گزشتہ دنوں حسن نثار کا آرٹیکل
“دماغی مشین کا استعمال“ پڑھا سوچا آپ لوگوں میں سے جنہوں نے نہیں پڑھا ان
سے بھی شیئر کرتا چلوں۔
“ ایک محاورہ ہے “خدا واسطے کا بیر“ یعنی کسی کا بلاوجہ برا لگنا۔ مجھے
ذاتی طور پر اس کا کوئی تجربہ نہیں بلکہ معاملہ اس کے بالکل برعکس اور الٹ
ہے کہ کچھ لوگ زندگی میں خوامخواہ بلاوجہ اچھے لگتے ہیں، انہیں دیکھنا
سماعت، بصارت اور طبعیت پر گراں نہیں گزرتا، خوشگوار سا محسوس ہوتا ہے۔
پاکستان کے سابق وزیراعظم میر ظفر اللہ جمالی بھی مجھے “خوامخواہ“ اچھے
لگتے ہیں۔ ان کی پرسنالٹی اور گفتگو میں ایک نایاب سا بھولا پن اور کمیاب
سا دھیما پن ہے۔ ان کا انکسار بھی جنرل ضیاالحق کے برعکس بڑا جینوئین اور
اصلی محسوس ہوتا ہے۔ میرا ان سے تعلق کیا، تعارف بھی نہیں لیکن پھر وہی بات
کہ خدا واسطے ہی اچھے اور بھلے لگتے ہیں۔ لیکن حامد میر کے اک حالیہ
پروگرام میں انہیں دیکھ کر مزہ نہیں آیا کیونکہ جو شخص اپنے دفاع کے لئے
سامنے موجود نہ ہو، اس کے بارے میں اس طرح کے گول مول الزام کچھ جچتے نہیں
کہ سابق صدر پرویز مشرف کرنسی نوٹوں یا نوٹ پر بابائے قوم کی تصویر کو اپنی
تصویر کے ساتھ ری پلیس کرنا چاہتے تھے۔ ممکن ہے کبھی کسی چمچے کے جوش
خوشامد میں ایسا مشورہ دیا ہو۔ باقی سب فضول ہے اور پھر یہ کہنا کہ ڈاکٹر
قدیر خان کو لے جانے کے لئے امریکن جہاز پہنچ چکا تھا لیکن “ہم“ نے ایسا
نہیں ہونے دیا۔ فیشن بن چکا کہ جو ملبہ نظر آئے۔ پرویز مشرف پر ڈال دو، ہر
برا کام اس کے کھاتے پر اچھا کام یاروں کا کارنامہ۔۔۔ یہ نامناسب رویہ ہے
اور پھر سابق صدر پر سو الزام اور خامیاں ہوں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ
لگی لپٹی کے بغیر دو ٹوک بات کرنے والا منہ پھٹ آدمی ہے جس میں اتنا حوصلہ
ضرور ہے کہ اگر ایک طرف این آراو پر قوم سے معذرت کی تو دوسری طرف ڈنکے کی
چوٹ پر یہ بھی کہہ دہا کہ اکبر بگٹی اور لال مسجد والے معاملات پر کوئی
پچھتاوہ نہیں اور موقعہ ملا تو ایسے معاملات میں پھر یہی کچھ کروں گا لیکن
ہم عجیب لوگ ہیں کہ نہ پسند میں کوئی حد نا پسند میں، حالانکہ میں بھی
سوچتا تھا اور اب بھی سوچتا ہوں کہ کیا اکبر بگٹی، قدیر خان اور لال مسجد
والوں کے ساتھ پرویز مشرف کی کوئی ذاتی دشمنی یا خاندانی و قبائلی جنگ تھی
؟ کوئی زن، زر، زمین کا جھگڑا تھا ؟ لیکن اعتدال اور میانہ روی ہماری ہمارے
مزاجوں میں ہی نہیں اور نہ ہمیں واقعات سانحات، حادثات اور بیانات کو دماغی
مشین مین غیر جانبداری سے “پراسیس“ کرنے کی عادت ہے۔
اک اور بات بھی دھیان میں رہے کہ ہر کوئی یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتا کہ آج
بھی پرویز مشرف کی پالیسیاں جاری و ساری ہیں لیکن یہ سوچنے کی زحمت کوئی
نہیں کرتا کہ ایسا ہے کیوں؟ کیا آصف زرداری نے پرویز مشرف کے ہاتھ پر بیعت
کر رکھی ہے؟ اصل کہانی یہ ہے کہ ہم جیسے ملکوں کی پالیسیاں نہیں۔ مجبوریاں
اور مصلحتیں ہیں۔ بابر بیٹھ کر چپڑ چپڑ کرنا، باتیں بنانا اور بڑھکیں مارنا
بہت آسان، یہ تو وہاں پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ “ٹمپریچر“ کیسا ہے اور کس
بھاؤ بک رہی ہے؟ اقتصادی طور پر کنگال سیاسی طور پر غیر مستحکم، دہشتگردی
عام اور پڑوس میں اندرا گاندھی اور اس کی بہو کا ہر لحاظ سے چھلانگیں مارتا
بھارت۔۔۔ اسلحہ اور اس کے سپیئر پارٹس تک کے لئے امریکہ کی ضرورت تو بھائی!
