گھر میں تر و تازہ پھولوں کی مہک اسے بہت خوش گوار لگ رہی
تھی۔ اس کی بھینی بھینی خوشبو اسے اپنے طرف کھینچتی۔ وہ ابٹن سے بھرے پیالے
کو دوسروں سے نظریں چرا کر چپکے سے اپنے ہاتھ میں اٹھا لیتی، سونگھتی اور
پھر رکھ دیتی۔ اب وہ گیارہ سال کی ہو گئی تھی۔ ابھی دو ماہ پہلے ہی تو اس
نے اپنی گڑیا کی شادی کی تھی، لیکن اسے اپنی گڑیا سے پیار بہت تھا۔ اس لیے
اس نے گڑیا کو رخصت نہ کیا۔ اپنے پاس ہی رکھا اور اپنی دوست کے گُڈے کو بھی
اس کے ساتھ واپس بھیج دیا، یہ کہہ کر کہ تمہارا گڈا مجھے پسند نہیں آیا۔
گڈا پسند نہ آنا تو ایک بہانہ تھا، حقیقت میں وہ اپنی پیاری گڑیا کو خود سے
دور نہیں کرنا چاہتی تھی۔
آج اس کے چھوٹے بھائی نے اسے بتایا کہ کل تیری شادی ہے۔ اسے یہ پتہ تھا کہ
شادی میں کھانا ہوتا ہے۔ اسے یہ پتہ تھا کہ دلہن شادی میں لال کپڑے پہنتی
ہے۔ اسے یہ پتہ تھا کہ ہر دلہن کا ایک دلہا ہوتا ہے۔ ہاں دلہا۔۔۔۔۔دلہا بھی
تو اس کے ماموں کا بیٹا تھا، جو اس سے دو سال بڑا تھا۔ اس کی ا ماں نے کہا
تھا کہ ماموں کے گھر گڑیا کو مت لے کر جانا۔ شادی کے بعد اسے اپنی گڑیا کو
چھوڑنا پڑے گا۔ اسے اس بات کا بہت دکھ تھا۔ دوسرا دن شادی کا تھا۔ شادی کا
دن آیا اور یوں ایک گیارہ سال کی دلہن کو تیرہ سال کے دلہا کے ساتھ رخصت کر
دیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بتیس 32 فی صد شادیاں اٹھارہ سال
سے کم عمر ہی میں ہو جاتی ہیں۔ قصبوں اور دیہات سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ
فیصد مرد جب کہ اٹھاون فیصد خواتین 20 سال کی عمر سے پہلے ہی شادی کے بندھن
میں بندھ جاتے ہیں۔
دوسری طرف اگر شہری علاقوں کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے
کہ21 فیصد خواتین اور 5 فیصد مرد بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی رشتہ
ازدواج میں منسلک ہو جاتے ہیں۔
ان اعداد و شمار سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کم عمری کی شادی کرنے والوں
میں خواتین کی تعداد مردوں سے کہیں زیادہ ہے۔ آخر بلوغت کی عمر ہے کیا؟ یہ
ایک ایسا سوال ہے جہاں ہم خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں اس مسئلے
کو یا تو بری طرح سے نظر انداز کیا جا رہا ہے یا ہم اس پر بات کرنا نہیں
چاہتے۔
یو این او کنوینشن آف ہیومن رائٹس کے مطابق ہر وہ شخص جو اٹھارہ سال سے کم
ہے، کا شمار بچوں میں ہو گا یا وہ بالغ تصور نہیں کیا جائے گا، جب کہ دنیا
کی بعض دوسری تنظیمیں یہ منوانے کے لیے کے لیے سر گرم ہیں کہ نوجوانی یا
بلوغت کی عمر اکیس سال تصور کی جائے۔ سی ای ڈی اے ڈبلیو CEDAW ان دنوں اس
بات پر زور دے رہی ہے کہ شادی کے لیے لڑکا لڑکی دونوں کی عمر 21 سال ہونی
چاہیے۔
دنیا کے اصول ضابطے اور قوانین سے قطع نظر جب میں زندگی کی حقیقتوں کو
سامنے لاتی ہوں تو سوال کے جواب ملتے چلے جاتے ہیں۔ کیا ایک لڑکی یا لڑکا
جو اٹھارہ سال سے کم عمر کے ہیں، وہ ذہنی طور پر اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنے
اور اپنے شریک حیات کے معاملات زندگی کو سنبھال سکیں۔ ان میں اتنی سمجھ
ہوتی ہے کہ وہ آج کی دور میں رہتے ہوئے اپنا اور اپنے خاندان کا خیال رکھ
