قربانی کے فضائل

فَصَلِّ لِرَ بِّکَ وَانحَر
ترجمہ، تو تم اپنے رب کیلئے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔

مذکورہ بالا آیت مقدسہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو قربانی کا حکم دیا ہجرت کے بعد دس سال تک حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مدینہ طیبہ میں قیام فرمایا اور ہر سال قربانی فرماتے رہے۔

قربانی ایک اہم مالی عبادت اور شعائر اسلام میں سے ہے اور سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ قربانی کی احادیث میں بہت فضیلت آئی ہے۔ طوالت سے بچتے ہوئے صرف دو حدیثیں ذکر کرنے پر اکتفا کروں گا۔

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ وسلم یہ قربانیاں کیا ہیں۔ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا کہ اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جن جانورں کے بدن پر اون ہے تو اس اون کا کیا حکم ہے۔ کیا اس پر بھی کچھ ملے گا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اون کے ہر بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔ (سنن ابن ماجہ)۔

محترم قارئین! غور کیجئے ۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثواب ہوگا کہ ایک قربانی کرنے سے ہزاروں لاکھوں نیکیاں مل جائیں۔

بھیڑ اور دنبے کے بدن پر لاتعداد بال ہوتے ہیں اگر کوئی صبح شام تک گننا چاہے تو بھی نہیں گن سکے گا۔

تو سوچئے کہ ہم قربانی پر کچھ ہزار روپے خرچ کر کے کتنی بے حساب نیکیوں کے مستحق بن سکتے ہیں۔

اس قدر اجروثواب دیکھ کر ہمیں خوب بڑھ چڑھ کر قربانی کرنی چاہیے۔ واجب تو واجب ہے اگر اللہ تعالیٰ نے مال میں وسعت دی ہے تو نفلی قربانی بھی کرنی چاہیے۔ تو جہاں آپ اپنی طرف سے قربانی کر رہے ہیں وہاں اپنے مرحوم عزیزوں مثلاً ماں باپ، بہن بھائی وغیرہ کی طرف سے بھی قربانی کریں تاکہ ان کی روح کو بھی یہ عظیم الشان ثواب پہنچ جائے اور کیا ہی اچھا ہوگا کہ اس محسن اعظم مقصود کائنات حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کی طرف سے قربانی کی جائے ورنہ کم از کم واجب قربانی تو ضرور کیجئے۔ اس لیے کہ ان مبارک دنوں کے چلے جانے کے بعد پھر یہ دولت کہاں نصیب ہوگی اور اس آسانی سے یہ بے شمار نیکیاں کہاں میسر ہوں گی۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ قربانی کیا ہے؟ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے ہر بال کے عوض میں ایک نیکی ہے۔

حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ قربانی بہت بڑا عمل ہے اور قربانی کے ایام میں اللہ تعالیٰ کو قربانی کرنے سے زیادہ کوئی عمل پسند نہیں ہے۔ قربانی کرتے وقت خون کا جو پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے تو گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہو جاتا ہے۔

قربانی واجب ہوتے ہوئے اور مالی وسعت حاصل ہوتے ہوئے قربانی نہ کرنا بہت بڑی بد نصیبی اور نیکیوں سے محرومی کا اور جانِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ناراضگی کا سبب ہے۔

جس شخص نے قربانی واجب ہوتے ہوئے قربانی نہ کی تو اس سے بڑھ کر بد نصیب کون ہوگا کہ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عید گاہ میں آنے سے منع فرما دیا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص میں قربانی کرنے کی اسطاعت ہو پھر وہ قربانی نہ کرے تو ایسا آدمی ہماری عید گاہ میں نہ آئے (سنن ابن ماجہ)

حدیث مذکورہ پر غور کیجئے اور وہ لوگ جو کہ مالی وسعت اور قربانی کی استطاعت رکھتے ہوئے واجب قربانی ادا نہیں کرتے وہ آنکھیں کھولیں اور اپنے ایمان کی خیر منائیِں۔

اول تو یہی خسارہ کیا کم تھا کہ قربانی نہ کرنے کے سبب ہزاروں لاکھوں نیکیوں اور اتنے بڑے ثواب سے محروم ہوگئے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ناراض ہوجائیں اور عید گاہ میں حاضری سے روک دیں۔ ایسے شخص کا ٹھکانہ کیاں ہوگا۔ عید گاہ اور مساجد اللہ تعالیٰ کی محبوب اور پسندیدہ جگہ ہیں۔ یہاں جمع ہونے والوں پر عفووکرم کی بارشیں ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔ یہاں کی حاضری سے کسی بدنصیب ہی کو روکا جاسکتا ہے۔

لہٰذا بخل سے کا نہ لیجئے، خوش دلی سے قربانی کیجئے، جس نے مال دیا ہے یہ حکم بھی اسی کا ہے، اسی کا حکم کی تعمیل کیجئے، اسی میں سلامتی اور برکتیں اور دُنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

قاضی مولانا حافظ نظام الدین چشتی
Ahsan  Warsi
About the Author: Ahsan Warsi Read More Articles by Ahsan Warsi: 7 Articles with 16476 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.