متحدہ ریاست ہائے امریکہ

امریکی کون ہیں اور امریکہ کیا ہے؟
دنیا کی ناقابل چیلنج سپر پاورامریکہ اور پاکستان کے ساتھ تعلقات کی 70سالہ تاریخ کے تناظر میں ہر پاکستانی امریکہ میں مختلف حوالوں سے دلچسپی رکھتا ہے لیکن پاکستان میں امریکہ کے بارے میں معلومات نامکمل اور محدود ہیں۔امریکہ کو سمجھنے کیلئے اس کی تاریخ کے مختلف ادوار کو دیکھنا پڑتا ہے۔پہلا دور امریکہ کی دریافت کے بعد یورپی آباد کاروں کی آمد کا دور ہے،اس کے بعد کالونیوںکی تشکیل،مقامی حکومتوں کا قیام،برٹش راج سے آزادی کا اعلان اور برٹش فوج سے 18سال کی جنگ کے بعد امن کا معاہدہ اور آزادی،اس کے تقریبا چھ عشرے بعد چار سال کی ہولناک سول وارکے بعد مزید دس سال قتل و غارت گری کی لہر اور اس کے بعد امریکہ میں انسانی آزادی اور آزادی اظہار کی عزم کے ساتھ تعمیر نو کے نئے دور کا آغاز۔ان تمام مراحل کا جائزہ لینے سے ہی امریکی باشندوں اور ان کے فکر و عمل کو سمجھے میں مدد مل سکتی ہے۔دنیا پر حکومت کرنے والے امریکیوں کے بارے میں جاننے کے لئے امریکہ کی گزشتہ پانچ صدیوں کی تاریخ پر نظر ڈالنا ضروری ہو جاتا ہے۔

امریکہ کی دریافت او دریافت کے محرکات۔
16ویں صدی سے 18صدی تک امریکہ میں رہنے والوں نے ترقی کے اہداف کس طرح حاصل کرنا شروع کئے ، اس کی ابتداء 1493ء میں کرسٹوفر کولمبس کی دو بر اعظموں پر مشتمل امریکہ کی دریافت سے ہوتی ہے۔امریکہ میں سپین،انگلینڈ اور دوسرے یورپی ملکوں کے لوگ آئے ۔ان کے ملاپ سے پیدا ہونے والی نسلیں انسانی ارتقائی ترقی کے حوالے سے بہترین ثابت ہوئیں۔وہ اپنے ساتھ دنیا کے بہترین ہتھیار ،اوزار اور مختلف اقسام کے جانور اور کاشت کاری کے بہتر طریقے،نئی فصلوں ،پھولوں کی بیج لے کر آئے اور انہوں نے اپنی محنت اور افریقی غلاموں کی مدد سے ایک امریکہ کی تعمیر شروع کی ۔اس وقت امریکہ میں پانچ ،چھ اقسام کے چھ ،سات قسم کے قبائل آباد تھے۔امریکہ کی انسانی تہذیب یورپ کے مقابلے میں بہت پسماندہ تھی۔ان کے پاس اچھے اوزار نہ تھے،امریکہ کے مختلف علاقوں میں مکئی،ٹماٹر،آلو کی کھیتی اگائی جاتی تھی اور خواراک کے لئے تیر کمان سے جنگلی جانوروں کا شکار کیا جاتاتھا۔امریکہ سے سب سے پہلے تمباکو یورپ پہنچا۔ٹماٹر،آلو اور مکئی بھی امریکہ سے ہی یورپ لائے گئے۔جبکہ یورپ سے گھوڑے،بیل،سور،مرغیاں ، امریکہ لائے گئے اور وہ امریکہ میں تیزی سے پھیلتے چلے گئے۔
یورپ کے لئے مشرق کے ساتھ تجارت نہایت اہم تھی۔ مشرق سے یورپ کے لئے مصالحے،سونا،جم سٹون اور سلک قیمتی اشیاء تھیں۔ ترکوں کی وجہ سے یورپ کا مشرقی تجارتی روٹ شدید متاثر ہوا جس سے یورپ کی بیرونی تجارت بہت کم رہ گئی۔یورپ کی بادشاہوں کے خزانے خطرے میں پڑ گئے۔سپین کی ملکہ ایزابیلا شدت سے ہندوستان کے لئے نئے سمندری تجارتی روٹ کی تلاش میں تھی۔ایزابیلا یورپ میں سب سے مضبوط حکمران تھی۔یورپ کے حکمرانوں نے پانچ سو سال بڑے بڑے محلات،قلعے،بڑی عمارات اور تجارتی مراکز تعمیر کئے۔یورپ کے بادشاہ اور پوپ( عیسائی مذہبی پیشوا) نے جنگوں کے لئے اپنی فوجوں کی تعداد میں اضافہ کیا۔طاقت کی پیاس نے یورپی ملکوں کو اپنی حدود سے باہرنکلنے پر آمادہ کیا۔1491ء میں یورپ ایک مصروف اور گنجان آباد بر اعظم تھا جس کی آبادی دس کروڑ(ون ہنڈرڈ ملین) تھی۔آبادی کے لئے خوراک کی ضرورت مین اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ قدرتی وسائل کے ذرائع محدود ہوتے جار ہے تھے،جگہ کم پڑتی جا رہی تھی،زیادہ لوگ ہ بادشاہ، امرائ، یا چرچ کی زمینوں پر کاشت کاری کرتے تھے۔ان کی عمومی خوراک ڈبل روٹی اور پورج تھے۔تین موسموں میں تین مختلف قسموں کی فصلیں اگاتے،(رائی اور ویٹ ونٹر میں ،اوٹس اینڈ بارلی ان سپرنگ۔انہوں نے ہوا اور پانی کی طاقت کا استعمال سیکھ لیا تھا۔