یہ سچ ہے کہ انسان بہت ہی ناشکرا ہے۔خالقِ
کائنات،انعامات سے نوازتا ہے،رحمتوں کے سائے میں رکھتا ہے،اس کے برعکس نا
شکری کا تسلسل ساری فلاح کو بھسم کرکے رکھ دیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ انعام و
احسان اور خوشیوں سے ہرا بھرا موسم ہرانسان کی زندگی میں کبھی نا کبھی آتا
ہے۔لیکن یہ دل لبھا موسم ہمیشہ نہیں رہتا،انسانی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتا
رہتا ہے۔یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے۔یہاں کچھ اعمال کا بدلہ چکانا پڑتا ہے،جس
کا انسان تصور نہیں کرتااور تمیز نہیں رکھتا۔بد مست بے احساسی کے سائے میں
ایسا گم ہوتا ہے کہ انجام کی خبر ہی نہیں رہتی۔پھر جزا ،سزا کا روپ دھار
لیتی ہے۔داستانِ مکافاتِ عمل بھی ایسے چند کرداروں کے گِرد گھومتی کہانی
ہے۔جس کا لفظ لفظ سچ پر مبنی ہے۔کرداروں کو خفیہ رکھا گیا ،صرف اشارتاً ذکر
کیا ہے۔
یہ کم وبیش 25سال پہلے کی بات ہے۔ہم اپنے گاؤں جو کہ پنجاب کے مغرب کی طرف
واقع ہے،غربت وافلاس کی زندگی گزار رہے تھے۔گاؤں دیہات کے لوگوں کا رہن سہن
مخصوص ہوتا ہے،کہ اگر کوئی شہری پڑھا لکھا آجائے تو گاؤں کے لوگ تابع و
فرمانبردار بن کر حیرت انگیز خدمت کرتے ہیں۔غربت کے غضبناک تپتی دھوپ میں
زندگی صبر و شکر سے اور پر کیف گزر رہی تھی۔اسی اثنا میں والد صاحب
دارالفنا ء سے دارالبقاء چلے گئے۔زمین جائداد ،وراثت تو تھی نہیں،کل متاع
وہی زمین کا ٹکڑا تھا جس پر ہمارا جھونپڑی نما محل تعمیر تھا۔والد صاحب کی
وفات کے بعد غربت ،تنگ دستی نے مزید جڑ پکڑ لیا،اور پورے گاؤں میں یہی گھر
مغلوب و مجروح سمجھا جانے لگا۔ والدہ کو اﷲ نے بلا کا صبر عطاء کیا تھا
،اور وہ ایک دور اندیش ،غیر معمولی حس کی مالک تھیں۔کسی کے آگے ہاتھ نہیں
پھیلایا ،ایثار و اخلاص کے ساتھ تمام ہنگاموں کا جمود توڑتی رہیں۔ تاریخ
گواہ ہے کہ انسان جب بھی بھیانک ہوا ہے،یا تو دولت کی حرص میں، یا بنتِ حوا
کی ہوس میں ہوا ہے۔لیکن مفلس کے پاس اس کی تمام جائداد اس کی اولاد ہوتی
ہے، والدین تب زیادہ محتاط ہو جاتے ہیں،جب گھر میں جوان بیٹیاں ہوں،پھر درِ
پردہ حق تلفی کرنے والے ،اچانک اظہارِ ہمدردی کرنے آجائیں،خندہ پیشانی سے
پیش آئیں،اور فیاضی کرنے لگ جائیں۔
جب ہمارے چاچا نے دیکھا کہ چھوٹے بھائی کاگھر حوصلہ مند اور مصمم اردے سے
لبریز ہے ،اور وہ میرے بیٹے کے لیے رشتہ محبت اور اپنائیت سے نہیں دیں گے
تو اس کا لہجہ اور رویہ زہر آلود ہوگیا۔اور ہماری والدہ یہ بات اچھی طرح
جانتی تھیں کہ جس بے دردی،سخت گیری ،اور جس تکلیف کے اندر میں نے زندگی
گزاری ہے ،اس بھٹی میں ،میں اپنی بیٹیوں کو کیوں جھونک دوں۔اور بہر صورت
رشتہ ازدواج سے منسلکی سے سراسر انکار کردیا۔جب والدہ انفرادی و اجتماعی
دباؤ میں نہ آئیں تو تمام بستی،اور گاؤں والوں نے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا
