عید کا بکرا نہ تیرا نہ میرا صرف اﷲ کا

’’ ہم آج جائیں گے اپنا جانور لینے، بابا نے کہا تھا شام میں تیار رہنا‘‘۔ 7سالہ عثمان خوشی میں اپنے سب دوستوں کو بتا رہا تھا۔ ’’بابا کہہ رہے تھے اس مرتبہ بھی ایسا شاندار جانور لائیں گے کہ سارے محلے میں دھوم مچ جائے گی ۔ عرفان بھیا کی پسند ہی اتنی اعلیٰ ہوتی ہے نا ۔ بابا انہی کی پسند کا جانور لیتے ہیں‘‘۔ سارے دوست خوشی خوشی اس کی باتیں سن رہے تھے ۔ ’’اچھا اب میں چلتا ہوں کل ملیں گے۔ تم لوگ ہمارا جانور دیکھنے آنا‘‘۔ یہ کہہ کر عثمان نے گھر کی طرف دوڑ لگادی ۔ سارے دوست بھی اپنے اپنے گھروں کو چل دیے۔

عثمان کے دوستوں میں ایک دوست عکاشہ بھی تھا وہ بھی اسی محلے میں رہتا تھا ۔ باپ کی ناگہانی موت کے بعدماں اور دادی کے ساتھ دو کمروں کے ایک مکان میں رہتا۔محلے والے عکاشہ سے بہت محبت کا برتاوکرتے عکاشہ کے والد کی موت ان سب کے سامنے کا واقعہ تھا۔ فیکٹری جلنے کا سانحہ ہی کچھ ایسا تھا کہ انسانیت کانپ جائے۔ سینکڑوں لوگ زندہ جل گئے واقعے کے وقت وہ فقط دو سال کا تھا حالات کے بہاؤ میں دل برداشتہ ہوکر ہاتھ پاؤں چھوڑ نے سے بہتر عورتوں نے عزت کا روزگار ڈھونڈنے کا فیصلہ کیا اپنی ساس کے تعاون سے اب عکاشہ کی امی مختلف علاقوں سے کپڑے خوبصورت کٹ پیس لے آتی انہیں سی کر خوبصورت ڈیزائنوں کی فراک بناکر مارکیٹ میں بیچ دیتی گھر کا گزارا اچھے سے ہوجاتا کبھی حالات کا شکوہ نہیں کیا ۔

وہ عکاشہ کو بھی مضبوط دیکھنا چاہتی تھی اس لیے وہ رات میں سونے سے پہلے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کے نبیوں کے اسلامی سپہ سالاروں کے قصے سنانا نہیں بھولتی تھی کیونکہ وہ بہت سمجھدار خاتون تھی وہ جانتی تھی کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کے پاس بہترین ہتھیار یہی دین اسلام کی دولت ہے وہ اسی لیے عکاشہ کو بھی اسلامی قصے سناتی۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے احوال سناتی دنیا اور آخرت کے انعامات کا تذکرہ کرتی کے یہ دنیا تو مومن کے لیے قید خانہ ہے ایک قطرے کے لیے ہم پورے سمندر جیسی آخرت کو خراب نہیں کرسکتے۔ وہ مطمئن تھی کہ بچے کی تربیت میں کسی قسم کی کمی نہیں چھوڑی دادی اماں بھی اس کی مسلسل نگرانی کرتی اس کے اسکول کے معاملات دیکھتی اس کے دوستوں کے قصے سنتی تھی۔

