اصغر علی امام مہدی سلفی ایک مرد مجاہد کا نام ہے

گزشتہ دنوں میں نے ایک مضمون صرف اس لئے لکھا تھا کیونکہ نام نہاد ہمدردان جمعیت ایک شخص کو اس کے جائز منصب سے ہٹانے کیلئے دنیا کی وہ تمام اوچھی حرکتیں انجام دے رہے جس کی وجہ سے اہلحدیثیت کا وقار تار تار ہو رہا ہے۔ انہیں نامعقول ہمدردان جمعیت سے ایسے افعال وکردار کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا جس کی وجہ سے ملک میں بسنے والے کروڑوں اہلحدیث اور خاص طور سے نو اہل حدیث خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ میں نے اس لئے قلم اٹھایا تھا کیونکہ ایک شاگرد اور ایک استاذ کی آبرو تار تار ہو رہی تھی۔ لوگوں نے کسی بزرگ استاذ کی عزت وناموس سے کھلواڑ کرنے کی بھر پور کوشش کی تھی۔ کوشش کی گئی تھی کہ جمعیت کو اپاہج اور لولا لنگڑا کر دیا جائے ۔جیسے کہ وہ پندرہ سال پہلے کی جمعیت تھی۔ جن اہلحدیثوں کو وہابی کے نام سے موسوم کیا جا رہا تھا وہ سچے پکے مسلم باعز ت اہلحدیث بن جانے پر خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے تھے۔ در اصل یہ تمام کارستانیاں ان نام نہاد ہمدردان جماعت کی تھیں جنہوں نے 50سالوں تک جمعیت کو یرغمال بنا ئے رکھا۔ جن سے نہ تو کوئی مثبت کام سرزد ہوا اور نہ ہی ان سے ایسی باتوں کی امید کی جا نی چاہئے۔ کیونکہ یہ حضرات ایسے کردار کے مرتکب ہیں جنہیں دیکھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ کسی غلط طاقت کے شکار ہو گئے ہیں۔

میں نے اپنی تحریر میں بیچ بچاؤ کا راستہ اپنا یا تھا ، سیکڑوں فون دستیاب ہوئے جنہوں نے مضمون کی افادیت کا بھروسہ دلایا، اور اسی کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ جہاں ایک جانب جمعیت کو اپنے ہی جماعت کے لوگوں سے چہار جانب خطرے لاحق ہیں وہیں شیخ اصفر سلفی اور جمعیت اہلحدیث بلیک میلنگ کا بھی شکار ہے۔ میں نے مضمون کو ہندستان بھر کے پانچ سو اردو اخبارات کو شائع ہونے کے لئے بھیجا۔ ملک سیکڑوں اخبارات نے مضمون کو بہترین کوریج دیا۔ لیکن چند ایک اخبار مالکان نے فون کرکے مضمون شائع کرنے سے انکار کر دیا۔ وجہ کیا تھی ۔ پتہ نہیں۔ صحافت کیا اسی چیز کا نام ہے کہ مخالفت میں مسلسل رپورٹ شائع کی جائیں اور اگر درمیانی بات تحریر کی جائے تو اسے شائع کرنے سے انکار کر دیا جائے۔ کیونکہ بلیک میلنگ کا راستہ بند ہوجائے گا۔ اسی طرح کے ایک بلیک میلر ایڈیٹر کی تحریر نظروں سے گزری۔ جس نے ابھی چند مہینے پہلے جناب اصغر سلفی کے کارہائے نمایاں کے لئے پروگرام منعقد کئے تھے۔ لیکن چند مہینے بعد وہ ایسا باغی ہو جاتا ہے کہ چوراہے پر گھسیٹ کر بے عزت کرنے کی بات کرتا ہے۔ جب اس بلیک میلر کے پاس فون کرکے دریافت کیا گیا اور پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ ابھی چند مہینے پہلے تم نے کارہائے نمایاں کے طور پر کانفرنس کا انعقاد کیا تھا اور اب تم ایسی باتیں کرتے ہو۔ تو ایڈیٹر صاحب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ نیز اس بارے میں دریافت کیا گیا کہ تم نے ملک بھر کے کروڑوں افراد کی آبرو جمعیت کے ناظم کو چوراہے پر گھسیٹنے کی بات کی ہے۔ کیا اس کیلئے تمہارا مواخذہ کیا جائے۔ کیا تم یہ محسوس کرتے ہو کہ تمہاری بد تمیزیاں ناقابل گرفت ہیں۔ جمعیت اور جماعت کو بازار و بنا لیا جائے ۔تم اس بات کو جائز مانتے ہو۔ تو جناب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ جناب ایڈیٹر صاحب کو تنبیہ کیا گیا ہے کہ آئندہ اگر اس طرح کی بدتمیزی والی تحریر دیکھی گئی تو تم سرکاری مہمان بننے کے لئے تیار رہنا کیونکہ تم بلیک میلر ہو۔میدان میں کھڑے ہوکر الزام تراشیاں کرنا اور گالی گلوج کرنا کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔

استاذ محترم کی آبرو سے کھلواڑ کیا گیا ۔ وہ باتیں تحریر کی گئیں جن کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ استاذ محترم کی چھوٹی سی تحریر مجھے موصول ہوئی ۔جس میں انہوں نے شر پسندوں کی شرپسندی سے ناخوشی کا اظہار کیا ہے۔ جامعہ سلفیہ میں اس طرح کی گھناؤنی حرکت سے بھی انکار کیا۔اﷲ تعالیٰ ان تمام افراد کو اپنے گرفت میں لے جنہوں نے جمعیت کے وقار کو سر بلندی بخشنے والے فرد کیلئے ایسی باتیں تحریر کیں اور جمعیت کو بدنام کرنے کیلئے کسی بھی ناپاک حرکت سے گریز نہیں کیا۔ اس درمیان ایک ادارے کا اکاؤنٹ اسٹیٹمنٹ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ وہ بینک سے لی گئی تفصیل مولانا اصغر کے ادارے کی ہیں۔ لیکن اس کو مولانا کے اپنے اکاؤنٹ ہونے کی طرف اشارہ کرنا غلط بات ہے۔ ایسی حرکتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس کسی نے بھی ایسی حرکت کی ہے وہ جمعیت اور قوم کا ہمدرد نہیں ہو سکتا ہے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ ایسی حرکتوں سے تمام اہلحدیث تحریکوں پر پابندی بھی عائد کی جاسکتی ہے۔ لیکن اﷲ نمٹے ان ناپاک سازش کرنے والوں سے جنہوں نے جمعیت کو رسوا کرنے اور بین کرانے کی کوشش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

ا ب آتے ہیں تحریر کے اصل موضوع کی طرف ،جس کا عنوان ہے ، ’’اصغر علی امام مہدی سلفی ایک مرد مجاہد کا نام ہے‘‘ میں نے پہلی تحریر میں لکھا تھا کہ سالوں مولانا اصغر کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ ایک ہی بلڈنگ میں نیچے اوپر ہم رہتے تھے۔ مولانا جری ، بہادر اور مجاہد شخص ہیں، بات اس وقت کی ہے جب جے نرائن کالج کے گراؤنڈ میں ختم نبوت کے نام سے اجلاس منعقد کیا جا رہا تھا۔ ٹھیک تقریروں کے درمیان بنارس کے بدعتیوں نے چاروں جانب سے کانفرنس پنڈال کو گھیر لیا اور کہا کہ نبی کریم ﷺ زندہ ہیں اس بات کا مقرر حضرات اعلان کریں۔ سلفیہ کے طلبا اور اساتذہ تھر تھر کانپ رہے تھے ، کئی کے ہلاک ہونے اور سیکڑوں کے زخمی ہونے کا اندازہ لگایا جا رہا تھا ، لیکن اصغر سلفی جیسے مرد مجاہد نے سیکڑوں کی بھیڑ سے لوہا لیتے ہوئے اپنے ہی انداز میں چیخ کر کہا ’’ اجے دیکھتے کیا ہو مارو ان لوگوں کو‘‘ خیر تمام طلبہ نے کرسیوں اور ملنے والے بانس بلم سے تمام شر پسندوں کے ہوس ٹھکانے لگائے۔ تمام پانچ سو طلبا اور اساتذہ کے قافلے کو اسی علاقے سے ہو کر جانا تھا جنہوں نے شرپسندی کی تھی۔ مولانا اصغر آگے تھے بقیہ پانچ چھ سو افراد کا مجمع آپ کے پیچھے ۔ اصغر سلفی جیسے مرد مجاہد کے ہوتے ہوئے جامعہ سلفیہ کے کسی ایک فردکو خراش تک نہ آئی۔ بعد میں تھانے اور کورٹ کچہری کا معاملہ آیا تو وہاں بھی نمٹنے کیلئے مولانا اصغر سلفی ہی امیر کارواں تھے۔ مولانا اصغر جمعیت ، جماعت اور اہلحدیث کے وقار اس لئے بھی ہیں کہ وہ مدنی ہونے کے باوجود خود کو سلفی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں جس کیلئے مسلک اور ملک کو ان کا احسان مند ہونا چاہئے ، جس کی وجہ سے آج پوری دنیا اور خصوصا ہندستان سلفیت کو عزت کی نگاہ سے دیکھے ہیں۔زی نیوز جیسا شاطر چینل ’’سلفی صاحب ‘‘ کے لقب سے آپ کو موسوم کرتا ہے۔

جمعیت کیلئے دل میں بغض رکھنے والے افراد سوچ رہے ہونگے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے ، جمعیت سے اس کا کیا تعلق ۔ تو میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اصغر اس مرد مجاہد کا نام ہے جو جمعیت کی طرف سے خود ہی مترجم ، خود ہی ملک وبیرون ملک کا سفیر ، خود ہی سیاست دانوں سے رابطہ کار، خود ہی ڈبیٹ کار، خود ہی بارسوخ افراد اور تمام مسالک سے ہم آہنگی بڑھانے والا شخص ۔ تمام ہنر میں ماشا اﷲ اﷲ تعالیٰ نے مولانا اصغر سلفی کو لاجواب بنایا ہے۔ جو جمعیت میں اس لائق تھے وہ جمعیت باطل کو کھڑا کرنے میں مصروف ہو گئے، جہاں ان باطل جمعیت والوں سے امداد کی توقع کی جا سکتی تھی وہ بھی فوت ہو گئی۔ کیونکہ انہیں اپنے ہاتھوں میں بینک بیلنس چاہئے تھا، اپنے دونوں ہاتھوں سے یہ اسے لٹانا چاہتے تھے۔ یہ ایسے بننا چاہتے تھے جہاں ان کو تنخواہ نہ دی جائے یہ لوگوں کو تنخواہ تقسیم کرتے پھریں۔ خیر جمعیت باطل والوں نے وہ سب کچھ کر کے دیکھ لیا ۔ لیکن ان سے کچھ نہ ہو سکا۔ جمعیت کی تین سب سے بڑی ریاست طاقتیں جمعیت جدید کے ہاتھوں میں تھیں، دہلی ، ممبئی اور اتر پردیش۔کڑوں کی چندے انہوں بٹورے لیکن ایک کام نا کیا۔ اب ان تین جگہوں کے افراد پوچھتے ہیں کہ جمعیت جدید کے ختم کرنے کا اعلان کب کر رہے ہو۔

جمعیت اہلحدیث ہند کے ناظم اصغر علی سلفی کو تمام قابل افراد نے اکیلے چھوڑ دیا۔ جن سے کچھ ہونے کی توقع تھی، اور ہاں ایک بات اور۔ چند دن پہلے بڑے بڑے مضامین لکھنے والے صاحب کا ایک مضمون آیا۔ مضمون ایسے ہی ہے جیسے انجانے کی شادی میں عبد اﷲ۔۔ کئی طرح کی نصیحتیں جھاڑی ہیں جناب نے۔ کئی طرح کی آراء اور مشورے پیش کئے ہیں۔مولانا نے دس علماء کے نام شمار کئے ہیں جن سے جمعیت کو جلا بخشی جائے۔ تو میں جناب کو بتا دوں کہ میں ان میں سے اکثر افراد سے متعارف ہوں ۔ وہ سب اپنے آپ میں جہاں خدمت کر رہے ہیں وہاں مطمئن ہیں۔ آزاد رہ کر کام زیادہ کیا جا سکتا ہے۔ اور پتہ نہیں کب آپ کا مضمون ’’حربہ، چربہ‘‘ کرکے ان کے خلاف منظرعام پر آجائے۔ جب آپ نے اپنے بزرگ استاذ کو الزام دینے سے نہ چھوڑا۔تو یہ دس افراد بے چارے اسی دن مر جائیں گے جس دن آپ کی ظالم بے رحم قلم اٹھے گی۔ مولانا سے میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ اس قدر جمعیت کے ہمدرد تھے تو دوسری جمعیت بنا کر جمعیت کو کمزور کرنے کی سازش کیوں کی۔ جمعیت میں بنے رہتے ۔ کچھ نہ کرتے تو کم از کم اپنی چرب زبانی سے تین طلاق جیسے ملک کو جلادینے والے معاملے پر ٹی وی اینکرس کے سوالوں کا جواب دے دیتے ۔ اصغر صاحب سلفی کو اتنا تو فرصت مل جاتی۔ تحریر بڑی بڑی لکھتے ہیں۔ کم از کم ترجمان اور دیگر شماروں کے کوالٹی پر توجہ مرکوز کر لیتے ۔ جمعیت اور زیادہ کام کر لیتی۔ اور دوسرے لال داڑھی والے صاحب ۔ آپ بلڈر کے باپ ضرور ہیں ۔ بیرون ممالک بہتر تعلقات بھی ہیں۔ کسی کی بھی تنخواہ بند کر اسکتے ہیں۔کسی کی بھی تنخواہ گھر بیٹھے جاری کر اسکتے ہیں۔ اگر آپ نے جمعیت کو دھڑوں میں نہ تقسیم کیا ہوتا تو کم از کم بیرون ممالک کانفرنسوں میں آپ چلے جایا کرتے ۔ سیلاب متاثرین کیلئے پانی میں جانا تو آپ کیلئے ایسے ہی ہے جیسے بکری کو پانی میں اتارنا۔ آپ ہمارے ہم ضلع ضرور ہیں لیکن مجھے شرم آتاہے کہ ایسے تخریب کار لوگوں کا تعلق ہمارے ضلع سے کیوں ہے۔ آپ جمعیت میں بنے رہتے تو اصغر امام مہدی سلفی کو اپنا نائب مل جاتا ، مشیر دستیاب ہوتا۔ یا الیکشن میں کم از کم مقابلے کیلئے ایک امید وار ہو جاتا ۔ اب آپ نے تخریب کاری کی وہ بنیاد ڈالی ہے کہ اصغر علی امام مہدی سلفی کا کوئی مد مقابل بننے لائق نہیں ہے۔ جب مد مقابل امید وار کوئی نہیں ہے تو بھلا الیکشن میں فائٹ کون کریگا۔ وہی امیر اور ناظم بنے گا جس کو ملک بھر سے آئے ہوئے مندوبین آگے بڑھائیں گے۔ میں پر امید اس بات کو کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے بڑوں نے تخریب کاری کی وہ مثال پیش کی ہے کہ جمعیت کے کانٹوں بھری کرسی پر بیٹھنے کی جرئت کوئی اور کر ہی نہیں سکتا ۔ کیونکہ ایسے الزامات اور بہتان تراشیوں کے بعد انسان کا زندہ بچ پانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ۔ لیکن وہ مرد مجاہد اصغر سلفی ہے جس نے لاکھوں کے مجمع میں رونے اور بلکنے کے بعد بھی لوگوں کے اصرار کرنے پر جمعیت اور سلفیت کی محبت کی خاطر اس بڑی ذمہ داری کو اپنے کندھے پر اٹھائے پھر رہا ہے۔ جس میں نہ بچوں کا دیدار نصیب ہے اور نہ کنبے کی خیر خبر ۔ والد صاحب کے جانکنی کی خبر آتی ہے تو کہیں اور کے سفر پر ہوتے ہیں ۔ایک انسان جمعیت کیلئے پوری دنیا کے چکر ایسے لگا رہا ہے جیسے کوئی سیارہ دن رات چلتا رہتا ہے۔ مولانا اصغر سلفی کا اپنی اسی حالت پر کہنا ہے کہ ’’اﷲ میرے کنبے سے میری دوری پر میرا مواخذہ کرے گا‘‘۔

