جد و جہداورجہدمسلسل سے انسان کامرانی کے اوج ثریا تک
پہنچ سکتا ہے۔ تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ہیں ہمارے سامنے ایک جیتی جاگتی
مثال ہے سیمانچل کے گاندھی تسلیم الدین کی، جنہوں نے زندگی کے شدائد جھیلے
مگر عزم ، حوصلہ اور قوت ارادی نے آج انہیں جو بلند بالا مقام عطا کیا ہے
وہ نہ صرف قابل رشک ہے بلکہ ہمارے لئے ایک نشان راہ بھی ہے۔ وزارتی کونسل
میں شامل وزیرمملکت برائے غذا اور شہری رسدات اور زراعت کے مرکزی وزیرمملکت،
سابق وزیرمملکت داخلہ جناب تسلیم الدین ضلع ارریہ کے جوکی ہاٹ تھانہ کے
گاؤں سسونا ۴ جنوری ۱۹۴۰ میں پیدا ہوئے اپنے سیاسی کیریرکی شروعات ۱۹۵۹ میں
گرام پنچایت میں سرپنچ کی حیثیت سے کی اور ۱۹۶۴ میں مکھیا کے انتخاب میں
کامیابی حاصل کی ، ۱۹۶۹ میں پہلی بار کانگریس کے ٹکٹ پر بہار اسمبلی کے رکن
منتخب ہوئے۔ ابتداء ہی سے عوامی حقوق کے لئے سرکاری افسران سے لڑتے رہے۔ جس
کی وجہ سے انہیں سرکاری بابووں اور افسرشاہوں کی دشمنی مول لینی پڑی اور ان
کی آنکھوں کا کانٹا بن گئے اور جب مسٹر تسلیم الدین ۱۹۹۶ میں بننے والی
قومی محاذ حکومت میں پہلی بارمرکزی وزیرمملکت برائے داخلہ بنے وزیرمملکت
برائے داخلہ کاحلف لیتے ہی بابری مسجدکے ملزمین اور مجرمیں کو سزا دلانے کی
بات اٹھانی شروع کردی اور اپنے بیان میں کہاکہ بابری مسجدکے مجرمین کوبخشا
نہیں جائے گا تو مسٹر تسلیم الدین کا یہ بیان آتشیں دھماکہ ثابت ہوا جس نے
سیاسی گلیارے میں ہلچل مچا دی، تسلیم الدین کو اس بیان کی قیمت وزارت کھوکر
چکانی پڑی اور پوسٹ ماڈرن ہندو صحافی ارون شوری نے لایعنی اور بے بنیاد
باتوں کو اخبارات کے ذریعہ ہوا دے کر ان کے خلاف ایک محاذ کھڑا کردیا اور
ان کی پرانی فائلوں سے لایعنی مقدمات کا حوالہ دے کر ان کی شخصیت کو سبوتاژ
کرنے کی کوشش کی گئی۔
مسٹر تسلیم الدین پرجو مقدمہ قائم کئے گئے ہیں اورجن مقدمات کولے کربی جے
پی جس کے ہاتھ معصوموں اور بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں249 واویلا
مچارہی ہے ان کی نوعیت عام سی ہے سیاسی پارٹیوں کے کارکنوں پر اس طرح کے
درجنوں مقدمات ہوتے ہی رہے ہیں ۔مسٹرتسلیم پرقائم کئے گئے مقدمات کی ایسی
ہی نوعیت ہے اور ان کاقصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے حکومت کے ان ظالم249
رشوت خور اور عوام کا خون چوسنے والے وزراء اور افسران کے خلاف صدائے
احتجاج بلندکیا۔احتجاج کرنے کی وجہ سے ان پرسرکاری افسران نے جھوٹے مقدمے
قائم کئے۔ ان مقدمات کے حق میں ابھی تک نہ تو ثبوت پیش کئے گئے اور نہ ہی
کسی معاملے پر فرد جرم عائدکیا گیا۔
تسلیم الدین کی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے ان مقدمات کا پس منظر اور نوعیت
کا جائزہ لینا ضروری ہے جن کی وجہ وہ مجرموں کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔
