الحاد اور لبرلزم کا بڑھتا ہوا فتنہ اور اسکی روک تھام
اس جديد دور میں امت مسلمہ جن مسائل کا شكار ہے ان میں سے الحاد اور لبرلزم
بهى ہیں جنکے ہمارے دين اور تہذيب پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ناچيز اس
مقالہ ميں ان مسائل كا مختصر تعارف، اسباب اور روك تهام کے لیے تجاویز تیش
کرے گا۔
الحاد کی تعریف: الحاد کا لغوی معنیٰ ہے میلان اور انحراف(منجد)۔
ابن منظور افریقی لکھتے ہیں: الملحد العادل عن الحق المدخل فيه ما ليس فيه.
ملحد ایسے شخص کو کہتے ہیں جو حق سے روگردانی کرے اور اس میں ایسی چیز کی
آمیزش کرے جو اس میں نہیں۔ (لسان العرب)۔
تفسیر روح البیان میں ہے: الالحاد في الاصل:مطلق الميل والانحراف ومنه
اللحد لانه في جانب القبر۔(تفسیر سورة حم السجدة)
ترجمہ: در اصل الحاد مطلقا اعراض و انحراف کےمعنی میں آتا ہے اس لیے بغلی
قبر کو بھی لحد کہتے ہیں کیوں کہ وہ بھی ایک طرف مائل کرکے بنائی جاتی ہے۔
تفسیر القرطبی میں ہے :الالحاد:المیل والعدول ومنه اللحد فی القبر لانه ميل
إلى ناحية منه.(تفسیر سورہ حم السجدہ)
ترجمہ: الحاد اعراض اور تجاوز کرنے کو کہا جاتا ہے اسی مناسبت سے بغلی قبر
کے لیے لحد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے کیوں کہ وہ بھی ایک کونے کی طرف
مائل ہوتی ہے۔(سورۃ حٰم السجدہ)
الحاد کو انگریزی میں atheism کہا جاتاہے ۔ اسلامی اصطلاح میں ملحدفی الدین
کا لفظ ایسے ہی بد بخت کے لیے بولا جاتا ہے جو سچی تعلیمات سے انحراف کر کے
خدا کے وجود کی نفی کرتا ہے۔
تفسیر کبیر میں مذکور ہے۔فالملحد هو المنحرف،ثم بحكم العرف اختص بالمنحرف
عن الحق إلى الباطل.
الحاد سے مراد اللہ کا انکار کرنا ،اہل ایمان کے طریقے سے اعراض کرنا
،خالق، بعث بعد الموت اورجنت و جہنم کی تکذیب کرنا اللہ ،اسكےرسول اور دین
اسلام پر زبان درازی کرنا ۔جیسا کہ اللہ نے فرمایا:إن الذين يلحدون في
آياتنا لا يخفون علينا.
ویسے تو ملحدین کے مناقشے ہرمذہب کے لوگوں سے ہوتے ہیں، لیکن سچادین دینِ
اسلام ان کا خاص ہدف ہے، اسلام کا تمسخر تمام ملحد گروپوں کا مشترکہ مقصد
ہے،جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ وہ اپنا اصل حریف اسلام کو ہی سمجھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ان کے بیشتر مناقشے اسلام کے تعلق سے ہوتے ہیں۔پاکستان میں
فیس بک اور ٹویٹر پر پاکستانی اور اسلامی ناموں سے آئی ڈیز بنا کر کچھ لوگ
اپنے آپ کو ملحد یا سابقہ مسلمان ظاہر کر کے لوگوں کو دعوت الحاددیتے نظر
آرہے ہیں۔ان لوگوں نے مختلف قسم کے گروپس اور Pagesتیار کر رکھے ہیں جہاں
یہ اسلام مخالف نظریات اور عقائد کا بیج بو رہے ہیں۔ پاکستان میں اب ملحدین
کی ہمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ انہوں نے فلم، ٹی وی اور پرنٹ میڈیا میں بھی
ڈھکے چھپے انداز میں اسلامی احکام اور ارکان کے خلاف شکوک پھیلانے شروع کر
دیے ہیں، جس کی واضح مثال پچھلے تین سالوں میں تواتر کے ساتھ ریلیز ہونے
