کل بروز جمعرات لمز یونیورسٹی کے این آئی بی ایڈیٹوریم
میں ایک پر وقار مشاعرے کا اہتمام کیا گیا تھا۔الحمرا ء میں ایک پروگرام کے
اختتام پر جناب زاہد حسن صاحب سے ملاقات ہوئی جو کہ لمز یونیورسٹی میں
ریسرچر کے طور پر کام کر رہے ہیں انہوں نے لمز یونیورسٹی مشاعرے کا دعوت
نامہ مجھے پیش کیا جس پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور آنے کا وعدہ بھی
کر لیا۔میرے علاوہ انہوں نے معروف لکھاری بھائیوں جن میں مرزا ٰ یٰسین بیگ
صاحب ،ملک شہباز صاحب ،جناب محمد الطاف صاحب اور جناب عبدالصمد صاحب بھی
شامل تھے۔ہم مقرہ وقت سے کچھ دیر پہلے یونیورسٹی پہنچ چکے تھے ۔پروگرام کا
وقت شام چھ بجے تھا لیکن پروگرام کا آغاز سوا چھ بجے ہوا۔مہمان خصوصی کے
طور پر صوبہ سندھ کی معروف شاعرات کو مدہو کیا گیا تھا۔ان میں محترمہ
پروفیسر تنویر انجم صاحبہ ،محترمہ عطیہ داؤد صاحبہ اور محترمہ پروفیسر امر
سندھو صاحبہ تھیں۔
میں آپ کو ان مہمان گرامی کا مختصر سا تعارف بھی کروا دیتا ہوں ۔پروفیسر
محترمی تنویر انجم صاحبہ شاعرہ اورمترجم ہیں۔ اور ان دونوں صنفوں پر ان کو
خوب ملکہ بھی حاصل ہے۔آپ نے 1970ء کی دہائی میں نثر نظموں سے اپنی شارعی کا
آغاز کیا۔اب تک آپ کے سات مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔جن میں ان دیکھی
لہریں،زندگی میرے پیروں سے لپٹ جائے گی،نئی نام کی محبت ،حاشیوں میں رنگ
قابل ذکر ہیں۔آپ کی غزلیات پر مشتمل کتابیں جن میں سارو برگ آرزو جو 2001
میں شائع ہوئی تھی۔آپ کی نظموں کے کئی ممالک کی زبانوں میں بھی ترجمعے کئے
گئے۔ایک کتاب 2014میں شائع ہوئی جو منتخب نظموں پر مشتمل تھی۔کل بھی مشاعرے
میں آپ نے اپنی غزلیات اور نثری نظمیں پیش کیں جن کو وہاں موجود حاضرین نے
سراہا۔
محترمہ عطیہ داؤد صاحبہ سندھی اور اردو زبان کی شاعرہ،مصنف اور سماجی کارکن
بھی ہیں۔آپ خواتین پر ہونے والے مظالم پر نہ صرف لکھتی ہیں بلکہ ہر فورم پر
ان کے لئے آواز بھی بلند کرتی ہیں۔آپ عورتوں کو با اختیار بنانے کی بھی
حامی ہیں۔آپ کی سات کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔اور ان کی کتابوں کے
جرمن،انگلش ،اردو اور ہندی میں تراجم موجود ہیں۔آپ کی ایک تصنیف ـ" ایک
تکھا ہوا سچ" ہندی زبان میں ممبئی انڈیا میں 2016میں شائع ہوئی۔آپ نے
خواتین کے حقوق،امن،انصاف اور صنفی مسائل پر بھی کئی مضامین لکھے جو قومی
میلوں اور ادبی اخباروں میں شائع بھی ہوئے۔ آپ کو بھارت میں سندھی ادبی
ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔مشاعرے میں بھی آپ نے بہت ساری نظمیں حاضرین کو
سنا کر خوب داد وصول کی۔آپ نے کچھ اپنے ماضی کی یادوں کو بھی تازہ کیا اور
بڑے ہلکے پھلکے انداز میں حاضرین کے سامنے پیش کیا ۔آپ ایک ہس مکھ شخصیت کی
مالک ہیں۔
محترمہ امر سندھو صاحبہ سندھی زبان کی شاعرہ،کالم نگار اورسماجی کارکن بھی
ہیں۔اس کے علاوہ آپ سندھ یونیورسٹی میں فلسفہ کی پروفیسر اور فلسفہ
ڈیپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر بھی ہیں۔آپ ایک سماجی کارکن ہیں اور خواتین ایکشن
فورم کی ممبر بھی ہیں۔آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک میگزین بھی شائع
کرتی ہیں۔سندھی میں ایک کتاب شائع ہوئی جس کا اردو ترجمعہ " جاگتی آنکھوں
کے سپنے"ہے۔آپ سندھ میں معروف شخصیت ہیں اور آپ مردوں اور عورتوں کے مسائل
پر یکساں کام کر رہی ہیں۔آپ نے بھی حاضرین کو اپنی کچھ نظمیں پیش کیں ۔جن
کو حاضرین نے تالیاں بجا کر خوب داد دی۔پروگرام کے اختتام پر ہم ان تینوں
مہمانوں سے ملے اور سیلفیاں بھی لیں۔اور ان کا لاہور آنے پر شکریہ ادا
کیا۔کچھ دیر میں لمز یونیورسٹی کے طلبا نے ان تینوں کو گھیر لیا اور ان سے
آٹو گراف اور تصاویر بنواتے رہے ۔ہمیں محترم جناب زاہد حسن صاحب جو لمز
یونیورسٹی کے ریسرچر بھی ہیں نے نیچے کنٹین میں ایک عشائیہ دیا جس کے لئے
ہم ان کے شکر گذار ہیں۔کل کی تقریب کا مختصر سا خاکہ کھینچا ہے اور اس کے
علاوہ تینوں مہمانوں کا مختصر سا تعارف بھی پیش کیا ہے جو یقینی طور پر آپ
کو پسند آئے گا۔
|