اس زرعی انقلاب سے یورپی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا گیا۔اس ترقی میں پالتو جانوروں کا بھی اہم اور بنیادی کردار ہے جن میں گھوڑے،گائے ،بیل، جس سے دودھ ،چمڑا اور گوشت حاصل ہوتا ،سور گوشت اور چمڑے کا بڑا ذریعہ تھا،اور بھیڑیں،اور گدھے۔گائے کے دودھ سے مکھن اور پنیر بھی بنایا جاتا۔اس وقت یورپ میں زراعت کے اچھے اوزار استعمال ہو رہے تھے۔مچھلیاں بھی یورپ میں خوراک کا ایک بڑا ذریعہ تھیں۔یورپ کے غالب ترین مذہب عیسائیت نے1491میں مچھلی کھانے کی باقاعدہ اجازت دی تاہم سال میں ایک سو خصوص دنوں میں مچھلی کھانے پر پابندی تھی۔مچھلی کا وسیع پیمانے پر شکار ہو رہا تھا،سمندروں مین بھی مچھلی کا شکار شروع ہو گیااور سال بہ سال پکڑی جانے والی مچھلی کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا۔13ویں صدی میں ہزاروں ٹن خشک مچھلی ناروے سے برطانیہ بھیجی جاتی تھی۔1491ء میں یورپی جھیلیں، دریا گندے اور مچھلیوں سے خالی ہو رہے تھے۔
1491میں یورپ میں درختوں کی کٹائی تیزی سے جاری تھی جس سے جنگلات کا صفایہ ہوتا جارہا تھا،تیزی سے بڑہتی آبادی کے لئے مزید جگہوں اور کاشت کاری کی ضرورت تھی،ان کے پاس کٹائی اور درختوں کی ڈھلائی کے لئے اچھے اوزار اور وسائل میسر تھے لیکن جگہ کی قلت بڑہتی جا رہی تھی،لکڑی کی ضرورت میںاضافہ ہوتا جا رہا تھا،اسی وقت لڑائیوں،جنگوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا تھا،جنگوں کے ہتھیاروں کی تیاری کے لئے بھٹیاں دن رات جلتی رہتی تھیں،اسی دور میں بڑی اور مضبوط عمارات کی تعمیر کے لئے لکڑی کے ساتھ پتھروں کا استعمال بھی ہو رہا تھا۔اس دور میںجرمنی، فرانس ،اٹلی ،سپین اور انگلینڈمیں تمام اقتصادی و معاشرتی سرگرمیوں کا محور جنگلات ہی تھے،لکڑی کے حصول کی اس کشمکش میں پیسوں والوں نے اپنے قوانین بنائے اور پیسہ شہروں میں تھا،ان سب میں امیر ترین شہر وینس تھا،جو تمام کا تما م لکڑی سے بنایا گیا،دلدلی اور پانی کی جگلہوں پرپتھروں کی عمارات کی بنیادیں لکڑی سے قائم کی گئیں،اس کے علاوہ بحری تجارت کو بہت اہمیت حاصل تھی،بحری جہازوں کی وسیع پیمانے پر تیاری کے لئے بھی لکڑی کا بہت استعمال ہوا،اس صورتحال میں جنگلات میں لکڑی اور دریائوں مینں مچھلی کم سے کم ہوتی گئی،اس ی دور میں پرٹنگ پریس کی ایجاد سے کتابیں اور آئیڈیازلوگوں میں پھیلنے لگے۔

امریکہ کے دو بر اعظموں کی دریافت۔
اسی صورتحال کے تناظر میں یورپ کے بادشاہ اور ملکہ اپنی طاقت میں اضافے کے لئے نئی علاقے دریافت کرنا چاہتے تھے۔کچھافریقہ کی طرف گئے تا کہ وہاں سے انڈیا کا راستہ تلاش کیا جاسکے،جبکہ سپین میں رہنے والا کرسٹوفر لولمبس ایشیا کے ساتھ تجارت کا نیا راستہ ڈھونڈنا چاہتا تھا۔ کولمبس مغرب کی طرف سے مشرق کا راستہ تلاش کرنے کی کوشش میں تھا۔سمندری سفر کے ماہرکولمبس کا تعلق اٹلی سے تھا ۔اس تلاش مہم کے اخراجات شاہی طور پر اٹھائے جانے کی پانچ سال کی کوشش کے بعدسپین کی ملکہ ایزابیلا نے اس کے منصوبے کو قبول کیا۔اس نے تین جہازوں کا خرچہ برداشت کیا۔کولمبس کی اس مہم کے لئے آدمی میسر نہ تھے،لہذا پہلے پہل 87آدمی تیار کئے گئے جن میں ان پڑھ،جرائم پیشہ ،قاتل شامل تھے جو موت کی جگہ سمندر کا سفر اختیار کرنے پر رضامند ہوئے۔ان میں کئی سابق فوجی اورسور پالنے والے بھی شامل تھے۔12 اکتوبر1492کو کولمبس براعظم امریکہ کی سرزمین تک پہنچا۔تینوں جہاز تین ماہ تک وہاں لنگر انداز رہے اور وہ علاقے کی چھان بین کرتے رہے۔یہ انڈیا نہیں بلکہ کریبین کے ساحل تھے،سپین کے لئے انہوں نے نئی زمین دریافت کر لی تھی، لباس اور لوہے کے ہتھیاروں والے انسان مقامی افراد کے لئے حیران کن تھے۔کولمبس جہاں پہنچا،اس کے بائیں طرف براعظم جنوبی امریکہ( برازیل،ارجنٹینا،پیرا گوئے،یوروگوئے پیرو،ایکوڈور،کولمبیا،وینز ویلا وغیرہ) اور دائین طرف شمالی امریکہ ( کینڈا،امریکہ) موجودہ امریکہ کے تین حصے ،مغرب ،جس میں واشنگٹن،کیلیفورنیا سمیت 12 ریاستیں،مڈ ویسٹ اور شمال مشرق میں16ریاستیں اور جنوب میں16,۔