پہلا مقدمہ ۱۹۸۲ میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور افسران کی بدعنوانی کے خلاف
مسٹر تسلیم الدین کے احتجاج کرنے اور ارریہ بند کے دوران دفعہ ۱۴۴؍۱۸۸ کے
تحت دائرکیا گیا جس میں ان کی گرفتاری ہوئی اور ضمانت پررہا ہوئے، یہ خالص
سیاسی معاملہ تھا۔ دوسرا مقدمہ بھی ۱۹۸۲ میں ارریہ کے پلاسی بلاک کے ایک
گاؤں پیرواخوری سے متعلق ہے وہاں ایک زمین دار کے اشارے پرمعمولی واقعہ کو
فرقہ وارانہ رنگ دے کر اقلیتوں کی پوری بستی کو جلا کر راکھ کردیا گیا۔ جس
میں بے گناہ ہندووں کو پھنسیایا گیا۔ اصل مجرموں کو پکڑنے اور بے گناہوں کو
بری کرنے کے لئے متحدہ محاذ کے زیر اہتمام تسلیم صاحب کے زیر قیادت احتجاجی
تحریک چلائی گئی جس میں کئی لیڈروں کے علاوہ سی پی ایم کے اس وقت کے ایم
ایل اے جیت سرکار249 نچھتر مالاکار 249 سی پی آئی کے لال چند ساہنی249 لوک
دل کے ادے بھانو رائے تھے۔ تسلیم الدین نے پولیس مظالم کے خلاف بھوک ہڑتال
دھرنا شروع کردیا جس میں دفعہ ۳۰۹ کے تحت انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا
گیا ان کے علاوہ کئی اورلوگ اسامی تھے اس مقدمے میں ابھی تک گواہی نہیں
ہوئی ہے۔ تیسرا مقدمہ زمین پر قبضہ سے متعلق ہے ۱۹۸۵ میں تسلیم الدین جوکی
ہاٹ سے جب رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے ان زمینداروں کے خلاف ایک مہم چھیڑی
جو سیلنگ ایکٹ نافذ ہونے کے باوجود ہزاروں ایکڑ زمین پر قابض تھے اس وقت کے
ایس ڈی او نے کارروائی نے کرتے ہوئے ان زمین داروں کی ہزاروں ایکڑ زمین
پکڑی جس کی وجہ سے اس کا تبادلہ کردیا گیا ان کی جگہ لینے والے ایس ڈی او
نے آتے ہی مسٹر تسلیم الدین کے خلاف ایک مہم شروع کردی اور عوامی احتجاج
دبانے کے لئے کئی مقدمے قائم کئے۔ اسی طرح بجلی محکموں کے رشوت خور افسران
کے خلاف ایک مہم چلائی اور اسسٹنٹ بجلی انجنئر کا گھیراؤ کیا جس کو بہانہ
بناکر اس اسسٹنٹ اننجینئر نے دفعہ ۳۰۷ کے تحت مقدمہ قائم کیا جب کہ کسی کو
کوئی گہرا زخم نہیں آیا تھا۔
چوتھا مقدمہ ارریہ تھانہ مقدمہ نمبر ۸۶؍۴۲جی آر نمبر ۶۸؍۱۷۶ ہے جو ایک اپر
انسپکٹر نے درج کرایا تھا وہ اپرانسپکٹر ایک منصوبہ بند سوچی سمجھی سازش کے
تحت تسلیم الدین کے گھر جاکر گالی گلوج اور بدتمیزی سے پیش آیا وہاں کے
لوگوں نے اس کی زبردست مخالفت کی اس سازش کے تحت جھوٹا دفعہ ۳۰۷کے تحت
مقدمہ قائم کیا گیاجب کہ اس معاملے میں کسی کو کوئی زخم نہیں آیا تھا۔ اس
سے پولیس کی دہشت گردی عیاں ہوتی ہے۔ پانچواں مقدمہ ارریا ہسپتال میں
تعینات ڈاکٹر نے کیا اس مقدمے کے خلاف مسٹر تسلیم الدین نے ہائی کورٹ میں
اپیل کی جو عدالت عالیہ کے زیر غور ہے۔ چھٹا مقدمہ ۸۶؍۵۴ جی آر نمبر ۸۶؍۳۳۳
ارریہ تھانہ میں درج ہے جو ایک مجسٹریٹ کے ذریعہ دائر کیا گیا تھا مسٹر
تسلیم کی غیر موجودگی میں ایک شخص رگھوناتھ کے ذریعہ جعلی کاغذات کے ذریعہ
