حضرات یوسفین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما

آپ دونوں بزرگ جلیل القدر برادران، مقربین بارگاہ الہی،محبوبین دربار مصطفوی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام ہیں-

آپ حضرات کا اصلی وطن ملک شام ہے -

ابتداء میں آپ دونوں بھائی بہادر شاہ کے لشکر میں تھے ،دونوں بھائیوں میں اتفاق واتحاد اسقدر تھا کہ مغائر ت ودوئی کا نام و نشان تک نہیں تھا ، بظاہر مابہ الامتیاز صرف یہ تھا کہ دو جسم و دو شخص تھے لیکن واقع میں ایک ہی تھے، موافقت واتحاد کی وجہ سے دونوں بھائی آپس میں ایک ہی مقام ومنزل میں بسر فرمایا کرتے -

آپ دونوں بزرگ حضرات سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت سید شاہ کلیم اللہ قدس سرہٗ کے مرید ہیں-

دکن میں آمد:
جس وقت بہادر شاہ ایک ہزار بیس ہجری 1020 ھ میں کام بخش سے مقابلہ کے لئے ہند سے حیدرآباد دکن روانہ ہوا، اس وقت یہ دونوں بزرگ حضرات یہی بادشاہی لشکر کے ہمراہ ہوئے ، اتفاقاً راستہ میں ایک مقام پر تمام لشکر فروکش ہوا ،جابجا ڈیر ے اور خیمے قائم کئے گئے ، اسی رات تیز بارش ہوئی ،اور اس قدر تندوتیز ہوا چلی کہ لشکر میں تمام ڈیرے اور خیمے سر بسجد ہ زمین پر پڑے تھے ، اس آفت قیامت میں کوئی خیمہ قائم نہ رہا مگر دونو ں بزرگوں کا خیمہ اس بارش اور تیز وتند ہوا میں بھی قائم رہا اور طرفہ یہ ہے کہ اس گردوغبار،کثرت ہوا اور برسات میں آپ کا چراغ روشن تھا ، دونوں بھائی قرآن کریم کی تلاوت اور خدائے رحمن کی عبادت میں مشغول تھے، بارش وہوا کی شدت سے محفوظ تھے -

اہل لشکر نے جب آپ کی یہ حالت دیکھی تو سب آپ کی بزرگی وکرامت کے قائل ہوئے اور دونوں بزرگوں سے نیک اعتقاد رکھنے لگے، اکثر لشکر کے سپاہی آپ حضرات کی خدمت میں ملازم رہتے تھے، آپ دونوں بزرگ حضرات ،ہر ایک اعلیٰ وادنی سے نیک سلوک کرتے تھے ، ہر ایک کے ساتھ محبت وہمدردی کا حق ادا فرماتے تھے، اکثر مریضان دل اور گرفتاران مشکل آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ، دوا اور دعا سے تندرستی وآسانی پاتے -

ہزار ہا افراد آپ حضرات کے دامن کرم سے وابستہ ہونے لگے،اور دست حق پرست پر بیعت کر کے سلسلہ عالیہ میں مرید ہونے لگے ، جس وقت بہادر شاہ کا لشکر حیدرآباد پہنچا تو آپ دونوں بزرگوں نے اپنی اپنی نوکری ترک فرما دی اور جہاں اب مزار مبارک ہے وہاں متوکلانہ سکونت اختیار کی اور قناعت وریاضت کی باگ ہاتھ میں لی -

صحبت بافیض کا جانور پر اثر
اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو قطبیت کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز فرمایا ، آپ سے بہت خارق عادات ظاہر ہوئے ہیں، آپ تقویٰ وطہارت کی اس قدر بلند منزل پر جلوہ فرما تھے کہ آپ کی صحبت بافیض سے آپ کا گھوڑا، دانہ چارہ جس میں حرمت کا شبہ ہو نہیں کھاتا تھا ، اور کسی کی ملکی مزروعہ(ذاتی کھیت) میں بھی نہیں چرتا تھا -

حضرت یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ایسا تصرف تھا کہ حیوان لایعقل جو کہ مرفوع القلم ہے وہ بھی آپ سے تعلق اور صحبت کی وجہ سے صفت تقویٰ سے موصوف ہوگیا-

وصال مبارک:
صاحب مخازن الاعراس فرماتے ہیں کہ حضرت یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شریف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہر دو برادر بہادر شاہ بادشاہ کے وزیر خان خانان کے ملازم تھے ،بادشاہ جس وقت حیدرآباد دکن آیا ، تو آپ حضرات بھی اس وقت دکن تشریف لائے اور دکن پہنچنے کے بعد حضرت یوسف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طبیعت ناساز ہوگئی اور اسی حالت میں ہفتہ، دس دن گزر نے کے بعد آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا ،اور اس دنیا فانی سے کوچ فرما گئے-