والی تین پاکستانی فلمیں "بول"، "خدا کے لیے" اور "رام چند پاکستانی" ہیں،
جن میں کھل کر اسلامی شعائر اور احکامات کا مذاق اڑایا گیاہے۔ پاکستان میں
گزشتہ کچھ سالوں سے ملحدوں کی ایک تعداد سامنے آئی ہے۔ سوشل میڈیا کے مختلف
پیجز اور سائٹس بھی بنائی گئی ہیں۔ وکی پیڈیا پر سرچ کر کے دیکھیں تو کئی
پاکستانی ملحدوں کے نام ملیں گے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کے گروپ کے زیادہ تر
ممبران لاہور، کراچی اور اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان میں زیادہ
تر افراد انجینئرز، ڈاکٹرز، کمپیوٹر آپریٹرز، وکلاء، اور آرٹسٹ وغیرہ ہیں۔
اوسط عمر 20 سے 35 سال ہے۔ستم بالائےستم یہ کہ سوشل میڈیا پر پاکستانی
ملحدین کی اکثریت پڑھی لکھی ہے اور ان میں مدارس سے فارغ التحصیل لوگ بھی
شامل ہیں جو اسلام کو چھوڑ کر ملحد بن گئے۔ اگر الحاد بڑھنے کا رجحان اسی
طرح رہا تو پاکستان سمیت ساری دنیا میں مذہب کے نہ ماننے والے ملحدین کی
اکثریت ہوگی۔ ان الحادی گروپوں پر کھلے عام مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام کی
تضحیک کا جو وطیرہ اپنایا گیا، وہ انتہائی ناقابل برداشت فعل ہے جس پر کوئی
پابندی نہ لگانا ہماری حکومت کی غفلت اور بےحسی کا واضح ثبوت ہے۔ اب پوری
تیاری کے ساتھ اس فساد کا مقابلہ دانشورانہ، محققانہ سوچ اور مدلل انداز
بیان و انداز تحریر سے کرنا ہوگا۔ بات محض چند افراد کی نہیں بلکہ پورے
معاشرے کے انتہائی تیزی سے بدلتے انداز فکر و سماجی روایات کی ہے۔
انٹرنیٹ پرملحدین کا ایک ویڈیو چینل بھی ہے۔ اس الحادی چینل کا نام Channel
Chakooniہے جس کا آغاز2006ءمیں ہوا۔ اس چینل سے استفادہ کرنے والوں کی
تعداد 80000 تک پہنچ چکی ہے۔
الحاد کے اسباب:
1. مغربی مصنفین کی فلسفہ اور سائنسی درسی کتب: آج کے دور میں بہت سے
مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے مغرب میں پرورش پائی یا پھر اپنی تعلیم مغرب سے
حاصل کی ۔یہ لوگ جو لٹریچر پڑھتے ہیں وہ زیادہ تر غیر مسلم مصنفین کا ہوتا
ہے۔ اگر ان کا بغور جائزہ لیا جائے اور ان کے پسِ پشت فلسفہ کو سمجھا جائے
تو کسی بھی سلیم فطرت انسان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ انکا اسلامی تعلیمات
سے کوئی تعلق نہیں بلکہ بسااوقات یہ آپ کو گمراہی اور الحاد کی طرف لے جاتے
ہیں۔نظریاتی سائنس کو ہمارے نصاب کا حصہ بنایا گیا اس کی آڑ میں الحاد کی
تبلیغ کی گئی۔
2. ذہنی ناپختگی :الحاد کے مطالعہ سے معلوم پڑتا ہے کہ زیادہ تر نوجوان اس
کا شکار ہوتے ہیں۔گویا الحاد کے پھیلاؤ کی ایک وجہ فرد کی ذہنی ناپختگی بھی
ہے، جیسے کم سن لڑکوں کو انتہا پسندی کی طرف لے جانا آسان ہوتا ہے، اسی طرح
ملحدوں کے لیے بھی کم عمر لڑکوں کو ورغلا نا آسان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
امریکہ میں ملحدوں کی زیادہ تعداد 14 سے 17 سال کے لڑکوں پر مشتمل ہے۔
3. عصری علوم اور مذہبی علوم کا بُعد بڑھتا چلا جا رہا ہے اور یہ بُعد بھی