جعلی سازی کا کیس بنایا گیا تھا اس مقدمے میں لگائے گئے الزامات مضخکہ خیز
ہیں کیوں کہ ایف آئی آر میں کوئی الزام نہیں لگایا گیا مگر ملزم بنادیا
گیا۔آاس مقدمہ کو سمجھنے کے لئے اس کی تفصیل جاننا ضروری ہے کیوں کہ ۱۹۸۶
میں انتظامیہ اور پولیس کے ذریعہ اس وقت کی ریاستی حکومت نے کے اشارے پر
مسٹر تسلیم الدین کو بے عزت کرنے اور شبیہہ کو داغدار کرنے کی کوشش کی تھی۔
اس پولیس ظلم کے خلاف اسمبلی اور سڑکوں پر زبردست احتجاج کیا گیا تھا اس
وقت کمیونسٹ ایم ایل اے اجیت سرکار نے بھی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ۔
این ڈی اے کے کنوینر اورسابق وزیر دفاع جارج فرنانڈیز اور سبودھ کانت سہائے
اور سابق بہار اسمبلی اسپیکر ترپورار ی پرساد کے علاوہ کئی سیاست دانوں نے
ارریہ پہنچ کر پولیس ظلم کے خلاف آواز اٹھائی تھی مسٹر تسلیم الدین کو
جھوٹے مقدمات میں پھنسائے جانے کے خلاف زبردست اہتجاج کیا تھا مسٹر
فرنانڈیز کو بھی پولیس ظلم کا شکار ہونا پڑا تھا۔ سسونا جوکی ہاٹ میں
فرنانڈیز اور تسلیم نے پولیس زیادتی کے خلاف جلسہ عام کیا تھا تو پولیس
افسران کے انتظامیہ کے افسران نے مسٹر فرنانڈیز کو کھانا کھاتے وقت ذلیل
کیا تھا پولیس اس وقت من مانی کی سبھی حدوں کو پار کرتے ہوئے آنجہانی تری
پوراری پرساد اور سبودھ کانت سہائے کو جیل میں بند لوگوں سے ملنے تک نہیں
دیا گیا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مسٹر فرنانڈیزنے تسلیم الدین کے معاملے
کو لے کر اس وقت بی جے پی کے ساتھ مل کر ایک مہم چھیڑ رکھی ہے جب کہ ۱۹۸۶
میں تسلیم الدین کی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے وہ لڑ رہے تھے۔
اس مقدمے کے بارے میں یہ ذکر نا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ زمیندار اور
اس وقت کے بہار سرکار کے ریاستی وزیر نے اس وقت کے ایس ڈ ی او کو جس نے اس
کی سینکڑوں ایکڑ زمین سیلینگ مقدمے میں ضبط کی تھی اسے ہٹاکر ایک دوسرے
افسر کو ان کی جگہ تعینات کرکے اس معاملے پس پشت ڈالنے کی کوشش کی گئی مسٹر
تسلیم الدین نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور ساتھ ہی اس وزیر کے خلاف
بدعنوانی کی شکایت اس وقت کے لوک آیکت سے کی گئی تھی۔ انہی وجوہات سے ایک
سازش کے تحت ایک فرضی مقدمہ قائم کیا گیا اور صرف ۴۲ گھنٹے کے اندر مسٹر
تسلیم الدین کے گھر کو قرقی کے نام پرنیست نابود کردیا گیا تھا جسے ممتاز
صحافی ایم جے اکبر کے سیریل ْ ْْْ آج تک،، تک میں واضح طور پر دکھایا گیا
تھا۔ اس کارروائی کے خلاف بہار اسبملی میں زبردست احتجاج ہوا تھا اس وقت
اسپیکر نے اس معاملے کی تحقیقات کے لئے مسٹر رام لکھن یادو (کانگریس ) کی
سربراہی میں اسمبلی کی ایک کمیٹی بنائی گئی تھی جس دیگر ممبران گنیش یادو،
نتیش کمار ، برج موہن سنگھ اور بی کے شرما تھے۔ نتیش کمار جو این ڈی اے