آپ کا وصال مبارک 5 ذوالحجہ،گیارہ سو اکیس ہجری 1121 ھ میں ہوا -

آپ کے وصال مبارک کے وقت حضرت شریف صاحب رحمۃ اللہ علیہ وہاں موجود نہ تھے تھوڑی دیر بعد جب آپ تشریف لائے تو معلوم ہوا کہ حضرت یوسف صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا وصال ہوگیا ہے، یہ سنتے ہی آپ نے غم کی حالت میں فرمایا:" شرط رفاقت سے بعید ہے کہ آپ اس جہاں میں نہ رہیں اور میں رہوں "؟

باوضو ہو کر حجرہ مبارک میں داخل ہوئے اور سفید چادر چہرہ پہ ڈال کر لیٹ گئے ، اور اسی وقت فوراً جان بحق تسلیم کئے بعد ازاں خادموں نے دونوں برادران طریقت کو غسل دیکر نماز جنازہ سے فراغت پاکر حیدرآباد کے مغربی جانب واقع موضع "نام پلی" میں جہاں آپ قیام پذیر تھے تدفین کی سعادت حاصل کی-
(تلخیص از :محبوب ذوالمنن تذکر ۂ اولیاء دکن)

حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی نصیحت:
اولیاء کرام اللہ تعالیٰ کے محبوب بندے ومقربان بارگاہ ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ یہ گوارا نہیں فرماتا کہ کوئی شخص انہیں کسی قسم کی اذیت پہنچائے یا ان کی شان میں نامناسب الفاظ کہے، اللہ تعالیٰ اولیاء کرام کو تکلیف دینے والوں کے خلاف جنگ کا اعلان کرتا ہے، جیسا کہ حضرت محدث دکن رحمۃ اللہ علیہ ولایت کے درجات اور اولیاء اللہ کی اقسام بیان کرنے کے بعد حدیث قدسی کے حوالہ سے فرماتے ہیں: "میں میرے دوست کو اذیت پہونچانے والے کے خلاف اعلان جنگ کردیتا ہوں"-

بعض دفعہ اللہ تعالیٰ اپنے دوستوں کا امتحان ان کے مخالفین اور دشمنوں کے ذریعہ فرماتا ہے ، مگر پھر بہت جلد مخالفین پر غضب نازل ہونے لگتا ہے ، یہ نہ سمجھو کہ ہم نے بزرگوں کی مخالفت کی لیکن ہمارا کچھ نہ بگڑا، اولیاء اللہ کو ستانا کبھی خالی نہیں جاتا!

حضرت محدث دکن علیہ الرحمہ نے اولیاء اللہ کی بارگاہوں میں جانے والے راستے کی بھی بے ادبی کرنے پر سخت تنبیہ فرمائی اور برے خاتمہ سے ڈرایا چنانچہ فرماتے ہیں: میرے دوستوں! ایک اور وجہ بتلاتا ہوں کہ جس سے خاتمہ خراب ہو تا ہے۔

سنو! اولیاء اللہ کے ساتھ بے ادبی کرنے سے بھی خاتمہ خراب ہوتا ہے۔

یاد رکھو! آج کل یہ بھی شروع ہو گیا ہے کہ اولیاء اللہ کے ساتھ بڑی بے ادبی ہو رہی ہے، معلوم نہیں ان کا خاتمہ کیسا ہوتا ہے؟

ایک صاحب نے مجھ سے کہا: حضرت یوسف صاحب اور شریف صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہما کی درگاہ کے سامنے جو سڑک ہے اس پر سے بھی گزرنا نہیں چاہئے ،اندر درگاہ میں جانا تو برا ہے ہی، اس سڑک پر چلنا بھی برا ہے۔

افسوس افسوس اولیاء اللہ کی یہ قدر ہے آپ کے پاس ؟خدا کے دوستوں کے ساتھ یہ معاملہ ہے؟ یہ حال ہے تو تب کیا حال ہوگا آپ کا، خیال کرلو اس کو ،یاد رکھو! ہر گز ایسا طریقہ اختیار نہ کرنا۔
(فضائل رمضان،ص: 189-مواعظ حسنہ ج:1 ص:54/55)
Kashif Akram Warsi
About the Author: Kashif Akram Warsi Read More Articles by Kashif Akram Warsi: 12 Articles with 51081 views Simple and friendly... View More