صلاح الدین ایوبی دوم "جنرل محمدضیاء الحق"

نماز عشا کا وقت ہوچکا ٗ نمازیوں نے صفیں باندھ لیں ٗجب تکبیرہوچکی تو امام کعبہ نے یہ کہہ کر ایک شخص کو جبرا اپنے مصلے پر کھڑا کردیا کہ مسلمانوں کے امام تو آپ ہیں ٗآپ ہی نمازپڑھائیں۔اس لمحے حالت غیر ہوگئی ٗ قدم لڑکھڑانے لگے ٗ آنسو ؤں کی جھڑی لگ گئی اور گلا رندھ گیا۔ ہچکیوں اور سسکیوں میں ڈوبے الفاظ کے ساتھ نماز تو مکمل ہوگئی لیکن ہر رکعت میں یہی ڈر لگا رہا کہ ابھی وہ روتے روتے زمین بوس ہوجائیں گے ۔ یہ ہیں پاکستان کے وہ عظیم سپہ سالار جنرل محمد ضیاء الحق جن کو یہودی صلاح الدین ایوبی دوم کے لقب سے پکارتے ہیں ۔ ایک امریکی سنئیر صحافی مسٹر ہیریسن کے مطابق میں نے زندگی میں ضیاء الحق سے زیادہ بہادر شخص کوئی نہیں دیکھا ۔میں سمجھتا ہوں اگر جنرل ضیاء الحق صدر پاکستان کے عہدے پر فائز نہ ہوتے تو شاید آج پاکستان کا وجود بھی قصہ پارینہ بن چکا ہوتا۔کیونکہ سوویت یونین جیسا سفید ریچھ جہاں اپنے پنچے گاڑھتا ہے پھر وہاں سے واپس نہیں جاتا۔ اس وقت آدھی سے زیادہ دنیا پر بھی اس کا قبضہ تھا ۔ بدقسمتی سے سوویت یونین کے پاس جو سمند ر ہے اوہ بحیرہ منجمد ہے جس میں بارہ مہینے برف ہی جمی رہتی ہے ۔گرم پانیوں تک رسائی کا خواب آنکھوں میں لیے روس اپنی ٹڈی دل افواج لے کر افغانستان میں اترا ۔اسے سو فیصد یقین تھا کہ کراچی کے ساحل کی جانب بڑھتے ہوئے قدموں کوایک کمزور ناتواں اور اندرونی خلفشار کا شکار ملک پاکستان کبھی نہیں روک سکے گا ۔لیکن قدرت جب کسی کاغرور خاک میں ملانا چاہتی ہے تو چیونٹی سے بھی ہاتھی مروا دیتی ہے ۔ جنرل ضیاء الحق نے ایک کمزور اور چھوٹے ملک کا سربراہ ہونے کے باوجود سوویت یونین کو افغانستان تک ہی محدود رکھنے کے لیے بلاخوف خطر پس پردہ افغان مجاہدین کی اخلاقی اور مادی مدد شرو ع کردی ۔حد سے زیادہ بڑھتی ہوئی مزاحمت کو دیکھ کر ایک دن روسی سفیر ایوان صدر میں ضیاء الحق سے ملنے آئے اور سوویت یونین کے صدر کی جانب سے کھلی دھمکی دی کہ آپ ہمارے راستے کی دیوار نہ بنیں اگر آپ نے ہماری بات نہ مانی تو پھر ہمارے میزائل آپ کو یہاں بیٹھے بٹھائے ہی راکھ کا ڈھیر بنادیں گے ۔ جنرل ضیاء الحق نہایت تحمل و برداشت سے روسی سفیر کی دھمکی آمیز گفتگو سنتے رہے پھر جب روسی سفیر جانے کے لیے کرسی سے اٹھا تو الوداعی مصافحہ کرتے ہوئے ضیاء الحق نے کہا مسٹر ایمبسیڈر یہ درست ہے کہ روس دنیا کی دوسری بڑی طاقت ہے تمہارے میزائل مجھے راکھ کاڈھیر بنا سکتے ہیں لیکن یاد رکھو ایک ذات "اﷲ"آسمان پر بھی موجود ہے جو کسی کاغرور بھی خاک میں ملا سکتی ہے ۔میں یہیں موجود ہوں روسی صدر سے کہو دو کہ وہ اپنے میزائل فائر کردیں۔ یہ کہہ کر ضیاء الحق سجدے میں گر کر رب العزت سے التجا ئیں کرنے لگے ۔ اے خدائے بزرگ و برتر تو ہی پاکستان کا محافظ ہے تو ہی اس کی حفاظت فرما۔یہ اسی دعا کا نتیجہ تھا کہ گیارہ سال افغانستان کی فولادی پہاڑیوں سے سر ٹکرا کر روسی فوج اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے افغانستان سے نکل گئی اور چھ مسلم ریاستیں اس کے چنگل سے آزاد ہوگئیں جن کی آزادی کا ہیرو جنرل ضیا ء الحق تھا ۔دوسرے لفظوں میں ضیاء الحق نے پاکستان کے دفاع کی جنگ افغانستان میں کامیابی سے لڑی ۔ ایک جانب روسی جارحیت تو دوسری جانب ان ایام میں بھارت ٗ سندھ کو پاکستان سے الگ کرنے کی حکمت عملی پیرا تھا ۔ جی ایم سید سمیت کتنے ہی قوم پرست بھارت جاکر فوجی مدد کی درخواست کرچکے تھے ۔ جنرل ضیاء الحق نے ایک جانب جی ایم سید کی عیادت کے بہانے اس سانپ کا سر کچلا تو دوسری جانب کرکٹ ڈپلومیسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہلی جاپہنچے ۔واپسی پر جب بھارتی وزیر اعظم راجیو گاندھی ائیر پورٹ الوداع کرنے آئے تو الوداعی مصافحہ کرکے ضیاء الحق نے راجیو سے رازدارنہ انداز میں پوچھا بھارت کے پاس کتنے ایٹم بم ہوں گے ۔بھارتی وزیر اعظم نے کہا چار یا پانچ ۔ ضیاء الحق نے کہا اتنے ہی ہمارے پاس بھی ہیں اگر بھارت نے پاکستان کی جانب میلی آنکھ سے دیکھا تو ہم سارے بھارت کو راکھ کا ڈھیر بنا دیں گے ۔ یہ دھمکی اس قدر کارگر ثابت ہوئی کہ سرحدوں پر حملے کے لیے تیار بھارتی فوج کو اسی وقت واپس آنے کا حکم مل گیا۔اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے بھارتی دفاعی ماہرین کے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کی زبان سے نکلنے والے چند الفاظ نے بھارتی حکمت عملی کو زیرو بنا دیا۔جنرل ضیاء الحق اسلام کے وہ عظیم سپہ سالار تھے جنہیں دو مرتبہ دو الگ الگ علمائے کرام کے توسط سے نبی کریم ﷺ کا سلام اور پیغام پہنچا۔ پہلا واقعہ کچھ یوں ہے کہ مولانا فقیر محمد جامعہ اشرفیہ لاہور کے سنئیر عالم دین اور مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے خلیفہ ہیں ۔وہ ایک مرتبہ حضور ﷺ کے روضہ اقدس پر حاضر تھے انہوں نے مراقبہ کیا تو حضور ﷺ کے ساتھ مکالمہ ہوا ۔حضور ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا کہ مولانا ...... جنرل ضیاء الحق کو میرا سلام پہنچا دو اور ان سے یہ بھی کہہ دو کہ اسلامی نظام کے نفاذ میں دیر نہ کریں۔سعودی عرب سے واپسی پر جب مولانا فقیر محمد جنرل محمدضیاء الحق سے ملے اور انہیں نبی کریم ﷺ کا پیغام پہنچایا تو مولانا فقیر کے بقول ضیاء الحق بہت دیر تک آنسو بہاتے رہے۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے انہوں نے جتنے بھی اقدامات کیے وہ نبی کریم ﷺ احکامات کی وجہ سے ہی ممکن ہوئے ۔اسی طرح ایک اور مرتبہ پاکستان کے مایہ ناز عالم دین مفتی محمد تقی عثمانی کے توسط نبی کریم ﷺ کا پیغام جنرل محمدضیاء الحق کے نام پہنچا ۔ یہ سعا دت نورالدین زنگی کے بعد صرف جنرل محمد ضیاء الحق کے نصیب میں ہی آئی ۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ نورالدین زنگی مسلمانوں کا وہ سپہ سالار تھا جسے نبی کریم ﷺ تین مرتبہ خواب میں نظر آئے تھے۔ جب دو یہودی نبی کریم ﷺ کے جسد پاک نکالنے کے لیے روضہ مبارک کی جانب زیر زمین سرنگ کھود کر بڑھ رہے تھے ۔ نبی کریم ﷺ کے حکم پر نور الدین زنگی تین دن اور تین راتیں مسلسل سفر کرنے کے بعد شام سے مدینہ منورہ پہنچا تھا اور ان یہودیوں کے سر قلم کرکے واپس لوٹا تھا ۔

ہفت روزہ تکبیر کے بانی اور چیف ایڈیٹر لکھتے ہیں کہ میں نے جنرل محمدضیا ء الحق کو روضہ رسول ﷺ کے اندر پہنچ کر غلاف روضہ نبی کریم ﷺ کو پکڑ کر زار و قطار روتے اور پاکستان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے ہوئے دیکھا۔جب وہ ایک فضائی حادثے کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوگئے تو قائداعظم اور نوابزادہ لیاقت علی خان کے بعد وہ تیسرے سربراہ مملکت تھے جن کو درود سلام کی گونج میں سرکاری اعزاز کے ساتھ فیصل مسجد کے صحن میں کچھ اس طرح دفن کیاگیا کہ جنازے میں پندرہ لاکھ انسان اور اتنے ہی فرشتے موجود تھے۔نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ جب کوئی نیک بندہ دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کے جنازے میں شرکت کے لیے آسمان سے فرشتے بھی اترتے ہیں۔جنرل ضیاء الحق کو تو اﷲ نے شہادت جیسے عظیم مرتبے پر فائز فرمایا تھا ۔پھر فرشتے کیوں نہ ان کے جنازے میں شریک ہوتے ۔ شہادت کے بعد ملک احمد سرور نے ایک رات خواب دیکھا کہ وہ ایک سڑک کے کنارے کھڑے ہیں یہ سڑک رنگ بھرے خوشبو دار پھولوں سے آراستہ ہے ٗ اچانک میں ایک خوبصورت بگھی میں جنرل ضیاء الحق بیٹھے نمودار ہوئے۔یقینا وہ جنت کا ہی کوئی گوشہ ہوگا ۔کیا ایسی خوبیوں اور صلاحیتوں کا حامل شخص آمر یا منافق ہوسکتا ہے ۔ جو شخص انہیں منافق کہتا ہے وہ آئینے میں اپنی ہی تصویر دیکھتا ہے ۔یہ وہی ضیا ء الحق ہیں جنہیں ڈاکٹر مجید نظامی صابر سلطان کے نام سے پکارا کرتے تھے ۔شہید ہمیشہ زندہ ہوتے ہیں ان کی زندگی کا ہمیں شعور نہیں ہے۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784656 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.