87 ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے ہوئے سعودی عرب کو اسلامی
دنیا میں ممتاز مقام حاصل ہے۔23ستمبر 1932ء کو شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن
السعود نے عرب دنیا کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب کی بنیاد رکھی تھی۔آل سعود
کی وجہ امتیاز یہ ہے کہ دیگر بادشاہوں کی طرح انہوں نے صرف شہری ترقی پر
توجہ نہیں دی بلکہ دینی اصلاح وتطہیر کو بھی پیش نظر رکھا اور مسلمانوں کے
دینی جمود کا علاج کیا جسکے نتیجے میں خطے میں پھیلے شرک بدعات وخرافات کا
خاتمہ ہوا۔ حجاز مقدس ہماری عقیدتوں کا محور اور روحانیت کا مرکز ہے۔لاکھوں
حجاج کی خدمت کا سہرا بھی آل سعود کے سر جاتا ہے۔ ہمارے دل اس کی محبت میں
دھڑکتے ہیں، اس سے تعلقِ خاطر ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ دل و دماغ کی تمام
وسعتیں‘ گہرائیاں اور حرمین شریفین کی محبت سے معمور روح کی ساری پنہائیاں
اس سے لبریز ہیں۔سعودی عرب کے حکمران، جس اخلاص اور فراخ دلی سے اسلام کی
خدمت اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی معاونت کرتے ہیں، اسکے باعث بھی ہمارے
خراجِ تحسین و عقیدت کے حق دار قرار پاتے ہیں جبکہ بحیثیت پاکستانی ہم پر
سعودی عرب کا اکرام یوں بھی لازم ہے کہ پوری دنیا میں مملکتِ خداداد
پاکستان سے مخلصانہ دوستی جس طرح سعودی عرب نے نبھائی ہے اور نبھا رہا ہے،
وہ کہیں اور دکھائی نہیں دیتی۔سعود بن محمد سے لیکر شاہ سلمان بن عبدالعزیز
تک اس عظیم خاندان نے سعودی عرب کو ایک مکمل فلاحی اسلامی مملکت بنانے میں
نہ صرف عظیم قربانیاں دی ہیں بلکہ ایک طویل جدوجہد کے ذریعے اسلامی معاشرہ
قائم کر دیا ہے۔ ایک دوسرے کا احترام جان ومال کا تخفظ و آبرو امن و امان
کی شاندار مثال سعودی عرب میں دیکھی جاتی ہے۔سعودی عرب اسلامی عقائد اور
دینی اقدار کے تحفظ کیلئے فعال کردار اداکررہا ہے۔سعودی حکمرانوں کی
پاکستان سے محبت اور چاہت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ وہ پوری امت مسلمہ سے
انتہائی عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔وہ پاکستان کو اپنا بھائی اور دوسرا گھر
سمجھتے ہیں۔پاکستان سے محبت اور تعلق کا اظہار انہوں نے متعدد بار دو ٹوک
انداز میں کیا۔ انہوں نے اپنے عمل سے بھی یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی پاکستان
کے عوام سے محبت رکھتے ہیں۔1965ء میں جب دشمن ہماری آزادی کے درپے ہوا تو
سعودی بھائی سب سے آگے تھے۔ ہماری جیت میں ان کا کردار مرکزی تھا۔ ہماری
فتح پر سعودی عرب میں خوشیاں منائی گئیں۔ پاکستان نیجب ایٹمی دھماکے کیے
توپورا مغرب پاکستان سے ناراض اور اقتصادی پابندیاں عائد کرنے پر آمادہ تھا
اس نازک اور مشکل وقت میں ساتھ دینے والا ملک سعودی عرب تھا۔ پاکستان کو
’ڈیفرڈ ادائیگی ‘پر تیل فراہم کرنیوالے شاہ عبد اﷲ مرحوم ہی تھے جنہوں نے
دنیا کی پروا کیے بغیر پاکستان کو تنہا نہیں چھوڑا اور اعلانیہ ، بلا ڈر و
خوف پاکستان کا ساتھ دیا۔ ڈیفرڈ ادئیگی پر تیل کی فراہمی تقریباً مفت میں
تیل کی فراہمی کے برابر تھی۔ اقتصادی طور پر پاکستان کیلئے یہ مشکل گھڑی
تھی، دنیا کے اکثر ممالک ایٹمی دھماکوں پر پاکستان سے خوش نہ تھے۔بہت سے
ملکوں نے پاکستان کی امداد بند یا مختصر کردی تھی۔ اس مشکل وقت میں شاہ
عبداﷲ کا پاکستان کی حمایت کرنا اس بات کا ثبوت ہی تو تھا کہ وہ پاکستان کو
اپنا دوسرا گھر تصور کرتے ہیں۔ شاہ سلمان بن عبد العزیز السعود پاکستان کے
ہمدردوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔یمن سعودی عرب کشیدگی ابھی امن میں نہیں
بدلی،اس کشیدگی میں پاک فوج کے بھیجنے نہ بھیجنے کے فیصلہ میں تاخیر اور
بعد ازاں پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلہ سے سعودی عرب قدرے ناراض ہوا ہے۔پاکستان
اپنی فوج نہ بھیج کر بھی مشکل کی اس گھڑی میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑا ہے ۔
