پاکستان تحریک انصاف کے ایک سابق سینئر لیڈر اکبر ایس
بابر آج کل نون لیگ کی امیدوں کا مرکز بنے ہوئے ہیں کسی نے لکھا یہ شخص
اکیلا ہی نکلا اور اس نے عمران خان کے گلے پر ہاتھ ڈال دیا۔کوئی اسے بڑا
پاک طینیت صاف و شفاف اس قدر لکھتا ہے کہ اسے اقبال کا مرد مسلمان جو قدوسی
جبروت جباری اور قہاری کی تصویر بنا کر پیش کرتا ہے۔۲۰۰۷ میں جب پی ٹی آئی
جائن کی تو ان سے ملاقات ہوئی پہلی پریس ریلیز تیار کی تو خان صاحب نے کہا
اکبر کو دکھا لیا کرو۔یہ ٹانگے کی سواری والا دور تھا ۔پارٹی اجلاس میں
اکبر عمران سے تیسری یا چوتھی نشست پر بیٹھا کرتے تھے۔کوئی ایسی تگڑی چیز
بھی نہ تھے ان سے زیادہ تو عارف علوی فردوس نقوی عمر چیمہ تھے۔بہر حال مجھے
آج جس بات نے کالم لکھنے پر مجبور کیا ہے ہو یہ ہے کہ فارن فنڈنگ کیس میں
پی ٹی آئی کیوں کمزور ہے۔اور اس نے الیکشن کمیشن کو پوری تفصیلات کیوں مہیا
نہیں کیں۔یہ سرا سر ایک تکنیکی مسئلہ ہے۔پارٹی جب ۲۰۱۱ میں سر اٹھانا شروع
ہوئی تو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اپنے تئیں اس میں فنڈز بھیجے۔امریکہ
بریطانیہ سعودی عرب غرض بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے عمران خان کی اپیل پر
رقوم ارسال کیں۔وہاں کی اپنی مجبوریاں تھیں کسی سیاسی جماعت کو فنڈ اکٹھے
کر کے بھجوانا ایک مسئلہ تھا۔ویسے بھی نائین الیون کے بعد رقوم کی ترسیل پر
کڑی نظر رکھی جا رہی تھی۔لوگ پارٹی اکاؤنٹ میں پیسے بھیجتے ہوئے ڈرتے
تھے۔جیسے تیسے ہوا پارٹی کو پیسے ملنے شروع ہوئے۔دوسری پارٹیوں کو تو دونی
نہیں ملتی تھی انہوں نے بڑے منظم طریقے سے منی لانڈرنگ کی ان کے پاس اس کام
کے تجربہ کار لوگ موجود تھے ۔سعودی عرب سے رقوم کی ترسیل تو میں نے دیکھی
کہ عوامی مقامات پر ریسٹورینٹس میں میاں برادران کے ایجینٹ ریال اکٹھے کرتے
اور انہیں ان کے گھروں میں پیسے مل جاتے تھے۔پی ٹی آئی کا ایسا کھاتہ نہیں
تھا۔جہاں تک ان رقوم کی ہینڈلنگ کا معاملہ ہے پارٹی کے پاس اتنے وسائل بھی
نہیں تھے کہ وہ پاکستان میں ان بھاری رقوم کوا مانسب بند و بست کر پاتی۔اور
ویسے بھی پی ٹی آئی میں کون سے فرشتے تھے جنہوں نے ان پیسوں کے ساتھ کھلواڑ
نہیں کیا ہو گا اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔جماعت اسلامی کے امیر کے بیٹے
ڈرگز کی ترسیل میں پکڑے گئے تو یہ کون سی جنت کے باسی تھے ان لوگوں نے ضرور
امانت میں خیانت کی ہو گی۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہیرا پھیری اور
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں ارسال کردہ رقوم عمران خان نے کھائیں تو بات
کیجئے گا۔پارٹی میں جب اس قسم کی شکایات سامنے آئیں تو اس پر ایکشن بھی ہوا
اور پوری فنانشل ٹیم کو الگ کر دیا گیا۔یہ وہ دور تھا جب پی ٹی آئی چند
افراد کے ہاتھوں سے نکل کر ایک ادارہ بننے جا رہی تھی۔اب ان بے ضابطگیوں کو
بنیاد بنا کر عمران خان کی نا اہلی کی راہیں ہموار کرنے والے یہ چڑی مار
خان قوم کی کیا خدمت کر رہے ہیں۔مجھے سچی بات ہے بہت خوشی ہوتی کہ ایک
پاکستانی کی حیثیت میں اکبر ایس بابر نواز شریف زرادری اسفند یار ولی محمود
