جناب جسٹس! آپ دکھی کیوں ہوتے ہیں ؟یہ تو الحاد کی قدیم
چال ہے۔
یہ صدیوں پرانی بات ہے،دہائیوں پرانا قصہ۔آپ کے آنسو رائیگاں نہیں جا
سکتے۔یہ میرے رب کا اصول ہے۔وہ اپنی محبوب ہستیﷺ کوان شر پسندوں سے بچا کے
رکھے گا۔جناب جسٹس!آپ نے جو فیصلہ سنایا وہ امت کے دل کی آواز ہے،یہ آپ کے
ایمان کا عکس ہے۔ یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ دنیا پرستوں اور الحاد کے
پجاریوں کوشاید تاطلوع صبح قیامت یہ بات سمجھ نہ آ سکے کہ یہ ؑشق کیا چیز
ہے جو جان کی بازی لگا کر حق ادا نہیں کرپاتا۔ صدیوں پہلے حجاز کا تخت جب
ڈگمگایااور اسلام کی ابدی عظمتوں کے سامنے ہمیشہ کے لیے سر نگوں ہو گیا،تب
بھی عقل کے اندھوں کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی تھی کہ خاک پا ئے رسولﷺ پر جان
کیوں لٹائی جاتی ہے۔جب سچائی اور طاقت کو قدم ملائے ہوئے دیکھ کر وہ لوگ
بھی ایمان لا رہے تھے جو کبھی تنہا سچائی کو اس کے سادہ لباس میں نہ پہچان
سکے تھے ۔سچائی جو کبھی ایک انسان کی آواز تھی تب ہزاروں آوازوں کی
شاندارگرج میں تبدیل ہو چکی تھی۔اس صداسے پورا عرب گونج اٹھا تھا ۔ یہ
آوازتنگ و تا ریک سینو ں اور زنگ خوردہ قلوب تک جا پہنچی تھی ۔ تب بھی شر
کے یہ علمبردار روشنی نہیں دیکھ پاتے تھے ۔جب مکے کے چند ہمسایہ علاقوں پر
وہی اندھیرا چھا یا ہوا تھا وہاں وہی طاقت کا جنون اور انتقام کا بھوت سوار
تھا ۔وہ سچ اور جھوٹ کا فیصلہ دلوں کے بجائے تلواروں اور جھوٹے پراپگنڈے سے
کرنا چاہتے تھے ۔ وہاں کا انسان اب تک یہ بدترین احمقانہ خواب دیکھ رہا تھا
کہ مسلح آدمی خدا سے لڑ سکتاہے؟۔تب بھی یہ بات حیرت انگیز تھی کہ رسول اﷲﷺ
کا ساتھ دینے والے یہ کیسے کہہ دیتے ہیں کی انہیں یہ دنیا نہیں،محمدﷺ کی
صحبت چاہیے،یہاں بھی اور وہاں بھی۔ ٹھیک اس وقت جب زمین و آسمان میں موت کی
آواز سے کہیں پناہ نظر نہ آتی تب بھی آپﷺ کے چاہنے والے آپﷺ کے گر دانسانی
جسموں کی باڑھ بنا کر سینے تان لیتے۔تاریخ بتاتی ہے یہ سینے تیروں،نیزوں
اور تلواروں سے کٹ جاتے ،پیچھے نہیں ہٹتے تھے۔جب تیروں کی گھٹا ٹوپ بوچھاڑ
میں الحادیوں کے دنیا پرست پیروکار بے اختیار منہ پھیر بیٹھتے تھے ۔جب مرگ
ہلاکت کے آدم خورعفریت اپنے جبڑے کھولے ہوئے آگے بڑھتے تھے تب محمدعربیؐکے
جاں ں نثار ٹس سے مس نہ ہوتے تھے۔وہ اس خوفناک طوفان کو پھیلتا بڑھتا
دیکھتے ۔ محمدؐ کو جان سے زیادہ پیار کرنے والے محمدؐکو اکیلا چھوڑکر پسپا
نہ ہوتے اس وقت بھی ان کے دل میں اس جذبۂ یقین کے سوا کوئی شے موجزن نہ تھی
کہ آپ خدا کے بالکل سچے رسول ہیں۔رسالت پر اصحاب کا یقین اس وقت لمحہ بہ
لمحہ ایک جلال کی شکل اختیار کرتا جاتا۔کبھی کسی جنگ میں ایسا ہوتا کہ وقتی
پسپائی کا سامنا ہوتاتب بھی یہ آواز سب کو واپس میدان میں لے آتیـ،جب وہ
زندہ نہیں رہے تو ہماری زندگی کا کیا فائدہ،؟
سوال ہوتا کیا ایک بار پھر جنگ کے طوفان میں وہ قدم جما سکیں گے ؟۔کیا ایک
بار پھر محمدؐکے جاں نثار محمدعربیؐپرپروانہ وار قربان ہونے کے لیے پلٹ