قطر کے ساتھ تنازعہ بھی حل طلب ہے ۔مسلم دنیا کے بیشتر ممالک کی ہمدردیاں
سعودی عرب کے ساتھ ہیں، یہ حرمین شریفین کے تحفظ کی جنگ ہے۔جس کیلئے ہماری
جانیں بھی حاضر ہیں۔سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز خادم الحرمین
الشریفین کا کردار بطریق احسن نبھا رہے ہیں۔سعودی عرب ان چند ممالک میں سے
ایک ہے جس نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر کھل کر پاکستان کے مؤقف کی تائید و
حمایت کی ہے ۔ 1966ء میں شاہ فیصل نے پہلی مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور
اس موقع پر اسلام آباد کی مرکزی جامع مسجد کے سارے اخراجات خود اٹھانے کا
اعلان کیا۔ یہ مسجد آج شاہ فیصل مسجد کے نام سے دنیا بھر میں جانی جاتی ہے۔
1967ء میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان فوجی تعاون کا معاہدہ ہوا جس کے
تحت سعودی عرب کی بری، بحری اور فضائی افواج کی تربیت کا کام پاکستان کو
سونپ دیا گیا۔ اپریل 1968ء میں سعودی عرب سے تمام برطانوی ہوا بازوں اور
فنی ماہرین کو رخصت کردیا گیا اور ان کی جگہ پاکستانی ماہرین کی خدمات حاصل
کی گئیں۔پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک بڑے شہر لائل پور کا نام انہی کے نام
پر فیصل آباد رکھا گیا جبکہ کراچی کی سب سے بڑی شاہراہ انہی کے نام پر
شاہراہ فیصل کہلاتی ہے۔ شاہ فیصل کے دور حکومت میں سعودی عرب نے 1973ء کے
سیلاب زدگان کی کھل کر مالی امداد کی، دسمبر 1975ء میں سوات کے زلزلہ زدگان
کی تعمیر و ترقی کے لیے ایک کروڑ ڈالر کا عطیہ دیا۔ 1971ء میں سقوط ڈھاکہ
پر شاہ فیصل کو بہت رنج ہوا اور انہوں نے پاکستان کی جانب سے تسلیم کرنے کے
بعد بھی بنگلہ دیش کو تسلیم نہ کیا۔شاہ فیصل کی وفات کے بعد بھی سعودی عرب
اور پاکستان کے تعلقات میں کوئی کمزوری نہیں آئی خادم الحرمین الشریفین شاہ
فہدنے کمال بھائی چارہ دکھایا ،ان کی رحلت کے بعد شاہ عبد اﷲ حکمران
بنے۔شاہ عبداﷲ پاکستان آئے تو پاکستانی عوام نے ان کا بھرپور استقبال کیا
جس سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوئے اور کہاکہ ہم پاکستان کو اپنا دوسرا گھر
سمجھتے ہیں ۔2005ء میں آزاد کشمیر ،بالاکوٹ کے خوفناک زلزلہ اور 2010ء کے
سیلاب کے دوران بھی مصائب و مشکلات میں مبتلا پاکستانی بھائیوں کی مدد میں
سعودی عرب سب سے آگے رہا ۔زلزلہ متاثرہ ان علاقوں میں سعودی شیلٹرز کی
بستیاں آج بھی ایثار و محبت کی نشانیاں ہیں۔سعودی عرب کو اﷲ تعالیٰ نے تیل
کے ذخائرکی دولت سے نواز رکھا ہے اسلامی ممالک کے مسائل حل کرنے کے لیے
اقتصادیات، تعلیم اور دوسرے موضوعات پر ماہرین کی عالمی کانفرنسیں طلب کرنے
جیسے اقدامات کر کے سعودی عرب کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے
مسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور ان کو حل کرنے کے لیے مشترکہ طریق کار
طے کرسکیں۔ سعودی عرب کی مالی امداد سے دنیا میں اسلام کی تبلیغ کا کام بھی
تیزی سے جاری ہے۔سعودی عرب میں مختلف اسلامی ممالک سے جو طلباء تعلیم کی
غرض سے آتے ہیں انہیں نہ صرف مفت کتابیں و رہائش فراہم کی جاتی ہے بلکہ
انہیں وظیفہ بھی دیا جاتا ہے حج کیلئے لاکھوں مردوخواتین میں ان کی مادری
زبانوں میں قرآن پاک اور دیگر اسلامی لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے۔ مغربی
ممالک میں کتاب و سنت کی دعوت جس قدر تیزی سے پھیل رہی ہے اس میں سعودی عرب
کا کردار کلیدی نوعیت کاہے۔ 87 ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے ہوئے سعودی عرب
کو اسلامی دنیا میں ممتاز مقام حاصل ہے۔23ستمبر 1932ء کو شاہ عبدالعزیز بن
عبدالرحمٰن السعود نے عرب دنیاکی جس عظیم ملکتکی بنیاد رکھی تھی اسے دنیا
آج سعودی عرب کے نام سے جانتی ہے۔دعا ہے شاہ سلمان کی قیادت میں سعودی
مملکت اسلامی دنیا کی تعمیرو ترقی میں اپنا کردار ادا کرتی رہے۔اسلام آباد
میں سعودی سفیر نواف المالکی کی بدولت دونونں ممالک کی بھائی بندی قائم و
دائم رہے ۔یوم الوطنی پر ڈھیروں مبارک۔۔ |