فرشتے کی واپسی

حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کا فرمان عالی شان ہے کہ دنیا کے ہر دکھ کی دوا دوست ہیں لیکن جو دکھ دوست دیتے ہیں اس کی دوا پوری دنیا میں نہیں ملتی ۔یہ بات دو سو فیصد درست ہے کیونکہ دوست اگراچھا ہو تو زندگی کو نکھا ر دیتا ہے ۔اگر برا ہو تو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی خراب کردیتا ہے ۔ہم جسے دل سے دوست سمجھتے ہیں اور اس کی تصویر اپنے دل کے نہاں خانے میں سجا بھی لیتے ہیں اگر وہی دوست معمولی سی بدگمانی سے ناراض ہوجائے تو انسان پاگل پن کے کنارے پر پہنچ جاتا ہے ۔جس طرح آسیب کواتارنامشکل ہے اسی طرح دوستی کا خمار دل ودماغ سے اتارنا بہت ہی مشکل ہوجاتا ہے ۔ ایسی حرکت وہی شخص کرتاہے جس کی دوستی دوسروں کے لیے آکسیجن کا کام کرتی ہے ۔

میری زندگی میں بے شمار مواقع ایسے بھی آئے کہ ٹوٹ کر محبت کرنے والے دوست مختلف ادوار میں قدرت کی مہربانی سے ملے جن کے ملنے کی ابھی خوشی بھی کم نہ ہوئی تھی کہ ان کے بچھڑے کے غم نے مدت دراز تک نڈھال کیے رکھا ۔ محبت ٗ دوستی کی ہی معراج ہوتی ہے ۔انسان جس سے بے لوث محبت کرتا ہے ۔ اس کی ایک ایک بات کو شدت سے محسوس بھی کرتا ہے ۔ایسا ہی ایک واقعہ حال ہی میں میرے ساتھ بھی پیش آ چکا ہے ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب بہت ہی نفیس اور ہمدرد دوست طاہر شریف ٗ والد کی ناگہانی موت کی وجہ سے لاہور چھوڑ کر حویلی لکھا شفٹ ہوگیا ۔جہاں اس کے والدین کا گھر اور کاروبار تھا ۔ اس کی اس قدر اچانک رخصتی اور جدائی یقینا میرے لیے تکلیف اور اذیت کا باعث بنی ۔بے شک وہ عمر کے اعتبار سے مجھ سے بہت چھوٹا تھا لیکن اس نے ا پنے بہترین رویے سے دوستی کو ایک نیا رخ عطا کیا اور میں یہ بھول بیٹھا کہ وہ کبھی اس طرح مجھے چھوڑ کرچلابھی جاسکتا ہے ۔ لیکن قدرت کے سامنے ہر انسان کو سرتسلیم خم کرنا پڑتا ہے ۔

طاہر شریف کے اس طرح اچانک چلے جانے سے میری زندگی میں ایک خلا پیدا ہوگیا ۔ جس قدر چاہت اور محبت کااحساس اس کی رفاقت میں تھا اب اس کی شدید کمی محسوس ہونے لگی ۔قوت سماعت میں کمی اور گھٹنوں میں درد کی وجہ سے تنہا کہیں آنے جانے سے گبھراتا ہوں اگر کوئی ہم ذہن ساتھی یا دوست مل جائے تو نہ صرف سفر اچھا گزرتا ہے بلکہ اس کی موجودگی میرے لیے حوصلے کا باعث بنتی ہے ۔اس کے باوجود کہ میگزین نکالنے کا ارادہ طاہر کے جانے کے بعد ختم کردیا لیکن مجھے مہینے میں ایک مرتبہ نوائے وقت اور چند اہم تقریبات میں شرکت کے لیے مختلف تعلیمی اداروں میں جاناپڑتاہے ۔جہاں سہولت کاری کے فرائض انجام دینے کے لیے کسی وفادار دوست کی ضرورت کا شدید احساس رہنے لگا ۔ چنانچہ تہجد کے سجدوں میں اﷲ سے التجائیں شروع ہوگئیں کہ باری تعالی مجھے طاہر جیساہی ایک اچھا دوست عطا فرما جو بڑھاپے میں میرا سہارا بنے اور بوقت ضرورت میری مدد کو آ پہنچے ۔