الحاد کے فروغ میں حصہ دار ہے۔
4. ہم جنس پرستی: الحاد کو عروج دینے والوں میں ہم جنس پرست لوگوں کا بھی
ہاتھ ہے جو فطرت کی مخالفت اور اپنے رویوں کو جواز دلانے کے لیے مذہب کے
منکر ہو جاتے ہیں۔
5. مغربی میڈیا کا ہمارے میڈیا پر بےجا تسلط۔
6. معاشرے میں موجود الحادسے متاثرہ افراد سےمیل جول۔
7. ہمارے تعلیمی نظام پر مغربی نظریات و افکار کی واضح چھاپ۔
8. مسلمان نسلِ نو کی اپنے دین سے دوری۔
9. الحاد کے پرچار میں ٹیکنالوجی کا رول بہت اہم ہے یہ تاثر عام ہوگیا ہے
كہ ساراعلم انٹرنیٹ پر موجود ہے۔علم کی اس بہتات نے گہرےتجزیےاور گہری فکر
کی راہ کو مسدود کیا ہے اب يہ سمجھ ليا جاتا ہے كہ جو معلومات زیادہ ميسر
اور مقبول ہیں وہی ٹھیک ہیں۔
10. مناسب راہنمائی کا فقدان:الحاد سے متاثرہ لوگ اپنی الجھنیں لیکر روایتی
استاد و ں، علماء ، اورصوفیاء کے پاس جاتے ہيں ان کا رویہ کچھ زیادہ
ہمدردانہ نہیں ہوتا وه خاموش رہنے کا حکم دیتے ہيں۔ا یک طرف تو ان کے
سوالوں کے جوابات نہیں ملتے تو دوسری طرف مخالفین کے مذہبی فکر،مذہب، اور
مذہبی معاشرت پر اعتراضات کا ایک دفتر جمع ہوجاتاہے۔ نتيجتا نوجوان اپنے
مذہب كے متعلق اور متشكك ہو جاتے ہيں۔اس لیے کبھی کوئی نوجوان اپنے وسوسے
کا اظہار کرے تو اسے سختی سے جھٹلانے کی بجائے بڑی حکمت عملی سے اس کا ذہن
تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
11. سوشل میڈیا : سوشل میڈیا بھی بہت حد تک اس فساد کو بڑھانے میں مددگار
ثابت ہوا ہے۔ اس میڈیم نے ایسے لوگوں کو متحد ہونے اور اپنے منصوبے پھیلانے
میں بھرپور مدد فراہم کی۔فیس بک ،ٹویٹر، کتب ،مقالات ،اخبارات اور مجلات
ميں الحاد كےمتعلق مضامين كى بہتات ہے۔
12. غیرمسلم ممالک میں ضوابط شرعیہ کا اہتمام کیے بغیر شتربےمہار بن کر
تعلیم حاصل کرنا: طالب علم کئی سال کفاراورملحدین کے ساتھ رہتا ہے مغربی
تہذیب اس کے اندررچ بس جاتی ہے اس کے پاس اتناعلم ہی نہیں ہوتا کہ
انکےشبہات اور گمراہی کا جواب دے سکے۔یہ سلسلہ اس کے ملحد بننے پر منتج
ہوتا ہے۔
13. پاکستان میں الحاد کا پرچار کرنے میں ہمارے تعلیمی ادارے اہم کردار ادا
کر رہے ہیں۔ ملک کے اہم اور مہنگے تعلیمی اداروں نے مذہب بیزاری کی باقاعدہ
طور پر ایک مہم چلا رکھی ہے۔ ان میں اساتذہ کو سختی سے پابند کیا جاتا ہے
کہ وہ دوران لیکچر طلبہ سے کسی قسم کی کوئی مذہبی بات نہیں کریں گے۔ اکثر
اسکولوں میں بچوں کو صبح کا آغاز اللہ کے پاک نام سے کرنے کی بھی اجازت
نہیں۔ ٹیچر کو یہ تاکید کی جاتی ہے کہ وہ بچوں سے زیادہ سے زیادہ مغرب کے
نظام اور روایات سے متعلق بات کریں ۔موت، قبر، آخرت کی کوئی بات انہیں نہ
بتائی جائے۔طلبہ کے اندر مغربی آزادی کو سمجھنے اور اپنانے کی ترغیب دی
جاتی ہے۔
14. بے لگام مطالعہ : بے لگام مطالعہ کی عادت ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے
ایک بزرگ عالم لکھتے ہیں "جتنے گمراہ فرقے پیدا ہوئے ان کے بانی سب اہل علم
