محمدعلی جناح سے قائداعظم ؒ تک

ہماری نوجوان نسل حصول آزادی کے حوالے سے ہی قائداعظم ؒ کی گراں قدر خدمات اور جدوجہد سے ہی آشناہے لیکن بہت کم نوجوانوں کو علم ہے کہ محمد علی جناح قائداعظم کے مرتبے پر کیسے فائز ہوئے ۔ یہ ایک طویل داستان ہے جسے جاننے کے لیے ہمیں مادر ملت فاطمہ جناح کی یادداشت کے دریچوں میں جھانکناہوگا ۔ محترمہ فاطمہ جناح ایک جگہ لکھتی ہیں کہ میرے دادا کا شمار پونجا ریاست گونڈل کے گاؤں پنیلی کے خوشحال شخصیات میں شمار ہوتا تھا ۔پونجا کے تین بیٹے والجی ٗ ناتھو اور جناح تھے ۔ جناح سب سے چھوٹے تھے ۔تاجرانہ طبع ٗ فہم و فراست اور محنت کی بنا پرانہوں نے بہت جلد اپنامقام بنا لیا اور شادی کرکے کراچی چلے آئے ۔ انہوں نے کسی سکول سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی پھر بھی انہیں ذاتی کاوشوں سے انگریز ی بولنے لکھنے اور سمجھنے میں خاصی مہارت حاصل تھی ۔ 25 دسمبر 1876 اتوار کے دن ہمارے گھر میں ایک بچہ پیدا ہوا۔ جس کا نام والد ین نے باہمی مشاورت سے محمد علی جناح رکھا ۔والدہ کے اصرار پر آپ کو ایک درگاہ حسن پیر لے جایاگیا جہاں عقیقے کی رسم ادا کی گئی ۔ جب آپ ؒ کی عمر 9 برس ہوئی تو آپ ؒ کو ایک پرائمری سکول میں داخلہ کروا دیاگیا۔ ابتداء میں تعلیم کی بجائے کھیل کود پر ہی آپ کی توجہ مرکوز تھی حتی کہ ایک وقت وہ بھی آیا جب آپ نے سکول چھوڑ کر والد کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کردیا ۔ تعلیم نہ ہونے کی بنا پر آپ کو ایسے کام کرنے پڑتے جوآپ کی انا کو مجروح کرتے ۔ چنانچہ دوبارہ سکول میں داخل ہوئے تو ہر کلاس میں نمایاں پوزیشن لے کر پاس ہونے لگے ۔ جب آپ کی عمر پندرہ سال ہوئی تو گراہمس ٹریڈنگ کمپنی کے انگریز جنرل منیجر جو آپ کے والد کے گہرے دوست تھے ٗ ان کی ترغیب پر آپ کو بزنس ایڈمنسٹریشن کی عملی تربیت حاصل کرنے کے لیے بذریعہ بحری جہاز لندن روانہ کردیا گیا۔ یہ 1895 کا زمانہ تھا ۔اس قدر کم عمری میں جہاں پردیس کی مشکلات نے پریشان کیے رکھا وہاں جدائی کے اس عرصے میں والدہ کے انتقال کا صدمہ نے نڈھال کردیا۔ آپ نے نہ صرف بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کیے رکھی بلکہ اخبارات اور انگریز اکابرین اور ممتاز شخصیات کی سوانح عمریاں پڑھ کر اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر انہیں اپنے وطن کوانگریزوں کے چنگل سے آزاد کروانا ہے تو بزنس ایڈمنسٹریشن کی بجائے انہیں قانون کی تعلیم حاصل کرناہوگی تاکہ سیاسی معاملات اور حکومتی اداروں کی اونچ نیچ کی سمجھ پیدا ہوسکے۔ چنانچہ اسی جستجو میں ایک دن آپ لنکنزان یونیورسٹی کی دہلیز پر جاپہنچے جس کے دروازے پر دنیا کے ممتاز ماہرین قانون کے اسمائے گرامی درج تھے سب سے اوپر حضرت محمد ﷺ کا اسمائے مبارک لکھانظر آیا توآپ نے اسی یونیورسٹی کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے منتخب کرلیا ۔دوران تعلیم فارغ وقت میں آپ ہائیڈ پارک اور دارالعوا م چلے جاتے اورمقامی انگریزسیاست دانوں کی تقریریں سنتے۔ بطور خاص عظیم آئرش محب وطن ٹی پی او کانر جیسے قائدین کی تقریریں آپ کے ذوق کو تسکین فراہم کرتیں۔دارالعوام کی کاروائی بار بار سننے سے آپ کو پارلیمانی خطابت و فصاحت کے فن سے آگاہی حاصل ہوئی ۔ آنے والے وقت میں سیاسی قائدین اور پارلیمانی خطابت کا یہی فن پاکستان کی آزادی کے حصول کے لیے بہت مفید ثابت ہوا ۔فارغ التحصیل ہوکر آپ بمبئی ہائی کورٹ میں اپنا نام بطور وکیل درج کرالیا۔ یہاں آپ ایک انگریز وکیل اور بمبئی کے قائم مقام ایڈووکیٹ جنرل مسٹر میکفرسن کی نگرانی میں کام شروع کیا جہاں تجربے کے ساتھ ساتھ مسٹر میکفرسن کی لائبریری سے مستفید ہونے کا موقع میسر آیا ۔انہی کے توسط سے آپ قائممقام پریڈیڈنسی مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز ہوئے ۔مجسٹریٹ کی حیثیت سے آپ نے جس مثالی انداز میں کام کیا اس سے اعلی حکام ان کے مداح ہوگئے ۔ آپ نے ایک بار پھر وکیل کی حیثیت سے پریکٹس شروع کردی اور بہت جلد بمبئی کے ممتاز وکلا میں آپ کا شمار ہونے لگا۔ والد بہت ضعیف ہوچکے تھے چنانچہ آپ نے والد سمیت تمام بہن بھائیوں کو کراچی سے بمبئی بلالیا ۔ خود وکالت اور مقامی سیاست کے داؤ پیچ سیکھنے میں مصروف ہوگئے ۔

