ماہ ذی الحجہ اسلام کا اہم ترین مہینہ ہے جسمیں مسلمان
وحدت ،یکجہتی،یگانگت کا عملی مظاہرہ حج کی صورت میں کرتے ہیں،ساری دنیا کے
مسلمان ایک لباس ،ایک نعرۂ مستانہ لبیک اللھم لبیک بلند کرتے ہوئے کرہ ارض
کے سب انسانوں کو پیغام دیتے ہیں کہ ہماری زبانیں، رنگ ،قومیں جدا جدا ہونے
کے باوجود ہم ایک اﷲ ،ایک قرآن ،ایک نبی (حضرت محمد ﷺ) ایک اسلام کو ماننے
والے یک جان ویک قالب ہیں ۔اﷲ کے رسول ﷺ کے فرمان کامفہوم ہے کہ جس شخص نے
اﷲ کو راضی کرنے کیلئے بیت اﷲ کا حج کیا اس میں گناہوں سے بچا رہاتو اس کے
گناہ اس طرح معاف کردئیے جاتے ہیں جیسے ایک بچہ اپنی ماں کے پیٹ سے گناہوں
سے پاک پیدا ہوتا ہے۔حج کے عمل میں ایک رکن قربانی بھی ہے ہر حاجی جانور کی
قربانی کرتا ہے ۔قربانی کا عمل حج تک محدود نہیں ہے بلکہ جس شخص
پرقربانیلازم ہو جائے تووہ اسے ہر حال میں ادا کرے، اگر ایک شخص پر قربانی
لازم ہوگئی اس نے قربانی نہ کی تو گناہ گار ہوگا ۔آج کے پرفتن دور میں کچھ
پڑھے لکھے جاہل یہ بات عام کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ قربانی صرف حج کرنے
والوں پر لازم ہوتی ہے دوسرے لوگوں پر نہیں ،ایسے لوگوں کا کہنا ہے کہ اتنے
مہنگے جانور خریدنے کا کیا فائدہ یہ رقم غریبوں میں تقسیم کردی جائے تو
غربت کا خاتمہ ہوجائے ۔ایسے لوگوں کی خدمت میں احترام کے ساتھ گذارش ہے کہ
قربانی جس شخص پر لازم ہے اگر وہ قربانی نہیں کرے گا تو قابل گرفت ہوگا۔دور
نبویﷺ میں صحابہ کرامؓجانوروں کو خرید کر سارا سال پال کر موٹا تازہ کرتے
اورذی الحجہ کے مہینہ، عید الضحیٰ کے موقعہ پر قربانی کی جاتی تھی ۔قربانی
کے عمل کوصرف حج کے ساتھ ہی منسلک کرکے عام لوگوں کو اس سے بری الذمہ
قراردینا سراسر جہالت ہے ۔مسلمان ایسے پڑھے لکھے جاہلوں کے چکرمیں نہ آئیں
کیونکہ عیدالضحیٰ کا سب سے اہم عمل قربانی ہے جسے صاحب استطاعت لوگوں پر
لازم قراردیا گیا ہے ۔
قربانی کے موقعہ پر مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اﷲ کے اس فرمان کے مفہوم کو
اپنے ذہن میں رکھیں کہ تمہارے جانور کا خون،گوشت اﷲ کے پاس نہیں پہنچتا اگر
تمہارا کچھ اﷲ کو پہنچتا ہے تو وہ تمہارا تقویٰ ہے ۔یعنی قربانی کرتے وقت
یہ ذہن میں پورے اخلاص کے ساتھ رہے کہ یہ قربانی میں خالص اﷲ ورسول ﷺ کی
رضا کیلئے کر رہا ہوں تاکہ میرا خالق اﷲ رب العزت اس حکم کی تعمیل پرمجھ سے
راضی ہو جائے ۔اگر دل میں ذرا سا بھی خیال پیدا ہوگیا کہ فلاں شخص کو خوش
کرنے یا دکھانے کیلئے یہ عمل کر رہا ہوں تو یہ نیک ترین عمل ضائع ہو جائے
گا ،گوشت کے سوا کچھ نہیں ملے گا آج تو جانوروں کے نام اداکاروں کے نام پر
رکھے جاتے ہیں جو ناصرف ناجئز بلکہ قربانی کی توہین کے مترادف ہے ۔اسلام کے
فلسفہ ٔ قربانی اور سائنس پر غور کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے ،انسانی
