حضرت
ابو اُمامہ ؓ سے رویت ہے کہ رحمت عالم صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد
فرمایا:تم ضرور قیامِ لیل کیا کرو (نمازِ تہجد پڑھا کرو) کیونکہ وہ تم سے
پہلے صالحین کا شیوہ، شعاراور طریقہ رہا ہے ،اور قربِ الٰہی کا تمہارے لیے
خاص وسیلہ ہے ، اور وہ برائیوں کو مٹانے والی اور معاصی سے محفوظ رکھنے
والی چیز ہے ۔(رواہ الترمذی، مشکوٰۃ)
نمازِ تہجد خواص کی عبادت ہے :
خالق کائنات نے اپنی خاص حکمت کے تحت دن کو روشن اور رات کو پر سکون بنایا،
رات کے سناٹے میں جیسا سکون عموماً آرام میں اور خصوصاً عبادت میں ملتا ہے
ویساکسی دوسرے وقت میں نہیں ملتا ،یہی وجہ ہے کہ رات کی تنہائی میں عوام تو
خوابِ غفلت میں مست ہوتے ہیں، مگر خواص یادِ الٰہی میں مشغول ہوتے ہیں ،بلکہ
یہ لوگ رات کا ایسا انتظار کرتے ہیں جیسا دولہا شب زفاف کا ۔
قرآنِ کریم نے ان ہی کی شان میں فرمایا:ان کے پہلو اس وقت (رات میں جو
لوگوں کے سونے کا خاص وقت ہے) ان کی خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں۔ یعنی
میٹھی نیند اور نرم بستر وں کو چھوڑ کر اﷲ تعالیٰ کے سامنے قیام کرتے ہیں
اور نماز تہجد پڑھتے ہیں (السجدۃ )
حدیث پاک میں بھی ہے کہ حضرت عبداﷲ ابن رواحہ رضی اﷲ عنہ نے حضور اکرم صلی
اﷲ علیہ و سلم کے متعلق فرمایا:آپ صلی اﷲ علیہ و سلم رات اس حال میں گذارتے
کہ پہلو بستر سے جداہوتا، جب کہ مشرکوں کے بستر ان کے بوجھ سے گرانبار
ہوچکے ہوتے (بخاری شریف)اس سے معلوم ہوا کہ نمازِ تہجد خواص کی عبادت ہے ،جیسا
کہ حدیث مذکور سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے ۔
نمازِ تہجد کی چار خصوصیتیں :
مزیداس حدیث میں نمازِ تہجد کی چار خصوصیتیں بیان فرمائی گئی ہیں:
پہلی خصوصیت:
’’دَأبُ الصَّالِحِیْنَ قَبْلَکُمْ‘‘ نماز تہجد کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ وہ
دورِ قدیم سے صلحاء کا شعار، طریقہ اور ان کی عبادت رہی ہے ۔ اس میں دو
باتوں کی طرف اشارہ ہے : ایک تو یہ کہ جب امم سابقہ کے اولیاء اور صلحا ء
نمازِ تہجد کا اہتمام کرتے تھے تو تمہیں بطریق اولیٰ اس کا اہتمام کرنا
چاہیے ، کیوں کہ تم تو خیر الامم ہو۔ دوسرا: اس طرف اشارہ ہے کہ نمازِ تہجد
صالحین کا شیوہ ہے ، جو اس کااہتمام نہیں کرتا وہ صالحین(کاملین)میں سے
نہیں۔
حدیث میں ہے :میری امت کے شرفاء حاملین قرآن (قرآن کو پڑھنے ،سمجھنے اور اس
پر عمل کرنے والے) اور تہجد گزار لوگ ہیں (مشکوٰۃ شریف)
دوسری خصوصیت:
’’وَھُوَ قُرْبَۃٌ لَّکُمْ اِلیٰ رَبِّکُمْ‘‘ نمازِ تہجد کی دوسری خصوصیت
یہ ہے کہ وہ قربِ الٰہی کا وسیلہ ہے ، اس سے ربِ کریم کی قربت ومحبت نصیب
ہوتی ہے ۔
حدیث میں ہے :اﷲ تعالیٰ اپنے بندے کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصہ میں
ہوتا ہے ، لہٰذاتم بھی اس وقت اس کے یاد کرنے والو ں میں ہوسکتے ہو توضرور
ہوجاؤ۔(ترمذی) کہ اس وقت تہجد او رذکر اﷲ کے ذریعہ اس کاقرب بآسانی حاصل