یہ وہی محمد علی جناح تھے جنہوں نے ایک آزاد مسلم وطن کے حصول کے لیے ایسی جدوجہد کی کہ نہ صرف تمام پاکستانی بلکہ دنیا بھر میں وہ قائداعظم ؒ کے نام سے مشہور ہوئے ۔ اس کے باوجود کہ آپ کی صحت ان تھک محنت کی بنا پر خراب رہنے لگی تھی لیکن آپ نے حصول پاکستان کی جدوجہد میں کوئی کمی نہ آنے دی ۔ ہندوستان کے کونے کونے میں بکھرے ہوئے مسلمانوں کوایک قوم بنانے میں محمد علی جناح نے جو کارنامہ انجام دیا ۔اسی کارنامے کی بدولت انہیں مسلم دنیا کے سب سے بڑے قائد ہونے کااعزاز حاصل ہوا ۔ اس کے باوجود کہ آج ہم ایک قوم سے پھر منتشر ہجوم کی شکل اختیار کرتے جارہے ہیں سندھی بلوچی پٹھان اور پنجابی کا روپ دھار کر پاکستانی شناخت کو دھندلا کرتے جارہے ہیں لیکن جب بھی قائداعظم ؒ کانام زبان پر آتاہے تو یکدم تمام تر اختلافات فراموش کرکے ہماری زبان سے یہی الفاظ ادا ہوتے ہیں کہ کاش آج قائداعظم ؒ زندہ ہوتے تو پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک مضبو ط ملک اور قوم کی حیثیت اپنی الگ شناخت قائم کرچکا ہوتا اور لوگ ہمیں ڈکٹیشن دینے کی بجائے ڈکیٹیشن لینے کی بات کرے ۔کا ش ایسا ہوتا۔......

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784562 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.