اچکزئی مولانا فضل الرحمن ڈاکٹر عاصم ایان علی شرجیل میمن اور دیگر کو بھی
اسی پٹیشن میں ساتھ گھسیٹتے۔
اب میں اپنے معزز قارئین کی خدمت میں وہ خاص باتیں لانا چاہتا ہوں جو اکبر
ایس بابر کے اس غصے کا سبب بنیں اور وہ چاہتے اور نہ چاہتے ہوئے نون لیگ کے
ہاتھوں کھلونا بن گئے۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ پارٹی کے اندر رہ کر ان
کرپٹ لوگوں کے خلاف لڑائی لرتے اور انہیں نکال باہر کرواتے لیکن وہ اتنی
ہمت اور دلیری نہیں کر سکے چپکے سے الگ ہو کر پارٹی کو عدلاتوں میں گھسیٹنے
پہنچ گئے۔ہوا یہ تھا کہ ان دنوں پارٹی نے اسلام آباد میں ایک جلسے کا
انتظام کیا تھا انہوں نے سینے پر ہاتھ مار کر کہا تھا کہ نہ صرف میڈیا
کوریج بلکہ اس جلسے کا سارا انتظام میں کروں گا۔جلسہ تو کامیاب ہو گیا لیکن
ہوا یوں کہ میڈیا کوریج نہ ہو سکی(یاد رہے ان دنوں میں سعودی عرب چلا گیا
تھا) جب ان کا احتساب کیا گیا تو انہوں نے لوگوں کو گندی گالیاں دینا شروع
کر دیں۔موصوف کی یہ خوبی ہے کہ مغلظات بکتے ذرا شرماتے نہیں۔ایک اسلام
آبادی کلب میں بھی وہ اپنے اس کمال کے حسن کا تجربہ کر چکے ہیں۔ایک ڈکٹیٹر
کو زندہ دیکھنا ہو تو ان سے مل لیجئے۔اسی دوران جب ان سے س ج ہوئے تو انہوں
نے کہا عمران خان کو دیکھ لوں گا اور میں اسے عدالت میں گھسیٹوں گا۔تحریک
انصاف کے چیئرمین کے خلاف مخالفین کے پاس ایک دو باتیں ہیں یہ یہودی ایجینٹ
ہے۔یہ اخلاقی طور پر پستی کا شکار ہے اس کے علاوہ سارے پھنے خان کوئی الزام
نہیں لگا سکے۔اب دوستو! میرا آپ سے سوال ہے کہ کیا عمران خان نے ان رقوم سے
جائدادیں بنائی ہیں کیا انہوں نے بیرون ملک ٹاورز،فلیٹس سرے محل تعمیر کئے
ہیں اگر کئے ہیں تو عمران خان کو سزا دی جائے اگر کبھی کسی راشد خان
ذوالقرنین علی خان یہ کسی اور دوست کا نام لیا جاتا ہے تو یہ بتایا جائے کہ
کیا یہ لوگ ڈاکٹر عاصم تھے ؟الٹا ان لوگوں نے پاکستانیوں کو روزگار دئیے
اور پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنایا۔اور اس کے لئے قانونی ذرائیع استعمال
کئے۔عمران خان اور نواز شریف کو ایک ہی ترازو میں تولنا اس قوم کے ساتھ ایک
بڑی زیادتی کی جا رہی ہے۔ایک باہر سے پیسے لا رہا تھا اور ایک لے جا رہا
تھا۔ایک کا سب کچھ ایک پہاڑی کی شکل میں موجود ہے اور دوسرے کا تو پتہ ہی
نہیں چل رہا کہ آف شور کمپنیوں کی صورت میں کہاں کہاں رقمیں لگی ہوئی
ہیں۔اکبر ایس بابر کی ساری کتھا کہانی وہ بدلے کی آگ ہے جس میں وہ برسوں سے
جھلس رہا ہے۔ایک شخص کی قیمت کیا ہو گی جس کی تعریف ایفی ڈرین میں ملوث ایک
سیاسی شعبدے باز کر رہا ہو۔جس کی الیکشن کمیشن میں پیشیوں کے موقع پر
دانیال عزیز جیسے لوگو اس کی پیٹھ ٹھونک رہے ہوں۔دلیر اور بہادر لوگ اپنی
لڑائی آپ لڑتے ہیں ۔وہ اگر پی ٹی آئی کے اندر رہ کر لڑتے تو ہو سکتا ہے
احتسابی گروپ کو مضبوطی ملتی جو کسی بھی غلط قدم پر آج بھی اپنا احتجاج
ریکارڈ کراتا ہے جو پارٹی چیئرمین کو اپنے مفید مشوروں سے نوازتا ہے۔اکبر
ایس بابر کسی کا یس بابر بن چکے ہیں۔اور انہیں یہ معلوم ہے کہ ایسے لوگوں
سے ہر کوئی ڈرتا ہے جو اپنوں کو ہی ڈس لیتے ہیں۔
|