جسم کیلئے سال میں ایک بار گوشت کا استعمال لازم ہوتا ہے ۔اﷲ تعالیٰ نے
قربانی کا حکم کرکے ان غریب مسلمانوں کا بھی خوب خیال رکھا جو سارا سال
گوشت نہیں کھا سکتے ۔ اسی لئے اسلام نے قربانی کرنے والوں کو حکم دیا ہے کہ
قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں ایک اپنے گھر کیلئے ،دوسرا رشتہ داروں
کیلئے اور تیسرا غرباء کیلئے ۔ قربانی کا گوشت تقسیم کرتے وقت ہمیں گوشت کے
تین حصے کرنے چاہیں تاکہ معاشرے کے تمام طبقات خصوصا ً غرباء تک گوشت کی
رسائی ممکن ہو سکے ۔بعض لوگ سارا گوشت اپنے پاس رکھ لیتے ہیں کسی کو نہیں
دیتے یہ دلیل پکڑتے ہیں کہ اسلام کا حکم ہے کہ اگر گوشت کم ہے تو اپنے پاس
رکھ لیں،کم کی مقدار ایسے لوگوں کے کہاں اپنے ذہن کے مطابق ہوتی ہے ۔حکم تو
یہ ہے کہ اگر جانور کا گوشت اتنا کم ہو کہ آپ کے گھرانہ بڑی مشکل سے پورا
ہورہا ہے تو جائز ہے لیکن ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ فریزرز گوشت سے بھر لیں
اور کہیں ہمارے گھر کیلئے یہ ناکافی ہے ۔ ہاں جن کا واقعی گوشت کم ہے وہ
سارا گوشت اپنے گھر رکھ سکتے ہیں، اگر کوئی اخلاص کے ساتھ مشاہیر اسلام کی
سنت پر عمل کر تے ہوئے اسے بھی غرباء میں تقسیم کردے تو اس کا اجر اﷲ تعالیٰ
انھیں بڑھا چڑھا کر اپنی شان کریمی کے مطابق دیں گے ۔
قارئین کرام !فلسفہ ٔ قربانی کا ایک پہلو جہاں غرباء کو خوشیوں میں شامل
کرنا ہے وہیں ہی یہ بھی فلسفہ ٔ قربانی میں شامل ہے کہ اپنی محبوب ترین
چیزاﷲ کے راستے میں خرچ کردو ۔ایک مرتبہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر
ہو اس نے عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ میں ایک غریب آدمی ہوں میرا ہمسایہ جو آپ ﷺ
کو ماننے والا ہے (درحقیقت وہ منافق تھا)اس کے گھر میں ایک کھجور کا درخت
ہے جس کی کچھ شاخیں میرے گھر میں لٹکی ہوئی ہیں بچے کھجوریں توڑ کر کھاتے
ہیں تو وہ برے اخلاق کے ساتھ پیش آتا ہے اسے سمجھائیں ایسا نہ کیا کرے ۔اﷲ
کے رسول ﷺ نے اس شخص کو بلایا ، رسول اﷲ ﷺ نے اس منافق سے فرمایاکہ تم اپنے
گھر میں لگی کھجور قیمتاً مجھے دے دو تو اس منافق نے کہا کہ یارسول اﷲ ﷺ یہ
کھجور کا درخت مجھے اور میرے بچوں کو بڑا محبوب ہے اور اس پر گزر اوقات بھی
کرتے ہیں لہٰذا اسے میں آپﷺ کو نہیں دے سکتا ۔جب وہ منافق مجلس سے اٹھ کر
گیا تواسی مجلس میں بیٹھاایک صحابی رسول ؓسیدھا اس منافق کے پاس گیا اور
کہنے لگا کیا تم کھجور کا درخت فروخت کرو گے؟ تو منافق نے کہا کہ تم اپنا
سارا قمیتی ترین باغ مجھے دے دو تب میں ایک کھجور کا درخت تمہیں دوں گا تو
وہ صحابی ؓ خوشی سے جھوم گئے اور کہا مجھے یہ منظور ہے ۔صحابی رسولؓ با غ
کے دروازہ پر کھڑے ہوکر اپنی بیوی بچوں کو آواز دیتے ہیں کہ میں نے باغ
فروخت کردیا باہر آجاؤ اس صحابی ؓ کی بیوی اور بچے باغ سے باہر آئے اور
سیدھے گھر چلے گئے ایک کھجور کے بدلے باغ اس منافق کو دے دیا اور سیدھے نبی