ہوسکتاہے۔
ظاہر ہے کہ ایک بندہ کے لیے اس سے بڑی کوئی سعادت ہر گز نہیں ہو سکتی، کیوں
کہ ساری شریعت ،عبادات اور طاعات سے مقصود معبودِ حقیقی کی قربت ومحبت ہی
تو ہے ، جو نمازِ تہجد سے بآسانی حاصل ہوتی ہے ،چنانچہ ملا علی قاری ؒ
فرماتے ہیں:اِس میں اُس حدیث قدسی کی طرف اشارہ ہے جس میں رب العالمین نے
فرمایا کہ بندہ برابر نوافل کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے ، یہاں تک
کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ۔(مرقاۃ المفاتیح)اور نوافل میں افضل ترین
نمازِ تہجد ہے ، جیساکہ حدیث میں ہے :’فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل تہجد
کی نماز ہے ۔(مشکوٰۃ شریف)
لہٰذا اﷲ تعالیٰ کی محبت اور قربت کے حصول کا یہ اہم ترین ذریعہ اور وسیلہ
ہے ۔ ہمارے حضرت شیخ الزماں مدظلہ فرماتے ہیں کہ صوفیہ او رعشاق کے لیے
تہجد مثل براق کے ہے ، جیسے شب معراج میں حضور صلی اﷲ علیہ و سلم براق کے
ذریعہ آن کی آن میں کہاں سے کہاں پہنچ گئے ، ایسے ہی صوفیہ بھی تہجد کے
ذریعہ کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔
تیسری خصوصیت:
نماز تہجد کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ’’ مَکْفَرَۃٌ لِلسَّیِّئٰاتِ‘‘
کفارۂ سیئات کاذریعہ ہے ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے : نیکیاں برائیوں کو مٹا
دیتی ہیں، اور نمازِ تہجد بہت بڑی نیکی ہے ، اس سے حق تعالیٰ گناہوں کو مٹا
تے ہیں، جیسے موسم پت جھڑ میں تیز و تند ہوا درخت سے سوکھے پتوں کو گرا
دیتی ہے اسی طرح نمازِ تہجد گناہوں کو مٹا دیتی ہے ۔(الھود)
چوتھی خصوصیت:
اس کی چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ وہ گناہوں سے بچاتی ہے ،اور ترکِ معاصی سے
تہجد کی توفیق نصیب ہوتی ہے ۔اورتہجد سے حفظ معاصی کی توفیق ملتی ہے ۔
حدیث میں ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ و سلم سے کسی کے متعلق یہ شکا یت کی گئی
کہ فلاں آدمی رات کو تہجد توپڑھتاہے ،مگر دن میں چوری کرتاہے ، آپ صلی اﷲ
علیہ و سلم نے فرمایا :عنقریب اس کو تہجد کی نماز برائی سے روک دے گی۔
(رواہ أحمد)کیوں کہ نمازکی یہی خاصیت ہے کہ اگراسے صحیح طریقہ پر قائم
کیاجائے تووہ نماز ی کو برائی سے روکتی ہے ۔غرض نماز او رتہجد سے حفظ معاصی
کی توفیق ملتی ہے ۔چنانچہ حضرت حسن بصری رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت میں ایک شخص
حاضر ہو کر کہنے لگا: حضرت ! تہجد کی توفیق نہیں ملتی، کوئی ترتیب
بتلائیں۔توآپؒ نے فرمایا: دن میں معاصی سے اجتناب کرو تو رات میں تہجد کی
توفیق نصیب ہوگی ۔ معلوم ہوا کہ ترکِ معاصی اور توفیق تہجد لازم ملزوم ہیں
۔
اﷲ تعالیٰ ہمارے تمام گناہوں کو معاف فرما دیں،ہم بہت گنہگار ہیں اے کریم
مولیٰ ہمارے گناہوں کے نہ دیکھیں بلکہ اپنے رحم بے کراں سے ہمیں معاف
فرمادیں(آمین)
|