ٹوٹنا کورم کا

 کورم ٹوٹنا معمول کی بات تو ہے، مگر معمولی بات ہرگز نہیں ۔ قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ اطلاعات ونشریات کی وزیر نے لندن روانگی سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قومی اسمبلی کا کورم ٹوٹنے کی وجہ بیان کردی، انہوں نے بتایا کہ ارکانِ اسمبلی چونکہ صدمے سے دو چار ہیں، اس لئے حاضری کم رہتی ہے۔ دوسری طرف پنجاب اسمبلی میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے، گزشتہ روز عجیب تنازع ہوا، کسی نے کورم کی نشاندہی نہیں کی (کہ کورم پورا نہ بھی ہو تو نشاندہی نہ ہونے کی صورت میں کام چلالیا جاتا ہے)۔ اجلاس میں تلاوت اور نعت کے بعد ابھی معمول کی کارروائی کا آغاز ہوا ہی تھا کہ سپیکر نے گنتی کرنے کا فرمان جاری کردیا، حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم میں سے تو کسی نے کورم کی نشاندہی نہیں کی، مگر سپیکر بضد رہے کہ انہوں نے اپنے کانوں سے کورم کا لفظ سنا ہے، اگر میں گنتی نہیں کرواتا تو یہ بددیانتی ہوگی۔ ایسا ہی ہوا، کورم پورا نہیں تھا، اجلاس پندرہ منٹ کے لئے ملتوی کردیا گیا، مگر اس کے بعد حکومت معزز ارکان کی حاضری پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔

اگر اطلاعات کی وزیر کے بقول ارکانِ اسمبلی صدمے سے دوچار ہیں تو اجلاس بلانا کیا ضروری ہے؟ یہ کونسا اصول ہے کہ اجلاس بھی ضرور بلانا ہے اور آنا بھی نہیں۔ جہاں تک معاملہ صدمے کا ہے، صدمہ ایک کیفیت ہے، جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مدہم پڑجاتا ہے، بھول بھی جاتا ہے، ختم بھی ہو جاتا ہے، ہاں کبھی کبھی دل کو بھی لگ جاتا ہے۔ شاید موصوفہ میاں نواز شریف کی نااہلی کے صدمے کی بات کر رہی ہیں، مگر انہیں یاد ہو گا کہ اس نااہلی کے نتیجے میں میاں صاحب کی وزارتِ عظمیٰ ختم ہونے کے بعد اُن کی پارٹی کم از کم دو مرتبہ مٹھائیاں کھا کر منہ میٹھا کر چکی ہے، پہلے اس وقت جب شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا گیا تو اس خوشی میں شیرینیاں بانٹی گئی، کہا گیا کہ روک سکو تو روک لو، نوازشریف پھر آگیا ہے، اس خوشی کو دوبالا کرنے کے لئے وزیراعظم نے بھی کہا کہ وزیراعظم میں ہوں مگر یہاں روح نواز شریف کی ہے۔ دوسری مرتبہ مٹھائی اس وقت کھائی گئی جب میاں نواز شریف کی خالی کردہ سیٹ پر اُن کی اہلیہ ایک روز بھی انتخابی مہم چلائے بِنا ہی منتخب ہو گئیں، ’روک سکو تو روک لو‘۔یہ راز فاش نہیں ہو سکا کہ ارکان کو کس قسم کا صدمہ ہے کہ وہ مٹھائیوں پر مٹھائیاں کھائے جارہے ہیں؟ ہاں البتہ شکست کے غم سے نڈھال پی ٹی آئی والے ارکان ضرور صدمے سے دوچار ہو ں گے کہ ان کے خواب بکھر گئے ہیں، تبدیلی آتے آتے مزید کچھ وقت کے لئے رک گئی ہے۔

ارکانِ اسمبلی پوری قوم کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں، ان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ان کی ذمہ داری پاکستان کے عوام کے لئے قانون سازی کرنا ہے، یعنی ان کے بنائے ہوئے قوانین کی پوری قوم پابند ہے، اس سے ان کی بصیرت، دوراندیشی اور معاملہ فہمی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارے لئے قوانین بنانے والے خود کس طرح قانون کی پاسداری کرتے ہیں، ان کے معاملات کیا ہیں، ان کے شب وروز کیسے گزرتے ہیں، ان کی آمدنی کے ذرائع کیا ہیں، ان کے ٹیکس کا حساب کتا ب کیا ہے؟ ان کی تعلیم کی حقیقت کیا ہے؟ آیا ان کی ڈگریاں اصلی ہیں، یا کسی ڈیِل کا نتیجہ؟ خلقِ خدا سے ان کی ڈیلنگ کیسی ہے؟ اُن کا عمومی کردار کیسا ہے؟ خیر سوالات کس نے پوچھنے ہیں، آخر عوام نے انہیں اپنے قیمتی ووٹوں سے منتخب کیا ہے، اب ان کا استحقاق ہے کہ وہ اسمبلی میں جائیں نہ جائیں، وہاں جائیں تو ٹھٹھہ مذاق کرکے واپس آجائیں۔ ہنگامہ کریں، بھاری تنخواہیں وہ وصول کر لیتے ہیں، اسمبلی کے اجلاس کے دنوں میں ٹی اے ڈی اے ان کا حق ہے، کورم پور ا ہو یا آدھا، پیسے کھرے ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف پیسے کا معاملہ ہے ،دوسری طرف رویوں کا حساب ہے، جن لوگوں نے قوم کی رہنمائی کا بوجھ اپنے ناتواں کندھوں پر لادا ہے، وہ قوم کو کس طرف لے جارہے ہیں؟ کیا اب بھی ہم لوگ بے مقصد اور لاحاصل کاموں کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ کیا غیر سنجیدہ رویوں سے ہم آگے بڑھ سکتے ہیں؟ جب ایک ٹیچر کو سکول نہ جانے پر سخت بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اپنے معزز ارکان اسمبلی سے بھی کوئی پوچھنے والا ہے؟ حکومت یا ووٹر یا کوئی اور؟ 

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427205 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.