جندرانی جھونپڑ پٹی

اس بستی کا ماحول کسی پس ماندہ دیہات کی عکاسی کرتا ہے
مفلوک الحال لوگوں کی اس بستی میں ہر طرف میلے کچیلے بچے، بوسیدہ کپڑے پہنی خواتین اور غربت کی داستان اپنے چہروں پر ثبت کیے ہوئے مرد نظر آتے ہیں

روشنیوں کے شہر کراچی میں، جہاں ہرطرف بلند وبالا پلازہ، فلک بوس عمارتیں اور وسیع و عریض محل نما بنگلے ہیں ، جن میں زندگی جدید سہولتوں کے ساتھ ہر وقت رواں دواں رہتی ہے، جہاں رہنے والے صاحب حیثیت لوگ اپنے اہل خانہ یا دوست احباب کے ہم راہ شہر کے پوش علاقوں میں بنے بار بی کیو اور باکڑا ریسٹورنٹس میں ایک وقت کے کھانے کی مد میں ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں۔ اسی شہر میں کئی بستیاں ایسی ہیں جن کے گھرں میں صرف ایک وقت کا کھانا پکتا ہے، معصوم بچے بھوک سے بلبلاتے پھرتے ہیں یاکچرا کنڈیوں سے اپنا پیٹ بھرنے کے لیےرزق تلاش کرتے نظر آتے ہیں،جہاں لوگ ملکی ووٹ بینک کا حصہ ہونے کے باوجود اس جدید دور میں بھی ازمنہٰ وسطٰی جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے گھاس پھوس کے جھونپڑوں میں قدیم دور کی تہذیب کے آثار پائے جاتے ہیں۔ ان ہی میں ’’جندرانی جھونپڑ پٹی‘‘ ہے، جس کے تنگ و تاریک اور خستہ حال جھونپڑوں میں ہندوؤں کی ’’باگڑا‘‘ برادری کے چالیس خاندان آباد ہیں جن کی مجموعی آبادی 350نفوس پر مشتمل ہے، ان میں عورتوں اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ مذکورہ بستی ملیر اور قائد آباد کے درمیان واقع ہے۔ ملیر سٹی سے جب قومی شاہراہ پر سفر کیا جائے تو مندر کے اسٹاپ کے بعد کئی مسافر اور ڈرائیور ہوٹل بنے ہوئے ہیں، ملیر ندی کے پل کے نیچے کھیت اور کیکر و ببول کا جنگل ہے۔ ندی سے ذرا پہلے کھیتوں کے سامنے کیکر کی جھاڑیوں اور ببول کے درختوںجھنڈ میں لکڑی ، کپڑے، ببول اور کیکر کے کانٹوں سے احاطہ بنا ہوا ہے جس کے درمیان یہ بستی آباد ہے، اس میں ہر طرف میلے کچیلے بچے،، بوسیدہ کپڑے پہنے ہوئے خواتین اور غربت کی داستان اپنے چہروں پر ثبت کیے مرد نظر آتے ہیں۔ بستی کے ساتھ پل کا پشتہ بنا ہوا ہے۔

پل کے نیچے ملیر ہومز کے مکانات ہیں، جن کے بعد کھیتوں اور جنگل کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، اس کے بالکل سامنے کانٹوں سے بنائے ہوئے لکڑی کے ڈنڈوں سے بنا ہوا ایک گیٹ ہے جس میں دروازے کے پٹ ندارد ہیں، صرف خواتین کی پردہ داری کے لیے پھٹے پرانے کپڑوں کا ایک پردہ ڈالا گیا ہے۔ گیٹ کے سامنے ہی پانی کا نلکا لگا ہوا ہے، جس ے پوری جھونپڑ پٹی کے مکین ٹین کےڈبوں اورپلاسٹک کے کین میں پانی بھر کر اپنی جھونپڑی میں لے جاتے ہیں، سامنے ان کی عبادت گاہ بنی ہوئی جس کے باہر چارپائی پر لوگ بیٹھے رہتے ہیں۔ جھونپڑیوں کے باہر خواتین اپنے روزمرہ کے کام کرتی ہیں، جب کہ بچے جن کے بدن پر ناکافی لباس ہوتا ہے ، ان کے قریب ہی کھیل کود میں مشغول ہوتے ہیں۔ نلکے کے دائیں اور بائیں جانب پتلی سی گزرگاہ بنی ہوئی ہے جس کے ساتھ یہاں کے مکینوں کی جھونپڑیاں ہیں۔ مذکورہ جھگیوں کو اگرچہ بانس اور لکڑی کے سرکنڈوں کی مدد سے ایک دوسرے سے علیحدہ کیا گیا ہے لیکن ان میں سے کسی میں بھی دروازہ نہیں ہے۔ ہر جھگی میں پلاسٹک کے بڑے بڑے برتن، پرانے کپڑے جن میں خواتین کے گوٹا زری لگے ملبوسات شامل ہیں، رکھے نظر آتے ہیں۔ کچی زمین ہونے کے باوجود یہاں صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، جب کہ نلکے سے بہنے والے پانی کی نکاسی کے لیے مکینوں نے پختہ نالی بنائی ہوئی ہے۔ گھروں کے اندر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر مکین احاطے کے اندر بچھی چارپائیوں پر بیٹھے نظر آتے ہیں۔ ہر جھونپڑی میں مٹی اور اینٹوں سے بنائےگئے چولہے ہیں، جن میں خواتین لکڑیاں جلا کر کھانا پکاتی ہیں۔ بستی کا ماحول کسی پس ماندہ دیہات کی عکاسی کرتا ہے۔

یہاں رہنے والے ایک شخص راج نے ہمیں بتایا کہ، ہم یہاں گزشتہ بیس سال سے رہ رہے ہیں، پہلے اندرون سندھ میں رہتے تھے، تلاش روزگار کے سلسلے میں کراچی آگئے، یہاں کے ایک مخیر شخص کی مدد سے اس مقام پر جھونپڑی ڈال کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہنے لگے۔ اس جگہ ہمیں جہاں بے شمار مسائل درپیش ہیں، وہیں کئی آسانیاںبھی ہیں، جن کی وجہ سے ہم کسی اور جگہ جانا نہیں چاہتے۔ بستی میں میٹھے پانی کی فراہمی چوبیس گھنٹے رہتی ہے، بجلی بھی ہے، صرف گیس نہیں ہے لیکن جلانے کے لیے لکڑیاں یہاں کے جنگلات میں وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔ ٹرانسپورٹ کی کوئی دقت نہیں ہے، صرف شہر کے لیے ہی نہیں بلکہ اندرون سندھ جانے کے لیے بھی بسیں اور دوسری گاڑیاں مل جاتی ہیں۔ بچوں کی تعلیم کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے لیکن ہمارے بچے دیہی زندگی کے عادی ہیں، انہیں پڑھائی لکھائی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ہم چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں ، جو پلاسٹک کے برتنوںکا ہے، بڑے ہوکر یہ بچے بھی یہی کام کریں گے۔ ان کے کھیل کود کے لیے اس بستی میں ہی خاصی جگہ ہے، احاطے سے باہر انہیںاس لیے بھی نہیں نکلنے دیتے کیوں کہ ہماری بستی کے سامنے سے ہر وقت چھوٹی بڑی گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں گزرتی ہیں جو ندی کے ساتھ گوٹھوں میں جاتی ہیں۔ ندی میں سے بجری بھرنے کے لیے ٹرک بھی یہاں سے جاتے ہیں۔
دوسرے شخص پورن داس نے بتایا کہ، انتہائی غیر انسانی ماحول ہونے کے باوجود،یہ جگہ ہمارے لیے انتہائی محفوظ اور پرسکون ہے۔ اس بستی میں ہندو قوم کی ایک ہی برادری کے لوگ آباد ہیں، جو آپس میں مل جل کر رہتے ہیں، ایک دوسرے کے دکھ درد، غم خوشی میں کام آتے ہیں، یہاں ایک خاندان جیسا ماحول ہے۔ پانی کی پریشانی نہیں ہے، بجلی کنڈے سے لی گئی ہے، لیکن اس کے لیے تمام بستی کے لوگ ایک مخصوص رقم اکٹھا کرکے، کے الیکٹرک کے اہل کاروں کو کنڈے کے بل کی مد میں ادا کرتے ہیں۔