رحمت ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کرتے ہیں کہ یارسول اﷲ ﷺ وہ
کھجور کا درخت میں نے خرید لیا ہے اب میں آپ ﷺ کو تحفہ کے طور پر پیش کرتا
ہوں ،حضور ﷺ نے استفسار فرمایا تو عرض کیا یارسول اﷲ ﷺ ایک درخت کے بدلے
سارا باغ دے دیا کیونکہ آپ ﷺ کی خواہش تھی جسے میں پورا کرنا ضروری سمجھتا
تھا تو اﷲ کے رسول ﷺ اس عمل پر بہت خوش ہوئے اور فرمایا تمہارے اس عمل کی
وجہ سے اﷲ تعالیٰ تم سے خوش ہوگیا ۔مسلمانوں کو چاہیے کہ عید قربان پر
صحابی ؓ کے اس عمل کو ذہن میں رکھ دل کھول کر گوشت غرباء میں تقسیم کریں ۔
قربانی کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ انسان خود کو اﷲ تعالیٰ کے سامنے
سرنگوں،سرنڈر کردے۔حضرت سیدناابراہیم ؑ اور ان کی فرزند ارجمند حضرت سیدنا
اسماعیل ؑ نے جب خود کو اﷲ کے حکم کی تعمیل میں سرنڈر کردیا ،باپ بیٹے کو
قربان کرنے اور بیٹا خوشی سے قربان ہونے کو تیار ہوگیا تو قدرت خوشی سے
جھوم اٹھی ان نفوس قدسیہ پر فخر کرتے ہوئے ملائکہ،جن وانس سے ہم کلام ہوکر
فرمایا کہ اے مخلوقات کل !دیکھو،ذرا غور سے دیکھو میں اﷲ نے حضرت انسان کو
اس لئے پیدا کیا تھا کہ خواہشات ہونے کے باوجود وہ خود کو میر سامنے سرنڈر
کئے ہوئے ہے۔راقم کے نزدیک قربانی کا سب سے بڑا،اہم ترین فلسفہ یہی ہے کہ
انسان اپنے خالق ومالک اﷲ رب العزت کے سامنے ہر لمحہ خود کو سرنگوں رکھے
۔آئیے عیدالاضحی کے اس اہم ترین پیغام کو اپنے اذہان وقلوب میں جگہ دیں اور
عزم صمیم کریں کہ ہم مسلمان اپنی ریاستوں میں قرآن کو آئین قرار دے کر اﷲ
کے حکم کو پورا کریں گے اﷲ کی زمین پر اس کا نظام خلافت قائم کریں
گے،حکم،قانون صرف اﷲ ہی کا مانیں گے اﷲ کے علاوہ اگر کوئی شخص اﷲ کے مقابلے
میں قانون لائے گا ہم اسے کسی صورت نہیں مانیں گے ،ہماری زندگی کی زینے
قرآن وسنت کے غلام رہیں گے۔اگر ہم نے عزم پر کاربند رہنے کا اﷲ سے وعدہ
کرلیا تو ہماری زندگیوں میں ایک انقلاب پیدا ہوجائے گا جو اس زمین کو جنت
کا ٹکڑا بنا کر انسانیت کے جذبات کی ترجمانی کریگا۔
راقم کی نظر میں عید کاسب سے اہم پیغام یہ ہے کہ اپنی خودساختہ خواہشات کو
پورا کرنے کی خاطر اﷲ کے بندوں کا قتل عام کرنا بہت بڑا جرم ہے اس جرم عظیم
کو خود سے دور رکھنا ،اس سے پاک کرنا لازم وملزوم ہے یہ وہ قربانی ہے جو
انسانیت کا قتل عام کرنے والوں کو دیناہوگی۔ اس کوقعہ پر ایسے طاقتوں اور
گروپوں کو عزم کرنا چاہیے ہم احکامات الٰہی کے مقابلے میں خود کا اﷲ نہیں
بنائیں گے۔کیونکہ اﷲ تعالیٰ کسی بے گناہ انسان کو قتل کرنے کی اجازت نہیں
دیتا ۔خود کش حملے،بم دھماکے کرنے والوں کے نام حضرت ابراہیم ؑ کے ماننے
والوں کا پیغام ہے کہ انسانیت کا قتل بند کرکے انسانوں کو جینے کا حق
دو۔زمین پر فساد پھیلا کر فسادی نہ بنو،انسانیت کا احترام کرو تاکہ کرہ ارض
جنت نظیر وادی کا نظارہ پیش کر سکے٭٭٭ |