عید الفطر اور عید الاضحیٰ ربّ
تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کیلئے خاص تحفہ اور انعام ہیں، لیکن گزشتہ کئی
سالوں سے یہ تہوار پاکستان کے غریب عوام کیلئے خوشی و مسرت کے بجائے دکھ
اور اذیت کا پیغام لے کر آرہے ہیں، منافع خور تاجر اور عوام دشمن قوتیں اِن
تہواروں کے آنے سے قبل ہی اشیائے ضرورت اور خوردونوش کی مصنوعی قلت پیدا کر
کے قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کردیتی ہیں اور پاکستان کے غریب عوام جو پہلے
ہی بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بدحال ہیں،پر مزید
مہنگائی کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے ۔
چند دنوں میں عید الاضحیٰ آنے والی ہے،اِس موقع پر آلو، پیاز، ٹماٹر، مرچ،
ادرک، لہسن وغیرہ ہر گھر کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی
ذخیرہ اندوز مافیا نے اِن چیزوں کا مصنوعی بحران پیدا کر دیا ہے،حال یہ ہے
کہ آلو35 روپے، پیاز 60 سے 80روپے، ٹماٹر50 سے 80روپے،مرچ 120روپے سے
150روپے اور ادرک و لہسن جیسی معمولی اشیاء جو ہر کھانے کی بنیادی ضرورت
ہوتی ہیں 200سے زائد روپے کلو بک رہی ہیں،اِس حالت میں ایک غریب اور دیہاڑی
دار آدمی جس کی ایک دن کی آمدنی دو،تین سو روپے روزانہ بنتی ہے،کس طرح اپنے
بیوی بچوں کی کفالت اور ہانڈی روٹی کا انتظام کرتا ہے، تصور بھی محال ہے،
چہ جائیکہ قربانی یعنی سنت ابراہیمی کی ادائیگی کرے، جبکہ مہنگائی،غربت،بے
روزگاری اور افلاس کے ہاتھوں روز اُس کی اپنی قربانی ہوتی ہو۔
عموماً سنت ابراہیمی کی پیروی میں دنیا بھر کے مسلمان عید الاضحیٰ کے موقع
پر گائے، بکرے، بیل، اونٹ اور دنبے کی قربانی کرتے ہیں، اِس مقصد کیلئے
دنیا بھر میں مویشی منڈیاں قائم کی جاتی ہیں جہاں قربانی کے جانور فروخت کے
لئے لائے جاتے ہیں،کراچی میں بھی سپر ہاوے پر 8سو ایکڑ رقبے پر محیط ایشیاء
کی سب سے بڑی مویشی منڈی قائم ہے،جس میں ملک بھر سے لائے جانے والے خوبصورت
اور صحت مند جانوروں کو دیکھنے کے لیے شہریوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہوتی
ہے،رات کے وقت بھی منڈی میں میلے کا سماں دکھائی دیتا ہے۔
کراچی میں سپر ہاوے کے علاوہ ملیر، بھینس کالونی، بہادرآباد، برنس روڈ، حسن
اسکوائر، لیاقت آباد مارکیٹ، بابر مارکیٹ لانڈھی، کورنگی جے ایریا، قائد
آباد، گلشن حدید میں بھی مویشی منڈیاں قائم ہوچکی ہیں، جبکہ کئی فلاحی
اداروں اور سرکاری اداروں کی جانب سے پارکوں میں بھی مویشیوں کی خرید و
فروخت کا سلسلہ جاری ہے، تاہم گزشتہ سال کی نسبت قیمتیں دگنی ہونے کے باعث
کاروباری سرگرمیوں میں تیزی دکھائی نہیں دے رہی، بیوپاری خریداروں کے منتظر
ہیں مگر منڈیوں میں خریدار کم دیکھنے والوں کا ہجوم زیادہ ہے۔
اِس صورتحال کی بنیادی وجہ قربانی کے جانوروں کی قیمت میں 100سے 150فیصد تک
اضافہ ہے،جو ایک عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہے، اِس وقت ایک اچھے اور
صحت مند بکرے کی قیمت 20 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ہے،وہ دنبہ جو گزشتہ سال
پانچ،چھ ہزار روپے کا مل جاتا تھا اِس سال اُس کی قیمت میں 25سے 30فیصد