کولمبس کی سربراہی میں 1942کے موسم گرما میں 69دن کے سفر کے بعد تین بحری جہاز امریکہ پہنچے۔یورپی ملکوں کی طرف سے آباد کار امریکہ پہنچے لگے ،وہ دریافت کے ساتھ ساتھ مقامی پسنماندہ انسانی آبادیوں کا صفایہ بھی کرتے گئے۔مقامی قدرتی وسائل ڈھونڈے ۔اس سے امریکہ ایک نئے روپ مین سامنے آنے لگا۔یہ صرف پانچ سو سال پہلے کی بات ہے،جب امریکی علاقوں میں پسماندہ انسان تو بستے تھے لیکن دنیا کے دیگر خطوں کی ترقی کے مقابلے میں وہاں کچھ نہیں تھا۔قدرتی ماحول تھا،جانوروں،آبی حیات کی ایسی قسمیں ،جو دنیا میں کہیں اور نہیں پائی جاتی تھیں،چھ لاکھ میل پر محیط سمندری ساحل صاف پانی سے ،،یہاں سے آگے ہر سمت گھنے جنگلات ۔ شمالی امریکہ کے لاکھوں کی تعداد میںدینڈئیر کے غول، اینٹی لوک،بائسن، اور گرزلی،ریچھ، مرغابیوں سمیت ہزاروں قسموں کے للا کھوں پرندے۔امریکہ میں کئی ایسی کئی قدیم تہذیبوںکے نشانات بھی ملے ہیں جہاں لوگ اچھے ،بڑی اور مضبوط عمارات اور شہروں کی شکل میں رہتے تھے۔1491ء میں امریکہ میں انسانی تہذیب کی پانچ چھ قسم کی آبادیاں تھیں۔دس کروڑ(ون ہنڈرڈ ملین) کی آبادی تھی،ان میں شکاری،گائوں،مچھیرے،کاشت کار،بادشاہ،غلام اور فوجی شامل تھے۔چھ ہزار سال سے امریکہ میں میں مکئی کی کاشت کی جاتی ہے ۔دنیا کی ایک قدیم اور مشہور منظم انکا تہذیب بھی امریکہ کے پہاڑوںمیں ہی واقع ہے۔

یورپ میں امریکہ کی کشش اور یورپئینز کی آمد۔
1493ء میں سپینش ملکہ کو کولمبس کے خط سے اس نئی دریافت کا علم ہوا۔کولمبس نے لکھا کہ اس نے جنت جیسی جگہ کا دیافت کی ہے جو سپین کے لئے خدا کے نام پر عیسائیت کے لئے فتح کی گئی۔وہاں کئی معدنیات اور سونے کی موجودگی کی بھی اطلاع دی گئی۔تاجروں،فوجیوں اور مذہبی مسافروں کے ذریعے ہفتوں ،مہینوں میں کولمبس کی نئی دریافت اور شاندار ذرائع کی اطلاعات یورپ میں پھیل گئیں۔کولمبس کا ملکہ کے نام خط کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے اور وسیع پیمانے پر اس کی فروخت ہوئی۔اب کئی یورپی ملک اس نئے دریافت کے خزانے سے اپنا حصہ چاہتے تھے۔چند ماہ بعد سپین کے بے زمین،بے کار لوگ اور سور پالنے والے ہزاروں کی تعداد میں کولمبس کے دریافت کردہ علاقے کی طرف جانے لگے۔ 1413ء میں 17بحری جہازوں پر 12سو اسپین کے باشندے کریبین کے ساحل پر پہنچے،اور نئی دریافتوں کی تلاش میں مختلف اطراف کی طرف چل پڑے،یہ امریکہ کو فتح کرنے کی مہم تھی،ان کے پاس ہتھیار وں کے علاوہ گھوڑے تھے جو امریکہ میں وجود نہیں رکھتے تھے،گھوڑوں کی وجہ سے ہی سپین کے لوگوں نے چند ہی عشروں میں امریکہ کے تمام علاقے چھان ڈالے،ان چالیس سالوں میں سپینی لوگ جہاں گئے انہوں نے مقامی لوگوں کو مارنا اور ان کی بستیوں کو تباہ کیا،انہوں نے زمینوں کے انتظام پر توجہ نہ دی۔
سپینی لوگوں کے لائے گھوڑے امریکہ کے نئے ماحول میں تیزی سے پروان چڑہنے لگے۔ سپینی لوگوں کے چند گھوڑے جنگلی ہو گئے اور ان کی آبادی تیزی سے بڑہنے لگی۔ان کے ملاپ سے گھوڑوں کی نئی نسل تیار ہوئی اورشمالی امریکہ میں ان جنگلی گھوڑوں افرائش کو راس آیا ۔تین سو سال میں وہ وسطی امریکہ کے میدانوں اور چٹانی پہاڑی علاقوں میںبھی پہنچ گئے۔18ویں صدی کے اختتام تک وہ کینڈا تک پہنچ گئے۔150سال میں ان جنگلی گھوڑوں کی تعداد شمالی امریکہ میں 70لاکھ سے زیادہ ہو گئی۔امریکہ کے مقامی قبائل کے لئے یہ جنگلی گھوڑے ایک بڑی نعت ثابت ہوئے اور وہ لڑائیوں،شکار اور سفر کے لئے ان گھوڑوں کا استعمال کرنے لگے۔ یہ گھوڑے ان قبائل کی مقامی ثقافت کا ھصہ بن گئے۔جب سپینی گروہ جنوبی اوروسطی امریکہ کو فتح کر رہے تھے،ان میں سے ایک سپینی گروہ نے شمال کا رخ کیا۔فرنانڈو ڈیسوٹو کی سربراہی میں ایک سپنی گروہ نے فلوریڈا سے میسپی دریا کے اوپر کے حصے کی طرف کشتیوں میں سفر شروع کیا۔وہ سونے کی تلاش میں تھے۔وہ اپنے ساتھ خوراک کے لئے سور لائے تھے جو اس علاقے میں تیزی سے اپنی آبادی مین اضافہ کرنے لگے۔انہوں نے جنگلوں میں سفر کیا،ان سوروں کی وجہ سے ہی وہ زندہ رہے۔بعد میں آنے والوں کو بھی ان سوروں سے خوراک حاصل ہوئی۔تاہم شمالی امریکہ کے مقامی قبائل کے لئے یہ سور اچھے ثابت نہ ہوئے۔وہ ان کی کاشت کئے گئے مکئی کے دانے کھیتوں سے کھا جاتے تھے۔مقامی ماحول میں سور بڑے اور خطرناک ہو گئے اور مقامی قبائل کے لئے خوف کا باعث بنے۔کولمبس اپنے دوسرے سفر میں گھوڑوں کے علاوہ پنے ساتھ 8سور لایا تھا۔20سال میں صرف کیوبا میں 30ہزار سور ہو گئے۔ایموزون اور شمالی امریکہ میں سوروں کی تعداد تیزی سے بڑہتی گئی۔امریکہ کی فتح میں گھوڑوں اور سور کے علاوہ عیسائی مبلغین نے بھی اہم کردار ادا کیا۔سپنی عیسائی مبلغین نے امریکہ کے ان علاقوں میں وسیع پیمانے پر بیماری پھیلنے کی اطلاعات دیں،جس سے بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہو رہے تھے،اور بیماری مسلسل پھیل رہی تھی،اس بیماری نے امریکہ کے دونوں بر اعظموں کو متاثر کیا۔بہت بڑی تعداد میںمقامی لوگ چیچک سے ہلاک ہو گئے۔ان بیماریوں پر آج بھی تحقیق جاری ہے۔16ویں صدی میں چیچک نے امریکہ رہنے والے انسانوں کو شدید متاثر کیا۔چیچک کی بیماری یورپ سے امریکہ پہنچی۔50سے 90فیصد مقامی آبادی چیچک کی بیماری سے ختم ہو گئی،کولمبس کی دریافت کے پچاس سال میں سپنی لوگوں کو انسانی آبادیاں نہیں ملیں،چیچک سے اکثر مقامی لوگ مر چکے تھے،انہیں وسیع علاقے جنگلات کے ملے،ان جنگلات میں ہزاروں اقسام کے جانور پرندے یورپی افراد نے کبھی نہیں دیکھے تھے۔سپنی مشنریز نے رپورٹ دی کہ ایسے جانور جن کے کوئی نام نہیں ،ان کے بارے میں دنیا کی کسی قوم کو علم نہیں ہے۔یہاں قدرت جنگلی حیات کی نئی اقسام پال رہی تھی۔سپنی لوگوں نے مختلف قسم کے جانوروں کو بحری جہازوں کے ذریعے سپین بھیجنا شروع کیا،اس کے ساتھ مکئی، ٹماٹر اور آلووغیرہ بھی۔یہ چیزیں یورپ کے لئے اجنبی تھیں۔ان چیزوں کے ساتھ امریکہ سے چند بیماریاں بھی یورپ پہنچی جو یورپ میں موت کا ذریعہ بن گئیں۔یہ بیماریاں یورپ کے دیہاتوں،قصبوں،شہروں میں تیزی سے پھیلنے لگیں۔بیماری کے شکار پاگل ہو جاتے تھے اور مرنے میں بہت وقت لگتا تھا۔یہ بیماری فرنچ پاکس،یا سپینش بخار کہلائی ۔یورپ کو معلوم نہ تھا کہ یہ بیماری امریکہ سے آئی ہے۔

امریکہ میں آباد کاری اور وسائل کا استعمال۔
17ویں صدی میں یورپ سے بڑی تعداد میں لوگ نئی جگہوں پر آباد ہونے کے لئے مختلف خطوں کی جانب روانہ ہورہے تھے۔انگلینڈ نے سپین کو ہرا کر نئی سپر پاور ہونے کا مقام حاصل کر لیا۔1607میںامریکہ کے مشرقی علاقے میںپہلی انگلینڈ کی کالونی جیمز ٹائون کے نام سے قائم ہوئی جسے اب ورجینیا کہتے ہیں۔یہ امریکہ میں ایک نئی دنیا کی تعمیر کی ابتداء تھی۔ان کا کام برٹش کمپنی کے لئے پیسہ کمانا تھا۔ان شاندار وسیع علاقوں کا مالک کوئی نہیں تھا۔۔ان علاقوں میں14ہزار مقامی لوگ چھوٹی چھوٹی آبادیوں میں رہتے تھے۔ دریائوں اور ساحل کے ساتھ دو سو گائوں آباد تھے اور گھنے جنگلوں میں بڑے گھر واقع تھے۔وہ بینز اور مکئی اگاتے تھے۔یہ لوگ کسان اور شکاری تھے۔یہاں آباد کاروں کی امید کے برعکس سونا یا چاندی نہیں تھا۔صرف زمینیں اور وہاں کے لوگ تھے۔شروع میں آباد کار اور مقامی لوگ آپس میں کسی ٹکرائو کے بغیر رہتے رہے۔یہ سرزمین ایسے قدرتی وسائل سے مالا مال تھی جن کی یورپ میں کمی تھی۔ آباد کاروں کی طرف سے امریکہ کے دریائوں سے بڑے پیمانے پر مچھلیاں پکڑی جانے لگیں اور بڑی تعدا میں یہ مچھلیاں انگلینڈ ،سپین وغیرہ بھیجی جانے لگیں۔آباد کاروں نے دو سو سال میں امریکہ سے اتنا حاصل کر لیا جو یورپ میں ہزاروں سالوں میں حاصل کیا گیا تھا۔کئی جہاز زیادہ مچھلی کے وزن کی وجہ سے ڈوب جاتے۔اتنے وسیع پیمانے پر مچھلیوں کے شکار سے مچھلیوں کی افزائش پر نہایت برے اثرات مرتب ہونے لگے۔پیسوں کے لئے مچھلی خشک کر کے نمک میں رکھ کر بھی یورپ بھیجی جاتی تھی۔
نہ ختم ہونے والے جنگلات یورپئینز کے لئے حیران کن تھے،کاشت کاری کے لئے جنگلات کے درخت کا صفایہ کیا جانے لگا اور یہاں سے لکڑی بھی یورپ بھیجی جانے لگی۔درختوں کے وسیع پیمانے پر کٹائو سے 17ویں صدی میں کریبین اور اٹلانٹک آئی لینڈ کے وسیع علاقوں سے جنگلات کا مکمل صفایہ ہو گیا۔ آباد کاروں کے گھروں میں دن رات ہر وقت ہر کمرے میں آگ جلتی رہتی تھی،جلانے کے علاوہ کاشت کاری اور تعمیرات کے لئے بھی تیزی سے درخت کاٹے جا رہے تھے۔یورپی لوگوں نے امریکہ کے وسائل لوٹ کر خطے کو بدل دیا اور ساتھ ہی اپنے ساتھ لائی چیزوں سے بھی امریکہ کو تبدیل کر دیا۔اپنی ملکیتی زمینوں کے خواہشمندیورپی لوگ بہتر زندگی کے لئے امریکہ کا رخ کرنے لگے۔ وہ مذہبی آزادی کے بھی متلاشی تھے۔ان کا یقین تھا کہ وہ اپنی کامیابیوں اور خوشیوں کے خود ذمہ دار ہیں۔پہلی بار آباد کاروں کے ساتھ عورتیں بھی امریکہ پہنچنے لگیں اور وہ اپنے ساتھ استعمال کی مختلف مزید اشیاء بھی لے کر آئیں۔وہ بھیڑیں،مرغیاں، پودے اور یورپی فصلوں کے بیج بھی ساتھ لائیں جو اس خطے کے لئے نیا تھا ۔انہوں نے کاشت کاری کے یورپی اوزاروں اور طریقوں سے زمینوں میں کاشت کاری شروع کی۔ ماحولیاتی تبدیلی وقوع پزیر ہونے لگی اورجلد ہی گندم اور دوسری یورپی فصلیں امریکہ میں بھی پیدا کی جانے لگیں۔ گائے کی طرح کے امریکی جانور بائیسن کی جگہ بیل گائے زیادہ نظر آنے لگیں۔مویشیوں کی تعداد یورپ کی نسبت زیادہ تیزی سے بڑہنے لگی۔بیلوں کی آبادی بڑہنے سے امریکہ میں بیج مختلف زمینوں تک پھیلتے چلے گئے۔یورپی لوگوں کے لائے گئے جانور امریکہ میں تبدیلی کی ایک اہم بنیاد ثابت ہوئے اور ان کی آبادی مختلف ھصوں میں پھیلتی چلی گئی۔
آباد کاروں کی گھر لکڑی کے ستونوں کی دیواروں کے حصاروں میں قائم کئے گئے۔ان کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔گوشت امریکہ میں سستی ترین خوراک بن گئی۔ان کے پاس یورپ سے لایا گیا آتشی اسلحہ،ہتھیار ،اوزار تھے۔کاشت کاری وسیع ہوتی گئی،درخت کاٹ کر مزید علاقے کاشت کاری کے قابل بناتے ہوئے ہر قسم کے چیزیں اگائی جانے لگیں۔انہوں نے یورپی درخت بھی علاقے میں لگانے شروع کر دیئے۔یورپ سے لائے گئے پھلوں کے درخت بھی لگائے گئے۔یورپ کے پودے ،پھول لگانے سے امریکہ میں شہدکی پیداوار بھی شروع ہو گئی۔یورپی شہد کی مکھیاں بھی یہاں شہد پیدا کرنے لگیں جو مقامی شہد مکھیوں کی نسبت ہر قسم کے پھولوں سے شہد حاصل کر سکتی تھیں۔سیب کے باغات سے شمالی امریکہ میں سیب کی پیدار واربڑی صنعت بن گئی،جس کاتخمینہ پانچ ملین ٹن سالانہ تھا۔یورپی پھل وغیرہ امریکہ میں اچھی پیداوار دینے لگے۔امریکہ سے ٹماٹر اور آلو وغیرہ کی یورپ آمد سے یورپ کے کھانوں میں نیا اضافہ ہوا۔امریکہ سے لائے گئے ٹماٹر اور آلو کی پیداوار یورپ میں تیزی سے ہونے لگی۔16صدی میں ٹماٹر یورپ کے اکثر حصوں میں پیدا کیا جانے لگا اورروس میں بھی ٹماٹر اگایا جانے لگا۔یورپ کے امراء میں چائے کے ساتھ چینی اور تمباکو سٹیٹس سمبل بن گیا۔تمباکو امریکہ سے ہی یورپ لایا جانے لگا اور آباد کاروں نے اس کی پیداوار یورپ بھیجنا وسیع پیمانے پر شروع کیا۔ یورپ کی طلب پوری کرنے کے لئے گنے اور تمباکو کی کاشت میں اضافہ ہونے لگا۔