ایک مسلمان کوکسی بھی پریشانی کےوقت اللہ جلّ شانہ کی طرف
متوجہ ہوجاناچاہئےاوراپنی ہرحاجت کےلئےاللہ سےرجوع کرناچاہئیےکہ وہی
قادرمطلق اورحاجت پوری کرنی والی عالی شان ذات ہےاسلئےعام حالات میں انسان
کوقرض لینےسےسختی سےاجتناب کرناچاہئیےخاص کربلاضرورت یاشادی بیاہ وغیرہ
کےموقع پراپنی خودساختہ یاہندوانہ رسموں کوپوراکرنے کےلئےہرگزہرگزقرض نہیں
لیناچاہیئےاوراللہ کی دی ہوئی نعمتوں پرشکرکیساتھ قناعت
اختیارکرتےہوئےاکتفاءکرناچاہئیے
یعنی اولا پوری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ دوسرے سے قرض لینے کی نوبت ہی نہ
آئے ،ایک توقرض سےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےپناہ مانگی ہے۔چنانچہ بخاری کی
حدیث میں آتاہےکہ جب
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا مانگتے تویوں فرماتے :اے اللہ! میں
گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔عرض کیاگیا، اےاللہ کےرسول!کیا بات
ہے کہ آپ قرض سے اکثر پناہ مانگتے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ
آدمی جب قرض دار ہوجاتا ہے تو بات کرتےہوئے جھوٹ بولتا ہے ،اورجب وعدہ کرتا
ہے تواس کےخلاف کرتا ہے۔
دوسری وجہ یہ ہےکہ یہ تعلقات کی بربادی کےلئےکسی بارودسےکم نہیں اورلیتابھی
انسان اھل تعلق سےہے
لیکن ضرورت کے وقت قرض لینے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے
بشرطیکہ انسان کو واقعتا ضرورت ہو،خودجناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نےبھی قرض لیاہے،چناں چہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکی روایت میں ہےکہ :
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ایک مدت تک کے لیے غلہ خریداتھا
اوربطورگروی کے اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس رکھ دی تھی،،بخاری
جب قرض لیناہی پڑے توان آداب کالحاظ ضروررکھناچاہئے تاکہ بعدمیں کسی قسم
کااختلاف پیدانہ ہو
(1)قرض لینے سےپہلےخوب غورکرےکہ آیامیری یہ ضرورت بناادھارلئےپوری ہوسکتی
ہےیانہیں ،اپنی آمدن کوبھی مدنظررکھےکہ کہیں یہ ادھارناقابل بداشت بوجھ
تونہیں بنےگا،جس مقصدکےلئےقرض لیناپڑرہاہےوہ اس قابل ھےبھی کہ اُس
کےلئےلوگوں کی منت سماجت کیجائےیابغیریہ مقصدپوراہوئےبھی میں آسانی سےجی
سکتاہوں
(2)قرض کا لین دین کرتے وقت اسے لکھ لیا جائے تاکہ بعدمیں کسی قسم کا
اختلاف رونما نہ ہو ۔
(3)
قرض کی ادائیگی کی تاریخ متعین کرنا،تاکہ قرض لینے والا بھی اس وقت تک قرض
کی ادائیگی کی فکر کرے اور دینے والا بھی اس تاریخ سے پہلے مقروض کو تنگ نہ
کرے۔
سورۃالبقرۃ
نیزاگرمقررہ وقت پرقرض دارادائیگی نہ کردےاورقرض دینےوالامزیدمہلت دےتوقرض
دینےوالےکوروزانہ قرض دی ہوئی رقم کو صدقہ کرنےکااجرملیگا
(4)گواہ بنایاجائے تاکہ قرض نہ ملنے کی صورت میں عدالت کی طرف رجوع
کیاجاسکے،سورۃ البقرۃ
(5)اگرقرض دینےوالاقرض لینےوالےسےغیرمطمئن ہوتورہن(گروی)رکھنےکامطالبہ بھی
کرسکتاہے
سورۃ البقرۃ ،صحیح بخاری
(6)حتی الامکان قرض کی ادائیگی کی کوشش کی جائے ، ارشاد نبوی ہے : مومن
بندہ کی روح اس کے قرض کی وجہ سے بیچ میں معلق رہتی ہے یعنی اس کےجنت میں
داخل ہونےسےمانع رہتی ہے یہاں تک کہ اس کا قرض ادا کردیا جائے ۔
{احمد اورترمذی وغیرہ
(7) اپنے اہل وعیال کو بھی ضرور وصیت کردینی چاہئےتاکہ اپنی زندگی میں
ادانہ کرنےکی صورت میں وہ اس کی طرف سےاداکرسکے
(8)قرض لیتے وقت اداکرنےکی سچی نیت ہوکہ میں جلد از جلد اس قرض کو ادا کروں
گا ، ارشاد نبوی ہے : جو آدمی لوگوں سے قرض مال لے اور اس کی نیت اور ارادہ
ادا کرنے کا ہو تو اللہ تعالی اس سے ادا کردے گا(یعنی اسکوتوفیق
دےگااداکرنےکی،اورغیب سے اللہ اُسکےلئےاپنی رحمت سےوسعت رزق کےدروازےکھول
دیگا )اور جو کسی سےقرض لےاور اس کا ارادہ ہی اسکےمال کوضائع کرنےکا ہوتو
اللہ تعالی بھی اسے تباہ کردے گا (یعنی اسے قرض کی ادائیگی کی توفیق نہیں
دیگا اور پھر آخرت میں بھی تباہ ہوگا-
صحیح بخاری
آج کل قرض لیکرواپس نہ کرناایک بڑاالمیہ ہے
اصحاب حیثیت لوگ جوکسی کوقرض دینےکوکارخیرسمجھتےتھے اب قرض داروں کےغلط
طرزعمل کی وجہ سے قرض دینےسےہچکچاتےہیں ،اوراس غلط روش کی وجہ سےجوضرورت
مندقرض واپس کرنےمیں سنجیدہ ہواُس کےلئےبھی بغیرسودکےادھارلینامشکل بن
گیاہے
قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لینےکوحدیث میں بڑاظلم کہاگیاہے
جب انسان کسی سے قرض لے اور دوسرے نے قرض دے دیاتو اس کو احسان سمجھنا
چاہیے کہ اس نے میری ضرورت پوری کی
لیکن ہمارےمعاشرےمیں اسے احسان کا بدلہ یہ ملتاہےکہ وہ اپنی ہی چیز کو حاصل
کرنےکی بھیک مانگ رہاہوتاہے ،اس سےزیادہ احسان فراموشی اورکیاہوسکتی
ہے،اگرقرض دارقرض واپس کرنےمیں سنجیدہ ہواورروزانہ کےحساب سےاپنےخرچ سےایک
روپیہ بھی بچاتارہےتوکسی نہ کسی دن قرض کےبوجھ سےاُسکی کمرہلکی ہوجائیگی
آخرمیں قرض سےنجات کے لئے دعاء لکھتاہوں اُس کویادکرکےاپنےمعمولات میں شامل
کردیجئے ان شاءاللہ قرض سےنجات مل جائیگی
"اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ
وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ
الرِّجَالِ"
|