کشمیر ایک ایسی وادی کا نام ہے کہ جسے دنیائے عالم
نے جنت کا نام دیا ہے۔لیکن قدرت کا کرنا یوں ہوا کہ یہ جنت آج کا کافروں کے
ہاتھوں دوزخ بنی ہوئی ہے۔ اور ہم کچھ نہیں کرسکتے۔بات صرف یہ نہیں کہ
کشمیرپر ہندوستان کا تسلط ہے بلکہ با ت یہ ہے کہ ان لاکھوں کشمیریوں کا بے
بہا خون بہایا جا رہاہے۔آخر اتنا ظلم کیوں؟؟؟.....
بے شمار مسلمان کشمیر کی اس وادی کو اپنے خون سے رنگین کررہے ہیں۔کیا آزادی
ان مسلمانوں کا حق نہیں؟کیا وہ بھی ہماری طرح آزادسانس لینا نہیں چاہتے۔آج
بھی کشمیر میں بچے،بوڑھے اور جوان کافروں کی فوج کا سامنے سبز ہلالی پرچم
اٹھائے اپنے پختہ ایما نکا ثبوت دیتے ہیں۔
کشمیریوں کے دلوں کی دھڑکنوں سے آج بھی ــ" پاکستان زندہ باد" کے نعرے
سنائی دے رہے ہیں۔آج بھی کشمیر کی مظلوم عوام دنیا کے سامنے اپنا حق مانگ
رہی ہے۔لیکن مودی راج اسکی آواز کو دبانے کی ناکام کاشش کررہا ہے۔ کشمیر
میں ظلم،بربریت اورانتہاپسندی کا عالم تو ایسا ہے کی بے بس اور لاچار
مسلمانوں پر بیلٹ گن جیسے غضب ناک ہتھیا روں کا استعمال کیا جاتا ہے۔اور جب
مظلوم مسلمان اپنے دفاع اور اپنی آبرو کی حفاظت کی خاطر جدید تریں ن جوہری
ہتھیا ر سے لیس بھارتی فوج کے سامنے معموکی پتھر اٹھا کر کھڑیہوتے ہیں۔تو
اسے دہشت گردانہ کاروائی بنا کر میڈیا میں اچھالا جاتا ہے۔
کشمیر کے ظلم کی انتہا تو1939ء میں ڈوگرہ راج کے زمانے سے ہوگئی تھی۔ایک وہ
دن تھا اور ایک آج کا دن ہے۔کہ ہندوستان کشمیریوں پر اپنے ظلم دن بدن بڑھا
تا چلا جا رہا ہے۔ اور ادھر ہماری حکومت آج بھی اقوام متحدہ سے رحم کی امید
لے کر بیٹھی ہوئی ہے۔کہ نہ جانے کب وہ آئیں اور ہمیں کشمیر دلادیں۔یہ مسئلہ
اقوام متحدہ کانہیں بلکہ کی پوری دنیا کا ہے۔ ہمیں ہے بات ضرور باور کر
لینی چاہیے کی اقوام متحدہ کبھی بھی کشمیر کے مسئلے میں دخل اندازی نہیں
کرے گا۔
امریکہ اور بھارت کی دوستی بے مثال ہے اور امریکہ اور اقوام متحدہ کی مثال
کی ایک مچھلی اور پانی کی ہے یعنی اگر امریکہ نے مسئلہ کشمیر پر بھارت کی
شان میں کوئی بھی بیان دیا تو امریکہ کے جدید طرز ہتھیار کا خریدار کون بنے
گا؟ حالانکہ امریکہ کا اپنا ضمیر بھی یہ جانتا ہے کہ کشمیرپر بھارت بربریت
کی انتہا کر چکا ہے۔امریکہ نے ہمیشہ ہٹ دھرمی سے کا م لیاہے۔ میں ہے غلط
فہمی دور کرتا چلوں کی اب کشمیر کے دفاع کی خاطر کوئی محمود غزنوی یا ٹیپو
سلطان نہیں آئے گا اب ہمیں ہی محمد بن قاسم بن کر آگے بڑھنا ہوگا۔اور ہمیں
ہی کشمیر کی آنے والی نسل کو آزادی کا تحفہ دینا ہوگا۔
تمہارے سوگ میں ہمدم اداس ہیں
عدم کے شہر سے تجھ کو بلائیں کیسے
ہندوستان کے سابق حکمران بھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ کشمیر کا
مسئلہ اس وقت پوری دنیا کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اور اسے استواب رائے سے حل
کیا جانا چاہیے۔ لیکن یہ استواب رائے ہوگی کب؟؟؟....