امریکہ کے ان کھیتوں میں کام کرنے کے لئے یورپ سے افریقی غلاموں کو بھی امریکہ لایا جانے لگا،۔دس ملین افریقی غلام امریکہ لائے گئے۔ان افریقی غلاموں کے ذریعے یورپ کی طلب پوری کرنے کے لئے امریکہ میں گنا،گندم،تمباکو،چاول کی وسیع کاشت ہونے لگی۔18ویں صدی تک امریکہ کافی حد تک مکمل ہو گیا تھا۔نیو سپین اور نیو انگلینڈ کے علاقے پوری طرح مستحکم ہو گئے۔امریکہ میں آباد کار وں کی دولت میں اضافہ ہونے لگا۔اب امریکہ آنے والوں نے مغرب کا رخ کرنے کے لئے ریلوے لائین بچھانے شروع کیں۔،اس طرف مزید زمینیں موجود تھیں۔اس نئے امریکہ کی تعمیر میں امریکہ کی تقریبا 90فیصد مقامی آبادی ہلاک کر دی گئی۔امریکہ یورپ کے تمام علاقوں سے امریکہ آئے آباد کاروں،دریافتیں کرنے والوں،نئی کالونیاں بنانے والوں کا ملک بن گیا۔ان میں افریقہ سے لائے گئے غلام بھی شامل تھے۔

امریکہ میںشہری نظام کا قیام اور آزادی کی لہر۔
16ویں صدی کے ایک عشرے بعد امریکہ سے تمباکو انگلینڈ بھیجا گیا اور1619ء میں ٹوبیکو انڈسٹری قائم ہوئی۔ اس کے بعد آباد کاروں کے لئے زمینوں کی ملکیت کو قانونی شکل دینا شروع ہوئی۔ حقوق ملکیت امریکی جمہوریت کی بنیاد قرار پائی۔ورجینیا میں دنیا کی پہلی قانون ساز اسمبلی قائم ہوئی۔ہائوس آف برٹرسز نامی اس اسمبلی نے اپنا پہلا قانون منظور کیا جس کے تحت جمہوری حکومت قائم کی گئی۔ورجینیا امریکہ کی دوسری کالونیوں کے لئے ایک مثال بن گئی۔اس اسمبلی کے ایک رکن پیٹرک ہنری نے اپنی مشہور تقریر میں کہا کہ '' مجھے یا تو آزادی دو یا موت''۔
1620ء کے بعد امریکہ مختلف یورپی قوموں کے آباد کار لوگوں کے ملاپ کامجموعہ بن گیا۔مونٹیچوسس ریاست میں امریکہ کے مجموعی تصور، آزادی،انسانی حقوق،سیلف گورنینس،تعلیم اور دانشوارانہ خیالات کا تصور اورقیام پر وان چڑہنے لگا۔مو نٹی چوسس ریاست میں 1700میں لندن کے احکامات کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔امریکہ میںسیلف گورنمنٹ کے قیام میں مونٹی چوسس نے قائدانہ کردار ادا کیا۔مونٹی چوسس نے چرچ اور حکومت کو الگ کرنے اور آزادی اظہار کے امریکی اصولوںکے قیام میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ اس پر دیگرکالونیوں نے بھی سیلف گورنمنٹ کے طریقوں پر غور شروع کیا۔ کالونی کے پروپرائٹر لارڈ بالٹی مو رنے کہا کہ کالونیوں کے آزاد لوگوں کو کسی بھی قانون سازی کا حق حاصل ہے اور آزاد آدمی وہ ہے جو قانون ساز اسمبلی کے رکن کے لئے ووٹ دینے کا حق رکھتا ہو ۔اسی دوران مقامی مسائل کے حوالے سے ٹائون میٹنگز کے اجلاسوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔جس میں لوگ اکٹھے ہو کر ٹیکسوں،تعلیم،عوامی قوانین اور عطیات کے لئے فیصلے کرتے اور بعد ازاں ان میں انقلاب کے امور بھی طے کئے جانے لگے۔1638ء میں کلونئیل لیڈر ٹامس ہوکر نے کنٹیکی ٹائون کمیٹی اجلاس میں یہ تاریخی الفاظ کہے کہ '' ا تھارٹی کی بنیاد انسانوں کی آزادانہ مرضی پر منحصر ہیہر انسان آواز رکھتا ہے ،ووٹ کا حق رکھتا ہے''۔1669ء میںکیرو لینیا کالونیوںکے پرو پرائیٹرز جان لاک نے بنیادی آئین تیار کیا،اس میں حکومت کے قیام کا طریقہ کار بتایا گیا۔118سال بعد یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ نے حکومت کی تشکیل کے طریقہ کار کی منظوری دی گئی۔کیرولینیا کے بنیادی آئین کی پیروری میں 1680میں ولیم پینز پینس نے حکومت کی تشکیل کے حوالے سے ایک بلو پرنٹ تیار کیا جس میں حکومت کی تشکیل پر عائید شرائط شامل تھیں۔18ویں صدی کے آغاز میں تمام انگلش کالونیوں میں عوامی نمائندہ حکومتیں قائم تھیں۔برٹش پارلیمنٹ نے امریکہ پر کنٹرول کی کوشش کی لیکن امریکی کالونیوں میں ایک نئی طرز کے سیلف رول کا تصور مضبوط ہو رہا تھا جو لوگوں کے جمہوری حقوق پر مشتمل تھا۔