حکومت میں ریلوے کے وزیر تھے ، اس کمیٹی نے اس کارروائی کو پولیس کی ظلم و
زیادتی قرار دیتے ہوئے مسٹر تسلیم الدین کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکومت
کو ہدایت کی کہ وہ مسٹر تسلیم الدین کو مکان کا معاوضہ ادا کرے۔ آج یہی
سیاست داں مسٹر تسلیم الدین کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں اور وہ لوگ جن کے
ماضی جرائم ، قتل و غارت گری، فتنہ و فساد پھیلانے سے بھرے ہیں جن کے اوپر
اوپر سے نیچے تک داغ ہی داغ ہیں وہی لوگ مسٹر تسلیم الدین کے خلاف داغی
وزیر کا معاملہ اٹھانے میں پیش پیش تھے۔
آٹھواں مقدمہ ارریہ تھانہ معاملہ نمبر ۸۵/۵۳ ضمانتی دفعہ کے تحت دائر کیا
گیا تھا۔ مسٹر تسلیم الدین کے اسمبلی انتخابات جیتنے کے بعد جب ان کے
حامیوں نے فتح کا جلوس نکالا اور جلوس شکست خوردہ وزیر کے دروازے سے گزر نے
لگا تو سابق وزیر کے یہاں سے اینٹ پتھر کی بارش کی گئی تھی جواباََجلوس میں
شامل لوگوں نے بھی کارروائی کی۔ اس جلوس میں جناب تسلیم الدین نہیں تھے۔
نواں اور ساتواں مقدمہ ۸۷/۸۳ اس وقت کے صحت عامہ کے وزیر کے خلاف ناجائز
طریقے سے دولت کمانے اور اس سے مکان بنانے کے کی شکایت مسٹر تسلیم الدین
اور رام سیوک ہزاری اور دیگر لوگوں کی طرف سے لوک آیکت میں کی گئی تھی
الزامات صحیح نہیں ہونے پر اس وزیر نے تعزیرات ہند کی دفعہ ۵۰۴ کے تحت
مقدمہ قائم کیا تھا۔
تسلیم الدین پر جتنے بھی مقدمات ہیں ان کی نوعیت بالکل سیاسی اور انتقامی
ہے۔ سازش کے تحت ہی ان پر مقدمات قائم کئے گئے ہیں، ان کا حقیقت امر سے
کوئی تعلق نہیں ہے۔ دراصل تسلیم الدین کی عوامی مقبولیت سے لرزاں سیاسی
لیڈران ان کی شبیہہ کو سبوتاژ کرنے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ
جنہیں سرکاری مشنیری، میڈیا اور افسران مجرم بنانے میں مصروف ہیں وہی مجرم
عوام میں نہ صرف مقبول ہے بلکہ عوام کا مسیحا ہے اب کس معیار کو مانا جائے،
عوام کو جو سیدھے سادھے اور سیاسی غلاظت اور کثافت سے پاک صاف ہیں، یا ان
سرکاری دہشت پسندوں اور ظالموں کو جن کے پاس نہ اخلاقیات نام کی کوئی چیز
ہے، نہ اصول و ایمان ہے، جو پورے کے پورے کرپشن میں لت پت ہیں۔
حیرت کی بات ہے کہ آج بھارتیہ جنتا پارٹی نے داغی وزیروں کا اصطلاح ایجاد
کرلیا ہے اس سلسلے میں ایک قومی ہندی روز نامہ کے ایک کارٹون ذکر کرنا
دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جس میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح سیاسی لیڈر اپنے
داغ دونوں ہاتھوں سے چھپائے صدر جمہوریہ کو میمورنڈم دینے جارہے ہیں۔ جو
لوگ آج داغی وزیروں کا معاملہ اٹھاتے ہیں ان کی تعداد آج بھی تمام سیاسی
جماعتوں سے بڑی ہے الیکشن کمیشن نے ،جن ۱۰۰ ممبران پارلیمنٹ پر فوجداری کا
مقدمہ چل رہا ہے، کی فہرست تیار کی ہے ان میں وہ جماعت سب سے سرفہرست ہے جن
