لازوال قسط نمبر 19

عندلیب مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔۔‘‘ عندلیب ابھی ابھی باہر سے آئی تھی۔ جسے حجاب نے کچن سے دیکھ لیا تھا ۔ اس لئے فوراً کچن نے نکل کر باہر ٹی وی لاؤنج میں آگئی
’’کیا ہے؟‘‘ اس نے بے رخی سے جواب دیا
’’وہ آپ کے اور انمول کے درمیان جو مس انڈرسٹینڈنگ چل رہی ہے وہ۔۔۔‘‘حجاب ابھی اپنا جملہ آدھا ہی کہہ سکی تھی کہ عندلیب نے مداخلت کی
’’اوہ۔۔!!بات تم تک پہنچ گئی اب۔۔۔‘‘ اس نے تمسخرانہ کہا تھا
’’ عندلیب۔۔۔ حالات کی نزاکت کو سمجھنے کی کوشش کرو۔۔وہ تمہارا شوہر ہے‘‘پہلی بار وہ عندلیب سے دھیمے لہجے میں بات کر رہی تھی۔وجیہہ کی باتوں نے اس کے دل میں گھر کر لیا تھا۔وہ انہی پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی تھی
’’مجھے سمجھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے تمہیں۔۔ آئی بات سمجھ میں۔۔۔‘‘ وہ اس کی باتوں کو نظر اندازکرتے ہوئے بے رخی سے سیڑھیوں کی جانب بڑھی تھی
’’عندلیب اگر تم ہی کچھ نہیں سمجھو گی تو پیچیدگیاں مزید بڑھیں گی۔۔ رشتے مزید الجھے گیں۔۔‘‘وہ اس کا پیچھا کرتے ہوئے مسلسل اسے سمجھانے کی کوشش کر رہی تھی مگر وہ سننے کو تیار ہی نہیں تھی۔ پاؤں پٹختی ہوئی کمرے کی طرف جا رہی تھی
’’ عندلیب۔۔‘‘ اس نے اُس کا ہاتھ پکڑنا چاہامگر اس نے اتنے برے طریقے سے جھٹکا کہ حجاب اپنا توازن کھو بیٹھی اور گرنے ہی والی تھی کہ انمو ل نے اسے بچالیا۔
’’ عندلیب۔۔۔‘‘ وہ غصے میں غرایا تھا
’’اب اس کی خاطر تم مجھ پر غصہ کرو گے۔۔‘‘پلٹ کر جواب دیا ۔ اتنے میں علی عظمت اور رضیہ بیگم بھی اپنے کمرے سے باہر آگئے
’’بات اس کی نہیں صحیح اور غلط کی ہو رہی ہے۔ یہ تمہیں سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے اور تم اسی کو دھکا دے رہی ہو۔۔‘‘حجاب کا بری طرح ہانپ رہی تھی
’’انمول۔۔۔اس دو ٹکے کی لڑکی کی خاطر تم مجھ سے الجھ رہے ہو؟‘‘ وہ انمول کو آنکھیں دیکھانے لگی
’’ یہ دو ٹکے کی لڑکی میری بیوی ہے۔۔۔‘‘وہ غصے میں دھاڑا تھا مگر اس دھاڑنے کی آواز حجاب کے لئے انتہائی شیریں تھی۔اس کا سانس بحال ہونا شروع ہوگیا۔ اس نے ایک کشش کے ساتھ انمول کے چہرے کی طرف دیکھا ۔ علی عظمت اور رضیہ بیگم کے چہرے پر بھی خوشی کی ایک لہردوڑ گئی۔رضیہ بیگم نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ علی عظمت کی طرف دیکھا
’’آئندہ اپنی لمٹ میں رہنا۔۔‘‘چٹکی بجاتے ہوئے اس کو چیلنج کرتے ہوئے کہاتو وہ دہکتی آنکھوں سے اسے گھورتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
’’ ان۔۔‘‘ وہ ابھی اس کا نام پورا بھی نہیں لے پائی تھی کہ وہ بھی بنا اس کی طرف دیکھے چلاگیامگر اس بار اس کی بے رخی نے اسے دکھ نہیں پہنچایا۔ اس کی بے رخی میں بھی ایک عجیب سی کشش تھی۔ ایک عجب سا احساس پنہاں تھا۔ جسے وہ محسوس کر رہی تھی۔
’’ پھپو۔آپ۔۔ نے دیکھا۔۔‘‘ رضیہ بیگم کے پاس آکر وہ ہکلاتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
’’ ہاں بیٹا۔۔ دیکھا۔۔‘‘اثبات میں سرہلاتے ہوئے انہوں نے تائید کی تھی
’’ دیکھنا آج تو صرف زبان سے اقرار کیا ہے ۔ ایک وقت آئے گا جب دل سے بھی وہ تمہیں اپنی بیوی مان لے گا۔۔‘‘حجاب کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے علی عظمت میں نے کہا تھا۔
٭ ٭ ٭