شام میں جب عکاشہ گھر آیا تو دادی نے انہوں نے حال پوچھا تو حسب عادت عکاشہ نے سارا قصہ دادی کے گوش گزار کردیا ۔ دادی اماں مسکرائیں اس کے کان میں چپکے سے سرگوشی کی اور عکاشہ کی جانب دیکھا ’’دادی لیکن اب تو وہ چلا گیاہوگا‘‘ عکاشہ نے کہا ’’نہیں گیا ہوگا تم جاؤ تو کوشش کرنے میں کیا حرج ہے‘‘ دادی نے کہا۔ یہ سن کر وہ جلدی سے عثمان کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ عثمان کے سامنے تھا وہ اپنی بات ختم کرکے خاموشی سے گھر واپس آگیا ۔ گھر آتے ہی دادی نے پوچھا ’’جی دادی اس نے کوئی جواب نہیں دیا وہ لوگ آج منڈی بھی نہیں گئے تھے۔ بارش کی وجہ سے کل جائیں گے‘‘۔ یہ کہتا ہوا عکاشہ کمرے میں آیا، امی کھانے پر انتظار کررہی تھی۔ دادی کھانا کھا چکی تھیں۔ عکاشہ نے امی کے ساتھ کھانا کھایا اور ہوم ورک مکمل کرکے سوگیا۔

صبح اسکول میں بھی ٹیچر بھی قربانی کے بارے میں بتایا اور ایک مضمون لکھنے کو دیا۔ شام میں وہ سب دوست ملکر عثمان کا جانور دیکھنے کوگئے بہت خوبصورت بچھیا تھی۔ پتا ہے اس بچھیا کے تین حصے ہوں گے ایک غریبوں کا حصہ ایک رشتہ دارو ایک ہمارا اور ہم اس کے سات حصوں میں سے تین حصے کچی آبادی میں دیں گے کیونکہ وہ لوگ قربانی نہیں کرسکتے پتا ہے میرے بابا ایک بکرا بھی لائے ہیں وہ کسی کو گفٹ کرنا ہے۔ عکاشہ سوچنے لگا بھلا بکرا بھی کسی کو گفٹ کرتے ہیں کیا؟ پھر وہ عکاشہ کا ہاتھ تھامے کہنے لگا ’’عکاشہ آؤ تمہیں وہ بکرا دکھاوں‘‘ ۔۔

عکاشہ خوشی خوشی اس کے ساتھ گھر چلا گیا لیکن عثمان کے بابا وہ بکرا کسی کو دینے لے گئے تھے۔
شام میں وہ گھر آیا دروازہ کھولا تو ایک خوبصورت بکرہ عکاشہ کا انتظار کررہا تھا۔ عکاشہ خوشی سے پھولے نہ سمایا۔ ’’ماما یہ بکرا کون لایا؟‘‘ بیٹا یہ عثمان کے ابو لائے ہیں انہی کا ہے دادی کے پاس بیٹھے ہیں جاؤ تم بھی مل لو۔

عکاشہ بھاگ کر دادی کے پاس پہنچا۔ عثمان کے ابو دادی اماں سے باتیں کررہے تھے عکاشہ اس وقت ڈرائنگ روم سے کھڑا بچوں کی باتیں سن رہا تھا آپ نے صحیح کھا ہم نے عثمان کا نام حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے نام پر رکھا آپ کے پوتے نے مجھے بہت اچھی یاد دہانی کروائی میں آپ کا شکرگزار ہوں واقعی ہر عمل کا دارومدار نیتوں پر ہے نا ان کا خون اﷲ تک پہنچتا ہے نا گوشت صرف ہماری نیت اﷲ تک پہنچتی ہے۔ اﷲ میری نیت کو اپنے لیے خالص کرے عرفان کی طرف سے یہ بکرا عکاشہ کے لیے‘‘۔ ’’نہیں بیٹا! یہ تمہارا قربانی کا جانور ہے ہمارے گھر میں رہے گا لیکن قربانی تمہاری طرف سے ہی ہوگی اس پر راضی ہو تو ٹھیک ہے‘‘۔ اچھا ٹھیک ہے آنٹی۔ یہ کہہ کر عثمان کے ابو چلے گئے عکاشہ کمرے میں گیا تو وہاں اس کا عید کا نیا سوٹ اور خوبصورت سینڈل رکھی تھی وہ فوری نماز شکرانہ پڑھنے کے لیے وضو بنانے لگا کیوں کہ دادی نے بتایا تھا جب بھی اﷲ تعالٰی آپ کو کوئی نعمت دیں فوری نماز شکرانہ ادا کیجیے۔
 

Qudsia Malik
About the Author: Qudsia Malik Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.