اک پیر جی تھے وہ ہر ہفتہ اپنے مرید کے پاس بھت کھانے
جاتے تھے‘مرید کی بیوی کو یہ برا لگتا تھا‘ایک دن اس کی بیوی نے اپنے شوہر
سے کہا کہ آپ کا پیر کیسا ہے اذان ہوجاتی ہے مگر پیر جی کو پیٹ سے ہی فرصت
نہیں ملتی‘ کبھی ان سے پوچھو کہ نماز بھی پڑھتے ہو؟ مرید صاحب کو یہ بات
معقول لگی اور پیر جی سے جا کر کہہ دیا٬ پیر جی نے گہرا سانس لیا اور گویا
ہوئے کہ صاحب اس ملک میں ہمارے جوڑ کا کوئی نہیں اس لئے ہم ادھر نماز نہیں
پڑھتے ہم مدینہ میں پڑھتے ہیں- مرید نے کہا کہ میں تو سمجھ سکتا ہوں مگر
میری بیوی نہیں مانے گی- پیر جی نے کہا کہ اس کو کہو کہ میں باہر سے بے
نمازی ہوں لیکن اندر سے پکا نمازی ہوں٬ سارا دن ذکر کرتا رہتا ہوں-
بیوی کو یہ جواب کچھ عجیب سا لگا مگر کچھ کہہ نہ سک٬ پیر جی نے مرید کی
بیوی کے دل کو موہ لینے کیلئے اک منصوبہ بنایا اور کچھ مریدوں کو کہا کہ تم
یہاں سے پانچ میل دور ایک کھنڈر مکان پر جاؤ اور فلاں وقت پر اس مکان کو آگ
لگا دو اور ٹھیک پانچ منٹ بعد آگ بجھا دینا٬ پیر کے سامنے بھت پیش کیا گیا٬
اچانک پیر جی پانی پانی کہنے لگے‘ مرید جی بھاگے بھاگے ایک گلاس پانی لائے٬
پیر جی نے کہا کہ گلاس کا کام نہیں بالٹیاں بھر کے جلدی لے آؤ لہٰذا
بالٹیاں لائی گئیں٬ پیر جی نے وہ بالٹیاں زمین پر بہانا شروع کردیں‘ کچھ
دیر بعد سکون سے بیٹھ گئے٬ مرید جی نے پوچھا کہ آپکو اچانک کیا ہوگیا تھا٬
پیر جی نے فرمایا کہ یہاں سے پانچ میل دور ایک مکان کو آگ لگ گئی تھی٬اسکو
بجھا رہا تھا٬ مرید جی نے سبحان اللہ کہا اور پیر جی پر نثار ہونے لگے‘
بیوی سے کہا کہ تو میرے پیر پر شک کرتی ہے‘ دیکھو میرے پیر کی کرامت ۔بیوی
نے تحقیق کرائی تو وہ واقعی سچ تھا ‘بیوی بھی اتنے لوگوں کا کھانا پکا پکا
کر تنگ آچکی تھی‘آخر ایک بار بھت پکایا اور چینی نہ ڈالی‘ مرید جی بھت شریف
لے کر پیر کے پاس پہنچے اور ادھر مریدنی جی کپڑے دھونے لگ گئی‘ پیر جی نے
بھت ٹیسٹ کیا تو پھیکا تھا مرید کو چینی کا کہا‘ مرید جی بیوی کے پاس گئے
اور پوچھا چینی نہیں ڈالی تم نے‘بیوی کہنے لگی ڈالی ہے شاید ایک جگہ سے
پھیکا ہو‘ دوسری طرف سے کھا کر دیکھیں‘ پیر جی نے دوسری طرف سے بھی ٹیسٹ
کیا تو وہی حال تھا‘اب مرید جی کو اس بات پر غصہ آیا پھر ہونا کیا تھا لال
پیلا ہوکرمرید کی بیوی کے پاس پہنچا اور لڑائی کرنے لگا ادھر بیوی جی کو
بھی اسی وقت کا انتظار تھا‘بیوی نے ڈنڈا اٹھایا اور پیر جی کی طرف لپکی‘
پیر جی نے پوچھا کیا ماجرا ہے‘ کیا ہوا مریدنی ‘کیا ہونا تھا جھوٹے تجھے
پانچ میل دور جلنے والے مکان کا پتہ چل گیا تھا مگر سامنے پڑے بھت کے نیچے
چینی کا پتہ نہیں چل سکا‘ چل بھاگ یہاں سے آئندہ یہاں نظر آیا تو پورے محلے
سے پٹائی کرواؤں گی‘ مریدنی کی چالاکی پر بیچارے پیر کی آنکھیں پھٹی کی
پھٹی رہ گئیں‘ پیر جی نے رومال کندھے پر رکھا اور ہارے ہوئے جرنیل کی طرح
منہ لٹکائے وہاں سے رفو چکر ہونے لگے-
اتنے میں مرید کی بیوی نے اپنے بیٹے سے کہا کہ پیرجی سے کہو کہ جاتے جاتے
میری بھینس کو برکت کی پھونک لگاتے جائیے‘پیر جی کو حیا آگئی پھونک مارنے
کیلے بھینس کے پاس پہنچے تو ششدر رہ گئے‘ ارے یہ کیا یہ تو گدھا ہے بھینس
کدھر ہے بیٹا ؟بیٹا امی سے‘ امی بھینس تو نہیں کھڑی ‘امی جی نے کہا کہ بیٹا
پیر جی سے کہو کہ یہ دیکھنے میں گدھا ہے مگر اندر سے تو بھینس ہے‘ لڑکے نے
جب یہ عجیب بات پیر کو سنائی تو پیر جی نے سرخ آنکھیں نکالتے ہوئے کہا کیا
تم پاگل ہو؟مریدنی جی نے کہا کہ تم اندر سے نمازی ہو سکتے ہو تو کیا گدھا
اندر سے بھینس نہیں بن سکتا۔ |