زندگی ہمیشہ دو راہوں کے درمیان فیصلہ کرنے کا نام ہے: یا تو حالات کے غلام بن کر بیٹھ رہو، یا ان کے مالک بن کر اپنی دنیا خود بنا لو۔ یہ فیصلہ ہر دن انسان کو درپیش آتا ہے، کبھی خاموشی سے، کبھی طوفانی انداز میں۔ مگر جو لوگ اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں، وہی اصل میں وقت کے دھارے کو موڑ سکتے ہیں۔ کبھی کبھی لوگ سوچتے ہیں کہ آنے والا کل کیسا ہو گا، قسمت کیسی ہو گی، ستارے کیا کہیں گے۔ لیکن اصل میں، آنے والا کل اُنہی کے لیے روشن ہوتا ہے جو آج خود کو اس قابل بناتے ہیں کہ آنے والے کل کو خود اپنے ہاتھ سے لکھ سکیں۔ وہ لوگ جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے ہیں، اُن کی زندگی میں جو کچھ بھی آتا ہے، وہ اُسی پر صبر کر لیتے ہیں۔ مگر جو لوگ ہمت کے ساتھ اپنی تقدیر کو تراشتے ہیں، وہ نہ صرف خود کے لیے نئی دنیا بساتے ہیں بلکہ اوروں کے لیے بھی نئی روشنی جلا جاتے ہیں۔ یہ راستہ آسان نہیں، اس میں کانٹے بھی ہیں، دھوپ بھی، طوفان بھی، مگر جو طوفان کو اپنی راہوں کا سنگِ میل بناتے ہیں، وہ ہیرا بن کر چمکتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر آج خود کو سنوار لیا تو کل اُن کا ہو گا۔ وہ بظاہر چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی اہمیت دیتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ انہی سے بڑا سفر بنتا ہے۔ انسان کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اُس کے خواب اُس کے عمل کے بغیر پورے نہیں ہوں گے۔ خواب اگرچہ روشنی ہیں، لیکن اُنہیں حقیقت کا جامہ پہنانے کے لیے محنت کا راستہ اختیار کرنا ضروری ہے۔ ہر ایک کو اپنے حصے کی مشقت برداشت کرنی ہی پڑتی ہے۔ جب وہ اپنے خواب کو لے کر میدان میں اترتا ہے، تو وہ ہر چیلنج کو سر کرتا ہے، ہر ٹھوکر سے سیکھتا ہے، ہر ہار سے آگے بڑھتا ہے۔ اور تب اُس کا کل اُسی کے مطابق بنتا ہے، جسے اُس نے اپنے خون اور پسینے سے سینچا ہوتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب انسان جان لیتا ہے کہ قسمت اُس کے قدموں کی دھول ہے، وہ خود اپنی تقدیر کا معمار ہے۔ وہ جو آج کر رہا ہے، وہی اُس کا کل بنے گا۔ اُس کی آج کی ہمت، اُس کا کل کا سکون اور کامیابی ہے۔ اُس کی آج کی محنت، اُس کے کل کی مسکان ہے۔ وہ جب یہ بات دل سے مان لیتا ہے تو پھر اُسے کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اُس کے خوابوں کی آنچ، اُس کے ارادے کی تپش، اُس کے قدموں کی دھڑکن خود اُس کے آنے والے کل کی کہانی بن جاتے ہیں۔ یہی کہانی ہر اس شخص کو سننی اور سمجھنی چاہیے جو اپنی منزل کو خواب میں نہیں بلکہ حقیقت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اور یہی سبق ہر اُس دل کی دھڑکن میں زندہ رہتا ہے، جو آج سے اپنا کل بنانے نکل پڑے۔ وہ لمحے بھی آتے ہیں جب تھکن دل پر دستک دیتی ہے، حوصلہ بار بار ہچکولے کھاتا ہے، اور کچھ نہ کچھ آوازیں آ کر کہتی ہیں کہ چھوڑ دو، رہنے دو، سب کچھ ویسے ہی ٹھیک ہے جیسے ہے۔ مگر دل کی گہرائیوں میں کہیں ایک چراغ جلتا رہتا ہے، جو اُس راستے کو روشن کرتا ہے جس پر قدم رکھ کر انسان اپنی تقدیر خود بناتا ہے۔ وہ چراغ بہت نازک سا ہے، کبھی کبھی بجھنے کے قریب بھی پہنچ جاتا ہے، لیکن پھر ایک جھونکا آ کر اسے دوبارہ روشن کر دیتا ہے۔ اور تب انسان کو یاد آتا ہے کہ اس دنیا میں وہ خود بھی کچھ کر سکتا ہے، خود بھی کچھ بنا سکتا ہے۔ جب تک دل میں ارادے کی روشنی ہے، تب تک راستے کی دھند اُسے روک نہیں سکتی۔ جب تک عزم کا چراغ روشن ہے، تب تک تقدیر بھی اُس کے آگے مجبور ہوتی ہے۔ یہ روشنی اُس کی محنت سے، اُس کی لگن سے، اُس کے صبر سے، اُس کی دعاؤں سے، اُس کی راتوں کی تنہائیوں سے اور اُس کی دنوں کی جدوجہد سے زندہ رہتی ہے۔ لوگ کبھی اُس پر ہنسیں گے، کبھی اُس کا مذاق اُڑائیں گے، کبھی اُس کے راستے میں رکاوٹیں ڈالیں گے، لیکن اُس کا دل جانتا ہے کہ یہی سب کچھ اُس کے راستے کا حصہ ہے۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہو تو سفر ادھورا رہ جائے۔ مشکلات کے بغیر کامیابی کا ذائقہ بھی کڑوا رہ جاتا ہے۔ لیکن جب وہ ان سب رکاوٹوں کو عبور کر کے اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے، تو اُسے اپنے آپ پر فخر ہوتا ہے۔ یہ فخر اُسے کسی اور نے نہیں دیا ہوتا، یہ اُس کے اپنے خواب، اپنے آنسو، اپنے حوصلے، اپنی کوششوں، اپنی راتوں کی بے خوابی نے اُسے دیا ہوتا ہے۔ یہ وہی سفر ہے جو اُسے یہ سبق سکھاتا ہے کہ کل کی خوبصورتی اُس کے آج کی محنت میں چھپی ہے۔ اُس کے ارادے، اُس کی تڑپ، اُس کی لگن سب مل کر اُس کی زندگی کو وہ رنگ دیتے ہیں جو وہ خود اپنی تقدیر کے لیے چنتا ہے۔ اور جب وہ اپنے راستے کا یہ سبق سیکھ لیتا ہے، تو اُس کا دل گواہی دیتا ہے کہ اُس نے اپنی تقدیر کو خود تراشا، خود سنوارا۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جب انسان کو یقین ہو جاتا ہے کہ اُس کا کل اُسی کے آج کی محنت سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ اس سفر کو روکنے کے بجائے اُسے گلے لگا لیتا ہے، کیونکہ اُسے پتا چل جاتا ہے کہ یہی سفر اُس کی اصل طاقت ہے۔ |