اس دورمیں زندگی اس قدر تیز رفتار ہوچکی ہے کہ اپنے اپنے کاموں سے انسان کو فرصت نہیں ملتی ۔دوسروں کی مدد کرنااور دوستی کے رشتے نبھانے کاوقت بھی کم سے کم ہوتا جارہاہے ۔ کچھ عرصے کے بعد ایک نوجوان ملا ۔ جو پہلے سے ہی میرے ساتھ مسجد میں نماز اداکیا کرتا تھا۔ شکل و صورت واجبی سی تھی ٗ بیٹھنے اٹھنے کا انداز شریفانہ تھا بہت ہی کم گو اپنی ہی ذات میں مگن یہ نوجوان نماز سے چند منٹ پہلے مسجد میں داخل ہوتا اورنماز ختم ہوتے ہی باہر نکل جاتا ۔ وہ اپنی عادت کی بناپر کسی دوسرے سے بات کرنے کا روادار نہیں تھا ۔ محلے میں جہاں بھی نظر آتا نگاہیں زمین پر جمی ہوتیں اور لب خاموش ہوتے ۔ وہ دوستی کا بھی شاید قائل نہیں تھا ۔وہ جہاں بھی نظر آتا تنہا اور اکیلا ہی دکھائی دیتا ۔ پیدل چلنا اس کا شوق تھا سی شوق کوپورا کرتاہوا کہیں کہیں اور کبھی کبھی دکھائی دیتا۔ مجھے وہ پہلے دن سے ہی اچھا لگنے لگالیکن میں نے بھی اپنی پسندیدگی کا کبھی اظہار اس کے سامنے نہیں کیا۔ تعلقات مسجد میں صرف مصافحہ کرنے تک ہی محدود تھے ۔مجھے اس بات کابھی علم نہیں تھا کہ اس کانام کیا ہے اور وہ کہاں رہتا ہے ۔ اس کے والدین کون ہیں۔لیکن اس کی شخصیاتی خوبیوں کا میں بلاشبہ معترف تھا ۔ قدرت نے اسی نوجوان کوایک دن میرے قریب لاکھڑا کیا ۔ اس کاگھر میرے گھر سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا ۔ اس کامزاج اور انداز گفتگو بھی اس قدر سلجھا ہوا تھا کہ بہت جلد ہم ایک دو ستی کے مضبوط رشتے میں بندھ گئے بلکہ یہ دوستی غیر محسوس طریقے محبت میں تبدیل ہوتی چلی گئی وہ میرے بغیر اداس ہوجاتا اور میں اس کے بغیر خودکو تنہا محسوس کرتا ۔ دن میں جتنی نماز ہوتیں اتنی ہی ملاقاتیں ہوتیں ۔اگر میں یہ کہوں توغلط نہ ہوگا کہ اس نے طاہر شریف کی کمی کسی حد تک پوری کردی ۔

ہر نماز کے بعد ملاقات اور ہلکی پھلکی گفتگو کاسلسلہ دراز سے دراز ہوتا چلا گیا۔ جونہی میں نماز پڑھ کے فارغ ہوتا تو وہ میرے انتظار میں بیٹھا نظر آتا پھر ہم دونوں اکٹھے مسجد سے باہر نکلتے اور کچھ دیر باہمی گفتگو کرکے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ۔ پھر رفتہ رفتہ ہم کیولری پارک میں واک کے لیے بھی جانے لگے۔ اس کی موجود گی نے سیر کا لطف بھی دوبالا کردیا۔ وہ نگاہیں زمین پر جھکائے بہت سکون کے ساتھ میرے ساتھ ساتھ چلتا رہتا اگر کہیں میرا پاؤں( گھٹنے میں درد کی وجہ سے) ڈگمگاجاتا تو وہ سہارا دینے میں کوتاہی نہ کرتا ۔ زندگی کے ہر موضوع پر ہم گفتگو کرتے۔اس نے کبھی میری بات سے اور میں نے کبھی اس کی بات سے اختلاف نہیں کیا اور کبھی ایسا موقع آیا بھی تو اس انداز سے یہ کام کیا کہ دوسرے کو اپنی بے عزتی اور کم علمی محسوس نہ ہو۔ وہ جتنا اچھا انسان تھا اتنا ہی اچھا سامع بھی تھا۔ وہ بات کو درمیان میں ٹوکنے کا عادی نہیں تھا بلکہ اس سے بات کرتے ہوئے اچھا محسوس ہوتا ۔جب اچھا سامع مل جائے تو گفتگو کرنے کا اپناہی مزہ ہوتا ہے۔ پارک کے چندایک لوگوں سے جب بالمشافہ ملاقات ہو تی تو ترجمانی کے فرائض وہی انجام دیتا ۔