کا ہر جرم دیش بھکتی کے زمرے آتا ہے یعنی بھارتی جنتا پارٹی ان کے داغی
ممبران کی تعداد سو میں ۲۶ ہے اور کانگریس ۱۵ کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے اور
سی پی ایم کے ۵ ممبران ہیں جبکہ بقیہ پارٹیوں کے ایسے ممبران کی تعداد ۵۴
ہے۔
یہ فیصلہ تو ہمارے جمہور عوام کو ہی کرنا ہے کہ داغدار کون ہے وہ جس کی
گردن پر لاکھوں بے گناہوں کا خون ہے یا وہ جن کا سینہ کرپشن، بدعنوانی،
انصافی کے خلاف آواز اٹھاتے داغ داغ ہے۔ان مقدمات کے جائزے سے اتنا تو واضح
ہو ہی گیا ہوگا کہ تسلیم الدین کو بدنام کرنے کے پیچھے کون سی سازش، فرقہ
پرست طاقتیں سرگرم ہیں۔ تسلیم ایک سادہ لوح عوام دوست رہنما ہیں اور انہوں
نے مظالم کلو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، اس لئے ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا
ان کی فطرت اور عادت میں شامل ہوگئی ہے۔
تسلیم الدین کی سیاسی زندگی کے نشیب و فراز پر نظر ڈالی جائے تو کچھ باتیں
اور واضح ہوجائیں گی اور ان کی شخصیت کا اصلی رخ سامنے آئے گا۔1969 سے لے
کر 1989 تک بہار اسمبلی کے رکن رہے اور 1989 کے لوک سبھا کے عام انتخابات
میں جنتا دل کے ٹکت پر پورنیہ لوک سبھا کا انتخاب لڑا جہاں ان کا مقابلہ
بہار کے سابق وزیر اعلی ستندر سنہا کی سمدھن مادھوری سنگھ سے تھا۔یہ علاقہ
کانگریس آئی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا249 مگر تسلیم الدین نے یہ سیٹ مادھوری
سنگھ سے جیت کر کانگریس آئی کے مضبوط قلعہ میں دراڑ ڈال دی اور پہلی بار
لوک سبھاکے لئے منتخب ہوئے لیکن اس کی قیمت اپنے باڈی گارڈ کے قتل کی شکل
میں چکانی پڑی۔حالانکہ مسٹر تسلیم الدین کے مقابلے میں مختلف پارٹیوں کے
بڑے قدآور رہنما تھے ایک طرف اس وقت کے وزیر اعلی ستندر سنہا بہ نفس نفیس
مادھوری سنگھ کی انتخابی مہم میں موجود تھے تو دوسری طرف ان کا مقابلہ بی
جے پی سے تھا وہیں کمیونسٹ کے مقبول ہردلعزیز لیڈر اجیت سرکار سے تھا اور
محترمہ مادھوری سنگھ سٹنگ ایم پی تھیں لیکن تسلیم الدین نے ان سبھوں کی
کوششوں اور امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے سیکولر ووٹوں کی تقسیم کے باوجود
کامیابی حاصل کی کانگریس کو 80 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ ان کی جیت نے سیکولر
خاص کر مسلمانوں اور پسماندہ طبقات میں خوشی کی لہر دوڑا دی بے پناہ عوامی
مقبولیت کے ساتھ ساتھ انہیں غریبوں کامسیحا ہونے کا شرف حاصل ہو جس کی وجہ
سے تسلیم الدین کو پورنیہ کا کرپوری ٹھاکر کہا جانے لگا۔
تسلیم الدین اپنی سیاسی زندگی میں زیادہ تر اپوزیشن میں ہی رہے جس میں
پارٹی سے بھی انتخابی میدان میں اترے کامیابی نے ان کا قدم چوما۔ وہ نہایت
بے باک 249 بے خوف لیڈر ہیں انہوں نے عوامی بہبود اور حقوق کیے لئے کسی چیز
