بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم
فقیر ایک خانقاہی محفل میں حاضر تھا وہاں اختتام پر صاحب سجادہ کے روبرو یہ
بحث چل نکلی کہ انگوٹھی پہننا کیسا ہے اور یہ کہ انگوٹھی کیسی ہونی چاہیے؟……
کسی نے کچھ کہا کسی نے کچھ……ہم سے بھی پوچھا گیا‘ ماشاء اﷲ صاحب ِسجادہ،
صاحب ِعلم و تقوٰی تھے انہوں نے خود شرعی مسئلہ بیان فرما کروہاں موجود
احباب کی تسلی کرادی……فقیر نے سوچا کہ آج کل مسلمانوں میں انگوٹھی پہننے کا
کافی رواج ہو چلا ہے ‘عوام تو عوام بعض علماء و خواص بھی کئی کئی انگوٹھیاں
پہنے نظر آتے ہیں، ایسے میں مناسب رہے گا کہ اس اہم مسئلہ پر عالم اسلام کے
عظیم پیشوا ‘اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ کے ارشادات
سے قارئین کو آگاہ کیا جائے۔
چنانچہ جب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ سے دریافت کیا
گیا کہ مسلمانوں کے لیے تانبے یا لوہے کی انگوٹھی پہننے کا کیا حکم ہے؟ تو
آپ نے فرمایا کہ:
’’ مرد و عورت دونوں کے لیے مکروہ ہے‘‘۔
جب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ سے دریافت کیا گیا کہ
اس کی کیا وجہ ہے کہ چاندی کی انگوٹھی تو جائز رکھی گئی جواس تانبے سے بیش
بہا قیمتی ہے اور تانبے وغیرہ کی مکروہ؟توآپ نے فرمایا کہ:
’’چاندی کی انگوٹھی تذکیر آخرت کے لیے جائز رکھی گئی ہے کہ سونا چاندی
جنتیوں کا زیور ہے‘ تانبے وغیرہ کا وہاں کیا کام ! ‘‘
(پھرمزید فرمایا)…… ایک صاحب خدمت اقدس(سرکار دو عالمﷺ) میں حاضر ہوئے ان
کے ہاتھ میں پیتل کی انگوٹھی تھی‘ (ملاحظہ فرماکر)ارشاد فرمایا:
’’ کیا ہوا کہ میں تمہارے ہاتھ میں بتوں کا زیور دیکھتا ہوں ‘‘
انہوں نے (اُسی وقت) اُتار کر پھینک دی ،دوسرے دن لوہے کی انگوٹھی پہن کر
حاضر ہوئے توحضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ کیا ہوا کہ میں تمہارے ہاتھ میں دوزخیوں کا زیور دیکھتا ہوں ‘‘
انہوں نے وہ بھی اُتار کر پھینک دی اور عرض کیا کہ:
یا رسول اﷲ! میں کس چیز کی انگوٹھی بناؤں ؟
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
’’چاندی کی بناؤ اور ایک مثقال پوری نہ کرو(یعنی ساڑھے چار ماشے سے قدرے کم
رکھو)‘‘
جب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ سے دریافت کیا گیا کہ
انگوٹھی کونسی انگلی میں پہننا چاہیے؟ تو آپ نے فرمایا کہ:
’’ بائیں ہاتھ میں بھی آیا ہے اور دہنے ہاتھ میں بھی، لیکن بہتر یہ ہے کہ
دہنے ہاتھ کی بنصر (یعنی وہ انگلی جو چھنگلیاں کے پاس ہے ) میں پہنے ‘‘۔
جب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ سے دریافت کیا گیا کہ
انگوٹھی کے نگینہ پر کلمہء طیبہ کندہ کرانا کیسا ہے؟ توآپ نے فرمایا کہ:
’’ تبرکاً جائز ہے (اگر ادب و احترام بجا لا سکے تو) اور مہر(اسٹیمپ) کی
حیثیت سے (کندہ کرایا تو) حرام ہے‘‘۔
جب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ سے دریافت کیا گیا کہ
اپنا نام اگر انگوٹھی میں کندہ ہو‘ توبیت الخلاء میں جا سکتا ہے یا نہیں؟
تو آپ نے فرمایا کہ:
’’ نام اگر ایسا زیادہ معظم نہ ہو جب بھی حرفوں کی تعظیم تو چاہیے اور اگر
کوئی متبرک نام ہو تو پہن کر جانا‘ نا جائز ہ ہے، ہاں جیب میں رکھ لے تو
حرج نہیں ‘‘۔ (ماخوذ از: الملفوظ، حصہ سوم، مطبوعہ بریلی، ص:۳)
جب اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمۃ سے دریافت کیا گیا کہ
انگوٹھی میں ایک ہی نگینہ لگائے یا دو تین بھی لگا سکتا ہے؟ تو آ پ نے
فرمایا کہ:
’’مرد کو ساڑھے چار ماشے سے کم وزن کی ایک انگوٹھی ایک نگ کی جائز ہے دو یا
زیادہ نگ حرام کہ زیورِ زنان ہوگیا، جامع الرموز و ردالمحتا رمیں ہے کہ:
چاندی کی ایک انگوٹھی پہننا جائز ہے بشرط یہ کہ مردانہ انگوٹھیوں کی شکل و
صورت پر ہو (نیز اس کا ایک نگینہ ہو) اگر دو یا زیادہ نگینے ہوں تو حرام ہے
‘‘۔ (فتاوٰی رضویہ ،جدید، مطبوعہ لاہور، جلد:۲۴، ص:۵۴۴) |