ہیں ، لیکن سب کے سب بغیر استاد اور رہبر والے ، پس شروع شروع میں تو ٹھیک
چلتے ہیں ، لیکن جب موڑ یا چورا ہاآتا ہے ، وہیں بھٹک جاتے ہیں اور عجب
وکبر میں مبتلا ہوکر کسی کی سنتے بھی نہیں ہیں ”۔ (مجالس ابرار ج:۱،ص:۴۷)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں ہر" فتنے کے بانی پر غور کیجئے تو یہی معلوم ہوگا کہ
یہ کسی بڑے کے زیر تربیت نہیں رہا ہے جب آدمی بے لگام ہوتا ہے اور کوئی اس
کا مربی اور بڑا نہیں ہوتا تو بگاڑ شروع ہوجا تا ہے اور وہ جاہ اور مال کے
فتنے میں مبتلا ہوجاتا ہے”۔ (مجالس ابرار ج:۲،ص:۲۵)
15. ایسی کتابوں کا مطالعہ جو فکر و فلسفہ کے خوبصورت عناوین سے سجی ہوتی
ہیں لیکن ان کے اندر الحاد کی تعلیم ہوتی ہے۔ایسی ویب سائٹس تک نوجوانوں کی
آسانی سے رسائی جن میں الحاد کی دعوت دی جاتی ہے۔
16. تکالیف شرعیہ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے۔
17. والدین کی بچوں کی اسلامی تربیت نہ کرنا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب ان کی عمر سات سال ہو جائے دس سال
ہو جائے تو مار مار کر نماز پڑھاؤ۔
18. بری صحبت: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔
19. بچوں کا ایسے گھروں میں پیدا ہونا جہاں انہیں اپنے دین کے متعلق کچھ
نہیں بتایا جاتا۔
20. ایمان کی کمزوری۔
21. تشدد اور دینی جمود: دین سے بیزاری کا ایک بڑا سبب تشدد ہے۔ اگر مسیحیت
کا مطالعہ کیا جا ئے تو معلوم ہوگا كہ دينى راہنماؤں كا متشددانہ رويہ
عيسائيوں كى مذہب سے بغاوت پر منتج ہوا۔
22. دینی رہنماوں کا اخلاقی تربیت نہ کرنا۔
اثرات:
عقائد، فلسفہ اور نظریات:الحاد نے عیسائیت اور اسلام کے بنیادی عقائد یعنی
وجود باری تعالیٰ، رسالت اور آخرت پر حملہ کیا اور اس کے بارے میں شکوک و
شبہات پھیلائے۔ خدا کے وجود سے انکار کردیا گیا، رسولوں کے تاریخی وجود کا
ہی انکار کردیا گیا اور آخرت سے متعلق طرح طرح کے سوالات اٹھائے گئے۔
اخلاق اور معاشرت:الحاد کے اثرات سے جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے، وہ
اخلاق انسانی اور نظام معاشرت ہے۔ اگر کوئی یہ مان لے کہ اس دنیا کا کوئی
خدا نہیں ہے، موت کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے جہاں اسے اپنے کئے کا حساب
دینا ہوگا تو پھر سوائے حکومتی قوانین یا معاشرتی دباؤ کے کوئی چیز دنیا
میں اسے کسی برائی کو اختیار کرنے سے نہیں روک سکتی۔ پھر اس کی زندگی کا
مقصد اس دنیا میں زیادہ سے زیادہ دولت اور اس سے لطف اندوز ہونا ہی رہ جاتا
ہے۔
اگر کسی کو یقین ہو کہ کوئی اسے نہیں پکڑ سکتا تو پھر کیا حرج ہے کہ اگر وہ
اپنے کسی بوڑھے رشتے دار کی دولت کے حصول کے لئے اس کو زہر دے دے؟ قانون سے
چھپ کر کسی کی عصمت دری سے اگر کسی کی درندگی کی تسکین ہوتی ہے تو اس میں
کیا رکاوٹ ہے؟ اپنی لاگت (Cost) کو کم کرنے کے لئے اگر کوئی خوراک یا
ادویات میں ملاوٹ بھی کردے اور خواہ چند لوگ مر بھی جائیں تو کیا ہے، اس کا
