روہنگیا مسلمانوں کو بچالو!

میانمار کی خوفناک فضاؤں میں مظلوم مسلمانوں کے جلے، کٹے لاشے ہم سے مخاطب ہیں کہ کیا ہم کلمہ گو مسلمان نہیں ہیں؟ کیا ہمارے اور تمھارے نبی ایک نہیں ہیں؟ کیا نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں فرمایا تھا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے؟ کیا ایک انسان کا نا حق قتل پوری انسانیت کا قتل نہیں ہے؟ کیا اس حدیث کو بھول گئے ہو کہ تمام مومن جسد واحد کی طرح ہیں، جب اس کے کسی عضو میں تکلیف ہوتی ہے تو سارا بدن اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے۔ گویا تکلیف پورے وجود میں ہے۔ ہر وہ شخص جو آج خاموش تماشائی بنا ہوا ہے، جرم میں برابر کا شریک ہے۔ ہر شخص جو یہ سوچ کر چپ ہے کہ میں کیوں کوشش کروں؟ میرے گھر والے تو محفوظ ہیں۔ وحشی درندے مجھ پر تو مسلط نہیں ہیں۔ ذبح ہونے والے معصوم بچے اور عورتیں میرے گھر والے تو نہیں ہیں اور گھر بھی میرا تو نہیں جل رہا۔ ہر ایسی سوچ کا حامل شخص یاد رکھے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کرنے والا بھی ظلم میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ ظالم کے ظلم پر خاموشی اختیار کرنا بے حسی ہے اور بے حسی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جب ظلم بڑھ جائے اور ظالم کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہ ہو تو معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔ تب معاشرے میں انسانوں کا نہیں وحشی درندوں کا راج ہوتا ہے۔ آج برما کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور عالمی برادری کی بے حسی بتا رہی ہے کہ جلد یہ معاشرہ درندوں سے بھر جائے گا اور پھر خدا نخواستہ ہر مظلوم کو اس کے گھر اور بیوی بچوں سمیت جلا دیا جائے گا۔

برما کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہاء ہو چکی ہے اور انسانی تحفظ کے نعرے لگانے والے کہیں جا سوئے ہیں۔ یورپ میں کتا بھی مرجائے تو احتجاجی مظاہرے شروع کردیے جاتے ہیں اور جانوروں کے ساتھ ہمدردی و محبت کا درس دیا جاتا ہے۔ آج برما میں مظلوم مسلمانوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ ان کے گھر جلائے جارہے ہیں۔ انسانوں کے بے دریغ قتل کیا جارہا ہے، لیکن امریکا، برطانیہ اور اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری ستو پی کر سوئے ہوئے ہیں۔ ان کے سر پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ امریکا و برطانیہ کی تو بات ہی چھوڑیے، وہ تو مسلمان کے دوست ہوہی نہیں سکتے، زیادہ افسوس تو مسلمانوں پر ہوتا ہے، جو اپنے بہن بھائیوں کو برما میں انتہائی برے طریقے سے موت کے گھاٹ اترتا دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ برما میں بدھسٹ دہشتگرد نہتے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہے ہیں اور مسلمان حکمران ان کو روکنے کی جرات تک نہیں کر رہے۔ صرف رسمی بیانات دے رہے ہیں۔آج مسلمان حکمرانوں کی بے حسی بتا رہی ہے کہ ان کو مسلمانوں کے درد کا احساس تک ہوتا۔