پرویز مشرف ہو یا آصف زرداری یا کوئی اور۔۔۔ پالیسیاں اس وقت تک تبدیل نہیں
ہوں گی جب تک ہمارے معروضی و دیگر حالات تبدیل نہیں ہوتے۔ باقی “توتھا چنا
باجے گھنا“ والی بات ہے تو بولتے رہو۔۔۔ بک بک پر کون سا خرچ آتا ہے اور
خواب دیکھنے پر بھی کوئی پابندی نہیں۔ اصل اوقات یہ کہ ٦٣ یعنی تریسٹھ سال
بعد بھی باتیں ہی باتییں، مثلاً اقبال اور جناح کے فرمودات کی روشنی میں
پاکستان کو عظیم فلاحی ریاست بنایا جاسکتا ہے۔۔۔ بندہ پوچھے بناؤ اسے عظیم
بھی اور فلاحی بھی کس نے تمہارے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں؟ لیکن نہیں یہ سب بول
بچن کے بادشاہ ہیں جن کے خزانے میں عوام کے لئے کھوکھلی اور بے معنی باتوں
کے سوا کچھ بھی نہیں۔ حوصلہ ہے عوام کو جو ایک جیسے لوگوں سے ایک ہی طرح کی
باتیں تریسٹھ سال سے سن رہے ہیں اور ابھی تک ان کے کان سن نہیں ہوئے۔
کاش ہمیں عادت ہوتی کہ باتوں، بیانوں اور بھاشنوں کو اپنے ذاتی دماغ کی
مشین میں ڈال کر “پراسیس “ کرنے کے بعد خود نتائج اخذ کرتے کہ فرمایا جارہا
ہے یا بھونکا بکا جارہا ہے لیکن جنہیں ہر وقت پیٹ کی بڑی ہو۔۔۔ دماغ کا
استعمال کب کرینگے۔“
حقیقت کچھ ایسی ہی لگتی ہے کہ آج جو جمالی صاحب ایسے خوابی انکشافات کر رہے
ہیں اس حقیقت کو بیان کرتے ہوئے کسی شرمیلی دوشیزہ جیسے معلوم ہوتے ہیں کہ
وزیراعظم پاکستان کی حیثیت رکھتے ہوئے انہوں نے ایک تاریخی جملہ ادا کیا
تھا کہ پرویز مشرف میرے باس ہیں اور صحافی نے کچھ حیرت اور کچھ شرارت سے ان
سے جملہ دوبارہ دھروایا اور جمالی صاحب نے کمال معصومیت مگر پر اعتماد
انداز سے کہا اور اس کو واضح بھی کیا کہ ہاں کیا ہوا جو میں وزیراعظم ہوتے
ہوئے بھی مشرف صاحب کو باس کہہ رہا ہوں۔
آج جبکہ مشرف این آر او پر معافی مانگتا پایا جاتا ہے تو لوگ اس کو لعن طعن
کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ریٹائرڈ حمید گل کے کتنے ہی بیانات ہیں جن
میں سی چند یہ تھے کہ حمید گل نے ببانگ دہل یہ تسلیم کیا کہ “ہاں آئی جے
آئی میں نے ہی بنائی تھی تاکہ پیپلز پارٹی کا زور توڑا جاسکے “ اس کے علاوہ
موصوف نے یہ بھی بتایا تھا کہ آئی جے آئی کی قیام کے بعد نواز شریف، قاضی
حسین احمد اور دیگر سیاستدانوں کو کتنے کتنے پیسے دیے گئے تھے۔ مگر حمید گل
سے کوئی کچھ نہیں پوچھا۔ عدالت میں بھی یہ مقدمہ گزشتہ دس پندرہ سال سے
التوا ہے مگر ایکٹیو جیوڈیشل ازم تو مرچ مصالحے کے کیسسز ہی سننے میں لگی
ہوئی ہے اب تک۔
اس کے علاوہ مشرف کے چہیتے اور اپنے تئیں مشرف کے ممکنہ وزیراعظم محترم
عمران خان بھی تو مشرف کے منہ بولے بیٹے کی طرح تھے اور سپورٹ کیا تھا
ریفرنڈم میں اور اس کے بعد جب وزارت عظمیٰ کا تاج عمران صاحب کے سر نہ سج
