امی عید پر مجھے نانی کی ہاں جانا ہے، میں نے ارسلان سے
وعدہ کیا تھا کہ عید کے تیسرے روز میں ان کے گھر آؤں گا۔ اسد نے ضد کرتے
ہوئے کہا۔ ارسلان اسد کاکزن تھا۔ نہیں بیٹا ہم عید اپنے گھر میں ہی کریں گے۔
امی نے سمجھاتے ہوئے کہا مگراسد منہ بناتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔
رات کے کھانے کے دوران اسد کی ضد ابھی تک جاری تھی۔ ابو آپ سمجھائیں نا امی
کو مجھے نانی کے ہاں جانا ہے۔ مجھے نہیں سننی کوئی بات۔ اسد نے موقع پاتے
ہی ابو سے اپنے دل کی بات کرڈالی۔ بھئی اسے جانے دو کیوں منع کر رہی ہیں۔
چودھری اسلم نے آمنہ نسیم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مجھے اچھا نہیں لگتا کہ
میرے بچے عید پر کسی اور جگہ ہوں۔ ہمارا گھرانا مکمل ہی اسد سے ہوتا ہے اور
میں اسے اپنے سے دور کردوں۔ اسد کی امی بھی گویا ضد پر اتر آئی تھی۔
اسد یار تم نے بتایا نہیں عید پر کیا کررہے ہو۔ علی چھٹی کے بعد کلاس سے
نکلتے ہوئے اسد سے پوچھا۔ پتا نہیں یار امی تو کہیں جانے ہی نہیں دے رہیں۔
آج تو امی سے منوا کر ہی رہوں گا۔ اسد نے ضد کو حتمی شکل دینے کا فیصلہ
کرتے ہوئے کہا۔ امی مجھے جانا ہے جانا ہے اور بس۔ اسد نے گھر میں داخل ہوتے
ہوئے پھر سے اپنے مطالبہ پر اڑ گیا۔ جانتے ہوئے بیٹا میں تم پر پابندی نہیں
لگا رہی۔ بس میرا دل اداس ہوجاتا ہے جب تم مجھ سے دور جانے کی بات کرتے
ہوئے۔ پر امی کیوں؟ میں کونسا جنگ کے محاذ پر جارہا ہوں کہ آپ کو لگتا ہے
میں واپس نہیں آؤں گا۔ اسد نے بے خیالی میں جواب دیا۔ نسیم خاموش اسد کی
بات سنتے ہوئے اٹھ کر چلی گئی۔
کیا ہوا نسیم تم رو رہی ہو۔ مگر کیوں؟ چودھری اسلم نے گھر میں داخل ہوتے
نسیم کے آنسو دیکھ لیے تھے۔ کچھ نہیں بس عقیل کی یاد آگئی تھی۔ عقیل کی بات
سنتے ہوئے چودھری اسلم کی آنکھیں بھی بھر آئیں ۔ علی بھی کمرے میں داخل ہوا
تو عقیل کا نام سن کر حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔
اسد عقیل کون تھا؟ علی جو کہ ان کا پڑوسی تھا حیرت سے اسد سے پوچھا۔ اسد کو
حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔ تم کیسے جانتے ہو عقیل بھائی کو۔ میں نہیں جانتا
مگر کل آنٹی اور انکل بول رہے تھے کہ عقیل کی یاد آگئی تھی۔ کون ہے عقیل ؟علی
نے زور دیتے ہوئے پوچھا۔
یار میرے بڑے بھائی تھے ۔ عقیل بھائی کیپٹن تھا۔ پچھلے سال ہی آپریشن ضرب
عضب میں شہید ہوگئے۔ امی کو عقیل سے بہت محبت تھی۔ اس وجہ سے اب وہ مجھے
کہیں نہیں جانے دیتیں۔ عقیل بھائی بہت اچھے تھے۔ ہم دوستوں کی طرح ایک
دوسرے کے ساتھ کھیلا کرتے تھے۔ عقیل بھائی کی شہادت کے بعد اب میں نے بھی
سوچ لیا ہے کہ بھائی کا بدلہ لوں گا۔
علی تمہیں پتا ہے میں ارسلان کے پاس کیوں جارہا ہوں۔ نہیں پتا۔ ارسلان آرمی
پبلک اسکول میں پڑھ رہا ہے۔ اس بار 6ستمبر پر ارسلان کے اسکول میں فوجی
پریٹ ہوگی۔ میں نے بھی وہ دیکھنی ہے۔ اس لیے امی سے کہا ہے کہ مجھے جانا ہے۔
6ستمبر کو کیا ہوا تھا؟ علی نے اسد سے حیرت سے پوچھا۔
6 ستمبر 1965 ء کو بھارتی افواج نے اچانک لاہور پر حملہ کیا، اس موقع پر
پاک فوج نے نے اپنی سرحدوں کی حفاظت کا حق ادا کر دیا۔ بھارتی سور ماؤں کو
ایسی شکست دی کہ انہیں آج تک وہ جنگ نہیں بھولی۔ ا س دن کو یوم دفاع کے طور
پر قوم ہر سال مناتی ہے۔
پھر تو میں بھی چلوں گا ارسلان کے گھر، مجھے بھی لے چلنا۔ میں بھی دیکھوں
گا پریڈ۔ علی نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ ہاں ضرور بس امی جانے دیں تو۔ اسد نے
مایوس ہوتے ہوئے کہا۔ ہم دونوں بات کریں گے آنٹی سے وہ مان جائیں گی۔ اس
بار علی نے بھی ساتھ دینے کی ٹھان لی تھی۔
امی مجھے ارسلان کے گھر جانا ۔۔۔ ٹھیک ہے بابا ٹھیک ہے چلے جانا۔ ابھی اسد
کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ نسیم بولی پڑیں۔ اسد حیرت سے دیکھنے لگا۔
اتنے میں علی مسکراتا ہوا سامنے آن کھڑاہوا۔ علی نے مجھے سب کچھ بتا دیا۔
بیٹا تم مجھ سے کیوں چھپا رہے تھے۔ وہ می مجھے لگا تھا کہ عقیل بھائی کی
وجہ سے کہیں آپ مجھے منع نہ کردیں۔ اسد نے ڈرتے ہوئے کہا۔ بیٹا ہرگز نہیں۔
عقیل مجھے یاد بہت آتا مگر میں جانتی ہوں کہ وہ اچھی جگہ پر ہے۔ وطن کی
محبت کے لیے میں ایک عقیل تو کیا اس جیسے ہزاروں بھی قربان کردوں۔ جاؤ بیٹا
تم بھی وطن کی محبت کے لیے جو کرسکتے ہو کرو۔ اسد کی خوشی عیاں تھی۔ کیوں
کہ عید کے بعد امی نے اسے بھی پبلک آرمی اسکول میں داخل کروانے کا وعدہ
کرلیا تھا۔
|