ارادہ کیا،اور والدہ ہم سب کو مار پیٹ کر گاؤں سے نکال دیا۔ہم نے اپنی
آنکھوں سے اپنے دارالسلطنت کو تخت وتاراج ہوتے ہوئے دیکھا۔چاچا کیوں کہ
گاؤں میں اثر وروسوخ والے تھے،اس لئے کسی نے ان کے خلاف بات نہیں کی۔اور جس
شہرِجہالت میں کسی پر اس کے ظلم کے خلاف جوں تک نہ رینگے،وہاں قانون کا
تصور ہی محال ہوتا ہے،لہذا ان وجوہ کی طرف ورطہ حیرت میں جانا ہی نہیں
چاہیے۔
وقت کے پلوں کے نیچے پانی گزرتا گیا والدہ دردر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور
ہو گئیں۔دھدیال سے ساری کشتیاں جلا کر آئی تھیں ، ننہال والوں نے بھی چند
دن سائیہ شجر میں رکھا پھر ان کے بھی درخت کے پتے جھڑنے لگ گئے۔والدہ کو
سارے گھر کا کام کاج خود کرنا پڑتا، بچوں کی راحت طلبی کی خاطر، جس گھر میں
وہ شہزادی بن کر رہا کرتی تھیں،وہی محل نما گھر ان کے لیے دوزخ بن گیا تھا۔
وہی بھائی تھے، وہی والدین تھے،کہ نوکروں جیسا برتاؤ کرنے کے بعد بھی تمسخر
اڑانے سے باز نہیں آتے تھے، اور یہ مرض اجتماعی طور پر تمام گھر والوں میں
سرایت کر چکا تھا۔والدہ بڑی صابرہ خاتون تھیں ،برے حالات میں خوشیاں تلاشنا
بائیں ہاتھ کا کھیل تھا،فاقہ شناس تھیں،قناعت ،خدا کی طرف سے ودیعت تھا،جو
مل جاتا شکر پڑھتیں،جو نہ ملتا صبر کر کے روشن دنوں کا انتطارکرتیں،اور ان
پر ماضی میں گزرے چند بہترین اور مسرت بھرے لمحات سارے موجودہ غموں کو دھو
ڈالتے۔
ہمارا وہی عالی شان سا گھر ہی ہماری کل کائنات ،آسمان زمین تھا۔وہی ہماری
خوشی کا ادنی سا سمندر تھا،اور وہی غموں کا پنجرہ تھا ، جو ظلم کی آندھی کی
نظر ہو چکا تھا۔والدہ کو آج بھی وہ مناظر آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو وہ
لرز جاتی ہیں۔جب وقت و حالات کے سارے توپ خانوں کے گولے ہماری طرف آگ اگل
رہے تھے،غم و اندوہ کی شدت اتنا ہو جاتی کہ آنکھوں کے مضراب پھوٹ پڑتے ،تب
یادِ ایام عشرت فانی کی کہانی ہم سے منسلک ہو جاتی ۔
’’اور غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی۔‘‘
’’گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی۔‘‘
اور زندگی یوں اپنے ورق پلٹتی جاتی ہے،ایسا لگتا ہے جیسے زندگی میں سارے
امتحان ہمارے مقدر میں لکھے تھے کہ کسی سازش کر لی ہوہمارے خلاف کہ انہی کے
سکون کا بیڑا غرق کرنا ہے۔اپنو ں نے تو ہمارا ککھ تک باقی نہ چھوڑا تھا
،لیکن تسلی پھر بھی نہ ہوئی۔1980کی دھائی میں خاندان کے کچھ لوگ کراچی ہجرت
کر آئے تھے،اور یہیں کے ہو کر رہ گئے تھے،گاؤں ان کے لیے سیر و سیاحت کے
لیے تھا،جہاں سال دو سال بعد آتے، انہی اپنو ں میں سے ایک فیملی کی طرف سے
بڑی آپی کے لیے رشتہ آیا۔’’ اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں‘‘ اپنوں نے تو
محبت و الفت کی شاندار مثال قائم کی تھی،جھٹ منگنی، پٹ بیاہ کی خواہش سن کر