سکا تو مخالف ہوگئے اور لگے اپنی سیاست الگ سے چمکانے میں۔ عمران خان کی
تحریک انصاف میں گزشتہ دس بارہ سال میں کئی رہنما منظر پر آئے اور عمران
خان کی “خلافت“ کے نتیجے میں پارٹی چھوڑتے گئے۔ عمران خان کی پارٹی کو تو
لوگ جانتے ہیں مگر عوام میں سے شائد ہی کوئی ایسا ہو جو عمران خان کی
“““ملک گیر ! “““ پارٹی کے آٹھ دس رہنماؤں کے نام بھی جانتا ہو۔ عوام کی
بات کر رہا ہوں وگرنہ ڈھونڈ ڈھانڈ کر تو میں بھی ان کے نام پیش کر سکتا ہوں
مگر بخدا عمران خان کی پارٹی کے کتنے رہنماؤں کو لوگ جانتے ہیں۔ جیسے دوسری
جماعتوں کے رہنماؤں اور لیڈران کو جانتے ہیں اور جو رہنما اور لیڈران اپنی
اپنی جماعت کی ترجمانی کرتے عوام کے سامنے آتے رہتے ہوں۔
اسی طرح نواز شریف صاحب ہی ملک میں پرویز مشرف کی قائم کی ہوئی حکومت کے
ذمے دار تھا۔ نا تو نواز شریف صاحب میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ایک جونیئر
آفسر کو چیف آف دی آرمی اسٹاف بناتے اور نہ ملک و قوم کے ساتھ وہ کچھ ہوتا
جس پر نواز شریف اینڈ کمپنی واویلا کرتی ہے۔
اسی طرح قاضی صاحب نے بھی تو اپنی صوبہ سرحد کی حکومت آخری لمحے تک نہیں
گرنے دی یا برخاست نہیں کی اور ایل ایف او پر پرویز مشرف کو ووٹ دیا بعد
میں معافیاں تو قاضی صاحب بھی مانگتے ہیں اور ضیاالحق کی حکومت میں مزے
کرنے کے بعد اس کی بھی مذمت میں بیان جاری کرنا ہو تو مسئلہ ہی کوئی نہیں۔
دو ہزار دو کے بلدیاتی الیکشن میں صوبہ سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ
جماعت ایم کیو ایم نے بائیکاٹ کیا (راہ فرار نہیں) تو جماعت نے مشرف کے زیر
اثر ہونے والے انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور چار پانچ سال تک شہری حکومت
مزے سے چلائی اور جب دو ہزار آٹھ میں ایم کیو ایم میدان میں تھی تو جماعت
نے انتخابات سے راہ فرار اس لیے اختیار کی کہ معلوم تھا کہ چار سال میں
لوگوں کی کتنی “خدمت“ کی ہے جو لوگ ووٹ دیں گے۔
آپس کی بات ہے مشرف سے میرا کوئی تعلق نہیں لاکھ اس پر الزامات لگائے جائیں
مگر ایک بات تو حقیقت ہے “قوم“ کو مشرف جیسے لیڈر کی ضرورت ہے اور مشرف آئے
یہ میری شدید ذاتی خواہش ہے اور امید ہے مشرف آئے گا اور یہ لولے لنگڑے
بھاگتے نظر آئیں گے جو اس کو برا بھلا کہنے میں مصروف ہیں۔ کیونکہ وہ کیسا
بھی تھا اس ملک کا صدر تھا، اس ملک کی افواج کے اعلٰی ترین عہدے یعنی چیف
آف آرمی اسٹاف تھا اور یہ اعزازات یا رتبے اس نے اپنے باپ دادا کی جاگیروں
اور جائیدادوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی انفرادی محنت اور کچھ بدعقلوں کی
حماقتوں کے نتیجے میں حاصل کیے تھے۔ |