منافع تو بڑھ جائے گا؟ ذخیرہ اندوزی کرکے اگر کسی کے مال کی قیمتیں چڑھ
سکتی ہیں تو وہ ایسا کیوں نہ کرے۔
سیاست:سیاسی میدان میں الحاد کی سب سے بڑی کامیابی سیکولر ازم کا فروغ ہے۔
پوری مغربی دنیا اور مسلم دنیا کے بڑے حصے نے سیکولر ازم کو اختیار کرلیا۔
سیکولر ازم کا مطلب ہی یہ ہے کہ مذہب کو گرجے یا مسجد تک محدود کردیا جائے
اور کاروبار زندگی کو خالصتاً انسانی عقل کی بنیاد پر چلایا جائے جس میں
مذہبی تعلیمات کا کوئی حصہ نہ ہو۔
معیشت: پچھلی تین صدیوں میں معیشت کے میدان میں الحاد کو دنیا بھر میں واضح
برتری حاصل رہی ہے اور دنیا نے الحاد پر قائم دو نظام ہائے معیشت یعنی
کیپیٹل ازم اور کمیونزم کا تجربہ کیا ہے۔
لبرلزم :
ایک اور فتنہ جو تیزی سے پھیل رہا ہے وہ لبرلزم کا فتنہ ہے۔ لبرالزم لبرٹی
سے ماخوذ ہے جس کا معنی آزادی ہے اس کے حامی کہتے ہیں انسان کو آزاد ہونا
چاہیے، جو چاہے کرے، جو چاہے کہے، جس چیز پر چاہے اعتقاد رکھے، جس چیز کا
حکم دینا چاہے دے دے۔ لبرلزم ماننے والوں کے نزدیک انسان اپنا الہ خود ہے۔
شریعت کاپابند نہیں ہے۔ انکے نزدیک قوانین اور دستور کے لیے کسی شرعی حکم
کی پابندی ضروری نہیں۔بس جو جمہوریت نے ان کے لیے وضع کردیا ہے کافی
ہے۔لبرالزم کے ماننے والوں نے مذہب کا پورا حلیہ ہی بدل دیا حتی کہ قرآن کے
قطعی احکام کی مرضی سے تشریح کرکے مقاصد شریعت کو یکسربدل دیا۔
لبرلزم کے اسباب:
لبرالزم کی اساس آزادی، انانیت اور عقل ہے آزادی اس لحاظ سے کہ ان کا ماننا
ہے کہ انسان اپنے افعال میں آزاد ہے اپنے تصرفات میں مستقل ہے کسی کا پابند
نہیں اور دین کو اسکے معاملات میں کوئی دخل نہیں۔حریت اس کا سب سے بڑا محرک
ہے۔خود غرضی اور انانیت بھی کا ایک بڑا سبب ہے جب انسان خود غرض ہو جائے تو
ادنیٰ سے ادنی منفعت حاصل کرنے کیلئے مذہب کی اپنی مرضی سے تشریح کرنے پر
تیار ہو جاتا ہے۔ تیسرا بڑا سبب عقل ہے یہ عقل جب مذہب کے تابع نہیں ہوتی
تو انسان کو دھوکےمیں ڈال کر مذہب کے مقابل آ کھڑی ہوتی ہے۔ نتیجتاً لبرلزم
کا دروازہ کھل جاتا ہے۔اقوامِ متحدہ نے انسانی حقوق کا چارٹر پیش کرکے بھی
لبرلزم کا راستہ ہموار کیا۔حق حریت،آزادی رائے، آزادیِ فکر،آزادئ مذہب
وغیرہ کی آڑ میں انسان کو مذہب سے آزاد کر کے لبرلزم کو دعوت دی۔عالم اسلام
میں لبرلزم کو فروغ دینے والے بنیادی عوامل میں گمراہ فرقے جسے مرجئہ (جو
کہ خوارج کے رد عمل میں ظاہر ہوا تھا) نے عمل کی اہمیت کم کی اور انسان کو
آزادی کی راہ دکھائی۔سیاسی طور پر ظلم و ستم ہوئے زبردستی عقائد پر مجبور
کیا گیا علماء کی درباروں میں کھلے عام توہین کی گئ۔پریشان صورتحال دیکھ کر
نوجوان مذہب سے بیزار ہونا شروع ہوا۔مذہب بد نام ہوا اور لبرلزم کا راستہ
ہموار ہوگیا۔استعماری طاقتوں نے منظم منصوبہ بندی کرکے ہر نظام کو دین سے
جدا کرنے کی کوشش کی۔ فتاویٰ عالمگیری کو برصغیر میں قانون کی حیثیت حاصل
تھی اس کو ختم کرکے جمہوری قوانین کو قانونی حیثیت دی گئی۔تعلیمی نظام کو