والدہ نے حامی بھر لی۔جب بھوک پیاس ،غربت کی کالی راتیں اور ہر طرف سے
بھیڑیے نما جانور منڈلاتے پھرتے ہوں تو پھر انسان آگے آنے والے مسائل کا
نہیں سوچتا،وہ وقتِ حال کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہے،یہی کچھ والدہ نے
بھی سوچا کہ جہاں وہ اپنی بیٹی بیاہ رہی ہیں ،وہ انسان پہلے ہی سے شادی شدہ
ہے،اور پہلی بیوی کے گھر چھوڑنے کی وجہ کیا تھی ،وہ تک نہیں سوچا،اس امید
پر کے میری اولاد کا گھر لالہ زار بن جائے۔شادی اور بارات والے دن چچا اور
اس کے ماتحتوں نے فی البدہیہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے،اور بد تمیزی کی تمام
حدوں کو پار کر کے ظلم و ستم میں خوب طبع آزمائی کی۔ گولیوں ، ڈانڈوں ،
کلہاڑیوں کا آزادانہ استعمال کیا،وہ تو شکر ہے کہ چند شائستہ لوگوں نے کھڑے
کھڑے فیصلہ صادر کر دیا کہ بارات واپس چلی جائے، ورنہ ناقابلِ تلافی نقصان
ہو جاتا۔رات کے آخری پہر جب ہم بچہ پارٹی خواب و خرگوش کے مزے لوٹ رہے
تھے،دلہا کے طرف سے چند لوگ ایک کار میں خفیہ راستے سے آیے،اور والدہ نے
رخصتی کر دی۔ہمیں صبح پتہ چلا جب بڑی آپی کو گھر میں موجود نہیں پایا۔رات
کو خفیہ راستے سے بارات آنے کا مطلب راستوں کی ناکہ بندی تھی،جگہ جگہ لوگ
چوکیداری کر رہے تھے، کچھ ان میں سے تھے،جو چچا کی وفاداری میں سر کٹانے کو
تیار تھے۔ اور فساد میں ان کی تعریف مشرق و مغرب تک پھیلی ہوئی تھی،اور
شرافت خود ان سے شرماتی تھی۔
والدہ نے ایک بھینس پالی تھی۔اس کو بیچ کر شہر کے اندر ایک تعلق دار کے
توسط سے چار مرلے کا پلاٹ لے لیا۔اس میں سے کچھ ایجنٹ نے کھائے،کچھ تحصیل
دار نے،اور کچھ ہمارے مہربان نے ،کے جس کی مہربانی سے یہ جنت نذیر وادی
لاکھوں احسان جتلا کر دلوائی تھی۔بھائی کو ایک ہوٹل پر چائے دینے کا کام مل
گیاجس کی دھاڑی تیس روپے تھی،اور والدہ کنفکشنری کے کاروبار کرنے والے ایک
گھر میں مصالحہ جات کی پیکنگ میں کام کرنے لگیں،وہاں سے بیس روپے ملتے، جو
کہ پورے دن کاکام کرنے،اور ٹارگٹ پورا کرنے کے بعد ملتے تھے۔یوں بھائی اور
والدہ کی ٹوٹل کمائی ملا کر پچاس روپے میں سات افراد تین وقت کا کیسے گزر
بسر کرتے تھے، یہ آج تک نہ ہماری سمجھ میں آیا ،اور نہ والدہ سے پوچھا۔حسنِ
ظن دل میں رکھ کر آج بھی گزرے وقت کو یاد کرتے ہیں تو سر سجدہ شکر میں گر
جاتا ہے۔ہم میں سے ہر ایک اپنے سابقہ وقت سے ترقی و کامرانی کے زینے چھڑتا
جاتا ہے۔لیکن ہم ربِ کریم کی نعمتوں کا شمار نہیں کرتے ۔آج سے چند سال
پیچھے چلے جائیں تو کپڑے استری نہ کرنے کی وجہ سے قمیص کے دامن پر بَل پڑ
جاتے تھے،اور آج چار پانچ سوٹ الماری میں موجود ہوتے ہیں۔ بیس روپے کی
چائینہ چپل لیتے وہ بھی تب چھوڑتے جب موچی ٹانکے لگا لگا کر تھک جاتا،اور
آج باٹا ،سروس، ڈان کارلوز کے شوز پہنتے ہیں۔ اگر ہم گنتی میں آئیں تو بے