’’ امی ٹھیک کہتی تھیں میں جس راہ پر گامزن ہوں وہ صحیح نہیں ہے۔اُس راستے پر صرف شر ہے صرف شر۔ اس راستے پر چلنے سے صرف کانٹے ہی ملتے ہیں۔برائی ہی ملتی ہے۔ نیکی کا راستہ ہی انسان کے لئے فلاح کا راستہ ہے۔ دنیا میں ہر شے کو زوال ہے ۔ کوئی مقام ایسا نہیں جس کو زوال نہ ہو اور میں ۔۔۔ میں پاگل اس مقام کو پانا چاہتا تھا جو لازوال ہو۔ کیوں بھول گیا تھا کہ ایسالازوال تو صرف اللہ رب العزت کی ذات ہے۔ صرف خدا کی شان کو عروج حاصل ہے۔اس کے علاوہ جس کو وہ چاہے عروج بخشے جس کو چاہے زوال کے کنویں میں دھکیل دے۔‘‘ وہ لان میں ٹہلتا ہوا مسلسل سوچ رہا تھا
’’انسان کو لازوال صرف سنت رسول ﷺ ہی بنا سکتی ہے۔صرف خدا کے احکام اور رسول کی سنتیں ہی وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے انسان کو دوام ملتا ہے ۔ فلاح ملتی ہے ورنہ دنیا میں کوئی شے ایسی نہیں جو انسان کو عروج بخشتی ہے۔۔‘‘خراما ں خراماں قدموں سے ٹہلتے ہوئے اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ٹھنڈی ہواکے جھونکوں سے اس کے بال اٹکھیلیاں کر رہے تھے۔شرٹ بھی ہوا کے پروں پر سوار جھوم رہی تھی۔پتوں کی سرسراہٹ کانوں میں ایک عجیب سا رس گھول رہی تھی۔آج پہلی بار وہ اپنے ضمیر کی آواز سن رہا
’’انسان جب ضمیر کی آواز سنتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ اس نے کیا برا کیا ؟کیااچھا؟انسان کا سب سے بڑا جج خود اس کا ضمیر ہے۔اگر انسان اپنے ضمیر کی سن لے تو اسے کبھی کسی دوسرے کی سننی نہیں پڑتی۔انسان کو اپنی غلطیوں کا احساس دلانے کے لئے اس کا ضمیر ہی کافی ہوتا ہے۔ ‘‘ رضیہ بیگم کی نصیحت آج اسے سمجھ آرہی تھی
’’خواہشوں کی تکمیل کبھی نہیں ہوتی۔ایک خواہش مکمل نہیں ہوتی دوسری پروان چڑھنے لگتی ہے۔انسان کی خواہشیں صرف قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔‘‘بچپن میں اکثر شگفتہ بی بی اس کو اپنی گود میں لئے اسے نصیحتیں کرتی رہتی۔وہ خاموشی سنتا رہتا۔اس وقت کہاں سمجھ تھی اور جب سمجھ آئی تو دنیا میں اتنا محو ہوگا کہ سوجھنے بوجھنے کی صلاحیت ہی مفلوج ہو کر رہ گئی
’’ضرغام انسان کی کامیابی صرف نماز میں ہے۔انسان کو اگرچہ یہ نماز گراں گزرتی ہے مگر یقین جانیے نماز گراں نہیں ہے اُن لوگوں کے لئے جنہیں اللہ سے ملنے کی امید ہے۔اورآپ ہمیشہ سے عروج کو پانا چاہتے ہیں اور اسی عروج کی خاطر آپ اپنی ہر حدوں کو پار کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن ضرغام انسان کا عروج تو نماز میں پنہاں ہے۔ آپ نے نہیں سنا کہ نماز کو مومن کی معراج کہا گیا اور آپ جانتے ہیں کہ معراج کا مطلب عروج ہے۔ بظاہر انسان اپنی پیشانی کو اپنے رب کے سامنے جھکاتا لیکن اس عاجزی کے بدلے اللہ پاک انسان کو جو عروج بخشتا ہے اس کا اندازہ انسان کی سوچ لگا ہی نہیں سکتی۔۔‘‘وجیہہ کی باتیں آج اسے سمجھ میں آ رہی تھیں۔بادلوں نے آسمان کو ڈھکنا شروع کر دیا۔چاند کی چاندنی آہستہ آہستہ اپنے ماخذ کی طرف سمٹی گئی۔اس نے ایک نظر آسمان کی طرف اٹھائی
’’شیطان ہمیشہ انسان کے پاس چار راستوں سے آتا ہے۔ آگے سے پیچھے سے، دائیں سے اور بائیں غرض ہر طرف سے شیطان انسان کو گمراہ کرنے کے لئے تیار ہے لیکن دوسمتیں ایسی ہیں جہاں سے وہ کبھی حملہ آور نہیں ہوسکتا۔یہی دو سمتیں انسان کو اپنے رب سے ملا دیتی ہیں۔ انہی دو سمتوں سے انسان کو اپنے رب کی رحمت ملتی ہے۔ ایک سمت نیچے ہے اور ایک سمت اوپر ہے۔ یعنی انسان جب اپنے گناہوں پر نادم ہو کر اس کے آگے سجدہ ریز ہوتا ۔ اپنی پیشانی کو اس کے آگے جھکاتا ہے تو اس کی رحمت دوڑ کر اپنے بندے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔اور جب انسان امید کے ساتھ اوپر کی طرف دیکھتا ہے تب بھی انسان کو نجات کی راہ مل جاتی ہے۔ یہ دو سمتیں ان چاروں سمتوں پر حاوی ہیں جہاں سے شیطان انسان کو گمراہ کرد یتا ہے۔‘‘بظاہر اندھیرا اپنے جوبن پر تھا۔ہر شے اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی مگر اس اندھیرے میں بھی اسے روشنی کی کرنیں صاف نظر آرہی تھیں۔رات کی سیاہی میں بھی اس کا چہرہ منور تھا۔وہ آنکھیں بند کئے آسمان کی طرف چہرہ کئے ہوئے تھا۔ٹپ ٹپ بوندیں اس کی آنکھوں سے گرنے لگیں۔پلکوں پرچمکتے آنسو بوندوں سے مل گئے۔آنکھیں کھو ل کر اس نے آسمان کی طرف دیکھاتو ایک کے بعد ایک بوند اس کے چہرے کو بوسہ دینے لگی۔ دونوں ہاتھوں کو کھول کر اس نے فضا کو اپنے اندر سمونے کی کوشش کی ۔ہوا میں اس کا وجود لہرا رہا تھا۔
’’انسان جب اپنے گناہوں پر نادم ہوتا ہے اور ا س کے آگے سربسجود ہو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے تو اس کے اندر سے ہر قسم کا میل دور ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو آسمان پر اڑتے ان پرندوں کی طرح محسوس کرتا ہے جو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ اپنا رخ موڑ لیتے ہیں۔‘‘ بارش نے اس کے پورے وجود کو گیلا کر دیا تھا۔آسمان پر بجلی چمک رہی تھی۔اندھیری رات میں ہو روشنی کا چراغ اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ وہ آہستہ آہستہ زمین بوس ہوتا گیا۔ہوا میں لہراتے ہاتھ آہستہ آہستہ سمٹتے چلے گئے۔پنجوں کے بل وہ گھاس پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔ دونوں ہاتھ گھٹنوں پر تھے۔
’’اللہ مجھے معاف کردے۔۔‘ ‘ آنکھوں کے آنسو بارش کے قطروں میں بھی اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے تھے۔بھیگی آنکھوں کا وجود بارش میں بھی اپنی حیثیت رکھتا تھا
’’میں تجھ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہوں۔۔ مجھے معاف کردے۔‘‘دل کی آواز فضاؤں میں گونج رہی تھی۔درختوں کے پتے جھڑ کر اس کے وجود کو چھو رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ بھی اس کے جسم سے مس ہو کر اپنے آپ پر فخر محسوس کر رہے ہوں
’’میں اپنے کئے پر نادم ہوں۔۔ شرمندہ ہوں۔۔۔‘‘بارش کے قطرے اور موتی نما آنسو دونوں گھاس پر گر رہے تھے۔بظاہر دونوں کی اصل ایک تھی۔ مگر دونوں کی حیثیت الگ تھی
’’میں بھٹک گیا تھا۔۔ سیدھے راستے سے۔۔۔ تیرے بتائے ہوئے راستے سے۔۔‘‘چمکتا ہو ا موتی اب آہستہ آہستہ پگھل رہا تھا۔بارش کی بوندیں اس کے وجود کو تحلیل کر رہی تھیں
’’میں واپس آنا چاہتا ہوں مجھے قبول فرمالے۔۔۔‘‘اس کے پورے وجود پر ایک رقت طاری تھی۔جھکا ہوا سر اپنی اوقا ت بتا رہا تھا۔ اپنے آقا کی بڑائی بیان کر رہاتھا۔بارش تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔ہوا کے جھونکے درختوں کو جھومنے پر مجبور کر رہے تھے مگر اس کا وجو د ساکت تھا۔ کوئی جنبش نہ تھی مگر اس سکوت میں بھی ا س کے چہرے پر ایک طمانت تھی۔

٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ضرغام کی زندگی میں آنے والا ہے نیا موڑ جانیے اگلی قسط میں
 

Muhammad Shoaib
About the Author: Muhammad Shoaib Read More Articles by Muhammad Shoaib: 64 Articles with 98823 views I'm a student of Software Engineering but i also like to write something new. You can give me your precious feedback at my fb page www.facebook.com/Mu.. View More