کو روکاوٹ بننے نہیں دیاجو بھی سامنے آیا لڑ پڑے چاہے ڈسٹرکٹ مجسٹڑیٹ ہوں
یا ایس ڈی او 249 بی ڈی او اور داروغہ سبھی کے سامنے حق تلفی اور ناانصافی،
ظلم و تشدد اور سرکاری غنڈہ گردی کے خلاف آواز اٹھاتے رہے۔ کسانوں کے حقوق
اور ان کے مسائل حل کرنے کے لئے وہ ہمیشہ پیش پیش رہے۔ خاص کر پورنیہ خطے
کے کسانوں کے لئے جن کا خاص پیدادوار جوٹ ہے249 جن کا استحصال کئی دہائیوں
سے ہورہا تھا باہر کے تاجر اور ماڑواڑی بنئے کسانوں سے اونے پونے قیمت پر
پٹنسن کسانوں سے خریدتے تھے اور دونے تین گنے داموں پر بیچ ڈالتے تھے
سرکاری مشینری پوری طرح بدعنوانی میں ڈوبی رہتی تھی۔ ان بنیوں کے خلاف کوئی
کارروائی نہیں کرتی تھی، اس کے خلاف تسلیم الدین صاحب نے زبردست تحریک
چلائی۔ انہوں نے پورے علاقے میں کاشت کاروں کے استحصال کے خلاف زوردارآواز
اٹھائی کشن گنج سے لیکر ارریہ اور فاربس گنج سے جوگبنی تک احتجاجی تحریک
چلائی جگہ جگہ جلسے جلوس مظاہرے کئے۔ استحصال کے خلاف جدوجہدنے انہیں اعلی
سرکاری افسران کا دشمن بنادیا۔کیوں کہ رشوت خوری249 کالابازاری بند ہورہی
تھی ۳۰ فیصد اور ۴۰ فیصد رشوت کھانے والے افسران آپے سے باہر ہوگئے۔ ان کے
خلاف کارروائی اور جھوٹے کیس میں پھنسانے کا بہانہ ڈھونڈنے لگے اور سازشوں
کا جال پھیلا گیا۔ ان کے کے کئی کیس درج کرائے حیرت کی بات ہے کہ بیک وقت
مجسٹریٹ249 ایس ڈی او اور پولیس چیف نے اپنے ساتھ کی گئی مار پیٹ کی شکایت
درج کرائی۔تسلیم الدین کے خلاف شوت وارنٹ جاری کرایا249 ان کے مکان کو قرق
کرکے منہدم کردیا گیا۔ کیوں کہ اس وقت بہار میں کانگریس کی حکومت تھی اور
یہ اپوزیشن میں تھے لیکن وہ اس سیاسی انتقامی کارروائی سے قطعی خوفزدہ نہیں
ہوئے۔ اس انتقامی جال سے نکلتے ہی وہ عوامی زندگی کا حصہ بن گئے۔ بعد ازاں
اسمبلی کی ایک تحقیقاتی کمیٹی بنی جس نے پولیس کارروائی کو غیر قانونی قرار
دیتے ہوئے ریاست کی کانگریسی سرکارکو مکان کی تعمیر کے لئے ایک لاکھ 85
ہزار معاوضہ دینے کا حکم دیا۔
جنتادل کی تشکیل سے قبل وہ سابق وزیر اعظم چندرشیکھرسے بہت قریب اور بہار
میں ان کے دست راست تھے۔ سماجی انصاف کا نعرہ بلند کرنے والے سابق وزیر
اعظم وی پی سنگھ اور سابق نائب وزیر اعظم چودھری دیوی لال سے ان کا براہ
راست تعلق رہا۔انہوں نے جے پرکاش آندولن میں زبردست طریقہ سے حصہ لیا۔ وہ
ہمیشہ ہندومسلم اتحاد اور بھائی چارہ کی علامت بنے رہے انہیں تمام فرقوں کی
حمایت حاصل رہی یہی وجہ رہی کسی اسمبلی انتخاب میں ہار کا سامنا نہیں کرنا
پڑا۔(علاوہ 1991 ، 1999 اور 2009 کے پارلیمانی انتخاب کے) 1991کے وسط مدتی
عام انتخابات میں جب تسلیم الدین کوکشن گنج سے جنتا دل کا ٹکٹ دے دیا گیا
اورانہوں نے انتخابی مہم بھی شروع کردی مگر عین وقت پر مسٹر سید شہاب الدین
کو ان کے بدلے ٹکٹ دے دیا گیا تو وہ ناراض ہوکرانہوں نے جنتا دل چھوڑ کر