کبھی شاپنگ کے لیے جانا ہوتا تو وہ میرے ہم رکاب ہوتا ٗ کئی ایسے کام بھی اس نے نہایت خوبی سے انجام دیئے جن کو کرنے میں میرے حقیقی بیٹے بھی انکاری تھے ۔ اس لیے میرا اعتماداوراعتبار اس پر بڑھتاہی چلا گیا ۔ ایک دن کوریڈور میں لگے ہوئے دونوں بلب فیوز ہوگئے ۔ نماز مغرب اور عشا کی ادائیگی کے لیے بالائی منزل سے اتر کر مسجد کی جانب جب میں روانہ ہوتا تو اندھیرے میں مجھے راستے کا تعین کرنے میں دشواری ہوتی ۔کئی مرتبہ میں گرتے گرتے بچا ۔ معاملہ صرف اتنا تھا کہ پڑوسیوں سے سیڑھی لے کر پہلے بلب اتارنے تھے پھر ویسے ہی بلب بازار سے لا کر لگا نے تھے ۔ یہ کام میرے دونوں بیٹوں کے لیے اتنا مشکل ہوگیا کہ کئی ہفتے گزرگئے پھر بھی یہ کام نہ ہوسکا۔ ایک دن میں نے اس سے درخواست کی تو اس نے کسی حیل و حجت کے بغیر کہا چلیں ابھی یہ کام کرتے ہیں ۔ دس سے پندرہ منٹ اس کام پر صرف ہوئے ہوں گے اور کوریڈور میں ہر طرف روشنی پھیل گئی ۔ اس لمحے اس نوجوان کے لیے میرے دل سے دعا نکلی کہ یہ میرا سگا بیٹا تو نہیں ہے لیکن اس نے میری تکلیف کو جس طرح محسو س کیا۔ اس کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔ صبح سے رات گئے تک وہ موبائل پر مجھ سے رابطے میں ہوتا ۔کچھ اپنی بات سناتا اور کچھ میری سنتا ۔ نمازیں اکٹھا پڑھنے سے چاہت میں مزید اضافہ ہونے لگا وہ میرا ہم خیال بھی تھااور فرماں بردار بھی ۔ ایک دن میں نے اسے بائیک چلانے کے لیے کہاتو اس نے بہت خوبصورت بات کہی ۔میں تصور بھی نہیں کرسکتا کہ آپ کی جانب پیٹھ کرکے بیٹھوں ۔ اتنا احترام تو سگے بیٹے بھی باپ کانہیں کرتے جتنا وہ میرا کرتا تھا ۔اس کی موجودگی میں یہ احساس ہی نہیں رہا کہ وہ کبھی مجھ سے جدا بھی ہوسکتا ہے ۔ جسے میں پیار سے دوسرا نیکی کا فرشتہ کہا کرتاتھا۔

پھر ایک دن ایسے ہوا کہ ایک چھوٹی سے غلط فہمی نے ہم دونوں کے درمیان حجاب کی ایک ایسی دیوار کھڑی کردی جس کی جڑیں زمین کے اندر اور اونچائی آسمان تک تھی ۔ پہلے تو میں نے اس خیال کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی کہ وہ میرے لیے اتنا اہم نہیں ہے میں اسے جلد ہی بھول جاؤں گا ۔ میری زندگی میں بے شمارلوگ آتے اور جاتے رہتے ہیں مجھے کبھی انکی جدائی کا احساس نہیں ہوا ۔ لیکن پھر اچانک ایسے محسوس ہونے لگا کہ وہ میرے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس کی خدمات اور شائستہ گفتگو میرے کانوں میں ہر لمحے گونجنے لگی ہر وقت اسی کی کمی محسوس کرنے لگا۔ جدائی کی یہ آگ صرف میرے ہی دامن کو جلانہیں رہی تھی بلکہ اس کی تپش سے وہ بھی محفوظ نہیں تھا۔ راستے میں اگر کہیں آمنا سامنا ہوجاتا تو وہ اپنا چہرہ دوسری جانب کرکے اس انداز سے گزرتا کہ مجھے اس کی یہ بے رخی انتہائی تکلیف دیتی ۔ شاید انڈیا کاایک گانا ایسی ہی صورت حال کی عکاسی کر تاہے جس کے بول تھے -:
ملو نہ تم تو ٗہم گبھرائیں ٗملو توآنکھ چورایں ..............ہمیں کیا ہوگیا ہے