اس طرح مرتب کیا کہ دینی اور دنیاوی تعلیم کو بالکل ایک دوسرے کے متضاد کے
طور پر پیش کیا نتیجتاً مسٹر اور ملا کے درمیان فاصلہ بڑھتا گیا جو آج
لبرلزم اور الحاد اور ان جیسے دوسرے فتنوں کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ایسا
نظام تعلیم دیا گیا جس نے ذہن سازی کی کہ دینی تعلیم صرف اخروی نجات کے لئے
ہے اس کا فائدہ دنیاوی طور پر کسی جگہ نہیں۔
لبرلزم کے نقصانات:
1. جب مذہب کی قیود سے آزادی حاصل کی،اتحاد کا شیرازہ بکھر گیا۔
2. آج برما کے مسلمان پر ظلم و ستم ہو لبرل آسانی سے کہ سکتا ہے ہمیں اوروں
کی فکر کرنے کی بجائے اپنی سرحدوں پر توجہ دینا چاہئے۔کسی لبرل کے لیے یہ
کہنا بالکل مشکل نہیں کہ قربانی کے جانور کو ذبح کرنا سراسر ظلم ہے۔اسلام
نے حکمت عملی کے تحت وراثت میں عورت کا حصہ مرد کے مقابلے میں نصف رکھا ہے
ایک لبرل اسے بہت بڑے ظلم سے تعبیر کر سکتا ہے۔لبرالزم کا مطالعہ کریں تو
معلوم ہوگا کہ یہ الحاد کی طرف دعوت ہے یہ انسان کو مکمل آزادی دینا چاہتا
ہے دین،دینی روایات اور اخلاق سے خلاصی دینا چاہتا ہے۔نام نہاد مسلمان جب
لبرالزم کے جال میں پھنس جاتا ہے تو قتل، شراب نوشی اور زنا وغیرہ کو حریت
فکر، آزادئ اعتقاد کی بنیاد پر حلال قرار دیتا ہے تو صاف صاف کفر کا ارتکاب
کر رہا ہوتا ہے۔
روک تھام:
جب اسباب مختلف اور نوع بہ نوع ہیں تو ضروری ہے کہ علاج میں بھی تنوع پایا
جائے کسی جادو کی چھڑی سے پلک جھپکتے اس کا علاج نہیں ہو سکتا۔
1. حکومت سیکولرزم کے تمام اسالیب کی روک تھام کرے۔علمائے دین نام نہاد
متجددین کا علمی محاکمہ کریں۔
2. مدارس، کالجز اور یونیورسٹیز میں لبرلزم اور الحاد کے نقصانات اور مسلم
معاشرے پر اس کے اثرات جیسے موضوعات پر سیمینار ہر کانفرنسز کا انعقاد کیا
جائے۔
3. علامہ مدارس کے نصاب میں اسلام کودرپیش مسائل کو شامل کریں اور انکا حل
پیش کریں۔
4. تنظیم المدارس،وفاق المدارس وغیرہ کے طلباء کو تحقیقی مقالہ جات کے لیے
جدید مسائل کے ادراک،اسباب اور انکے حل پر عناوین دیےجائیں۔تاکہ وہ ان
مسائل کا ادراک کر سکیں کیوں کہ دینی مدارس کے طلباء ان مسائل سے بھی واقف
نہیں ہیں۔
5. حکومت آئین و قوانین کو قرارداد مقاصد کی روح کے مطابق بنائے۔
6. معاصر اقوام اور مذاہب سے واقفیت حاصل کریں۔اقوام متحدہ کے قوانین پر کس
حد تک عمل کیا جائے من وعن عمل کرنے سے اسلام کے عائلی قوانین نکاح وطلاق
پر عمل کرنے میں دشواری پیش آرہی ہے ۔حدود و تعزیرات کے بارے میں قرآن وسنت
کے متعدد صریح قوانین و احکام پر عمل کرنا ممکن نہیں۔
7. علماء اور مشائخ کو چاہیے کہ مختلف زبانیں سکھانے کا اہتمام کریں کیونکہ
جو زبان جانتا ہے ودین نہیں جانتا ہے جو دین جانتا ہے وہ زبان نہیں
جانتا۔مختلف اقوام وممالک کے تاریخ و تحریکات سے واقفیت حاصل کی جائے۔
8. حضرت مجدد الف ثانی اور دوسرے بزرگان دین کی تعلیمات جو الحاد اور
خودساختہ دین الٰہی کے خلاف جدوجہد میں تھی اس کو نصاب میں شامل کیا جائے۔