آزاد امیدوار کے بطور انتخاب لڑا جس میں وہ ناکام ہوگئے۔ 1989 کے قبل کے
کشن گنج کے ضمنی انتخابات میں (جو مسٹر جمیل الرحمان ایم پی کے انتقال کی
وجہ سے جو سیٹ خالی ہوئی تھی) میں مسٹر سید شہاب الدین کو کامیابی سے
ہمکنار کرانے میں ان کا زبردست کردار رہا تھا انہوں نے اپنے اثر و رسوخ
عوامی قوت کا استعمال کرتے ہوئے مسٹر سید شہاب الدین کے حق میں انتخابی مہم
چلائی تھی لیکن جب تسلیم الدین کے خلاف شوٹ وارنٹ جاری ہوا تو سید شہاب
الدین نے ان کی کوئی مدد نہیں کی جس کی وجہ سے 1991 میں ان کے خلاف میدان
میں اترے حالانکہ وہ ناکام ہوگئے لیکن ووٹروں پر اپنی ایک گہری چھاپ چھوڑ
گئے۔
1995 کے اسمبلی انتخابات میں سماج وادی پارٹی کے ٹکتٹ پر چھٹی بار اسمبلی
کے رکن منتخب ہوئے اور بہار میں سماج وادی پارٹی کے وجود کا احساس دلایا ۔
سمتا پارٹی کے وجود میںآنے کے بعد مسٹر سید شہاب الدین اس میں شامل ہوگئے
تو مسٹر تسلیم الدین لالو پرساد کی اپیل پر دوبارہ جنتا دل میں شامل ہوگئے
اس کے علاوہ ایک اور سماج وادی پارٹی کے رکن اسمبلی کو ساتھ لائے جس کی وجہ
سے بہار میں سماج وادی پارٹی کا وجود ختم ہوگیا۔1996 کے لوک سبھاکے عام
انتخابات میں مسٹر تسلیم الدین جنتا دل کے ٹکٹ پر کشن گنج پارلیمانی حلقہ
سے انتخابی میدان میں اترے اور سہ رخی سخت مقابلہ میں ایک لاکھ 68 ہزار
ووٹوں سے کامیابی حاصل کی اور مسٹر سید شہاب الدین اس بار جنتا پارٹی کے
ٹکٹ پرانتخابی جنگ میں شامل تھے اور سٹنگ ایم پی تھے249کو تیسرے نمبر پر
پہنچادیا دوسرے نمبر پربی جے پی کے امیدوار تھے اس طرح انہوں نے 1991 کی
شکست کا بدلہ لے لیا۔
تسلیم الدین کی کامیابی سے فرقہ پرست طاقتوں میں صف ماتم بچھ گئی ہے کیوں
کہ کشن گنج پارلیمانی حلقہ مسلم اکثریت ہونے کے ساتھ سرحدی علاقہ بھی ہے جس
پر عرصہ سے بی جے پی جیسی فرقہ پرست جماعت کی نگاہ لگی ہوئی تھی جو بنگلہ
دیشی درداندازوں کا غیر ضروری معاملہ اٹھاتی رہی ہے اور ایک خاص فرقہ میں
ہمدردی کی لہرپیداکرکے ووٹ بٹورنے کی کوشش کرتی رہی ہے 1996 کے الیکشن میں
بی جے پی اپنی فتح کے تئیں بہت ہی پرامیدتھی کہ سہ رخی مقابلہ میں وہ آسانی
سے میدان مارلے گی لیکن تسلیم الدین کی مقبولیت نے بی جے پی کی ساری سازشوں
کو ناکام کردیا اور ان کے غبارے کی ہوا نکال دی۔
تسلیم الدین پر ایک دردناک دور 2009میں آیا جب وہ منوہن سنگھ حکومت میں
وزیر تھے ۔ انہیں مولانا اسرار الحق قاسمی نے ایک لاکھ سے زائد ووٹوں سے
ہرادیا اور دوسرے نمبر پر سید شاہنواز حسین رہے اور تسلیم صاحب تیسرے نمبر
پر چلے گئے۔2004سے 2009کے دوران تسلیم الدین صاحب اپنی زندگی میں سب سے
زیادہ ترقیاتی کام کئے تھے۔ کشن گنج ترقی کے نقشے پر لاکھڑا کردیا تھا اور
اس کے بلاک کوچادھامن میں سڑکوں کا جال بچھا دیا تھا۔ اس کے لئے کئی ندیوں
پر پل اور کئی ترقیاتی کام کئے۔ ان کا سب سے بڑا پروجیکٹ ارریہ سے کشن گنج