اس سے دوستی کے بعد یہ بات میری عادت میں شامل ہوچکی ہے کہ مسجد میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے میں اسی کی تلاش کو کرتا ہوں۔ اگر وہ نظر آجاتاتو دل خوش ہوجاتااور اگر وہ نظر نہ آئے تو شدید کمی کااحساس ہوتا ۔ ناراضگی کے باوجود نگاہیں اسی کو تلاش کرتیں لیکن جب وہ بیٹھا ہوا نظر آتا تو پھر اس جانب دیکھنا بھی محال ہوجاتا ۔ یہی حال اس کا بھی تھا۔ ایک سڑسڑاہٹ سی محسوس ہوتی اور پورا جسم غصے کی آگ میں جلنے لگتا ۔بہت کوشش کی کہ مجھے اس سے نفرت ہوجائے اور میں اس کی شکل بھی دیکھنے کا روادار نہ رہوں ۔ اسے بھولنا اور دل سے نکالنا شاید میرے بس میں نہیں تھا ۔میں اسے بھولانے کی جتنی کوشش کرتا وہ اتناہی یاد آتا ۔ میری سوچوں کے تمام دھارے اسی کی جانب بہنے لگے ۔ایک جانب میری یہ حالت تو دوسری جانب اس نے خود کو اپنی ہی ذات تک محدود رکھنے کا فن سیکھ لیا تھا۔ وہ نظریں جھکائے گھر سے مسجد اورمسجد سے گھر چلا جاتا ۔میں نماز سے فارغ ہو کر دیکھتا تو اسے غائب پاکر مزید الجھن کا شکار ہوجاتا اور عہدکرتا کہ زندگی بھر اس کے ساتھ بات نہیں کروں گا۔ وہ آخر خود کو سمجھتا کیا ہے ۔ لیکن میرا یہ تاثر وقتی ثابت ہوتا جیسے ہی اس واقعے کی دھول بیٹھتی تو وہ ایک بار پھر میرے لیے اہم ہوجاتا ہے ۔انڈیا کا ہی ایک گانا بہت معروف ہے جس کے بول ہیں -:
اک تو نہ ملا ............. ساری دنیا ملے بھی تو کیا ہے

گانے کے بول سو فیصد سچ ثابت ہوئے ۔ مسجدمیں تمام لوگ مجھ سے محبت کرتے اور دیر تک ان گپ شپ بھی ہوتی ۔ مسجد کے امام قاری محمداقبال صاحب بہت عزت سے پیش آتے کافی دیر تک محو گفتگو رہتے لیکن ہر لمحے نگاہیں مسجد کے دروازے پر ہی جمی رہتیں کہ شاہد وہ نماز پڑھنے آجائے ۔ خود سے جنگ کرتا ہوا گھر آتا تو الجھن مزید بڑھ جاتی ۔سچ تو یہ ہے کہ اس سے جدا ہونے کے بعد میں ایک ایسی اندھیری گلی میں آپہنچاجس سے باہر نکلنے کاکوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔میں خود کو کوستا کہ تم نے اسے اتنا قریب کیوں آنے دیا ۔ایک صبح نماز فجر پڑھنے کے بعد میں مسجد سے گھر کی جانب جارہا تھا۔ دور سے مجھے وہی نوجوان آتاہوا دکھائی دیا۔ سوچا کہ چلو بات نہ بھی کریں ٗشکل تو نظر آ ہی جائے گی ۔اس وقت میرے تن بدن میں آگ سی لگ گئی جب اس نے دانستہ اپنا رخ تبدیل کرکے ایک ایسی گلی کی جانب کرلیا جہاں جانے کا اس کا کوئی مقصد نہیں تھا۔ دراصل وہ مجھ سے بچنا چاہتا تھا۔ اس کی اس بے رخی نے مجھے سارا دن پریشان کیے رکھا اور میں سوچنے لگا کہ جس شخص کو میں اتنا پیار کرتا رہاہوں ۔وہی شخص میرے لیے اذیت اور ٹیشن کا باعث بن گیا ۔ ایسا کیوں ہوا۔

ایک بار پھر دعاؤں میں اضافہ ہوگیا۔ اے اﷲ یا تو مجھے وہی لوٹا دے یا اس جیسا کوئی اور عطا کرے۔ جو میرا مددگار بن کر میرے ساتھ رہے اور ہر مشکل وقت میں میرے لیے آسانی کا باعث بنے ۔ جب میں اس کا تقابل کسی اور سے کرتا تو دور دور تک اس جیسا بااخلاق ٗ مہذب اور وفادار نظر نہ آتا ۔بہت سوچ بچارکرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ طاہر شریف کا متبادل تو وہ تھا لیکن اس کا متبادل کوئی اور نہیں ہے ۔

