کچھ عرصہ پہلے تک جب راقم سمیت چند اور صحافی حضرات شریف
خاندان میں شدید اختلافات کی بات کرتے تھے تو لوگ اسے مبالغہ آرائی پر
محمول فرماتے تھے مگر این اے 120کی انتخابی مہم نے کچھ بھی پردہ اخفا میں
نہیں رہنے دِیا۔نام نہاد ساجھے کی یہ ہانڈی چوراہے میں پھُوٹ پڑی ہے۔ حمزہ
شہباز اس ساری مہم میں دُور دُور تک نظر نہیں آ رہا۔ اور آئے بھی کیوں،
نواز شریف اور اس کے خاندان کی سیاسی موت حمزہ کے سیاسی کیریئر دوڑمیں ایک
لمبی جست کی حیثیت رکھتی ہے۔ شہباز شریف صاحب بھی ہواؤں میں اُڑے پھر رہے
ہیں۔حالانکہ اُن کا اپنا مستقبل بڑے بھائی کے ہولناک مستقبل سے کچھ زیادہ
مختلف دکھائی نہیں دے رہا۔ پُرانے دبے دبائے کیسز کا ایک انبار نئے سرے سے
کھُلنے کو ہے۔ حدیبیہ پیپر ملز، میٹرو بس، بجلی کے پراجیکٹس، ماڈل ٹاؤن قتلِ
عام اور سبزہ زار میں سینکڑوں کی تعداد میں ماورائے عدالت ہلاکتیں یہ سب
شہباز شریف کے گلے کا پھندہ بننے جا رہا ہے۔ سبزہ زارسے جُڑے کیسز کے
ہولناک حقائق کی بناء پر اگر عدالتی ٹرائل ہو جائے تو یقیناً شہباز شریف کا
مستقبل بھی ہولناک ثابت ہو گا۔ سبزہ زار کی بیشتر ہلاکتوں کا بیان سُن کر
ہر حساس دِل شریفوں کے ادوارِ اقتدار کی سفاکی اور بہیمیت کے ننگے پن پر
بِلک بِلک کر رو پڑے۔ ایسی ہی ایک ان کہی کہانی آج بیان کی جاتی ہے۔
1996ء سے 1999ء تک کا عرصہ، جب نواز شریف پاکستانی کی تاریخ کے بدترین
سیاسی آمر کا رُوپ دھار چُکا تھا۔ اِدھرصوبہ پنجاب میں شہباز گردی اپنے
پُورے عروج پر تھی۔ سیاسی مخالفین کو چُن چُن کر انتقام کا نشانہ بنایا جا
رہا تھا۔ دیگر تمام سیاسی جماعتوں کا گراس رُوٹ انفراسٹرکچر ختم کرنے کے
لیے سرکاری سرپرستی میں غنڈہ گردی کو رواج دِیا گیا۔ شریفیہ آمریت کو ابدیت
بخشنے کے لیے تعلیمی اداروں کو غنڈوں اور کرائے کے قاتلوں کی نرسری میں بدل
دیا گیا۔ اس دور میں طالب علم رہنماؤں کے رُوپ میں سینکڑوں کی تعداد میں
مسلم لیگ کے گلو بٹ تیار کیے گئے۔ ان کے اپنے ہی تیار کیے گئے بچے جمورے
ہاتھ سے نکلنے لگے، بھتہ خوری، قتل و غارت اور املاک پر قبضے جمانے لگے۔
میڈیا میں خاصا شور شرابا ہوا تو اپنے ہی پالے ہوؤں میں سے کئیوں کو پولیس
کے ذریعے جعلی پولیس مقابلوں میں پار کروایا گیا۔ بھولی عوام خوش ہونے لگی
کہ دیکھو شہباز شریف نے کیسے غنڈوں کا چُن چُن کر خاتمہ کیا ہے۔ بدمعاشی کا
نام و نشان مِٹا دیا ہے۔ اُوپر سے خوشامدی درباریوں نے بھی شہباز شریف کو
اور پھُلا دیا کہ عوام تو اس ادا پر مر مٹی ہے۔ اب بھیڑیئے کے مُنہ کو
خوشامد کا خون لگ گیا تھا۔ چُن چُن کر چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کو
بھی شہباز شریف کے چہیتے پولیس افسروں کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔
یہاں تک کہ کئی لوگوں نے اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لیے پولیس پر
بھاری رقوم کے منہ کھول دیئے۔ تمام کی تمام پنجاب پولیس خون آشام درندوں کا
رُوپ اختیار کر چُکی تھی۔
لاہور کے علاقہ مسلم ٹاؤن موڑ میں مقیم کرنل اصغر کے گھر ایک پینتیس چالیس
سال کی ملازمہ زلیخا تھی۔ جو حُسن میں زلیخا تو نہیں مگر اُس کے آس پاس کی
ضرور تھی۔ کرنل اصغر کی نیت اُس پر خراب ہو گئی۔ زلیخا شادی شُدہ تھی مگر
