ہم آج کل دیکھتے ہیں کہ نجی تعلیمی اداروں کی بہتاط
ہو چکی ہے وہ صرف اس لئے کہ پاکستانی عوام میں ایک نیا شعور بیدار ہوا ہے
اور وہ ہے خواندہ ہونے کا اپنے بچوں کو نا خواندگی سے بچانے اور ان کے روشن
مستقبل کیلئے جدو جہد کرنے کا۔ نجی تعلیمی اداروں کے کاروبار کو پچھلے صرف
ایک عشرے میں کافی فوقیت اور عروج ملا ہے کیونکہ صرف نجی تعلیمی ادارے ہی
ہیں جہاں بچوں کو انگلش اس زور سے پڑھائی جاتی ہے جبکہ والدین کے نزدیک
اردو زبان میں کچھ سیکھنا تو لا علمی اور بے وقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔اس
رسم کو اور بڑھوتری ملی جب پاکستان کے سرکاری اداروں کو بھی انگلش میڈیم کر
کے نجی تعلیمی اداروں کا مقابلہ کیا گیا ۔ لیکن اس کے بعد بات رزلٹ پر آ
گئی کہ سرکاری تعلیمی اداروں کی نسبت نجی تعلیمی اداروں کے رزلٹ بہت اچھے
ہوتے ہیں لیکن ا س مقابلے میں ہو کیا رہا ہے ؟ انگلش، اردومیڈیم کی ریس میں
ہم کہیں آدھے تیتر ،آدھے بٹیر تو نہیں پیدا کر رہے؟ اس کی ایک مثال پوری
دنیا کیلئے موجودہے چین کے سابقہ صدر امریکہ کے دورے پر گئے، انہیں انگریزی
بالکل بھی نہیں آتی تھی جس کیلئے ان کے پاس مترجم موجود ہے لیکن ان کے
سیکرٹری نے کہا کہ جناب آپ کو آغاز میں ایک دو لائن تو انگریزی میں بات
کرنا پڑے گی اس کے بعد مترجم آپ کا ساتھ دے گا، انہیں ایک دو فقرے سکھا
دیئے گئے ۔جب چینی صدر امریکہ ائیر پورٹ پر اترا تو اس کے استقبال کیلئے
سابقہ امریکی صدر باراک اوبامہ اپنی اہلیہ کے ساتھ موجود تھے۔ چینی صدر نے
مصافہ کیا اور ان سے پوچھا ’’Who are you?‘‘باراک اوبامہ سمجھے شاید مذاق
کر رہے ہیں اور انہوں نے بڑے پرتپاک لہجے میں کہا ’’Well! i am Mishal's
husband ‘‘ اس کے جواب میں چینی صدر نے کہا ’’Me too‘‘۔ اب اس کے پسِ منظر
میں جھانکتے ہیں کہ ہوا کیا تھا ؟ انگریزی مترجم نے چینی صدر کو سکھایا تھا
کہ جب آپ مصافحہ کریں تو ان سے ان کا حال پوچھنے کیلئے کہیں گے ’’How are
you?‘‘اور وہ جو بھی جواب دیں اس کے جواب میں کہئے ’’Me too‘‘۔اب بولتے
ہوئے چینی صدر سے غلطی ہو گئی اور وہ بول بیٹھے who are you ۔ساتھ والے تو
ہنسنے لگ گئے اور باراک اوبامہ بھی سمجھ گئے کہ انہیں انگریزی نہیں آتی ۔پاکستان
کے تعلیمی اداروں میں انگریزی زبان کو سائنس و ترقی اور علم سمجھ کر پڑھایا
جاتا ہے اور اس طرح پچھلی تین صدیوں سے ایک ہی زبان بولنے والی قوم کو
کاٹھے انگریز بنایا جا رہا ہے ۔یاد رہے کہ جہاں آزادی پاکستان کی بڑی وجہ
دو قومی نظریہ تھا وہیں اردو زبان (خط نستعلیق )کو بھی مرکزیت حاصل تھی
کیونکہ یہ آج بھی مانا جاتا ہے کہ اردو زبان جس میں فارسی اور عربی کو خاص
اہمیت حاصل ہے وہ زبان برائے مسلم ہے اور اردو ہندی زبان جسے دیو ناگری خط
میں لکھا جاتا ہے اور سنسکرت کو اس میں مرکزیت حاصل ہے زبان برائے ہندو ہے
۔پاکستان قومی زبان تحریک کی جانب سے آٹھ ستمبر 2017 کو لاہور میں جناب
عزیر ظفر آزاد کی زیر صدارت کل پاکستان نفاذ اردو کانفرنس کا انعقاد کیا
گیا جس کا مقصد نہ صرف سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس فیصلے کیلئے شکریہ ادا
کرنا تھا جو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کی جانب سے سابقہ چیف جسٹس ،جسٹس
