ں میں لانے
کیلئے لوگ دیہاڑی پر ملتے ہیں لیکن یہاں تو ایک اور کمال ہو گیا کہ وکیل
بھی دیہاڑی پر ملتے ہیں ۔الیکشن این اے 120 میں مخالفین کو ڈاریا دھمکایا
جا رہا ہے ،تمام سرکاری محکمے کلثوم نواز کی الیکشن کیمپین میں مصرو ف نظر
آتے ہیں مسلم لیگ ن یا سابق وزیر اعظم ووٹ کے تقدس کا نعرہ لگاتے نظر آتے
ہیں لیکن خود اس تقدس کو پامال کرنے کا کو ئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے
۔ووٹ کا تقدس یہ نہیں کہ آپ حکمران بن کے اسی ووٹر کی جیب پر ڈاکا ڈالیں آپ
کے بچے بیرونِ ملک کے ووٹر ہیں آپ کی جائیدار باہر ہے اور آپ یہاں لوگوں کو
ووٹ کے تقدس کا درس دیتے نظر آتے ہیں لگتا ہے میاں صاحب کے نزدیک ووٹ کا
تقدس یہ ہے کہ جیسے مرضی لوٹ مار کرو لیکن کوئی آپ سے پوچھنے والا نہ
ہو۔لیکن اس نعرے میں شاید وہ یہ بھول رہے ہیں کہ اگر واقعی پاکستانی قوم کو
اپنے ووٹ کے تقدس کا احساس ہو گیا تو کرپٹ سیاستدانوں کی نعشیں چوراہوں اور
گلیوں میں پڑی ملیں گی۔جو شخص خود کو مطلق العنان سمجھتا ہے یا بننے کی
کوشش کرتا ہے تو اسے چاہئے کہ بھرے ہوئے قبرستان ،تاریخ سے بھری کتابو ں پر
نظر ضرور ڈالے کیونکہ مطلق العنان صرف خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہے اس کے
علاوہ جو بھی اس کا دعوے دار ہوتا ہے ذلت و رسوائی کے ساتھ عبرت ناک انجام
پاتا ہے ۔بڑی مشہو ر کہاوت میں میاں صاحب اور دیگر مطلق العنانی کے شوقین
اشرافیہ کیلئے پیغام چھپا ہے کہ ’’کھا گئی یہ زمین آسماں کیسے کیسے‘‘ ۔
|