دھن دولت دیکھ کر وہ بھی کرنل پر ریجھ گئی۔ خاوند ان کی رنگ رلیوں میں
رکاوٹ بن رہا تھا سو اُسے مبینہ طور پر زہر دے کر مارا گیا مگر موت طبعی
ظاہر کی گئی۔ یوں زلیخا اور اُس کے عاشقِ نامدار کے راہ کا کانٹا صاف ہو
گیا۔ اُدھر زلیخا کا اپنا بیٹا بھی پندرہ سولہ سال کی عمر کو پہنچ
کرنوجوانی کی دہلیز پر قدم دھر چُکا تھا۔ وہ سب حقیقت سے باخبر تھا مگر
مجبوراً چُپ رہا۔ ایک دِن زلیخا کا بھائی یعنی اُس لڑکے کا ماموں ملنے آیا
تو اُس نے اپنی ماں کے کرتوتوں کے بارے میں آگاہ کیا اور باپ کی موت کے
بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔زلیخا کا بیٹا گھوڑا چوک والٹن روڈ کے
قریب واقع باڈی بلڈنگ کلب پر جایا کرتا تھا۔ سو ماموں بھانجے نے کلب میں تن
سازی کے لیے آنے والے تین اور لڑکوں کو اپنے ساتھ مِلایا۔ ان میں دو مولوی
سعید کے بیٹے جبکہ ایک غازی آباد کے رہائشی صوفی نذیر کا بیٹا تھا۔ ان
پانچوں نے کرنل اصغر کے گھر جا کر شرمناک کرتوتوں کی بناء پر اُسے مارا
پیٹا۔ کرنل اصغر کا بیٹااُس وقت شریف برادران کی آنکھ کے تارے مشاہد حُسین
سید کا پرسنل سٹاف افسر تھا۔ مشاہد حُسین نے شہباز شریف سے کہہ کر کرنل
اصغر کی مُدعیت میں مذکورہ پانچ لوگوں کے خلاف ڈکیتی کی ایف آئی آر درج
کروائی۔ پولیس نے پانچوں بندے گرفتار کر لیے۔ اس دوران پنجاب کی’ اعلیٰ
شخصیت‘ کی جعلی مقابلوں کی بہیمانہ حِس پھر سے پھڑک اُٹھی۔ ان پانچوں بندوں
کو جعلی پولیس مقابلے میں پار کرنے کا حکم صادر کیا۔ مگر فیصلے پر عملدرآمد
سے پہلے زلیخا نے پولیس کو پچاس ہزار روپے دے کر اپنے بیٹے کو رہا کروا لیا
تھا۔ جبکہ مولوی سعید نے بھی دو میں سے ایک بیٹے کو اتنی ہی رقم پولیس کو
بطور رشوت دے کر چھُڑوا لیا۔ سو پانچ بندے کہاں سے پُورے کرنے تھے۔ اتفاق
سے اُن دِنوں وزیر آباد کے بابا یعقوب کے دو بچے اسلام پورہ تھانے میں
آوارہ گردی کے الزام میں قید کیے گئے تھے۔ یہ بچے اصل میں محنت مزدوری کرنے
یہاں آئے تھے مگر کوئی ٹھکانہ نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کے ہتھے چڑھ گئے۔
شریفوں کے چہیتے ایس یس پی احمد رضا طاہر اور اس کی ٹیم میں شامل دُوسرے
بندے مار پولیس افسران عمر وِرک، بابر اشرف اور دیگر نے پُوری تیاری کے
ساتھ جعلی پولیس مقابلے کا اہتمام کیا۔ زلیخا کے بھائی، مولوی سعید اور
صوفی نذیر کے ایک ایک بیٹے جبکہ بابا یعقوب کے دونوں بیٹوں کو ’خطرناک‘
ملزموں کے رُوپ میں کھاڑک نالے پر لے جایا گیا اور علاقے کے سینکڑوں لوگوں
کی موجودگی میں ان بے گناہوں کے جسموں کو چھلنی کر دیا گیا۔ بھائی کی محبت
پر زلیخا کی ہوسناکی غالب آ گئی۔ مولوی سعید اپنے بے گناہ بیٹے کی ہلاکت پر
کیس کا مُدعی بنا۔ اس کے ساتھ وزیر آباد کا بابا یعقوب اور صوفی نذیر بھی
شامل تھے۔ کچھ انسان دوست وکلاء نے معاملہ اُٹھایا تو اخبارات میں بھی اس
حوالے سے تحریروں کا طومار بندھ گیا۔ لوگ سوال اُٹھاتے کہ جن لوگوں پر ماضی
میں قتل اور ڈکیتی جیسے سنگین جرائم کا ایک بھی کیس درج نہیں تھا، اُنہیں
پولیس کیسے گرفتار کر کے دن دیہاڑے ہلاک کر سکتی ہے۔ معاملہ اُٹھتا دیکھ کر