قریبی علاقے کے افراد ہمیں حقارت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ جب ہم یہاں آباد ہوئے تھے اور ہم نے جھونپڑیاں ڈالنا شروع کیں تو پکی آبادی کے لوگوں نے ہمیں بہت پریشان کیا، پولیس کے ذریعے ہمیں اٹھانے کی کوشش کی گئی۔ ہمارے بچے پیاسے بیٹھے رہتے تھے، لیکن مکین ہمیں ایک قطرہ پانی بھی دینے کو تیار نہیں ہوتے تھے۔ کھیتوں میں لگے ٹیوب ویلوں سےہم پانی بھر کر لاتے تھے۔ علاقے کے ایک خدا ترس شخص کو ہماری حالت پر رحم آیا اور اس نے اس جھونپڑ پٹی میں نلکا لگوا دیا۔ پورن داس نے مزید بتایا کہ ہم اپنے بچوں کو زیور تعلیم سے بہرہ مند نہیں کرسکتے کیوں کہ قرب وجوار میں نہ تو کوئی اسکول ہے اور نہ ہی کسی غیر سرکاری تنظیم کو اس جانب توجہ دینے کا خیال آیا ہے، حالاں کہ یہاں صرف ہماری ہی بستی قائم نہیں ہے، ذرا آگے گوٹھوں میں بڑی آبادی ہے، وہ بھی اس سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ اس علاقے اور قومی شاہراہ کے دوسری جانب نجی تعلیمی ادارے ہیں، جن کے اخراجات ہم جیسے مفلوک الحال لوگوں کی بساط سے باہر ہیں۔ کئی مرتبہ ہمیں یہاں سے اٹھانے کی کوشش کی گئی، لیکن ہمیں اس کے متبادل کسی اور جگہ آباد کرنے کا وعدہ نہیں کیا گیا، جس کی وجہ سے ہم نے یہاں سے کہیں اور جانے سے انکار کردیا، لیکن اب ایک مرتبہ پھر ہمیں یہاں سے بے دخل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں،بہانہ ترقیاتی کاموں کا کیا جارہا ہے، لیکن ہم اس کی مزاحمت کریں گے۔

ایک اور رہائشی پپو رام نے بتایا کہ ہمارا تعلق گھوٹکی ضلع میں قادر پور کے کچے کے علاقے سے ہے، وہاں ہم کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ بیس برس قبل سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کی وجہ سے ہمیں بے سروسامانی کی حالت میں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ جان بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ سندھ کے جس علاقے میں بھی جاتے، وہاں ہمیں روزگار کا مسئلہ درپیش ہوتا، مجبوراً ہم کراچی آگئے۔ یہاں رہائش کا مسئلہ تھا، ملیر کے ایک وڈیرے نے اس معاملے میں ہماری مدد کی اور پل کے ساتھ ایک فرلانگ طویل یہ جگہ فراہم کی۔ اس زمانے میں یہاں کیکر اور ببول کا جنگل تھا، پورا علاقہ کانٹے دار جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہم نے کلہاڑیو ں کی مدد سے اس جگہ کی صفائی کی، درختوں کے تنوں اور جھاڑیوں کو جھونپڑیاں بنانے کے لیے کام میں لایا گیا۔ لکڑیوں کی دیواریں کھڑی کی گئیں، جن بر بڑے بڑے ڈنڈے رکھ کر جھاڑیوں اور پرانے کپڑوں سے سائبان ڈالے گئے۔ جنگلاتی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں پر موذی جانوروںاور سانپ بچھوؤں کا بھی خوف رہتا تھا۔ رات کی تاریکی میں یہ علاقہ ویسے بھی خوف ناک منظر پیش کرتا تھا۔ اس کے لیے بستی کے سرکردہ افراد نے کے الیکٹرک کے دفتر سے رابطہ کیا جنہوں نے جھونپڑ پٹی میں میٹر لگا کر بجلی کی فراہمی سے معذوری ظاہر کی لیکن جب ہم نےانہیں بتایا کہ کچی بستوں کو قانونی طور پر منظور شدہ کنڈا سسٹم کے تحت بجلی فراہم کی جاسکتی تو انہوں نے ہمارے اس مؤقف سے اتفاق کرتے ہوئے پول پر کنڈے لگا کر ہمیں بجلی فراہم کردی۔ انتہائی صفائی و ستھرائی کے باوجود یہاں اب بھی سانپ اور دیگر حشرات الارض نکلتے رہتے ہیں، لیکن کبھی سانپ کے ڈسنے کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا۔ پہلے ندی تک پختہ سڑک بنی ہوئی تھی، لیکن ٹرک اور بھاری گاڑیوں کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہوتے ناپید ہوگئی۔ بستی کے لوگوں کو گرمی اور سردیوں کے موسم میں بے انتہا مشکلات پیش آتی ہیں۔ ہم یہاں آج تک بے سروسامانی کے عالم میں رہ رہے ہیں، مناسب روزگار نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے سازوسامان میں پہننے کے چند کپڑے، کھانا پکانے کے برتن ، چارپائیاں اور ناکافی بستر ہیں۔ جب موسم انتہائی گرم ہوتا ہےاورحکومت کی جانب سے ہیٹ اسٹروک کے خطرے کی وجہ سے ہنگامی حالت کا اعلان کیا جاتا ہے توبستی کے بچے اور خواتین اپنے بغیر دروازے والے جھونپڑوں میں ٹوٹے پھوٹے سائبانوں کے نیچے لو کے تھپیڑے برداشت کرتے ہیں۔ اس وقت کسی بھی حکومتی اہل کار کی نگاہ ہماری حالت پر نہیں جاتی۔ کھلا علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں سردیوں میں یخ بستہ ہواؤں کے جھکڑ چلتے ہیں، کھڑکی، دروازے نہ ہونے کی وجہ سے ان سے بچاؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ ہم اپنے بچوں کو گدڑیوں میں لپیٹ کر لٹا دیتے ہیں جب خود ساری رات آگ جلا کر بیٹھے رہتے ہیں۔ بارش کے دنوں میں تو یہ عالم ہوتا ہے کہ ہمیں برسات سے بچنے کے لیے پناہ کی کوئی جگہ نظر نہیں آتی۔ پکے مکانوں کے چھجوں کے نیچے اپنے بچوں کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور بارش رکنے کا انتظار کرتے ہیں۔ اس دوران ہمارا سارا مال و اسباب بارش کی نذرہوجاتا ہے۔ بارش کے دوران جب سیلابی کیفیت ہوتی ہے تو ملیر ندی میں طغیانی کی وجہ سے بھی خطرات لاحق رہتے ہیں۔ یہاں کے قدیم رہائشیوں سے معلوم ہوا تھا کہ جولائی 1977ء میں اس ندی میں جو طغیانی آئی تھی اس کی وجہ سے ملیراور قائد آباد کو ملانے والا پل درمیان میں سے ٹوٹ گیا تھا۔

اس بستی کے مکھیا، چاند بھائی نے بتایا کہ ، ہمیں ہمیشہ یہاں سے بے دخلی کا خدشہ درپیش رہا ہے لیکن اب یہ خطرہ زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ملیرسٹی سے ندی تک برساتی اورسیوریج کا نالہ تعمیر کیا جارہا ہے اور پل کے ساتھ اسے اس جگہ سے گزارا جائے گا جہاں ہماری بستی ہے۔ ہم اس جگہ کا باقاعدہ کرایہ ادا کرتے ہیں اور ایک بارسوخ شخصیت کا کارندہ ہر ماہ فی جھونپڑی ہم سے چار سو روپے لے کر جاتا ہے۔ ہمیں بے دخلی کے زبانی نوٹسز مل چکے ہیں، جس کےخلاف ہم نے ہر سطح پر اپیلیں کی ہوئی ہیں لیکن اب تک کسی جانب سے بھی کو ئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔ ہمارے پاس رہنے کے لیے اور کوئی ٹھکانہ بھی نہیں ہے، حکومت اگر ہمیںیہاں سے بے دخل کرنا چاہتی ہے تو اس کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ہمیں اس کے متبادل جگہ فراہم کرے۔ ہم پر الزام لگائے جاتے ہیں کہ بستی کے نوجوان غیر اخلاقی سرگرمیوں یا منشیات کے استعمال و خرید و فروخت مں ملوث ہیں۔ اس نوع کے الزامات ہمارے ساتھ سراسر زیادتی ہیں۔ ہم محنت کش لوگ ہیں، داؤد چورنگی کےپل کے نیچے پٹھانوں کی دکانوں سے پلاسٹک کے برتن ادھار خریدتے ہیں، انہیں سائیکلوں پر گلی گلی پرانے کپڑوں کے عوض فروخت کرتے ہیں۔ ان کپڑوں کو دھونے اور استری کرنے کے بعد بازاروں میں پتھارے لگا کر فروخت کرتے ہیں۔ پٹھان دکانداروں کو برتنوں کی قیمت ادا کرنے کے بعد صرف اتنی رقم باقی بچتی ہے جس سے ہمارے گھروں میں ایک وقت کھانا پکتا ہے، یعنی ہمارے بچے دن میںایک وقت روٹی کھاتے ہیں۔ اس بستی میں سب سے بڑا مسئلہ مرنے والے کی آخری رسومات کا ہے، جو سالہا سال سے درپیش ہے۔ ملیر کے علاقے میں ہندوؤں کا کوئی مرگھٹ نہیں ہے، اس کے لیے ہمیں مردے کو پرانا گولیمار میں امرپوری کے علاقےمیں واقع مرگھٹ لے جانا پڑتا ہے۔ ہم بھی انسان ہیں، اسی ملک کے شہری ہیں، لیکن حکومت کی طرف سے کبھی بھی ہمارے مسائل کے حل کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ اس بستی میں جھاڑ جھنکاڑ کی وجہ سے مچھروں کی بہتات ہے، بستی کی آبادی خاص طور پر بچوں کوملیریا اور اسی نوعیت کی دیگر امراض کا سامنا رہتا ہے۔لیکن علاج معالجے کےلیے قریب میں کوئی سرکاری شفاخانہ یا ڈسپنسری نہیں ہے، علاقے میں نجی کلینکس اور اسپتال ہیں جن کے اخراجات ہم غریبوں کے لیے برداشت کرنا بہت مشکل ہے۔ بستی کے بچے اسکول نہ ہونے کی وجہ سے حصول تعلیم سے محروم ہیں، ہماری نئی نسل کا مستقبل تباہ ہورہا ۔ ہم نے متعدد مرتبہ وزیر اعلیٰ سندھ سمیت صوبائی و وفاقی وزراء کو اس بستی کے مسائل اور اسکول و اسپتال کے قیام کے لیے عرض داشتیں پیش کیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ حکام سے درخواست ہے کہ ترقیاتی کام اور نالے کی تعمیر کے نام پر ہمیں بے دخلی سے بچایا جائے، نالہ بنانا اتنا ہی ضروری ہے تو پختہ مکانات اور کھیتوں کے ساتھ اتنی گنجائش ہے کہ وہاں سے اس کی گزر گاہ بنائی جاسکتی ہے۔ بستی کو مستقل اور تمام بنیادی سہولتوں کی فراہمی کی جائے، طبی مراکز اور پرائمری تعلیم کے اداروں کا قیام عمل میں لانے کے علاوہ یہلں کی اقلیتی آبادی کی مرگھٹ کی سہولت کے لیے بھی ملیر ندی کے اطراف میں جگہ فراہم کی جائے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 223151 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.