حضرت شعیب علیہ السلام

شہر مدین شام کے نواح میں حجاز سے متصل اور بحیرہ مردار کے قریب واقع ہے۔ اس شہر میں ایک عرب قوم آباد تھی جو اہل ِ مدین کہلاتی تھی۔ مدین ‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام ہے اور ان کی نسل کو اہل ِ مدین کہا جاتا ہے ۔ یہ آپ ؑکی بیوی قنطورا کی اولاد ہے جو اپنے اہل و عیال اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ حجاز میں آباد ہوگئی تھی۔ یہ خاندان آگے چل کر ایک بہت بڑا قبیلہ بن گیا تھا۔ اسی قبیلہ کو اصحاب ایکہ بھی کہا جاتا ہے ، یعنی جھنڈ والے۔عربی زبان میں لفظ ’ایکہ ‘ کے معنی سر سبز و شاداب جھاڑیاں ہیں۔ پانی کی بہتات نے اس علاقے کو سر سبز و شاداب بنا دیا تھا اور وہاں میوہ داردرخت اور پھول باکثرت پائے جاتے تھے۔ لہٰذا اسی مناسبت سے اہل ِ مدین کو اصحاب ایکہ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن بعض کے نزدیک یہ قبیلہ اپنی وسعت کی وجہ سے دو حصوں میں بٹ گیا تھا، شہر میں رہنے والے اہل ِ مدین اور دیہات میں رہنے والے اصحاب ایکہ کہلاتے تھے۔

قوم ِ عاد وثمود کی طرح قوم ِ مدین بھی بُت پرستی میں مبتلا ہوگئی تھی اور اس کے علاوہ خرید و فروخت میں کھوٹ اور ناپ تول میں کمی ان کے پسندیدہ مشاغل بن گئے تھے۔ معاملات میں دھوکہ بازی ، ڈاکہ زنی، راہ زنی اورمسافروں کو لوٹناان کے روزمرہ معمولات میں شامل ہوگیا تھا۔اور مال و زر کی فراوانی نے اُن کو اس قدر مغرور اور متکبر بنادیا تھاکہ وہ ان تمام برائیوں کو اپنی ذاتی میراث اور خاندانی ہنر سمجھتے تھے۔ اس قوم کا زمانہ قوم ِ لوط کے بہت قریب ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’اور قوم لوط ابھی تم سے دور نہیں ‘‘۔ اﷲ تعالیٰ نے اس قوم کی ہدایت کے لئے حضرت شعیب علیہ السلام کو منتخب کرکے بھیجا۔ آپ ؑ کے سلسلہ نسب سے متعلق بہت سے اقوال ہیں۔ ایک قول کے مطابق آپؑ کا نام شعیب بن یشخر بن لادی بن یعقوب ہے۔ ایک اور قول کے مطابق شعیب بن نویب بن عیفا بن مدین بن ابراہیم منقول ہے۔ نیز آپ ؑ کا سلسلہ نسب شعیب بن صیفور بن عیفا بن ثابت بن مدین بن ابراہیم بھی بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے قوم کو توحید کا درس دیا اور رُشد و ہدایت کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’ اے میری قوم ! تم اﷲ کی عبادت کرو، جس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور تم پیمانہ بھرنے اور تولنے میں کمی نہ کیا کرو، میں تم کو آسودہ حال دیکھتا ہوں اور تم کو ایسے عذاب کے دن سے ڈراتا ہوں جو ہر قسم کے عذاب کا جامع ہوگا ‘‘۔ مگر بد بخت قوم پر آپ ؑ کی تبلیغ کا کوئی اثر نہیں ہوا، سوائے چند غریب اور کمزور لوگ ایمان لائے۔جب کہ مال دار اور بدمعاش لوگوں نے آپ ؑ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا۔ ’’اے شعیب ! کیا تیری نماز نے تجھ کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم ان معبودوں کی عبادت ترک کردیں جن کی عبادت ہمارے باپ کرتے آئے ہیں اور کیا ہم اپنے مال میں اپنی مرضی سے تصرف کرنا چھوڑدیں۔ بے شک آپ بڑے علیم الطبع اور نیک چلن ہیں ‘‘۔قوم ِ مدین نے نہ تو کفر و شرک سے توبہ کی اور نہ ہی دیگر برُائیوں سے کنارہ کشی اختیار کی۔ وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ آپ ؑ ہمارے قبیلہ میں سے تھے جو اَب ہم سے الگ ہوگئے ہیں اور انہوں نے ان لوگوں کی واپسی کا بھی مطالبہ کیاجو صاحب ِ ایمان ہوچکے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کو دھمکی دی کہ یا تو ہمارے دین میں واپس آجا، یا اس بستی سے نکل جا۔ جب آپ ؑ اُن کو ہر طرح سے سمجھا چکے اور اُن سے ایمان لانے کی کوئی اُمید باقی نہ رہی تو اﷲ تعالیٰ سے دعا کی۔ ’’اے ہمارے رب! ہماری قوم کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے اور تو ہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے ‘‘۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ ؑ کی دعا قبول فرمائی اور اہلِ مدین کو ایک جامع عذاب نے گھیر لیا۔ اُن کو سخت گرمی نے بد حال کردیااور وہ اپنے گھروں سے جنگل کی طرف بھاگ نکلے، اسی دوران اُن پر ایک بادل سایہ فگن ہوگیا جب وہ سب بادل کے نیچے جمع ہوگئے تو بادل سے آگ کے شعلے اور انگارے برسنے لگے، زمین تھر تھرانے لگی اور آسمان سے ایک چیخ آئی جس سے ان کی روحیں پرواز کرگئیں۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے۔ ’’ اور جب ہمارا حکم آپہنچا تو ہم نے شعیب اور ان کے مومن ساتھیوں کو اپنے فضل سے نجات دی اور حد سے بڑھ جانے والے لوگوں کو ایک چیخ نے آپکڑا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے جنہوں نے شعیب ؑ کو جھٹلایا تھاگویا وہ ان گھروں میں آباد ہی نہ تھے۔ یقینا شعیب ؑ کو جھٹلانے والے نقصان اٹھانے والے تھے ‘‘۔ حضرت شعیب علیہ السلام اُن کی ہلاکت کے یہ کہتے ہوئے چل دیئے۔ ’’ بھائیو! میں نے تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچا دیئے اور میں تمہاری خیرخواہی کرتا رہا تو میں کافر لوگوں پر عذاب کے نازل ہونے کا رنج و غم کیوں کروں ‘‘۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 226 Articles with 301555 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.