جب درمیانی فاصلے حد سے زیادہ بڑھنے لگے اور ہم ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے بھی روا دار نہ رہے تو عیدالاضحی 2 ستمبر2017ء کا دن آپہنچا ۔ مجھے یقین تھا کہ نہ وہ مجھے عید ملے گااور نہ ہی مجھ میں اتنی ہمت ہے کہ میں آگے بڑھ کے اسے گلے لگالوں۔جونہی میں مسجدمیں داخل ہوا تو حسب معمول میری نگاہوں نے اس کی تلاش شروع کی ۔میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ اس جگہ پر موجود تھا جہاں مجھ جیسے کتنے ہی لوگ کرسیوں پر بیٹھ کر نماز پڑھتے ہیں ۔ عید کی نماز ادا ہوچکی تو سب نے عیدملنی شروع کردی۔ میں پہلو بچاکرمسجد سے باہر نکل آیا ۔ وہ ابھی عید ملنے میں مصروف تھا ۔ حسن اتفاق سے میرے کچھ دوست مسجد سے باہرمیرا انتظار کررہے تھے انہوں نے مجھے گھیر لیا ابھی میں ان سے گفتگو کرہی رہا تھا ۔ پیچھے مڑ کے دیکھا تو ملک ریاض (وہی نوجوان جسے میں نیکی کا دوسرا فرشتہ کہتا تھا ) میرے سامنے کھڑا تھا ۔ اس نے نفرت کی وہ دیوار جو خودہی اپنی ناراضگی کی وجہ سے استوار کی تھی ٗ پاؤں کی ایک ہی ٹھوکر سے پہلے وہ دیوار گرائی پھر وہ میرے گلے آلگا۔ اس لمحے مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا کہ یہ سب کیسے ہوگیا ہے ۔ اپنی بانہوں میں اس کی موجودگی سے تمام گلے شکوے جاتے رہے اور میں نے بھی گرمجوشی سے اسے سینے سے لگا لیااور دیر تک اس کی کشش اور خوشبو محسوس کرتا رہا ۔ پھراس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے آیا ۔ ناراضگی کایہ عرصہ تقریبا ایک مہینے پر محیط تھا جس نے چھ مہینے کی بھرپور دوستی اور چاہت بھری محبت کو اس طرح اپنی گرفت لے لیا تھا جیسے ہم کبھی دوست ہی نہ تھے ۔ ملک ریاض پہلے کی طرح چلتا ہوا میرے گھر آیا ہم دونوں نے جی بھر کے کھیر کھائی اور اپنے رویے پر ایک دوسرے سے معذرت کی ۔چھوٹی سی بدگمانی کو دور کیا اور کبھی نہ جدا ہونے کی ایک بار قسم کھالی۔

اب اس کی موجودگی ہی میرے لیے حوصلے کا باعث بنتی ہے ۔ خداکا شکر ہے کہ نیکی کا وہ فرشتہ ایک بار پھر مجھے اﷲ تعالی نے عطا کردیا ہے جس کی موجودگی میں ٗ اس قدر میں سکون محسوس کرتاہوں کہ وقت گزرنے کااحساس ہی نہیں رہتا۔ جب وہ سامنے نہیں ہوتا تو اس کی کمی شدت سے محسوس کرتا ہوں ۔ اﷲ تعالی نے اس کی شخصیت میں اس قدر خوبیاں ودیعت کررکھی ہیں اس کا اخلاق اس قدر بلند ہے ۔کہ عام لوگوں میں اس کا شائبہ بھی نہیں ملتا ۔میں یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ اس کی تربیت میں کس شخص کا ہاتھ ہے۔ وہ اپنے خاندان میں ایک نگینے کی حیثیت رکھتاہے جو شخص اس سے ملتا ہے پھر بچھڑنے کا نام نہیں لیتا۔اس کرشماتی شخصیت کے حامل نوجوان کو شاید ہی میں کبھی بھولا سکوں کیونکہ ایسے اچھے دوست اور محبت کرنے والے ساتھی قسمت سے ملاکرتے ہیں اگر مل جائیں تو پھر انہیں خود سے جدا نہیں کرنا چاہیئے ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785164 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.