آج دنیا بھر میں مسلمان سراپا احتجاج ہیں۔ مسلمان عوام سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ اپنے برمی بہن بھائیوں کی حالت زار دیکھ کر تڑپ رہے ہیں، ان کے دل خون کے آنسو رو رہے ہیں اورغصے سے آگ بگولا ہو رہے ہیں، لیکن بے حس خود غرض مسلمان حکمران بت بنے بیٹھے ہیں۔ ترکی کے صدر طیب اردوان کے سوا سب خاموش ہیں۔ ایک دن ضرور آئے گا، جس دن اﷲ تعالیٰ ان بااختیار حکمرانوں کو ظلم پر خاموش رہنے پر سزا دے گا، اس دن ہر اس شخص کو اجر عظیم ملے گا جو اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے حق میں بولا ہوگا، ان کی مدد کی ہوگی اور اور اپنے مسلمان بہن بھائیوں کے درد میں شریک ہوا ہوگا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شخص اپنے طور پر کوشش کرے۔ ظلم پر خاموش تماشائی بن کر نہ بیٹھا رہے۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھائے۔اگر ہم بھی حکمرانوں کی طرح ظلم پر خاموش رہے تو محشر میں ہم بھی ظالموں کی صف میں کھڑے ہوں گے۔ ظالم بدھسٹوں کے ہاتھوں ذبح ہونے والے معصوم بچے، عورتیں، بوڑھے اور نوجوان اﷲ کے سامنے گواہی دیں گے کہ اے اﷲ! ہمیں بے دردی سے قتل کیا جا رہا تھا، جلایا جا رہا تھا، مگر اس امت کی زبان کو تالا لگا ہوا تھا۔

ظالم برمی فوج اور حکومت روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کر رہی ہے اور وہاں سے تمام مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ اگر خدانخواستہ وہ اپنے ناپاک مقاصد میں کامیاب ہوگئے اور ہم خاموش رہے، مظلوموں کے حق میں آواز بھی بلند نہ کی تو روز قیامت ہم اﷲ کی عدالت میں کیا جواب دیں گے؟ آج وقت ہے کہ ہم اپنے مظلوم بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ان کا ساتھ دیں، ان کی آواز بنیں۔ ان پر ہونے والے مظالم کی کھل کر مذمت کریں اور ظالموں کو بے نقاب کریں۔ہمیں اپنے مسلمان بہن بھائیوں کو بچانا ہوگا۔ اب بولنے کا وقت ہے، بدھسٹ دہشتگرد مسلمان خواتین کی عصمت دری کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے گھروں کو جلا رہے ہیں۔ مسلمان بچوں کو زندہ جلا رہے ہیں۔ ان ظالموں کا ہاتھ روکنا ہوگا۔ اب چپ رہنے کا وقت نہیں ہے۔ اگر آج ہم چپ رہے تو تاریخ میں ہمارا ذکر بزدل لوگوں میں کیا جائے گا۔ آج ہمیں بولنا ہوگا۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی۔ اگر ہم کچھ نہیں کرسکتے تو آواز تو بلند کرسکتے ہیں، وہ ہمیں کرتے رہنا چاہیے۔

ایک وقت وہ تھا جب 313ایک ہزار پر غالب آگئے تھے اور ایک آج ہے کہ ہم اربوں ہوکر بھی جھاگ کی طرح بے وقعت ہیں۔اس وقت اﷲ کا خوف اور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی محبت ہر چیز پر غالب تھی، لیکن آج ہم مادیت کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ہمارا تعلق اﷲ و رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کمزور ہو چکا ہے۔ آج ہم سے دین نکلتا جارہا ہے۔ آج سب کو اپنے مستقبل کی فکر تو ہے، لیکن اپنی آخرت کی فکر نہیں ہے۔ جب مسلمانوں کی زندگی کا مقصد صرف دنیا کمانا بن جائے تو اﷲ بھی کافروں کے دلوں سے ان کا رعب ختم کردیتے ہیں۔ مومن کے دل میں خدائے واحد کا خوف ہوتا ہے، لیکن ہم نے دنیا کا خوف خود پر سوار کرلیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں، لیکن مسلمان کچھ کر نہیں سکتے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قریب ہے دیگر قومیں تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکا کھانے کی پلیٹ پرٹوٹ پڑتا ہے۔ آج وہی وقت آگیا ہے۔ چاروں طرف سے کفار مسلمانوں پر ٹوٹ پڑے ہیں۔ چاروں طرف سے مسلمانوں پر حملہ آور ہیں۔ مسلمان کمزور اور مظلوم ہیں، کوئی ان کی مدد کرنے والا نہیں ہے۔آج ہمیں اپنے اعمال سدھارنا ہوں گے۔ اگر ہم صحیح معنوں میں مسلمان بن جائیں تو سب کچھ ٹھیک ہوسکتا ہے۔

Mariyam Hafeez
About the Author: Mariyam Hafeez Read More Articles by Mariyam Hafeez: 3 Articles with 3324 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.