9. اہل مدارس اور علماء کو چاہئے کہ جدید مسائل کو نظر انداز نہ کریں۔بلکہ
انکاحل پیش کرنے کے لیے کوششیں کریں۔
10. جس طرح فقہ میں مستقبل میں پیش آنے والے مسائل کا حل پیش کیا یہ اسلوب
آج کے علم الکلام میں اختیار کرنا چاہیے۔بایں طور کہ اگر کوئی ملحداس طرح
کہے اور اگر کوئی لبرل اس طرح کہے تو اس کا جواب یہ ہوگا۔
11. مشاورتی اجتہاد کا راستہ بھی اختیار کیا جائےجس طرح اسلام دشمن قوتیں
مل کر سوچ وبچار کرتی ہیں مختلف علمی اسالیب اپنائے جائیں۔
12. ملحدین پر احکام شریعت ان پر لاگو کیے جائیں ۔حدیث پاک میں ہے:من بدل
دینه فاقتلوه. حکومت نے اس کے لیے اخبارات میں اشتہار جاری کیے ہیں جن میں
عوام سے کہا گیا ہے کہ توہین مذہب سے متعلق اگر وہ کوئی بھی مواد دیکھیں تو
اس بارے میں میں وہ متعقلہ حکومتی اداروں کو مطلع کریں۔
13. مسلمان حکمران اپنی ذمہ داری ادا کریں۔اور ایسے تمام ذرائع کا سدباب
کریں جن سے الحاد کی تشہیر ہوتی ہے۔
14. وزارتِ تعلیم اپنا کردار ادا کرے نسل نو كو مذہب سے روشناس كرانے كے
ليے وقتافوقتا محاضرات، سیمینار، دروس ،کتابوں کی تقسیم کا اہتمام کرے۔
15. جو نوجوان ملحدین کے شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں انکو مناسب راہنمائی
فراہم کی جا ئے ۔
16. نوجوان اپنے وسوسے کا اظہار کرے تو اسے سختی سے جھٹلانے کی بجائے بڑی
حکمت عملی سے اس کا ذہن تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
17. کم ازکم یونیورسٹی تعلیم سے پہلےکسی نوجوان کو تعلیم حاصل کرنے کے لئے
غیرمسلم ملک میں نہ بھیجا جائے شادی کے بعد اور محدود وقت کے لیے بھیجا
جائےتاکہ اسکا عقیدہ محفوظ رہے ۔
18. حدود اورنواہی کا فلسفہ بیان کیا جائے بعض نوجوانوں کے دلوں پر یہ خیال
آتا رہتا ہے کہ فلاں چیز سے بغیر کسی حکمت کے منع کیا گیا ہے۔وہ اس سے راہ
فرار اختیار کر سکتے ہیں۔
19. انتہا پسند جماعتوں كى طرف سےجو قتل اور جنگ و جدال دین کے نام پر کیا
جاتا ہے جیسے داعش اور طالبان وغیرہ. نوجوان اس وجہ سےدين سےبغاوت كررہے
ہیں کہ دین تو قتل سکھا رہا ہے۔
20. مسلمانوں کو اسلامی علوم کے مطالعہ کو پھر سے جلا دینا چاہیے اولاً نئی
نسل پر یہ واضح کرنے کے لیے کہ مسلمانوں نے صدیوں تک علوم طبعی کی پرورش کی
ہے .ثانیاً اس لیے کہ اسلامی سائنس اور اسلامی فلسفہ و کلام و مابعد
الطبیعیات میں جو داخلی ربط و توافق ہے اسے سامنے لایا جا سکے۔ مذکورہ بالا
علوم طبعی سے بھی اس ربط و توافق کا قریبی تعلق ہے۔ اسلامی سائنس پر ابن
سینا، خیام اور البیرونی جیسے مشاہیر کی تصانیف کا مطالعہ انھی دونوں مقاصد
کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
21. الحاد اور لبرلزم کی مبلغ ویب سائٹس اور بلاگز پر مکمل پابندی لگائی
جائے، خصوصاً یوٹیوب کی طرح فیس بک پر تو مستقل پابندی لگائی جائے۔ ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام فتنوں سے ساری امت مسلمہ کی حفاظت اور ہم سب
کا خاتمہ ایمان پر فرمائے، آمین۔
|