کو ریلوے لائن کو جوڑنا تھا گرچہ یہ منصوبہ ٹھنڈے بستے میں چلا گیا۔اس دور
کو یقینی طور پر ترقی کا دور کہا جاسکتا ہے۔ مگر کشن گنج کے عوام نے انہیں
تیسرے نمبر پر لا کھڑا کردیا تھا۔ مولانا اسرارالحق قاسمی کی فتح کا جشن
منایا گیا تھا۔ کشن گنج کے لوگوں خاص طور پر نوجوان طبقے میں انتہائی جوش و
خروش تھا۔ انہیں پہلی بار محسوس ہوا تھا کہ نہ صرف ان کے درمیان اور بلکہ
ان کے طبقے کا کوئی فرد پہلی بار منتخب ہوا ہے اور ان لوگوں نے آزادی سے
تعبیر کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ ملک کو گرچہ آزادی 1947میں ملی تھی مگر
کشن گنج کو آزادی 2009میں ملی ہے۔ مولانا اسرارالحق قاسمی کا استقبال کرنے
کے لئے جامعہ کے نہرو گیسٹ ہاؤس کے لان میں ایک پروگرام رکھا تھا جس میں
راقم الحروف بھی شریک تھا۔ اس پروگرام میں کشن گنج کے نوجوانوں کا جوش،
ولولہ اور امید قابل دیدتھی تو مولانا اسرار الحق قاسمی صاحب کا جوش بھی کم
نہ تھا اور انہوں نے تقریر کرتے ہوئے یہاں تک کہہ گئے تھے’’ میری سیلری آپ
کی سیلری ہوگی اور میرا بنگلہ آپ کا بنگلہ ہوگا‘‘ میں آپ کے لئے ہر وقت
مہیا رہوں گا آپ کے لئے4 2 گھنٹے دروازے کھلے رہیں گے۔تسلیم صاحب کی ہار کی
وجہ یہ بھی تھی کشن گنج حلقے کی ازسرنو حد بندی ہوئی تھی اور تسلیم صاحب کی
ذات کے افراد کا بڑا حصہ ارریہ اور پورنیہ حلقے سے ساتھ منسلک ہوگیا
تھا۔تسلیم الدین صاحب نے 2014میں واپسی کی اور پہلی بارارریہ پارلیمانی
حلقہ سے منتخب ہوئے اور اس وقت منتخب ہوئے جب پورے ملک میں مودی لہر چل رہی
تھی۔ ارریہ سے فتحیاب ہونے کے بعد وہ ترقیاتی کاموں اور خاص طور پر کشن گنج
کے لئے فکر مند رہتے تھے۔وزارت جہاز رانی کے توسط سے مہانندہ ندی میں شپ
چلانے کے لئے کوشاں تھے اورانہوں نے اس لئے پروجیکٹ پاس بھی کروالیاتھا۔
تسلیم الدین صاحب کیا تھے، کیسے تھے،؟ یہ زرخرید میڈیا یا فرقہ پرست
جماعتوں اور ان کے زہریلے لیڈران سے جاننے کے بجائے براہ راست ان کے
پارلیمانی حلقہ کے عوام سے رابطہ قائم کیا جائے وہی لوگ صحیح طور پر
بتاسکتے ہیں کہ تسلیم الدین اصل میں کیا تھے؟ کیا وہ مجرم تھے، دہشت
گردتھے، غنڈہ تھے یا عوام کے سچے مسیحا اور ہردلعزیز رہنما ۔
تسلیم الدین صاحب شوگر کے مریض تھے لیکن ان کی یاد داشت غضب کی تھی۔ جس کو
بھی جانتے تھے پورے خاندان کے ساتھ جانتے تھے۔ علاقے کی چھوٹی بڑی سرگرمیوں
سے اچھی طرح واقف تھے۔وہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے ان کا انتقال 17ستمبر کو
چنئی کے اپولو ہسپتال میں ہوگیا تھا اور19ستمبر کو لاکھوں سوگواروں کی
موجودگی میں ان کے آبائی گاؤں سسونا میں سپرد خاک کیاگیا۔ ان کے جنازہ میں
اتنی بھیڑ علاقے میں پہلی بار ہوئی تھی۔ سماج کے تمام طبقے افراد نے شرکت
کی تھی یہ ان کی مقبولیت کی علامت تھی۔ |