پڑیں گے ؟۔کیا ایک بار پھر احد کا وہ منظرتاریخ دیکھ سکے گی جہاں رسالت کے
اس حسین ترین وجود کو بچانے کے لیے محمدؐکے دیوانوں نے گرتی ہو ئی ننگی
تلواروں کو ہاتھ سے پکڑ لیا تھا اور سینوں کو ڈھال بنا کر ترکش کے ترکش
اپنے سینوں پر خالی کرائے تھے ۔جہاں کمزور عورتوں نے ایمان کے جو ش میں
زخموں سے چُور ہو کر حملہ آور فوجوں پر جست کی تھی ۔جہاں پیغمبرؐکے رخساروں
کی آہنی کڑیاں نکالنے کے لیے فدا کار مرد نے اپنے دانت ریزہ ریزہ کر ڈالے
تھے ۔جہاں رسالت کی شمع پر وجد کرتے ہو ئے پروانوں کو یقینی موت ہزاروں
تیروں اورتلواروں سے ڈرانے کی کوشش میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی تھی ۔جہاں
انسان کے لیے انسانوں کی ایک ایسی گہری عقیدت دکھائی دی تھی جس کے لیے
انسان کی جذباتی زبان میں کوئی بھی لفظ موجود نہیں ۔رسولـﷺنے پکاراتھا۔
اے گروہ انصار!
دائیں طرف سے وہی بے قرارباز گشت سنائی دی’’ہم حاضر ہیں،یا رسول اﷲ ؐ!ہم
حاضر ہیں !‘‘
امام بخاری رحمہ اﷲ نے حضر ت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت نقل کی ہے جب حنین کا
معرکہ ہوا تو ھَوازِن اور غَطَفان قبائل آپﷺ کے مقابلے میں جانوروں،عورتوں
اور بچوں کے ساتھ آکھڑے ہوئے ۔ رسو ل اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار
صحابہ اور مکہ کے نو مسلم تھے ، مقابلہ شروع ہوا توکچھ صحابہ کرام ادھر
ادھر ہوگئے ،اس موقع پر آپﷺ نے دو الگ الگ آوازیں لگائیں ، ، آپﷺنے دائیں
جانب نگاہ فرمائی اور آوا ز دی : او انصار کی جماعت! سب نے بیک آواز جوا ب
دیا : ہم حاضر ہیں یارسول اﷲ! آپ خوش ہو جائیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں ، پھر آپ
ﷺنے بائیں جانب نگاہ فرمائی اور آواز دی :’’او انصار‘‘ انصا ر نے جواب دیا
: ہم حاضر ہیں یارسول اﷲ !آپ خوش ہوجائیں، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے سفید
خچر پر سوار تھے اس سے اتر ے اور فرمایا : میں اﷲ کا بندہ اور اس کا رسول
ہوں۔مشرکین کو شکست ہوئی اور اس دن بہت زیادہ مالِ غنیمت حاصل ہوا، آپ صلی
اﷲ علیہ وسلم نے وہ مال مہاجرین اور نومسلموں میں تقسیم کردیا اور انصار کو
کچھ نہیں دیا ،بعض نوجوان انصار نے کہا: سختی کے وقت تو ہمیں بلایا جاتا ہے
اور مالِ غنیمت دوسروں کو دیا جاتا ہے ! آپ صلی اﷲ علیہ وسلم تک یہ بات
پہنچی تو آپ نے ان کو ایک خیمے میں جمع کر کے فرمایا: اے انصار کی جماعت !
مجھے کیا بات پہنچی ہے ؟ وہ خاموش ہوگئے، پھر آپ نے فرمایا : اے انصار !
کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ لوگ تو دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں
اورتم اﷲ کے رسول کو ساتھ لے کراپنے گھروں کو جاؤ؟ سب آنسوؤں سے رو پڑے :
کیوں نہیں، پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگرلوگ ایک وادی میں چلیں
اور انصار دوسری وادی میں تو میں انصار کی وادی میں چلوں گا ‘‘۔یہاں ایک
رقت تھی جو آنسوؤں کے سیلاب میں ڈھل گئی۔
جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی!