جمعیت کا ناظم بنائے جانے پر رحمانی کامپلکس کو آزاد کرانے کا سہرہ اصغر علی امام مہدی کے سر جاتا ہے ۔جس پر آس پاس کے پڑوسیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ قبضہ کی یہ تمام باتیں جمعیت کے تمام کارکنان کو پتہ تھا لیکن کسی کے اندر ان سے لڑنے اور بات تک کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ مولانا اصغر نے وہاں کھڑے ہوکر سیکڑوں مفسدین کے مجمع میں چہار دیواریاں قائم کرائیں۔ جس کا نام آج جمعیت کامپلکس اوکھلا ہے ۔ جہاں آج اہلحدیث مدارس سے فضیلت پاس کرنے والے طلبا کو تدریبیہ جیسا کورس کرایا جاتا ہے اورانہیں وظیفے بھی فراہم کرائے جاتے ہیں۔ جہاں ایک عالی شان مسجد مولانا اصغر سلفی کی دین ہے۔اسی کامپلکس میں ایک کثیر منزلہ عمارت کی بنیاد پرنے کے بعد اب اس کا کام اپنے رفتار پر ہے عنقریب ایک بڑی بلڈنگ کی دولت سے جمعیت مالا مال ہوگی، جہاں بڑے پروگراموں ، ملک اور بیرون ملک سے آنے والے مہمانوں کیلئے رہائش کی بہترین آسائش ہوگی۔ مولانا اصغر سلفی کے کارہائے نمایاں میں یہ بھی آتا ہے کہ جمعیت کے دونوں دفاتر جامع مسجد اردو بازار اور اوکھلا کامپلکس ساتھ ساتھ کام کر رہے ہیں جہاں اصغر سلفی دوپہر کے تین بجے تک اوکھلا میں اور دوسری شفٹ اردو بازار جامع مسجد میں بیٹھتے ہیں۔

بات کریں اس وقت کی جب پورا ملک دہشت گردی کی آگ میں جھلس رہا تھا، معاملہ اوکھلا انکاؤنٹر کا تھا۔ مسلم امہ پر دہشت گرد ہونے کا الزام لگ رہا تھا۔ تمام ملک کی تنظیمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تھیں اس وقت جمعیت اہلحدیث نے اصغر سلفی کے ہاتھوں ایک بڑے کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ جس کا موضوع تھا ’’دہشت گردی کی بیخ کنی وقت کی اہم ضرورت ‘‘جس میں وزیر داخلہ کو مدعو کرکے ملک وبیرون ملک کو ایک بڑا پیغام اہلحدیث پلیٹ فارم سے دیا گیا۔ جو اپنے آپ میں ایک بڑا اور جرئت مندانہ اقدام تھا۔ ہندستان کے سیاست دانوں ، کارپوریٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مولانا اصغر سلفی بڑے با اثر شخصیت کے طور پر مانے جاتے ہیں۔ ملک میں کسی بھی بڑے مسلکی معاملے مولانا اصغر اس کے امیر بنائے جاتے ہیں۔ تین طلاق معاملے میں سپریم کورٹ نے بارہا مولانا اصغر سلفی سے رجوع کیااور اسی بات پر مہر ثبت کی گئی جس بات کی اجازت مسلک اہلحدیث یعنی مولانا اصغر نے کوڈ کرایا۔ ۔ ملک کا مسلم پرسنل لاء بورڈ حالیہ دور میں ایک بھی قدم مولانا اصغر سلفی سے مشورے کے بغیر نہیں بڑھاتا، ایک وقت وہ بھی تھا جب پرسنل لاء بورڈ میں اہلحدیثوں کے داخلے کی ممانعت تھی۔بیرون ممالک میں بھی مولانا اصغر سلفی کے اہم اور اثر دار رابطے ہیں۔ سعودی شاہ عبد اﷲ کے سفر ہند کے موقع پر جب بھار ت کے وزیر اعظم کی طرف سے پوچھا گیا کہ کہیں ٹہلنے گھومنے یا کچھ افراد کے وفد سے ملاقات کی خواہش بتائی جائے۔ تو شاہ عبد اﷲ نے صرف جناب مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔

اس طرح کی بہت ساری باتیں میں مولانا اصغر سے بہت دور رہ کر شمار کرا سکتا ہوں، مولانا اصغر سلفی سے ڈھائی سال قبل میری ملاقات ہوئی تھی۔ ان کے قریبی حضرات بہت کچھ جانتے ہونگے۔ لیکن عوام کے دل میں مولانااور جمعیت کے خلاف بغض وحسد والی افواہ پر پڑے پردے کو ہٹایا جائے میرا مقصد یہ ہے ۔کیونکہ جمعیت اہلحدیث کیلئے مولانا اصغر سلفی جیسا قابل ، جری اور با رسوخ فرد کوئی دوسرا ملک ہندستان میں نہیں مل سکتا ہے اور نہ اتنی وسعت قلبی اور فراخدلی کسی کے اندر موجود ہے جو آنے والے ہر چیلنجز کو برداشت کر سکے۔

یہاں بات کی جائے جناب شیخ عبد المعید صاحب مدنی کی ۔ تو پہلی بات ہر فرد نے جناب کی تحریریں جو تلخی کے علاوہ کچھ نہیں ہوتیں۔ یعنی یہ سمجھ لیں کہ اگر چراغ لے کر آپ مولانا کی تحریر جس میں نفرت کے علاوہ کچھ تحریر کیا گیا ہو تلاش کریں تو میرے خیال سے نہیں پائے گا۔ جناب کا آبائی وطن تو ہندستان ہے لیکن یہاں بھارت میں جناب شیخ عبد المعید صاحب مدنی ویزے پر رہتے ہیں۔ آپ کی اصل شہریت فجی ہے۔ ہر روز نئی نئی شاطرانہ تحریر کیلئے جانے مانے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جمعہ کے خطبے میں میں بھی آپ اسی نفرت آمیز انداز میں بولتے ہیں ۔ اگر ان کی ایک تحریر پر نفرت پھیلانے کا الزام عائد کرتے ہوئے بھارت میں انتشار پھیلانے کا الزام عائد کیا جائے تو دوسرے دن آپ فجی کیلئے روانہ ہوجائیں گے۔ لیکن مولانا اصغر علی کا بڑا پن ہی ہے کہ انہوں نے آج تک ایسا نہیں کیا۔ بلکہ جب مولانا معید صاحب مدنی جیل چلے گئے تو مولانا اصغر سلفی نے ہی بھاگ دوڑ کرکے رہا کرایا۔ اور انہی کی بدولت وہ ہندستان میں بیٹھ کر لکھ رہے ہیں۔ اسی طرح سے رحمانی صاحب جیسے جلیل القد بزرگ استاذ کو بھی جیل جانے کے بعد آپ یعنی مولانا اصغر نے ہی رہائی دلائی۔ مولانا عبد المتین صاحب مدنی کی گرفتاری میں جس میں مولانا کے اوپر بڑا غلط الزام عائد کیا گیا تھا مولانا اصغر سلفی نے اپنے رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے راتوں رات بنارس واپس پہچایا تھا۔

تحریر کو منظر عام پر لانے کا مقصد کسی کی تعریف اور کسی کی تذلیل کرنا میرا مقصد نہیں ہے۔ نہ میں جمعیت کا ممبرہوں اور نہ ایسی کوئی خواہش ہے۔ لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میری ہی طرح لاکھوں ملک کے نوجوان ایسی واہیات باتوں پر تکلیف محسوس کرتے ہونگے جیسے مجھے ہوتا ہے۔ جمعیت اپوزیشن کی قابلیت سے مالا مال ہے ۔ ان کی طاقت کا بھی اعتراف ہے ۔ لیکن اس طرح سے جمعیت کو سر عام بدنام کرنا کسی بھی مہذب معاشرے میں جائز قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ الزام تراشیاں ایک حد تک جائز مانی جا سکتی ہیں۔ لیکن کسی دوسرے کی آبرو اور عزت سے کھلواڑ کرکے الزام تراشی کی جائے یہ بہت غلط ہے۔ تیس صفحے کا کھلا خط لکھ کر سوشل میڈیا پر ڈال دیا جائے اور صرف لفاظی سے کام لیا جائے اس بات سے بھی عوام پوری طرح واقف ہوتی ہے۔ آج کا معاشرہ بصیرت کی آنکھ بند کرکے کسی بھی تحریرکو پڑھ کر رائے قائم کرنے والا نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت اور اپنے علم اور تجربے کے آئینے میں بات کو سمجھنے کی کوشش ہر فرد کرتا ہے۔ بہکاوا ایک حد تک جائز ہے۔ لیکن کسی کو عرش سے فرش پر ذلیل کرکے پٹخنے کی اجازت معاشرہ اور سماج کو نہیں دیا جا سکتا ۔ کام کاج نذر آنے والا ہے۔ چاہے وہ ہندستان میں اہلحدیث کے رسوخ کی بات ہو۔ جسے لوگ پندرہ سال قبل جانتے نہیں تھے۔ قدم قدم پر اہلحدیث بچوں اور عوام کو آگے بڑھانے کی بات ہو۔ تصنیفی خدمات ہوں۔ رسائل کی تاریخی انداز میں سب سے زیادہ سرکولیشن کے منظر عام پر آنے کی بات ہو۔ جمعیت اہلحدیث آج چار زبانوں میں رسائل کے چھاپنے والا پہلا مسلکی تنظیم بن گیا ہے۔ تصنیفی خدمات میں اگر شمار کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ کانفرنس ، اجلاس، میٹنگ ، رفاحی کام، میڈیکل کیمپس ، پریس کانفرنس ، پریس ریلیز کے علاوہ ناپید ہو چکی معتبر کتابوں کی اشاعت بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہیں۔ اس جیسی ہزاروں باتیں جن کو جمعیت کے اہلکاروں کے ساتھ بیٹھ کر شمار کیا جائے تو وقت درکار ہوگا۔ ان باتوں پر پانی پھیرکر فراموش نہیں جا سکتا ۔ اور اس لئے تو خاص طور سے تمام خدمات کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کیونکہ تخریب کاراور تقسیم کار افراد میرے ہم ضلع اور ہم ریاست ہیں۔ اس درمیان ہمارے اپنے ہی ضلع کے لوگوں کا ایک عمل منظر عام پر آیا ہے۔ جس کا نام اہلحدیث فرنٹ کے نام سے رکھا گیا ہے۔ اگر ان لوگوں کا مقصد کسی بھی تخریب کاری سے دور رہ کر عوام اور مسلک ،ملک وملت کی خدمت کرنا ہے تو بہت بہت مبارکباد ۔ لیکن اگر تخریب کاری شیوہ رہا تو مقبول ومعروف شخصیت کی طرح آپ کے اپنے گھر کے افراد بھی آپ کی باتوں کو قبول کرنے سے دور بھاگ جائیں گے۔ کیونکہ اس دور ترقی میں ہر فرد اپنی عقل سمجھ بوجھ اور حقیقت کو دیکھ کر چلتا ہے۔ لہذا عوام کو ورغلانا اور بے وقوف بنانے کی کوشش کرنا ایک بے کار کام ہے۔ اور ہاں یہ تخریب کاری آج کی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ تخریب کاری ہمیشہ جمعیت کے مخالف افراد کی رہی ہے۔ پہلے پوسٹر بازی سے یہ کام کیا جاتا تھا۔ آج سوشل میڈیا کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ آنے والے دنوں میں ویڈیو کلپس اور آڈیو کے ذریعہ اپنی شر انگیزی کا ثبوت دیا جائے گا۔ اﷲ سے دعا ہے کہ اﷲ تمام تخریب کاروں کو بہتر سمجھ عنایت فرمائے۔ لوگوں کوجماعت اور جمعیت کے روز افزوں کاموں کے رفتار کو دیکھ کر حسد جلن اور تکلیف محسوس کرنے کے بجائے بہتر کاموں میں مدد کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔

Mutiur Rahman Aziz
About the Author: Mutiur Rahman Aziz Read More Articles by Mutiur Rahman Aziz: 7 Articles with 6495 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.