قربانی اسلام کا عظیم درس اور فلسفۂ ایثار وجاں نثاری

قربانی کا حکم دے کر اسلام نے انسانی فلاح و بہبود کا سامان کیا۔ اس کے مقاصد پر غور و فکر کیا جائے تو کئی اہم پہلو سامنے آتے ہیں، جن سے ایک انسان کی زندگی کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے۔ اسلام نے محبت و اخوت اور مروت کی جو تعلیم دی اسی کی تجدید ہر سال قربانی کے ذریعے ہوتی ہے۔ انسانی نفس کی پاکیزگی و فلاح کا جو درس قربانی سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم جانور کی قربانی کر کے اپنے نفس اور بے جا خواہشات کو قربان کر دیں۔ اپنے رب کی رضا اور آقاے دوجہاں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی خوشنودی کے لیے اپنی زندگی گزاریں۔ لیکن! افسوس کہ مغربی کلچر اور یورپی تمدن نے ہمارے معاشرے سے وہ رونق ختم کر دی ہے جو ہماری سوسائٹی کا امتیازی وصف تھی۔ ہم مسلمان ہیں لیکن اسلامی احکام پر عمل کے لیے وہ جذبۂ جنوں خیز نہیں جس سے ہمارا وقار بلند تھا، جب کہ قربانی نے اسی اسلامی معاشرے کی تعلیم دی جس میں ایک دوسرے کے حقوق کے لیے جذبۂ قربانی بیدار ہو اور انسانیت فلاح پائے۔

قربانی کا موسم بہار سایہ افگن ہے۔ ان مبارک ایام میں اﷲ کریم کی بارگاہ میں سوائے قربانی کے کوئی عمل اس قدر مقبول و پسندیدہ نہیں۔ ذرا غور کریں! کیا حکمتِ الٰہیہ ہے قربانی میں کہ ان ایام میں دوسرے اعمال صالحہ اس کا بدل نہیں، در اصل یہ دستورِ قدرت رہا ہے کہ حق کے فروغ اور اشاعت کے لیے قربانیوں کی بساط سجائی گئی ہے۔ سچ کے مقابل ہر دور میں باطل قوتیں یک جا ہو کر آئی ہیں۔ قربانی کے ذریعے مسلمانوں نے حق کی حفاظت کی، فتح و نصرت سے ہم کنار ہوئے۔ جانور کی قربانی اپنے رب کی رضا کے لیے کرنا اسلام کے لیے جاں نثاری کا پیغام ہے۔آج ہزاروں باب کھلے ہیں جو ہم سے قربانی کا مطالبہ کرتے ہیں، ہزاروں مسائل ہیں، ہر فیلڈ میں بہ حیثیت مسلمان ہمیں قربانیوں کے لیے تیار رہنا ہے، نفس و مال کی قربانی، وقت و صلاحیت کی قربانی اور اسلام کے لیے جب وقت آئے تو اپنی جان کی قربانی بھی پیش کر دینا چاہیے۔

غریبوں سے ہم دردی:
اسلام نے قربانی کے درس میں غریبوں کے حقوق کا بھی خیال رکھا۔ غریب ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں، انھیں فراموش کر دینا انسانیت نہیں۔ ان کے بھی حقوق ہیں۔ اسی لیے قربانی کے گوشت میں غربا کا خیال رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ وہ بھی ہمارے ساتھ خوشی منائیں۔ اﷲ کی نعمتوں سے مالا مال ہوں۔ وہ بھی معاشرے کے استحکام میں شریک ہوں۔ اور ان سے ہم دردی کا یہ سلسلہ پھر اس درسِ قربانی کے ساتھ دراز ہوتا ہے کہ ان کے حقوق کا خیال پورے سال رکھا جائے۔

اسلام کے لیے جذبۂ صالح:
اسلام ہی دین حق ہے، حق کی اشاعت ہماری ذمہ داری ہے،جب بھی اسلام اور ناموس رسالت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر حملہ ہو، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے گلشن اسلام کو تازگی عطا کی جائے۔ قربانی کا یہ درس در اصل اسلام کی حفاظت کے لیے فکر کی تطہیر کا سامان فراہم کرتا ہے۔ ہم اپنے لیے بہت کچھ کرتے ہیں لیکن جس مذہبِ حق نے ہمیں فیض بخشا، ہمیں آخرت کی کامیابی کی خوش خبری دی، اس پر جب بھی وقت آئے تو کیا ہم اپنی جان، اپنے مال، اپنی عزت، اپنی شان و شوکت کی قربانی نہیں دے سکتے؟…… یاد رکھیں! ہر دور کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں،جس دور میں جیسے ذرایع رائج ہوں انھیں شریعتِ اسلامی کی روشنی میں پرکھ کر اشاعتِ اسلام کے لیے بروئے کار لانا چاہیے، آج ہمارے تمدن پر حملہ ہے، ہماری شناخت پر حملہ ہے، ہماری وضع قطع پر حملہ ہے تو کیا ہماری یہ ذمہ داری نہیں کہ ہم جدید ذرایع استعمال کر کے ان حملوں کا دنداں شکن جواب دیں! اس کے لیے ہمیں قربانی دینی ہو گی، اسلاف کرام کی راہوں پر چلنا ہوگا، تاریخ اسلامی کی عظیم شخصیات نے ہمیں قربانیوں کا جو درس دیا ہے اس کی روشنی میں آگے بڑھنا ہوگا، ہمارے سامنے حضرت امام غزالی، حضرت غوث اعظم، حضرت خواجہ غریب نواز،حضرت شہاب الدین سہروردی، حضرت نجم الدین کبریٰ، حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی، حضرت شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی، امام احمد رضا بریلوی کی مقدس زندگیاں اور ان کی قربانیاں مشعلِ راہ ہیں۔ انھیں کے نقوش کو اپنا لیا جائے تو اسلام کے مثالی معاشرے کے قیام کے لیے قربانی کا جذبۂ صادق بیدار ہوجائے گا۔ اور اسلام کا گلشن سر سبز و شاداب ہو جائے گا، شرط ہے اسلامی احکام پر عمل کی، اسلام کے لیے جذبۂ قربانی پیدا کرنے کی۔