شمار انعامات میں گھرے ہوئے ہیں۔ خیر ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں۔
اب آہستہ آہستہ غربت کے میدان سے چمنِ زار میں شادابیاں سمیٹنے کے وقت میں
داخل ہو رہے تھے۔بڑی آپی کراچی چلی گئی، بھائی بھی کام پر لگ گیا،اور ہم
تعلیمی میدان میں اتر گئے کہ ہم ہی تھے جس سے سب کو لگتا تھا کہ یہ جہانِ
تازہ کی نمو کرے گا۔ اور ہم بھی عزمِ راسخ،ارادہ مصمم ،محنت ، جان فشانی سے
تعلیم حاصل کرنے لگ گئے۔دینی علوم سے شد بد ہونے کی وجہ سے آٹھویں جماعت
میں داخلہ مل گیا۔ماضی کی سیاہ کالی راتوں کا بھوت آنکھوں کے سامنے آتا،اور
تابناک مستقبل کے خواب دیکھتے ہم پڑھائی میں مشغول ہو گئے۔پانی پلوں کے
نیچے گزرتا رہا۔سورج نکلتا،دن روشن ہوتا،شام کے سائے ڈھلتے،رات تاریک اور
صبح روشن ہو تی رہی۔بڑی آ پی بھی والدہ کی طرح بہت صابرہ،شکر گزار،ہمہ تن
فرمانبردارلڑکی تھیں۔لیکن امتحان اﷲ ہمیشہ اپنے پیارے بندوں سے ہی لیتے
ہیں۔ان کے شوہر ویسے تو دین دار ،پڑھے لکھے تھے،مگر دین داری،خدا کی بندگی
کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ حقوق العباد،گھر داری پر توجہ ، اہل وعیال کی
خدمت بھی دینِ اسلام میں ایک خاص مقام رکھتا ہے۔خود غرضی ایسا اژدھا ہے جو
انسان کو نگل جاتا ہے۔انسان دنیا کی چکا چوند میں ایسے بد مست گھوڑے کی طرح
سر پٹ دوڑتا ہے کہ، اسے اپنے آس پاس کسی کی فکر نہیں ہوتی۔صرف دین داری ،
نماز ، روزہ ، عبادات و اذکار جنت کا وارث نہیں بناتی،اس کے ساتھ ساتھ حسنِ
اخلاق،حسنِ ظن، خدا ترسی ایسے خداوندی انعامات ہیں کہ جو حاصل کرلے وہ
معاشرے میں اچھے القابات و داد و تحسین کا تو مستحق ٹھرتا ہی ہے،اس کے ساتھ
آخرت میں بھی اس کا بڑا ذخیرہ ہوتا ہے۔چھوٹے اور کم عقل ہونے کی وجہ سے بڑی
آپی ہمیں شوہر کی نا انصافیاں نہیں بتاتی تھیں۔ان کو میکے کے حالات بھی
معلوم تھے،اور ہمارے مستقبل کی فکر لگی رہتی تھی۔ ازدواجی حیثیت کی خاطر
بھی اسلامی احکامات میں نافرمانی کا ارتکاب بھی نہیں کرنا چاہتی تھیں،کیوں
کہ ہماری اچھی تعلیم کا شوق تھا اور آپی کو بھی اس بات کا بڑی شدت سے
انتظار تھا کہ ہم کب اچھی تعلیم مکمل کریں گے،یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیں بھی
کراچی لے آئیں۔ یہ وہ سارے عوامل تھے جن سے ہمارا معصوم ذہن نا آشنا تھا-
وہ دن ہم کبھی نہیں بھول سکتے جب ایک کھلے میدان مین اپنے ہم عمر بچوں کے
ساتھ لڑکپن کے مزے لوٹ رہے تھے،ہر طرف بچوں کا شور تھا۔خوب گھما گھمی
تھی۔لڑکے فٹ بال، کرکٹ ، گلی ڈنڈا کھیل رہے تھے، کہ اچانک سفید کپڑوں میں
ملبوس دو انسان ہمارے پاس آئے،اور ایک طرف لے جا کر نام پوچھا، اور ایک کار
میں بٹھا کر ڈرئیور کو گاڑی چلانے کا حکم دیا۔بچے کا ذہن اتنا نازک ہوتا ہے
یہ ہمیں اب پتہ چلتا ہے، کہ ہم نے ان سے پوچھنا بھی مناسب نہیں سمجھا کہ
جناب ہمیں کہاں لے جایا جا رہا ہے۔؟ یا ہم شور کر کے سب کو جمع کرنے کی