آپ کے سامنے ایک مقدمہ پیش ہوا،حقیقت یہ ہے کہ آپ امتی ہیں اور آپ ہی اس
مقدمے کے مدعی بھی،جج بھی وکیل بھی۔آپ نے سچ کہا اوریہی کہنا بھی چاہیے۔یہ
جاہ وجلال یہ مال و زر،یہ منصب اسی ذاتﷺ سے تعلق کی دین ہیں جن کے اشارے پر
لوگ جان نچھاور کرتے آئے ہیں۔ایسے مقدمے کی سماعت میں اگر واقعی آپ کو نیند
آجاتی تو تو لوگوں کو حیرت ہوتی۔جناب شوکت عزیز صدیقی اﷲ کی آپ پر رحمت
ہو،آپ نے اپنے فیصلے میں کیا خوب لکھا،
حقیقت یہ ہے کہ میرے روبرو ایک ایسا مقدمہ پیش کیا گیا ہے کہ جس کی تفصیلات
نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیئے ۔ آنکھوں کی اشک باری تو ایک فطری تقاضہ تھا،
میری روح بھی تڑپ کر رہ گئی۔اس مقدمے کی سماعت کے دوران اپنے دل و دماغ پر
گزرنے والی کیفیت الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں ۔ قانون کے طلبہ کی نظر
میں ایک جج کی ایسی کیفیت کچھ نرالی تصور کی جاتی ہے اور یہ خدشہ رہتا ہے
کہ جذبات میں شاید انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے لیکن یہ مقدمہ اپنی
نوعیت کے اعتبار سے ذرا مختلف ہے کیونکہ اس مقدمہ میں مجھے کسی فریق کے
ذاتی جھگڑے یا حق کا تصفیہ نہیں کرنا بلکہ عدالت کو اپنے نظر ثانی کے
اختیار کو استعمال کرتے ہوئے ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بقاء ،
سلامتی اور تحفظ کے ضمن میں اپنی آئینی و قانونی ذمہ داری کو پوراکرنا ہے
۔اس مقدمے کی سماعت کے دوران یہ احساس بھی دامن گیر رہا کہ خود آقائے دو
جہاں رسول پاک ﷺکی ذاتِ گرامی مجھ سمیت ہر کلمہ گو سے یہ سوال کر رہی ہے کہ
جب اﷲ رحیم و کریم ، میرے اور میرے اہل بیت ، برگزیدہ صحابہ کرام اور امہات
المومنین رضوان اﷲ علیھم اجمعین کے متعلق غلیظ ترین الفاظ، بے ہودہ ترین
ویڈیوز، واہیات ترین خاکے اور بدترین پوسٹس انتہائی ڈھٹائی ، دیدہ دلیری
اور تواتر کے ساتھ سوشل میڈیا کے توسط سے پھیلائی جا رہی ہیں تو تمہیں نیند
کیسے آرہی ہے ؟تمہاری سانسوں کی آمد و رفت کا تسلسل کیسے برقرار ہے ؟تمہاری
زندگی میں روانی ، تمہاری شب و روز میں چین و سکون اور تمہارے معاملات میں
توازن کیسے قائم ہے ؟اس مقدمے نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا
سوشل میڈیا پر ایسے گھٹیا ، شرم و حیا سے عاری اور تمام اخلاقی حدود سے
ماوراء پھیلائے گئے تحریری ، تصویری اور بصری مواد کی موجودگی میں ہم شافع
محشر ،ﷺ، ساقی کوثر ﷺ، سرور انسانیت ﷺکو قیامت کے روز کوئی عذر پیش کرنے کے
قابل ہوں گے ؟جو مواد میرے سامنے پیش کیا گیا اس کو دیکھ کر غلیظ، بے ہودہ
اور بے شرم جیسے الفاظ بہت ہی حقیر محسوس ہوتے ہیں ، بالعموم ہم عدالتی
فیصلے تحریر کرتے وقت ایسے الفاظ سے گریز کی راہ اختیار کرتے ہیں لیکن اس
فیصلے کے حالات و واقعات کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ میں اپنے آپ کو صورت ِ حال
کی وضاحت کے لیے بادل نخواستہ ایسے نا مطلوب الفاظ کے استعمال پر مجبور