اضافہ نوٹ کیا گیا، یہی حال بڑے جانوروں کی قیمت کا ہے،معمولی سے معمولی
اوسط درجے کی گائے بھی پچاس ہزار سے کم میں نہیں مل رہی ہے ۔
جبکہ منڈی میں قائم وی آئی پی بلاک میں قیمتی اور نایاب بکروں کی قیمت 50
ہزار سے 3 لاکھ اور گائے، بیل بچھڑوں کی قیمتیں ڈیڑھ لاکھ سے 30 لاکھ روپے
تک ہیں،یہ قیمتیں ایک غریب آدمی کے ہوش اڑا دینے کیلئے کافی ہیں کیونکہ
محدود آمدنی والے لوگوں کی قوت خرید زیادہ سے زیادہ 20سے 25ہزار روپے تک
نظر آتی ہے،اسی وجہ سے گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اِس سال لوگوں میں قربانی
کا رحجان 30سے 40فیصد تک کم نظر آرہا ہے،سچ تو یہ ہے کہ گرانی سے بے حال
لوگ جانوروں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں کے سامنے بے بس ہیں اور مہنگائی
نے عیدالاضحیٰ کے خوشیوں بھرے تہوار کو گہنا دیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شدید مہنگائی کے باعث اس سال اجتماعی قربانی میں اضافہ
دیکھنے میں آرہا ہے، تاہم یہ اجتماعی قربانی بھی فی حصہ 8000سے 9000ہزار
روپے میں پڑ رہی ہے، جبکہ کراچی کے ہر ٹاؤن میں مختلف سیاسی، مذہبی، سماجی
تنظیموں کے ساتھ ساتھ مدارس میں اجتماعی قربانی کافی کس حصہ کم از کم
5500سے 6500رکھا گیا ہے، حکومت کی ناقص پالیسی نے جہاں پہلے ہی عوام کو
مہنگائی کے بوجھ تلے دبا دیا ہے، وہیں عید کے موقع پر انفرادی قربانی سے
بھی محروم کر کے شہریوں کو عید کا خصوصی تحفہ دیا ہے، لیکن یہ تحفہ بھی
برداشت کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔
قارئین محترم ،یوں تو قربانی کا موسم ہر سال آتا ہے اور بارگاہ ایزدی سے
یہی حکم لاتا ہے کہ اپنی سب سے قیمتی چیز اُس کی راہ میں قربان کرو،صاحب
استطاعت مسلمان اِس حکم کی پیروی میں خوبصورت سے خوبصورت اور تندرست سے
تندرست جانور اللہ کی راہ میں قربان کرتے ہیں،رضائے الہٰی کے حصول کیلئے
قربانی دیتے ہیں،لیکن ہمارے حکمران اپنے بیرونی آقاؤں کی خوشنودی کیلئے سال
میں کئی کئی بار عوام جیسی قیمتی متاع کی قربانی دیتے ہیں، آئی ایم ایف،
ورلڈ بینک اور عالمی ساہوکار اداروں کی قربان گاہ پر غریب عوام کو بھینٹ
چڑھاتے ہیں۔
چنانچہ اِس بار بھی عوام کی قربانی دینے کی تیاریاں کرلی گئی ہیں، مہنگائی
کے سیلاب میں ڈوبتے ابھرتے لوگوں پر ریفارمڈ جی ایس ٹی اور فلڈ ٹیکس عائد
کیا جارہا ہے،بقول شاعر
”وہی ذبح بھی کرے ہے، وہی لے ثواب الٹا۔“
اب تو ایسے لوگ بھی حکمرانوں کی تیز چھریوں کی زد میں ہیں جن کے جسم پر صرف
کھال رہ گئی ہے اور اِن کی ہڈیوں پر چمڑا اِس طرح منڈھا ہوا ہے، جیسے طبلے
پر کھال، طبلہ پر تھاپ پڑتی ہے تو بج اٹھتا ہے، بھوک، مہنگائی اور بے
روزگاری کی تھاپ اِن کھال منڈھے بے حال جسموں پر مسلسل پڑ رہی ہے، حکومت کے
معاشی جادوگروں اور اقتصادی ماہرین کی انگلیاں تھرک رہی ہیں، مگر کھال منڈے
طبلوں میں اب اتنی سکت بھی نہیں کہ کوئی صدائے احتجاج بلند ہو، سر بکھریں
اور آواز نکلے، سیانے کہتے ہیں کہ قربانی کے جانوروں کو سوتے میں چھریاں
دکھائی دیتی ہیں، مگر عوام کا یہ حال ہے کہ انہیں تو جاگتے میں بھی چھریاں
نظر آرہی ہیں، خدا معلوم غریب عوام کا انجام کیا ہوگا۔ |