سوال :بہت سے لو گ گھر میں اس لئے جانور پالتے ہیں کہ اگر
گھر میں کوئی آفت آئے گی تو پہلے جانور پر آئے گی ، اس قسم کا عقیدہ رکھنا
کیسا ہے ؟
جواب :سب سے پہلے ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ ہمارے اوپرجو بھی مصیبت نازل
ہوتی ہے وہ اپنے ہاتھوں کی کمائی ہیجیساکہ اﷲ تعالی کا فرمان ہے :
وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو
عَن کَثِیرٍ (الشوری:30)
ترجمہ: تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کا
بدلہ ہے ، اور وہ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے ۔
ایک دوسری جگہ اﷲ کا ارشاد ہے :
مَّا أَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللَّہِ وَمَا أَصَابَکَ مِن سَیِّئَۃٍ
فَمِن نَّفْسِکَ (النساء :79)
ترجمہ: تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اﷲ تعالٰی کی طرف سے ہے اور جو بُرائی
پہنچتی ہے وہ تیرے اپنے نفس کی طرف سے ہے ۔
اگر اﷲ کی طرف سے ناز ل شدہ ان مصائب سے ہمیں بچنا ہے تو جانوروں کوپالنے
سے مصیبت نہیں ٹلے گی بلکہ اچھے اعمال کرنا پڑے گا اور جن برائیوں کی وجہ
سے ایسے دن دیکھنے پڑے ان سے توبہ کرنا پڑے گا۔اﷲ تعالی گناہوں اور برائیوں
سے توبہ کرنے پر معاف کرنے کا وعدہ کرتا ہیاس کافرمان ہے :
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَی اللَّہِ تَوْبَۃً نَّصُوحًا
عَسَیٰ رَبُّکُمْ أَن یُکَفِّرَ عَنکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ
جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ(التحریم: 8)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم اﷲ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو قریب ہے کہ تمہارا
رب تمہارے گناہ دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے جن کے نیچے
نہریں جاری ہیں ۔
دیگر مصائب ومشکلات اور برائیوں سے بچاؤ اور ان کو مٹانے اور بخشوانے کا
ذریعہ نیکی اور اعمال صالحہ انجام دینا ہے ، فرمان الہی ہے :
إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّئَاتِ (ہود: 114)
ترجمہ: بے شک نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں۔
جو لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جانور پالنے سے مصیبت ٹلتی ہے یا گھر کی
مصیبت پہلے جانور پر نازل ہوتی ہے اس لئے گھر میں جانور پالنا چاہئے ایسے
آدمی کا یہ عقیدہ باطل وفاسد ہے۔ یاد رکھیں آسمان میں جس کے لئے جس بلامیں
گرفتار ہونے کااﷲ کی طرف سے فیصلہ ہوجاتا ہے وہ بلا اسی شخص پرنازل ہوتی ہے
اسے کوئی ٹالنے والا نہیں سوائے اﷲ تعالی کے، لہذا مومن کوقرآن سے ثابت یہی
عقیدہ رکھنا چاہئے ،اﷲ کا فرمان ہے :
وَإِن یَمْسَسْکَ اللَّہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہُ إِلَّا ہُوَ وَإِن
یَمْسَسْکَ بِخَیْرٍ فَہُوَ عَلَیٰ کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیرٌ (الانعام: 17)
ترجمہ: اور اگر تجھ کو اﷲ تعالٰی کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا دور کرنے
والا سوا اﷲ تعالٰی کے اور کوئی نہیں اور اگر تجھ کو اﷲ تعالٰی کوئی نفع
پہنچائے تو وہ ہرچیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے ۔
اس بات کو اﷲ تعالی نے دوسرے پیرائے میں اس انداز میں بیان کیا ہے ۔
أَمَّنْ یُجِیبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوء َ
وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَاء َ الْأَرْضِ أَإِلَہٌ مَعَ اللَّہِ قَلِیلًا مَا
تَذَکَّرُونَ (النمل:62)
ترجمہ: کون ہے جو بے قرار کی دُعا سنتا ہے جبکہ وہ اسے پکارے اور کون اسکی
تکلیف کو دور کرتا ہے اور کون ہے جو تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اﷲ
کے ساتھ اور کوء اِلہ بھی ہے؟،تم بہت کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو۔
مومن کو یہ عقیدہ بھی رکھنا چاہئے کہ اﷲ کے سوا خواہ نبی ہو یا ولی کوئی
بھی نفع ونقصان کا ذرہ برابر بھی مالک نہیں ،اﷲ کا فرمان ہے :
قُلْ إِنِّی لَا أَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا(الجن:21)
ترجمہ: کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں ۔
اس آیت میں نبی ﷺکا بیان ہے کہ میں تمہارے لئے کچھ بھی نفع ونقصان کا مالک
نہیں ہوں ، اور جو غیر نبی ہیں خواہ ولی ، پیر،مرشد، عالم ، عابدکوئی بھی
ہوں وہ بھلا کیسے بلاٹال سکتے ہیں اور نفع پہنچا سکتے ہیں؟ ۔ یہ بات اس وقت
کی ہے جب نبی ﷺ باحیات تھے یعنی زندہ نبی کسی کے لئے نفع ونقصان کا مالک
نہیں تو جو مردہ ہیں وہ بھلا زندوں کوکیا فائدہ پہنچاسکتے ہیں؟ آپ خود
اندازہ لگالیں۔
|