اطاعت و جاں نثاری کا درس:
آج عزمِ ابراہیمی درکار ہے۔ اطاعت و جاں نثاریِ حضرت سیدنا اسماعیل علیہ السلام شجاعت کا استعارہ بن چکی ہے، عید قرباں پر بارگاہِ الٰہی میں قربانی کے ذریعے ہم اس درس کی تجدید کرتے ہیں جو عرب کے ریگ زار میں اﷲ کے سچے پیغمبر نے اپنے فرزند کی قربانی پیش کر کے وفا شعاری کا عزم دیا، اور رب کریم کی اطاعت و فرماں برداری کا درس دیا، پھر عزم جواں چاہیے جس سے اسلام کی فصیل کو اندرونی و بیرونی حملوں سے بچانے کا سامان مہیا ہو سکے۔ کیا ہم اپنے زخموں سے با خبر ہیں؟عراق و افغان تباہ ہو کر رہ گئے، فلسطین میں خونِ مسلم کی ہولی کھیلی جاتی رہی، مصر و لبنان، شام و یمن اور لیبیا صہیونیت کی زد پر ہیں، ہمارے کلچر کو مغرب دوخانوں میں تقسیم کر رہا ہے، تعبیرات کا یہ طلسم اس کی مثال ہے……اعتدال پسند اور انتہا پسند،لیکن مسلمان مسلمان ہے وہ ان صہیونی تعبیرات سے اپنی شناخت کو مجروح ہوتا نہیں دیکھ سکتا…… دنیا کے بہت سے خطے خونِ مسلم سے لہولہان ہیں، اسلامی ممالک میں باہم اتحاد نہیں، عربوں کا سرمایہ سوئیس بنکوں میں منتقل ہو رہا ہے، معاشی طور پر مسلمانوں کو تباہ کر کے رکھ دیا گیا ہے، سیاسی لحاظ سے بھی ہم کم زور کر دیئے گئے، عرب حکمراں اسلامی آثار کو ہی پامال کرتے جا رہے ہیں،آج اسلامی تمدن پر حملہ ہے، اسلامی وضع قطع پر حملہ ہے، داڑھی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، کیا ہم اب بھی نہ جاگیں گے…… کیا قربانی کے لیے جذبۂ صالح اب بھی بیدار نہیں ہوگا؟ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے نفس کی قربانی دے کر اسلامی زندگی کا عہدکریں۔ ہم اپنے مال کی قربانی دے کر باطل کے خلاف صالح لٹریچر کی اشاعت کریں، ہم گستاخوں کے مقابل ڈٹ کر عشق رسول کے داعی بن جائیں، ہم عزم ابراہیمی سے فیض حاصل کر کے قوم کے لیے کچھ جدوجہد کریں۔

قربانی کا مقصد یہ ہے کہ رب کی رضا کے لیے جیو، زندگی گزارو اپنے خالق کی خوشنودی کے لیے، جہاں رہو جس حال میں رہو اسلام کے سچے وفادار بن کر رہو، اسلامی احکام پر عمل کرو، اسلامی تہذیب اپنا کر زندگی کامیاب بناؤ۔ یہی ہمارا مقصد ہو کہ ہمارا ہر لمحہ اطاعت الٰہی اور محبت رسالت پناہی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں گزرے ۔ ہمارا ہر عمل اسلام کے مطابق ہو، شریعت پر ہو، شریعت کے خلاف جتنی راہیں ہیں سب سے دور و نفور رہیں، اور اس کے لیے عزم محکم درکار ہے:
آج بھی ہو جو براہیم سا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
٭٭٭
 

Gulam Mustafa Razvi
About the Author: Gulam Mustafa Razvi Read More Articles by Gulam Mustafa Razvi: 277 Articles with 255486 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.