کوشش کرتے۔آدھے گھنٹے بعد کار ایک بڑے سے گیٹ کے اندر داخل ہوئی۔جس پر لال
اور نیلا کلر جگ مگا رہا تھا۔ اور دو خاکی پینٹ اور کالی شرٹ والے آدمی
ہاتھوں میں بندوقیں لئے کھڑے تھے۔ہمیں تب بھی یقین نہیں آیا کہ ہم پولیس کی
حراست میں ہیں۔ کیسا ڈر۔؟ کیسا خوف۔؟ کیسی دہشت۔؟ ہمیں غصہ تھا تو بس اس
بات کا کہ ہماری کر کٹ میں بیٹنگ کی باری آنے والی تھی۔ہم آدھ گھنٹا فیلڈنگ
کر چکے تھے۔ہمارا دماغ ابھی بھی میدان میں موجود تھا۔ کار کو روک کر ہمیں
ایک چھوٹے سے کمرے میں دھکا دے دیا گیا۔ پہلی بار اپنے جسم میں سوئیں چبھتی
ہوئی محسوس ہوئیں، جب ہم نے کمرے کا بغور جائزہ لیا۔ایک کرسی، جس پر ہمیں
بیٹھنے کا حکم ملاتھا، دیوار پر ایل، سی ، ڈی لگی ہوئی تھی۔نیچے دیوار کے
ساتھ ایک ٹیبل پر ڈی،وی،ڈی پلیئر رکھا ہوا تھا، جس کی تاریں ایل،سی،ڈی کے
ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔ پانچ منٹ بعد ایک لمبی موچھوں والا آدمی اندر داخل
ہوا،جس نے سندھی ٹوپی ایسے پہنی ہوئی تھی کہ ماتھا پورا ڈھکا ہوا تھا۔وہ
پہلے دیکھ کر چیں بجبیں ہوا ، پھر گھور کر کہنے لگا۔’’ دیکھوں سائیں ! جو
کچھ تم نے اٹھایا ہے ان صاحب کو بتا دو۔‘‘ اس نے کھڑکی سے باہر کی طرف
اشارہ کیا۔‘‘ ہم نے کھڑکی سے باہر چھوٹے سے گارڈن میں دیکھا تو دھک سے رہ
گئے، وہاں موجود انسان، جس کی طرف سندھی پولیس مین نے اشارہ کیا تھا، وہ
کوئی اور نہیں ہمارے بہنوئی تھے۔تب جا کر یہ راز کھلا کہ یہ ساری کارستانی
ہمارے بہنوئی کی تھی، ان کی ہی نوازش سے ہم یہاں موجود تھے۔وہ تو بھلا ہو
ایک بندہ خدا کا جو ہمیں جانتا تھا، اس کو ربِ کریم نے ہماری مدد کے لئے
بھیج دیا،اور اس طرح ہم جہنم سے بچ گئے، ورنہ ہمارے ملک کی پولیس کا انصاف
مثالی ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ ہمارا ایک دوست تھا،اس کے بڑے بھائی نے گھر میں چھوٹی سی
تقریب کا اہتمام کیا تو ہمیں وہاں نعت خوانی کے لیے جانا پڑا،صوت الحان کی
نعمت بچپن سے ہی عطا تھی،جہاں جاتے،نعت شریف پڑھتے، اور چھا جاتے،لوگ متآثر
ہوتے اور ہم خوش ہوتے۔ اس دوست کے گھر اس علاقے کی معزز اور صوبائی اسمبلی
کے ایک رکن بھی مدعو تھے،وہ بھی ہماری نعت خوانی سے بہت خوش ہوئے اور پیار
کیا۔ علاقے میں ان کا رعب و دبدبہ تھا۔ نہایت ہی شریف النفس اور غریبوں کے
ہمدرد تھے۔یہی وجہ تھی کہ سرکاری ادارے، علاقے کے لوگ ان کی بڑی عزت کرتے
تھے۔ ہم جب پولیس اسٹیشن میں بے یارو مدد گار بیٹھے ہوئے تھے، وہ اچانک
وہاں آ گئے،اور پولیس والوں کی دوڑیں لگ گئی۔انہوں نے ہمیں وہاں دیکھا تو
ششدر رہ گئے۔ ہمیں بولایا، ماجرہ پوچھا۔ ہم نے صاف صاف کہا کہ ہمیں نہیں
پتہ کہ کیوں لایا گیا ہے۔تب پولیس نے بتایا کہ اس بچے کے بہنوئی نے اس پر
پچاس ہزار روپے کی چوری کا الزام لگا یا ہے۔ اور اس لئے اس بچے کو یہاں
