ایک تھکا دینے والے دن کا اختتام ہونے کو تھا،،، دن کی
روشنی رات کی مدھم مگر آہستہ آہستہ
ہر سو چھاتی سیاہی کا چولا پہن چکی تھی،،،اندھیرا بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی
بے چینی
بھی بڑھ رہی تھی،،،کچھ کھونے کا احساس شدت سے ہونے لگا،،، آنسو برسنے کو بے
تاب تھی
دل نے سفارش کی جی بھر کے رو لو منا لو ماتم ،،، یہاں بھی انا کھڑی
ہوگئی،،،سوچ لو رو لی تو
سمجھو کمزور ہو جاؤ گی،،،تمہیں کمزور نہیں پڑنا،،، جسے تمہاری پروا
نہیں،،،اس کے لیے آنسو
بہاؤ گی؟؟ اس نے آنسو پی لیے،،، میں کمزور نہیں،،،دکھا دوں گی میں اسے،،،
صبح ہوتے ہی وہ ادھر ادھر کے فضول کاموں میں خودکو الجھاتی رہی،،،شاید اماں
سےکترا رہی تھی
اماں کچھ دیر اس کے فارغ ہونے کا انتظار کرتی رہی،،،پر اسے ہنوز مصروف دیکھ
کر خود اس کے
پاس آگئی،،، اس نے اک چورنظر اماں پرڈالی،،،پر سر جھکا کر کام کرنے
لگی،،،زہرہ،،،
اماں نے پکارا،،،اس کے چلتے ہاتھ رک گئے مگر بولی کچھ نہیں،،،زہرہ کیاسو چا
ہے تم ہے؟؟
اماں نے کسی بھی تمہید باندھےبغیر سیدھا سوال کیا،،،دیکھو بیٹا ضد چھوڑ
دو،،،اپنے گھر واپس
چلی جاؤ،،،ابھی بھی وقت ہے ورنہ ساری عمر پچھتاوےکی آگ میں جھلستی رہو
گی۔۔۔
اپنے بچوں کا سوچو کچھ،،،انہیں ماں کی محبت کے ساتھ باپ کی شفقت بھی
چاہیے،،،
ابھی وہ چھوٹے ہیں کل کو جب وہ بڑے ہوں گے تو قدم قدم پر انہیں باپ کا ساتھ
چاہیے ہوگا۔۔
وہ خاموشی سے بے تاثر سنتی رہی،،،اماں کواس کی خاموشی سے کوفت ہونے لگی،،،
زہرہ کچھ تو بولو،،،اماں میں وہاں کیسے چلی جاؤں؟؟اپنی جاب چھوڑ کے،،،آپ
جانتی ہیں نہ یہ محض
جاب نہیں میرا جنون ہے،،،شہروز بھی اچھے سے یہ بات جانتے ہیں پھر بھی وہ
چاہتے ہیں
میں جاب چھوڑ دوں وہاں چلی جاؤں،،،
جاب چھوڑنے کی نہیں کہہ رہاوہ،،،تم بس ٹرانسفر کروا لو اپنا،،،اپنے شوہر کے
پاس جاکے رہو،،،
پر امی اس سکول سےکتنی وابستگی ہے میری،،،کتنی عزت ہے،،،جانتی ہو آپ
تو،،،میں ٹرانسفر کیوں
کرواؤں،،،وہ کیوں نہیں آ سکتا یہاں؟؟
حد ہوتی ہے زہرہ،،،وہ مرد ہے کیوں مقابلے پر تلی ہوئی ہو،،،اتنے سال ہو گئے
ہیں تمہاری
شادی کو،،،تم میکے میں ہی رہ رہی ہو بچوں سمیت نوکری کا بہانہ کرکے،،،اس کی
نرمی کا
نا جائز فائدہ نہیں اٹھاؤ،،،وہ بھی تو چاہتا ہوگا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ
رہے،،،
گھر کا سکون ملے اسے بھی،،،تمہیں محسوس کیوں نہیں ہوتا وہ تھک چکا ہے،،،کل
وہ دبے
لفظوں میں کہہ گیا ہے،،،اب کی بار تم نہ آئی تو وہ دوسری شادی کرلے گا،،،اس
نے بے فکری
سے اماں کو دیکھا،،،تو کرنے دیں دوسری شادی،،،وہ سمجھتا ہے کہ میں ڈر جاؤں
گی
اور اس کی بات مان لوں گی،،،پر میں خود مختارہوں،،،اس کی محتاج نہیں،،،اسں
کا فون آئے،،
تو بتا دیجئے گااسے،،،میں کمزور نہیں ہوں،،،
اماں نے تاسف سےاسے دیکھا اور خاموشی سے اٹھ گئی،،،وہ اس کی ضد سے واقف تھی
وہ جانتی تھی وہ کبھی بھی انکی بات نہیں سنے گی،،،ان کی بیٹی ان عورتوں میں
سے تھی
جن کی بنیادی ترجیح ان کی انا ہوتی ہے،،،جس کے پیچھے وہ سب کھو دیتی ہیں پر
کبھی سمجھوتا نہیں کرتی،،،انہوں نے اک نظر میلےکپڑوں سےالجھتی اپنی ضدی
بیٹی پر ڈالی
وہ جانتی تھی وہ اندر سے بکھری ہوئی ہے،،،اپنے مرد کی شراکت کوئی بھی
برداشت نہیں کرسکتی
زہرہ نے اک تھکی ہوئی سانس ہوا کے سپرد کی،،،میں کمزور نہیں جو جھک جاتی اس
کے سامنے،،
اس نے جیسے خود کو تسلی دی،،سامنے انا فاتحانہ انداز میں مسکراکر اسے تکتی
رہی،،،
|