حکومت نے اپنے انہی بندے مار پولیس افسران کی وساطت سے مقتولین کے ورثاء کو
سبزہ زار تھانے بُلایا کہ آؤ تمہیں انصاف دیتے ہیں۔ جب یہ بزرگ انصاف کے
لیے تھانے پہنچے تو انہیں پکڑ کر کئی دِنوں تک اِتنا مارا گیا کہ ان کی
دلدوز، فلک شگاف چیخوں سے سارا علاقہ لرز جاتا۔ جن آنکھوں میں یہ سوال تھے
کہ اُن کے بچوں کو کس جُرم کی پاداش میں مارا گیا؟ اب اُن کے مظلوم چہرے
ایک نئے سوال کا جواب تلاشنے لگے کہ اُن کے کمزور جسموں کو کس بات پر مشقِ
ستم بنایا جا رہا ہے؟وہ بوسیدہ بدن جنہوں نے اپنی باقی ماندہ برائے نام
زندگی رونے کے لیے وقف کر رکھی تھی اُن کی اذیت دہی کے لیے پولیس نے اپنے
شام و سحر وقف کر ڈالے۔کس معاشرے میں جوان اولاد کی موت کا دُکھ سہارتی
مُردہ روحوں پر تھرڈ ڈگری کا استعمال ہوتا ہے؟ ان عمر رسیدہ لوگوں کا قصور
صرف یہی تھا کہ ان کے بچے شریفوں کے دورِ اقتدار میں جوانی چڑھے
تھے۔مُدعیوں کو کیس سے دستبردار کروانے کے لیے ہر دھونس، دھمکی، لالچ کا
حربہ استعمال کیا گیا۔ باقی ماندہ خاندان والوں کو بھی مقابلے میں پار کرنے
کی دھمکیاں دی گئیں۔ ان غریبوں کی مستقل بنیادوں پر چھترول ہوتی رہی۔ عدالت
میں انکشافات کے ڈر سے اس کیس کے اصل پسِ پردہ مجرم یعنی اعلیٰ شخصیت کی
جانب سے مقتولین کے ورثاء کو یقین دلایا گیا کہ واقعے میں ملوث پولیس
افسران کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔ اس طفل تسلّی پر ورثاء خاموش ہو
کر بیٹھ گئے۔ بیچارے بھولے لوگ یہ بھی نہیں جان سکے کہ ان ذمہ داران پولیس
افسران کو بھلا کیسے سزائیں مِل سکتی تھیں، کیونکہ وہ تو اپنی جان چھُڑوانے
کے لیے اصل کردار پر انگشت نمائی کر دیتے۔ اُس دِن سے لے کر آج تک اعلیٰ
شخصیت نے انصاف کو تلاشتے مقتولین کے ورثاء سے کبھی ملاقات نہیں کی۔ انہیں
وزیر اعلیٰ ہاؤس اور جاتی عمرہ کے آہنی دروازوں سے ہی دُھتکار دیا جاتا رہا۔
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے جب سینکڑوں لوگوں کے قاتل شریف برادران سوال
کرتے ہیں کہ انہیں کیوں نکالا گیا؟ یہ صرف ایک کیس تھا ابھی تو اس جیسے
درجنوں کیس منظرِ عام پر نہیں آئے۔ اس کیس کا مُدعی مولوی سعید ربع صدی کے
بعد بھی انصاف کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ بابا یعقوب دو جوان بچوں کی موت کے
صدمے سے ذہنی توازن کھو بیٹھا۔ صوفی نذیر بھی غم و اندوہ کے ہاتھوں ہار کر
قبر کی آغوش میں جا سویا۔
قدرت کی جانب سے انتقام کا وقت شروع ہو گیا ہے۔ وقت دُور نہیں جب سبزہ زار
کیس کھُلے گا تو بابا یعقوب ، صوفی نذیر اور مولوی سعید جیسے مزید درجنوں
افراد ظلم و زیادتی کی ان گِنت رُوح فرسا داستانوں کا انکشاف کریں گے۔ آج
بھی سینکڑوں رُوحیں کرب میں پُکار رہی ہیں کہ کیا ہمیں انصاف کے لیے حشر کا
انتظار کرنا پڑے گا۔
جو لوگ شریفوں کے حمایتی بنے پھرتے ہیں اُن کے لیے بس اتنا پیغام کافی ہے
کہ جس معاشرے میں انصاف مانگنا جُرم بن جائے اُس معاشرے کے نام نہاد جمہوری
نظام کی حمایت میں تقریریں کرنا شریف اور خاندانی لوگوں کا شیوہ نہیں۔ اگر
سبزہ زار کی ہلاکتوں کا انصاف ہو جاتا تو ماڈل ٹاؤن کا خونی باب رقم کرنے
کے لیے کوئی قاتل وزیر اعلیٰ پنجاب کے اعلیٰ ترین عہدے پر دوبارہ سے
براجمان نہ ہوتا۔ |