لایا گیا ہے۔ اس فرشتہ صفت انسان نے ہمیں وہاں سے بچایا، اور بہنوئی کو بلا
کر کھری کھری سنائی، اور پولیس کو بھی تاکید کی کہ آئندہ اس بچے پر ہاتھ نہ
ڈالا جائے۔ بہنوئی جو پہلے شیر بنے ہوئے تھے، اب گیدڑ بنے شہر کا راستہ
دیکھ رہے تھے کہ کس طرح یہاں سے خلاصی ہو۔
وقت بڑی عجیب موڑیں کاٹتا ہے۔کبھی اوپر جاتا ہے، تو کبھی ایسازمین بوس کرتا
ہے کہ انسان مجازی گمنام ہو کر رہ جاتا ہے۔وہی خاک سے بنا وجود ہوتا
ہے،احساس ، عزت ، رعب ، وجاہت سب چِھین لیا جاتا ہے، شیطانی حملوں کے اثرات
اس کے انگ انگ سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے آس پاس کے لوگوں کو کھو بیٹھتا
ہے۔ دوسری طرف کتنا ہی پر لطف اتفاق ہوتا ہے، سر سجدہ شکر میں گر جاتا ہے
جب رب العالمین کا انصاف مظلوم اپنے حق میں پلٹتا ہوا دیکھتا ہے۔ وہی سر
اور آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر چلنے ولا شخص کہ جسے معاشرہ تیسرے بیٹے
کے القابات سے نوازتا ہے، اور اس نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے تھے، معصوم جان
کو بھوکے بھیڑیوں کے سپرد کر کے بے بسی کا تماشہ دیکھا تھا ، آ ج وہ ہماری
نظروں سے نظریں بھی نہیں ملا پاتا۔ اور ہم با عزت روزگار کے ساتھ بہترین
معاشی حالات کے ساتھ ، رب تعالیـ کی نعمتوں سے مستفید ہو رہے ہیں۔ اور جسے
اپنے اوپر ناز تھا، جو ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتا تھا، جسے سفید کاٹن
زیب تن کرنے کی عادت سی تھی، وہ سارے ظلم اس پر لوٹا دیے گئے ہیں۔
ہمیں پولیس اسٹیشن سے آ کر معلوم ہوا کے اس کے عتاب کا شکار ہماری مظلوم
بہن ہم سے پہلے ہوچکی تھی۔ لیکن صابرہ بہن نے ہمیں بھنک تک نہیں لگنے دی۔
ہم کچھ کر نہیں سکتے تھے، مگر غیر معمولی حساسیت ضرور موجود تھی۔ وقت گزرتے
دیر نہیں لگتی، سال مہینوں کی طرح، مہینے ہفتوں کی طرح،اور ہفتے دنوں کی
طرح یوں کافور ہوئے کہ زندگی کے کئی سال پَل بھر میں اِدھر سے ادھر ہو گئے،
اور ہم نادان پرندے اڑنے لائق ہو گئے۔مضبوط اعصاب کے مالک ہوئے اور اپنے
آشیانے میں بسیرہ کیا۔ رب تعالی نے ساری خوشیاں عطا کیں، نعمتوں سے ایسا سر
سبز و شاداب کیا کہ ماضی کے سارے طوفان بھول گئے۔ اور اس کا شکر بجا لانے
میں ہمہ تن گوش ہو گئے۔ اور وہ اپنے ظلم و ستم کرنے والے انسان نما درندے،
سنگ دل ، پتھر دل انسان آج بھی اپنے کئے کی سزا بھگت رہے ہیں۔ جیسی کرنی
ویسی بھرنی کے مصداق چچا آج تک اپنی اکلوتی بیٹی کا گھر بسانے میں ناکام
ہیں ، تو بہنوئی بھی خدا کی پکڑ میں ہیں ۔ بیوی ، بچوں کے اسلامی حقوق کا
تو پہلے سے ڈاکو تھا، کچھ عبادتِ خدا وندی کی توفیق تھی اﷲ نے وہ بھی چھین
لی۔ بے شک اس کی لاٹھی بے آواز ہے۔ جب وہ رسی کھینچتا ہے تو اس کی پکڑ بڑی
سخت ہوتی ہے۔ مکافاتِ عمل انسان کی زندگی میں ضرور آتا ہے، لیکن سچ یہ ہے
کہ انسان اس کا شعور نہیں رکھتا۔ |