امریکی انقلاب، برٹش آرمی کے خلاف کالونیوں کی جنگ ۔
یہ جنگ 1765سے1783 تک لڑی گئی۔امریکہ کی کالونیوں میں آزادی کی اس لہر پر برٹش حکومت نے اپنی کالونیوں کو قابو کرنے کے لئے فوج کو استعمال کیا۔امریکی باغی برٹش فوج سے بنکر ہل کی لڑائی لڑ رہے تھے، جس میں ایک ہزار برٹش فوجی مارے گئے۔ساڑھے چھ ہزار برٹش فوجی بوسٹن میں محصور ہو گئے،بیس ہزار باغیوں نے ان کا محاصرہ کیا۔اس کے بعد کینڈا پر امریکی فوج کا حملہ برٹش فوج نے بری طرح ناکام بنایا۔بر اعظم امریکہ کی کانگریس کا فلیڈلفیا میں ہونے والے اجلاس میں ورجینیا کیء جان ایڈم نے جارج واشنگٹن کو امریکہ کا پہلا جنرل بنانے کا اعلان کیا۔جان ایڈم نے جنوب کے کسانوں کی کالونیوں اوراقتصادی ترقی والی شمالی کالونیوں کے درمیان اتحاد قائم کرایا۔امریکی فوج کے سربراہ کا تقرر انقلاب کی ابتداء تھی۔جارج واشنگٹن امریکہ کے امیر ترین افراد میں سے ایک تھا۔اس کی ورجینیا میں میںہزاروں ایکڑ زمینیں تھیں جو اسے ورجینیا کی امیر ترین خاتون مارتھا کسٹا سے شادی کی وجہ سے ملیں۔مغرب میں بھی اس کی بے شمار زمینیں تھیں جو فرنچ انڈین وار کی خدمات کی وجہ سے اسے ملی تھیں۔بنکر ہل کی لڑائی کے دو ہفتے بعد جارج واشنگٹن نے کیمرج میں بر اعظم کی فوج کی کمان سنبھالی،بوسٹن میں مہینوں تک برٹش فوج کو محاصرے میں رکھا۔

خود مختاری کا اعلان ، برابر کے شہری حقوق۔
کانگریس نے اعلان آزادی تحریر کرنے کیلئے کمیٹی قائم کی اورتھامس جیفرسن نے اسے لکھنے کی ذمہ داری لی ۔ اس میں تھامس جیفرسن نے غلاموں کی تجارت کا کاروبار پر پابندی کی بات بھی کی ۔4جولائی ،1776میں کانگریس نے اعلان آزادی کی منظور ی دے دی تاہم اس میں غلاموں کی تجارت پر پابندی کا معاملہ خارج کر دیا گیا۔اعلان آزادی کے ساتھ ہی برٹش کنگ کی یاد گاریں،نشانات کو ختم کرنا شروع کر دیا گیا۔13کالونیوں میں برٹش فوج کے خلاف حملے شروع ہو گئے۔نیو یارک کی آبادی اس وقت25ہزار تھی،مصروف سی پورٹ تھا۔جارج واشنگٹن 23 ہزار فوجیوں کے ساتھ نیویارک کی جانب بڑہا جن میں ملیشیا اور رضا کار بھی شامل تھے،اس میں امریکی فوج کا کافی نقصان ہوا اور اس کو پسپا ہونا پڑا،۔لانگ آئی لینڈ کی لڑائی۔نیو جرسی کی لڑائی میں تین ہزار امریکی فوجی فوج کاچوتھائی حصہ گرفتار ہو گئے،160توپیں اور چار لاکھ کارتوس براٹش فوج کے قبضے میں آ گئے ۔ اس وقت جارج سوئم انگلینڈ کا بادشاہ تھا۔1783میں ٹریٹی آف پیرس کے ذریعے جنگ بندی اور امن کا معاہدہ ہوا۔امریکہ کی 13کالونیاں 3خود مختار ریاستوں میں تبدیل ہو گئیں،تاہم ہر کالونی کو الگ سٹیٹ کا درجہ حاصل تھا۔ امریکی انقلاب میں سپین اور فرانس نے امریکی کالونیوں کی مدد کی تھی۔برٹش حکومت نے مزید جنگ کو نقصاندہ سمجھتے ہوئے اپنے اقتصادی مفادات کو تحفظ دیتے ہوئے امن معاہدہ کر لیا۔ اس معاہدے میں بات چیت کے لئے امریکہ کی طرف سے ا بنجمن فرینکلن،جان ایڈم اور جان جے نمائندے مقرر ہوئے۔اپریل1783ئکانگریس نے توثیق کی اور3ستمبر1783کو فریقین نے اس معاہدے پر دستخط کئے۔برٹش نے فرانس اور سپین کے ساتھ بھی امن معاہدے کئے۔جارج واشنگٹن نے استعفی دے دیا۔ امریکی فوجی گھروں کو چلے گئے۔امریکہ اور برٹش دونوںکے تقریبا پونے تین لاکھ افراد ان لڑائیوں میں ہلاک ہوئے۔

سول وار۔