اسکا کا کسی کو کوئی اندازہ نہیں کہ پاکستان نے جب بھی ہندوستان کو امن
چاشنی اور مذاکرات کیلئے مدعو کیا تو اس نے ہمیشہ ٹال مٹو ل سے کام لیا۔صرف
کشمیر میں ہی نہیں بلکہ دنیا میں کئی مقامات پر مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے
جس میں فلسطین اور میانمر کی مثالیں دنیا کے سامنے ہیں ایسے تما ممالک جہاں
مسلمان رہتے ہیں روز بروز کسی نہ کسی پسماندگی کا شکا ر ہوئے ہیں ۔ دنیا
میں کئی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جس لیڈر نے بھی مسلمانوں کو نشانہ بنایا
وہ راتوں رات آسمان کی بلندیوں کو چھو گیا۔ اگر ہم نرندر مودی کی مثال لیں
۔ تو آج سے چند سال پہلے وہ صرف ویران گجرات کا وزیراعلیٰ تھا۔ چونکہ اسنے
مسلمانوں کو ظلم کا نشانہ بنایا۔اس نے گجرات میں فسادات کو جنم دیا
۔ہندوبرادری میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بھر دیا۔اسی بدولت وہ ہندوؤں اور
سکھوں میں راتوں رات مقبول ہوگیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا قصہ بھی کئی پرانی بات نہیں۔ اس نے بھی الیکشن میں کامیابی
حاصل کرنے کے لئے اسی لائحہ عمل کو اپنایا۔ الیکشن سے قبل وہ مسلمانوں کی
آبرو کی دھجیاں اڑاتا رہا۔ یہود پرست اور عسائیت کو ماننے والے لوگوں نے اس
کے اس عمل کو بہت ترویج دی اور آج نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ادھر مسلمانوں کے
اتحاد کا عالم یہ ہے کہ کبھی ایران،اپنی فوجیں پاکستان کی حدود میں داخل
کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔ تو کبھی سعودی عرب ایران کے مسلمانوں پر حج کرنے پر
پا بندی عائد کر دیتاہے۔ مگر پیٹھ پیچھے سازش کرنے والوں کو کوئی نہیں
پہچان سکتا۔ہندوستان تو ہمیشہ ہی پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی ہے۔
بھارت چاہتا ہے کہ انگریزوں کے جانے بعد مسلمان ہندوؤں کے غلام بن کر رہے
جائیں۔مگر ہمارے محنت پسند لیڈروں نے انکا خواب مٹی میں ملا دیا۔ 1971 ء کے
انتخاب کے دوران شیخ مجیب الرحٰمن نے جعرما نکاتی فارمولا پیش کیابھارت نے
اسے مذید ہوا دی جسکا نتیجہ یہ ہو ا کہ پاکستانمزید دو حصوں میں تقسیم
ہوگتا۔ ہندوستان کی طوفانی دشمنی کا اندازہ اس بات لگایا جا سکتا ہے کہ جب
آپسی اختلاف کی وجہ سے مشرقی اور مغربی پاکستان علیحدہ ہوئے تو بھارت نے
آگے بڑھ کر سب سے پہلے بنگلہ دیش کے وجود کو تسلیم کیا۔دنیا بھارت کے
معصومیت کے پیچھے چھپے ہوئے چہرے کو پہچانتی ہے۔ یہ بھی جانتی ہے کہ آزاد ی
کے بعد ریزروبینک سے بھارت بے پاکستان کو 750 بلین روپے دینے تھے۔ان میں آج
بھی 50 ملین روپے بھارت کے زمے واجب الادا ہیں ۔
پورے یورپ اور امریکہ بلکہ تمام یہودی اور عیسائی ممالک کے تیل کا انحصار
صرف اور صرف ہم مسلمان ممالک پر ہے ۔ اگر ہم مسلمان ہی ان کافروں تک
توانائی کا رسائی بند کردیں تو میں دیکھتا ہیں کی کوئی بھی ملک کیسے
مسلمانوں کے سامنے آنکھ اٹھانے کی جرات کرتا ہے۔میں ایران کی بہادری اور
شجاعت کی تعریف کرتا ہوں کہ اس نے سرعام امریکہ کے داخلے پر پابندی عائد
کردی اور اب آپ ہی دیکھیے کی سپرپاور کہلائے جانے والا ملک ایران کا ایک
بھی بال بانکہ نہ کر سکا ۔ جب کہ ہمار حکومت آج بھی امریکی کی غلام بنی
ہوئی ہے۔ ہو کیوں نہ ہم نے قرضہ جو لے رکھا ہے۔ آج میں حکومت سے سوال کرتا
ہوں کہ قرض اتارو ․ملک سنوار و کے نام سے جو چند ہ سکیم شروع کی گئی ۔ تو
اس میں ہماری محب وطن عوام نے دل کھول کر عطیات دئے۔جس سے نہ صرف ہم امریکہ
قرضہ اتا ر سکتے تھے بلکہ ملک میں کافی عوام دوست منصوبے بھی شروع کر سکتے
تھے تو آج وہ سارا پیسہ کہاں گیا؟کیا وہ سویزرلیند کی بینکوں میں محفوظ ہے۔
یا اس سے بیرون ممالک میں جائیدادیں خریدیں گئیں۔ہماری محتاجی کی حالت یہ
ہے کہ ایک تازہ پیدہ ہونے والا بچہ بھی ایک لاکھ روپے کا مقروض ہے کیا یہ
قرض اس کے والدین نے لیا یا اسکے
اباؤاجداد نے ....... !
نہیں بلکہ یہ قرضہ لیا حکومت پاکستان نے ۔قرضہ لیکرحکمران تو عہدے سے بری
ہوگئے۔ لیکن ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو قرض داربنا گئے۔ اگر ایسے ہی
چلتا رہا تو پاکستان کا تو ﷲ ہی حامی اور ناصر ہے۔ ورنہ آئے دن تبدیل ہونے
والے حکمران پاکستان کو دیوالیہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔
مصنف: محمد ذیشان اکبر۔
|