سکیں۔ گھریلو امور نمٹا سکیں اور معاشی ذمے داریاں ادا کر سکیں، وہ اپنے
بچوں کی تربیت سے لے کر ان کے مالی مسائل تک تمام معاملات کو سلجھا سکیں،
ہرگز نہیں۔
میری نظروں کے سامنے کراچی جیسے شہر میں ایک مقامی اسپتال میں ایک 14 سالہ
بچی ماں بننے کے عمل کے دوران لقمہ اجل بن گئی اور ایک ننھی سی جان کو اس
دنیا میں بے سہارا چھوڑ گئی۔ میرا دل خون کے آنسو روتا ہے جب میں اس معصوم
کا سوچتی ہوں۔ آخر اس کا قصور کیا تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق وہ اس عمر میں ماں
بننے کی اہل نہیں تھی۔ اس کی کم عمری کے باعث اس کا انتقال ہوا۔ آخر اس
لڑکی کی موت اور اس جیسی دیگر اموات کا ذمے دار کون ہے؟ ہم، آپ یا یہ
معاشرہ؟
ہم کتنی آسانی سے اپنی اولاد کی شادی بنا سوچے سمجھے کم عمری میں کر دیتے
ہیں۔ پاکستان میں بہت سے علاقوں میں کم عمری میں شادی کا باقاعدہ رواج ہے۔
کچھ ماں باپ اپنی مرضی سے اپنے بچوں کی شادی کم عمری میں کر دیتے ہیں اور
کچھ پنچایت اور جرگے کے فیصلوں کے آگے مجبور ہو جاتے ہیں۔ سوارہ، ونی، وٹہ
سٹہ اور ان جیسی دیگر رسمیں اور روایات اس کی بھیانک مثالیں ہیں۔ ایک بچی
کا جسمانی طور پر شادی کے قابل نہ ہونا ایک سچ۔۔۔۔ دوسرا کڑوا سچ یہ بھی ہے
کہ ایک بچی جو کم عمری میں اس رشتے کو نبھانے کے لیے مجبور ہے وہ تعلیم سے
دور ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے معاشرے کو ایک ان پڑھ ماں ملتی ہے، جو اپنے
بچوں کی صحیح تربیت کرنے کی بھی اہل نہیں ہوتی۔
ذرا سوچیے! ہم کیا دے رہے ہیں اپنے معاشرے کو۔ ایک طرف ہم شخصی آزادی کو
سلب کر رہے ہیں اور دوسری طرف معاشرے کو جہالت کا تحفہ دے رہے ہیں۔
ان حالات میں یہ امر خوش آیند ہے کہ سندھ اسمبلی نے ایک بل کے ذریعے صوبے
میں اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کرنے پر پابندی عاید کر دی ہے۔ اتفاق
رائے سے منظور کیے جانے والے اس قانون کی رو سے اس کی خلاف ورزی کرنے والوں
کو تین سال قید بامشقت کی سزا دی جائے گی۔ چلیے ہمارے منتخب نمایندوں کو
معاشرے کا ایک اہم مسئلہ حل کرنے کا خیال تو آیا۔ اب اس قانون پر کہاں تک
عمل ہوتا ہے، یہ بعد کی بات ہے۔
کم عمری میں کی جانے والی شادی ایک ظلم ہے۔ ایک مرد پر شادی کرنے کے بعد یہ
فرض عاید ہوتا ہے کہ وہ اس قابل ہو کہ اپنی شریک حیات کو تحفظ فراہم کر
سکے۔ اس کی عزت کا ضامن ہو اور اس کی شخصی آزادی کو مجروح نہ ہونے دے۔ کیا
ایک مرد جو اٹھارہ سال سے کم عمر ہے وہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو
اس کے یہ بنیادی حقوق مہیا کر سکے یا وہ شخص جو ونی اور سوارہ جیسی بدلے پر
مبنی فرسودہ رسومات کے تحت لڑکی کو شادی کر کے اپنے ساتھ لے جاتا ہے، وہ
کبھی اسے اپنی عزت بنا کر اس کے حقوق کی حفاظت کر سکتا ہے۔ ان رسومات کی
بھینٹ چڑھنے والی بچیاں فقط بدلا ہوتی ہیں انھیں عزت کا مقام کبھی نہیں دیا
جاتا۔
بچپن بے فکری اور معصومیت کا نام ہے، یہ تعلیم حاصل کرنے کی عمر ہے۔ بچیوں
اور بچوں کے ہاتھ سے گڑیا، کھلونے اور کتابیں چھین کر ان کے نازک کندھوں پر
ذمے داریوں کا بوجھ ڈال دینا ظلم نہیں تو اور کیا کہلائے گا؟ |