ہم جب بہت چھوٹے سے تھے،،،آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ ایک یا
دو انچ کے ہم ہوا کرتے ہوں گے
چھوٹے سے مطلب ہے جب ہمیں ذرا ذرا سی ہوش اور سمجھ تھی،،،یعنی کہ آج سے
ذیادہ ہم
ہوشیار اور سمجھ دار تھے،،،
ویسے توبھائی لوگ یا یوں کہہ لیجئے،،،جو ہم سے ذرا قریب ہیں،،،ان کا خیال
ہے چونکہ ہم پیدائشی
طور پرپٹھان ہیں،،،اس لیے ذیادہ تر امکان یہ ہی ہےکہ ہماری سمجھ داری کے
لیول میں کوئی
ذیادہ فرق نہ آیا ہوگا،،،خیر اس لاحاصل بحث کا کوئی فائدہ نہیں،،،کیونکہ ہم
اپنی مرضی سے
پٹھان پیدا نہیں،،،بلکہ کوئی بھی اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوتا،،،ورنہ ہمیں
یقین ہے یہ دنیا
سلطانہ ڈاکو،،،ہٹلر،،،شیکسپئر،،،کبھی اس دنیا میں نہیں آتے،،،
بات اصل میں یہ ہے کہ جب سے ہم پیدا ہوئے ہیں،،،آنکھوں کے بارےمیں بہت کچھ
سنتے
چلے آئے ہیں،،،کبھی سونگ میں،،،کبھی پوئٹری میں،،،ادب میں،،،خاص کرپوئٹس نے
آنکھوں
کی ایسی ایسی تشریح کی ہے،،،کہ ہم نے آنکھوں کو ہی سب کچھ سمجھ لیا
تھا،،،جیسے
دیوانی مستانی،،جھیل سمندر،،کشتی دریا،،چاند بادل،،تیرکمان،،
کہیں پر آنکھ،،،کہیں پر نشانہ،،،اک شاعرکہہ رہا تھا،،،آپ کی آنکھوں میں کچھ
مہکے ہوئے سے
راز ہیں،،،اب ہم پریشان تھے کہ کیا سچ ہے،،،کیا ہے جھوٹ،،،کیا صحیح
ہے،،،کیا غلط،،،
کیا حقیقت،،،کیا فسانہ،،،کیا نغمہ،،،کیا ترانہ،،،
میڈیکل سائنس نے توآنکھ کو پردہ پتلی جانےکیا کیا چیزوں کا مجموعہ بتا
دیا،،،کسی نے کہا
آنکھ خواب دیکھتی ہے،،،جب کہ ہمارا ایکسپیرئنس بالکل الگ ہے،،،
ہم نے جب بھی خواب دیکھا تو ہماری آنکھیں بند تھیں،،،ایک دفعہ کھلی آنکھ سے
خواب دیکھنے
کی کوشش کی ،،،تو ایکسیڈنٹ ہوتے ہوتےبچا،،،
پوئٹس نےتو آنکھوں کو اتنی ذیادہ اہمیت دی ہے،،،کہ ہم جب بھی سفر پر نکلتے
ہیں،،،ہمیشہ
ڈر رہتا ہے،،،کہ کہیں جلدی میں آنکھیں گھر ہی نہ بھول جائیں،،،پھر پتا چلتا
ہےبھائی یہ
فکس ہیں بھول نہیں سکتے،،،یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ دیکھو بھائی!!!جا تو رہے
ہو،،،دیکھنا
آنکھیں چار نہ کرنا،،،ہم جب بھی باہر سے واپس آئے تو غور سےباربار کاؤنٹنگ
کی،،،کہیں آنکھیں
چار تو نہ ہوگئیں،،،
اب تک شکر ہے کہ دو ہی ہیں،،،چارنہیں ہوئیں،،،
کئی لوگوں کی آنکھ میں سنا ہے بال بھی آجا تا ہے،،،اس سےبھی بچنا
چاہیے،،،آنکھوں کی بہت سی
مثالیں ابھی باقی ہیں،،،جو ہم پھرکبھی آپکی خدمت میں عرض کریں گے۔۔
|