برٹش راج کے خلاف جنگ آزادی کے تقریبا چھ عشرے بعد امریکی سول وار 1861 سے 1865 تک لڑی گئی۔امریکہ کی سول وار آزاد اور غلامی والی ریاستوں کے درمیان غلامی کے حوالے سے اختلافات کی بنیاد پرشروع ہوئی۔قومی حکومت نے ان کالونیوں میںبھی غلامی ممنوع قرار دے دی جو ابھی ریاستیں نہیں بنی تھیں۔پہلے ریپبلکن صدر ابراہم لنکن نے1860میں صدارتی الیکشن جیتا اور غلامی کو ختم کرنے کا عہد کیا ۔ جنوب کی سات غلامی کو قائم رکھنے والی ریاستوں نے متحدہ ریاست ہائے امریکہ کے مقابلے میں کنفیڈریشن سٹیٹس آف امریکہ قائم کی ۔ابراہم لنکن انتظامیہ نے بغاوت کے خلاف ملیشیا کو طلب کیا۔1861کے آخر میں تقریبا دس لاکھ افراد دونوں طرف سے لڑائیوں میں شامل تھے۔ورجینیا سے میسوری تک کا 12سو میل کا علاقہ میدان جنگ بن گیا۔پانچ سال کی متعدد لڑائیوں کے بعد جنوب کو شکست ہوئی۔غلامی کا خاتمہ کیا گیا اور امریکہ کی تعمیر نو کا عمل شروع ہوا ۔
سول وار 1865کو ختم ہو گئی لیکن لڑائیاں ایک عشرے مزید جاری رہیں۔اس میں غلاموں کا زیادہ نقصان ہوا،بہت بری تعداد میں امریکہ لائے گئے افریقی غلام مارے گئے،امریکہ کے ہر علاقے میں۔غلام عورتوں ،بچوں کو بھی بے دردی سے مارا گیا، سرکاری طور پرغلامی ختم کر دی گئی لیکن عملا ان کا قتل عام شروع ہوا۔اطاعت نہ کرنے والے غلاموں کا قتل کیا گیا۔سول وار میں جنوب کے تقریبا ڈھائی لاکھ افراد مارے گئے،سول وار سے بچے فوجی گھروں کو گئے تو اپنی آبادیوں کو تباہ و برباد پایا،ان کی فصلیں جلا دی گئیں ،جانور مار دیئے گئے،جنگ کی شکست نے جنوب کو شکستہ حال کر دیا،افریقی غلام اب آزاد تھے،۔غلاموں کی تجارت دو بلین ڈالر(اب کے تیس بلین ڈالر) کی تجارت تھی،جنوب میں معاشی سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئیں،۔بہت سے لوگوں نے غلامی کے خاتمے کو تسلیم نہیں کیا،۔ریپبلکن پارٹی کے حمایتیوں کی سختی،یونینسٹ ،ریڈیکل ریپبلکن کے حامی فوری تبدیلی کے حامی تھی،ریڈیکل حامیوں پر قاتلانہ حملے کئے گئے، ریڈیکل ریپبلکن نے امریکہ کی پہلی امدادی تنظیم فری مین بیورو قائم کی،سابق غلاموں کی فلاح و بہبود، تعلیمی ادارے قائم کئے اور ان کو زمینوں کے حقوق دیئے۔ابرہم لنکن کے بعد انڈریو جانسن صدر بنا۔غلامی کے خاتمے کے خلاف کئی ریاستوں نے کالے قانون بنائے یعنی سابق غلاموں کو واپس غلامی میں لینا ۔سول وار میں کل تقریبا ایک ملین کے قریب(ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد) افراد مارے گئے۔

امریکہ کی تعمیر نو۔
سول وار کے خاتمے سے امریکہ ایک مضبوط قومی حکومت کے ساتھ ایک متحد اور طاقتور قوم بن گیا۔18ویں صدی کے آخری عشرے انگلینڈ میں صنعتی انقلاب آیا اور ہاتھوں سے تیار کی جانے والی اشیاء نئے طریقوں سے مشینوں سے تیار کی جانے لگیں۔1850میں صنعتی انقلاب امریکہ میں مضبوطی سے قائم ہو چکا تھا۔ 1865 سے 1 9 18 کے درمیان یورپ سے تقریبا پونے تین کروڑ (27.5 ملین) امریکہ آئے جس سے صنعت اور زراعت کو مزید فروغ ملا۔انیسویں صدی کے اختتام تک ریاستہائے متحدہ کی ایک اہم عالمی صنعتی طاقت بن چکی تھی جس میں نئی ٹیکنالوجی جیسے ٹیلیگراف، سٹیل، ریلوے کا توسیعی نیٹ ورک، کوئلہ، لکڑی، تیل اور کھیت کی کھدائی جیسے بہت سے قدرتی وسائل پر تعمیری کام ہوئے۔آج کا سٹیل اور کنکریٹ سے بنا امریکہ قدرت سے کٹا ہوا نظر آتا ہے اور یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ تین ،چار سو سال میں امریکہ میں کتنی تبدیلیاں آئی ہیں۔مختلف قوموں کے افراد کے اس معاشرے کے ملاپ نے امریکہ کو نمایاں برتری پر مبنی نفرادیت عطا کی ہے۔ امریکہ میں لوگ اچھے مستقبل، مذہبی آزادی کی تلاش میں آئے اور کئی زبر دستی غلام بنا کر لائے گئے۔یوں پانچ سو سال پہلے کولمبس کے ہاتھوں امریکہ کی دریافت کے بعد امریکہ نے دنیا کے ہر شعبے میں ترقی کے نئے ریکارڈ قائم کرتے ہوئے امریکہ کو دنیا کی سپر پاور بنا دیا ۔شہریوں کی آزادی اور ان کے حقوق کی بالادستی کے امریکی تصور نے دنیا بھر کے لوگوں میں شہریوں کی آزادی اورحقوق کے حوالے سے امید کی شمع روشن کی ۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 698456 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More