پاتا ہوں ۔میر ا ضمیر اور قلم اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں وہ مواد اس
فیصلے میں نقل کروں چونکہ ایسا کرنے سے گستاخانہ مواد کو تحفظ ملنے کا خدشہ
اور تاریخ کا حصہ بن جانے کا احتمال ہے ۔لہٰذا اس مقدمے میں بطور استشہارد
یا بطور حوالہ اُس مواد کو نقل کرنے سے اجتناب میں ہی حکمت پنہاں ہے۔
بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر اس مواد کو ایک شرم ناک مہم کے ذریعے تواتر کے
ساتھ پھیلایا گیا ہے اور سوشل میڈیا سے منسلک افراد جو کہ بلاشبہ کروڑوں کی
تعداد میں ہیں،اس مکروہ فعل سے آگاہ ہیں ۔اس گستاخانہ مواد نے کروڑوں
مسلمانوں کے دلوں کو بجا طور پر اضطراب اور غم و غصے کی آگ سلگا دی ہے اور
ان کی قوت برداشت اور صبر کا پیمانہ چھلکنے کو ہے ، ان کے ایمان و عشق کے
جذبات پر ایسی کاری ضرب لگائی گئی ہے کہ ان کا جگر چھلنی اور روح گھائل
ہے۔ان کے احساسات کو اس بری طرح سے مجروح کیا گیا ہے کہ وہ خود کو بے بسی
کے عالم میں ایک مجرم سمجھنے لگے ہیں ۔ایسے نازک حالات میں یہ عدالت ایک
خاموش تماشائی کا کردار ادا کرنے سے قاصر ہے ۔یہ عدالت اپنی نوجوان نسل کو
جو لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں سوشل میڈیا سے وابستہ ہے،بے بسی ، مایوسی ،
پریشانی ، اضطراب اور احساس ندامت کی ایسی بھیانک دلدل میں نہیں دھکیل سکتی
جہاں وہ خود کو ایسے نامراد اور بد بخت گستاخان کے خلاف کوئی قانونی اقدام
اور کاروائی کرنے سے مایوس پاتے ہوں ۔عدالت خلاء میں سفر کرنے والے کسی
سیارے کا نام نہیں ، بلکہ ایک ایسے حکیم کی مانند ہے جو معاشرے کی نبض شناس
ہو ۔ یہ عدالت پاکستانی عوام کی توقعات اور عزم جو دستور پاکستان میں ایک
عمرانی معاہدہ کی حیثیت سے عیاں ہے ، سے پوری طرح واقف ہے ۔دوران سماعت
مقدمہ ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت عالیہ کا ایک جج ہونے کی حیثیت سے
یہ فکر بھی میرے دامن گیر رہی کہ اس مقدمے کی سماعت میں کسی قسم کی کوتاہی
میرے اس حلف کو بھی داغ دار نہ کردے جو میں نے دستورِپاکستان کے تحت اﷲ اور
اس کے رسول کو گواہ بنا کر لیا ہے ۔لہٰذا اس مقدمے میں پوری کوشش کی گئی ہے
کہ حتی المقدور اس تمام عوامل کا تدارک اور سدباب کیا جا سکے اور ایسے تمام
راستے مسدود کیے جا سکیں جن کے ذریعے چند عاقبت نا اندیش ،نبی ﷺ مہربان
حضرت محمدمصطفیﷺکی ذات اقدس پر حملہ آور ہو رہے ہیں ۔
جناب جسٹس!یہ سچ ہے کہ مسلمان جان دے سکتا ہے اپنے نبی کی شان میں گستاخی
برداشت نہیں کرسکتا۔ آپ نے فیصلے میں جو لکھا ہے وہ امت کے دل کی آواز
ہے،یہ آپ کے ایمان کا عکس ہے۔ یہ آپ کا کسی پر احسان بھی نہیں اس لیے کی کل
آپ جب انسانیت کے محسنﷺ کے درپر جائیں گے تو سرخروئی بھی آپ کا مقدر ہو
گی۔یہ دنیا کی زندگی تو بس لعوولعب ہے۔یقین رکھیے آپ اپنا توشہ بنا چکے۔رہی
اس جان کی بات تو یہ آنی جانی شے ہے۔اپنے بزرگ نعیم صدیقی کا وہ شعر یاد
رکھیے۔
یہ ملت احمد مرسل ہے اک شوق شہادت کی وارث
اس گھر نے ہمیشہ مردوں کو سولی کے لیے تیار کیا |