جواد ۔ ایس خواجہ کی سربراہی میں 8ستمبر2015کوسنایا گیا تھا کہ وفاقی اور
صوبائی حکومتوں کے تمام اداروں میں اردو زبان کا نفاذ عملی طور پر کیا جائے
جو کہ پاکستان قومی زبان تحریک کے عہدیداروں جناب عزیز ظفر آزاد ،پروفیسر
سلیم ہاشمی ،ڈاکٹر شریف نظامی ،محترمہ فاطمہ قمر سمیت دیگر احباب کی
درخواست اور اسلام آباد کے نامور قانون دان کوکب اقبال ایڈووکیٹ کی وکالت
کا نتیجہ تھا ۔کانفرنس میں عزیز ظفر آزاد ،سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد
خان ،دانشور و کالم نویس اوریا مقبول جان ،علامہ اقبال ؒ کی بہو جسٹس (ر)ناصرہ
جاوید اقبال اور دوسرے مقررین نے کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں قومی اردو
زبان کا نفاذ نہ کر کے آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی کر رہی ہیں ۔خواہ کوئی
بھی زبان ہو وہ اپنے علاقے میں محض بولی جانے والی ایک زبان ہے جسے ہم نے
علم و دانائی اور فکر کا نام دے رکھا ہے ۔یہاں دانا ئی و علم اور زبان میں
فرق واضح کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ صرف انگریزی زبان کو سائنس کی زبان کہہ
کر مسلط کر دینا کوئی دانائی نہیں ،اگر چین کے صدر کو انگلش نہیں آتی تھی
تو کیا وہ دانا نہیں تھا ؟ روس میں رشین زبان بولی جاتی ہے اور آج وہ محض
تیس سال بعد پھر سے اپنے پیروں پر کھڑا ہوگیا ہے کیا ان کے پاس علم نہیں؟
جاپان کی ترقی کا راز ہی ان کی اپنی زبان میں تعلیم حاصل کرناہے اور
پاکستان میں اردو زبان بولنے والے کیا دانا نہیں یا علم نہیں رکھتے؟جو
تعلیم مادری زبان میں دی جائے اس کی سمجھ بوجھ بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس سے
آگے مزید کچھ بہتر کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے ۔پاکستان میں جو سائنسدان
موجود ہیں انہوں نے کون سی ایسی بڑی کامیابی حاصل کی ہے جس کو ہم دنیا کے
سامنے پیش کر سکیں ،فرق صرف یہی ہے کہ ہم لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں چند
کتابوں کے الفاظ رٹ کر یونیورسٹیوں میں پوزیشنز حاصل کرنے والے میرے حساب
سے اہلِ علم نہیں ہو جاتے ۔پاکستان میں انگلش پر عبور رکھنے والے افراد ان
پڑھ جاہل لوگوں کے پاس چند ہزار روپے میں ملازمت کرتے دکھائی دیتے ہیں
حکمران طبقہ بھی انگریزی سے کم و بیش ہی آشنا ہیں لیکن آپ دیکھ لیں کہ وہ
کتنی مہارت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بیوقوف اور غلام بنائے ہوئے ہیں
۔ہمیں اپنی قومی زبان اردو میں ہی تعلیم حاصل کرنی چاہئے تاکہ ہم اس تعلیم
سے زیادہ سے زیادہ استفادہ حاصل کر سکیں ورنہ دنیا کی مختلف اسی زبانیں
بولنے والا شخص ایک آپریشن تک نہیں کر سکتا ۔اپنی قومی زبان کا اندازہ آپ
اس سے لگا سکتے ہیں کہ پاناما فیصلہ شروع میں جو آیا تھا اس پر ن لیگ والوں
نے مٹھائیا ں بانٹی لیکن اس کا اردو ترجمہ پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ ان کے
خلاف ہے ۔پھر انہوں نے کمال مہارت سے اردو زبان میں ہی لوگوں کو ایسے چکر
میں ڈالا کہ عام آدمی کو ایسا لگنے لگا جیسے نواز شریف کے ساتھ بہت بڑا ظلم
کیا گیا ہے ۔ |