جس وقت امت مسلمہ کے سپوت یہ فیصلہ نہ کر پا رہے تھے کہ
رات کو کھانے کے لئے گوشت کی کون سی ڈش پکائی جائے اس دوران برما(میانمار)
میں موجود روہنگیا مسلمانوں کے سر کاٹے جا رہے تھے اور ان کو زندہ جلایا جا
رہا تھا۔ جس وقت فرزندان امت انٹرنیٹ پہ نئی ریلیز ہونے والی فلمیں دیکھ
رہے تھے اس وقت برما کے مسلمان خاک و خون میں لتھڑے ہوئے کسی جائے امان کی
تلاش میں سرگرداں تھے مگر انہیں اماں کہاں میسر تھی۔ان پر زمین تنگ کر دی
گئی ۔
چارسوموت ہی کا راج تھاانہیں بس فیصلہ کرنا تھا کہ مریںتوکس طرح۔ میانمارکے
فوجیوں کے ہاتھوں اپنے گلے کٹوائیں،بنگلہ دیش بارڈرپولیس کی گولیوں سے خود
کو بھونیں یا پھر خود کو پانی کی بر رحم موجوں کے سپرد کریں_نتیجہ موت ہی
تھا بس انہوں نے طریقے کا انتخاب کرنا تھا۔
برما میں ظلم کی ایک نئی تاریخ رقم ہورہی ہے۔روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی
پہ نام نہاد عالمی برادری، انسانی حقوق کے نام نہاد چمپئن اور افسوسناک حد
تک اسلامی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔عیدالاضحی کے موقع پر اللہ کی
راہ میں قربان کئے جانے والے جانور کا غم کھانے والے لبرل اور سیکولر حضرات
کو مسلمانوں کے گلے کاٹنے والی برمی فوج نظر نہیں آ رہی۔انہیں جیسے سانپ
سونگھ گیا ہو۔
افسوسناک امر یہ بھی ہے کہ یہ سب کچھ اس حکومتی سربراہ کی نگرانی میں ہو
رہا ہے جسے امن کا نوبل پرائز ملا ہوا ہے۔ قربان میں تیرے دہرے معیار کے۔
آخر میں چند اشعار
مار رہے ہیں بدل بدل کر بہانے
خون مسلم کا ہوا ہے ارزاں بہت
فلسطین،شام،برما کہ کشمیر ہو
قتل ہوچکے ہر جا مسلمان بہت
بدامنی کا راج ہے افغانستان میں بھی
اٹھاچکا ہے پاکستان بھی نقصاں بہت
سکوں نام کا بھی نہیں ہے
ہر کوئی ہے یاں پریشاں بہت
عمل کا وقت ہے ایک ہوجائیں سب
ہو چکا ہے اس پر وعظ وبیاں بہت
بقلم سعد قمر
|