ڈائری کے صفحے

ڈائری کے صفحے
آمنہ شفیق

قلم اور کاغذ پکڑ کر بیٹھ جانا تو بہت آسان ہے۔ لیکن ایک سوچ ، ایک مقصد ، ایک کہانی اور کئی الفاظ کاغذ پر بکھیرنا اتنا آسان نہیں۔
پہلے آپ کو سوچنا پڑتا ہےکہ آخر آپ لکھنا کیا چاہتے ہیں ؟ اور کیوں لکھنا چاہتے ہیں؟
قلم تو میں نے سنبھال لیا۔ لیکن اب سوچ رہی ہوں کہ لکھوں کیا؟
دل کا حال؟ نہیں! یہ آسان نہیں ہوتا۔
محبت بھری کہانی؟ نہیں! میں جیسی محبت لکھوں گی وہ کتابوں میں ہی ملےگی۔
ایک دکھ بھری کہانی؟ نہیں ! میں نہیں چاہتی کہ میری کہانی پڑھ کر کوئی اداس ہو۔
ایک مزاحیہ تحریر؟ ہاں اس کو پڑھ کر لوگ ہنس تو لینگے لیکن میری کہانی سے انہیں کوئی سبق ملے گا کیا؟اف!
میں اپنا تعارف کرواتی چلوں۔ میرا نام ہے مہوش! ایک عام سی رائٹر جو اپنی سوچ کو لفظوں کی صورت میں پیش کرتی ہے تاکہ دوسرے اسےپڑھ سکیں اور وہ دیکھ سکیں جو میں انہیں دکھانا چاہتی ہوں۔
میرے بہت سوچنے کے بعد ایک خیال میرے دماغ میں آیا۔ مجھے میری ایک قریبی دوست نے بطور تحفہ ایک ڈائری گفٹ کی تھی۔ میں نے سوچا اس میں لکھوں کیا؟۔ روزمرہ ڈائری لکھنا میری روٹین میں نہیں۔ اس ڈائری کو بہترین بنانے کے لیے ایک خیال آیا مجھے کہ اسے دوسرے لوگوں کے قیمتی الفاظ سے بھردوں۔
ان کی زندگی سے سیکھے گئے سبق، سوچ بچار، کہانیاں ، باتیں اور ہر وہ چیز جو وہ اپنے اندر چھپائیں بیٹھے ہیں۔ اور اس کے لیے مجھے کتنی محنت کرنا پڑی یہ ایک الگ دردِ سر ہے۔
میں اپنے سرکل کے کئی لوگوں کے پاس ڈائری لے کر گئی۔ پہلے تو انہیں لگا کہ آٹوگراف مانگ رہی ہوں۔ ارے نہیں، میں موتی اکھٹا کرنا چاہتی ہوں۔ ہر فرد کو پہلے ایک لیکچر دینا پڑا پھر جا کر بات بنی۔
"کچھ ایسا لکھنا آپ جس سے دوسروں کو کچھ دیکھنے کو ملے۔۔
جو آپ نے سیکھا ہو اور آپ دوسروں کو اس سے بچانا چاہیں۔۔
اپنی لائف کے کچھ قیمتی پل۔۔
آپ اس دنیا میں خود کو کیسے دیکھتے ہیں؟ آپ کے خواب کیا ہیں اور کیا پایا کیا کھویا؟۔۔
آپ اس دنیا میں کونسا کردار نبھا رہے ہیں؟
اگر آپ چاہیں تو اپنا نام مت لکھیں لیکن کچھ اچھا ضرور لکھیں۔ یہ درخواست ہی سمجھ لیں۔۔۔"
بہت سوالات تھے جو میرے ذہن میں امڈ امڈ کر آرہے تھے۔ دو مہینے کی خواری کے بعد میری ڈائری مکمل ہوچکی تھی۔۔۔
قیمتی الفاظ۔۔ دل سے نکلی باتیں۔۔مسکراہٹیں۔۔ آنسو۔۔۔
کیا اس سے قیمتی کچھ ہو سکتا ہے کہ کوئی آپ کو اپنے الفاظ دے دے؟ تو پیشِ خدمت ہے میری ڈائری کے صفحے۔

پہلا حصہ

پہلے صفحے پر اس کا نام لکھا تھا۔
مہوش ناز۔
ایک صفحہ چھوڑ کر لال روشنائی سے کچھ الفاظ نہائے ہوئے تھے۔

پیاری لڑکی! ہر کسی کی زندگی میں بہت مسائل اور بکھیڑے ہوتے ہیں۔ زندگی انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہے۔ زندگی ایک ایسا راستہ ہے جو ہموار نہیں ہے، کہیں سے سیدھا کہیں سے اکھڑا ہوا۔ ہمیں اسی پر چلنا ہوتا ہے۔ کبھی خوشی خوشی چلتے رہتے ہیں۔ کبھی لڑکھڑا جاتے ہیں تو اداس ہوجاتے ہیں، گر جاتے ہیں تو رو پڑتے ہیں۔ لیکن جو بھی ہو ہمیں اسی راستے پر چلنا ہوتا ہے۔ بس آہستہ آہستہ زندگی ہمیں اس راستے پر چلنا سکھا دیتی ہے۔
راستہ آسان نہیں ہوتا بس ہمارے چلنے کا طریقہ کار بدل جاتا ہے۔
تمہاری اتنی منت سماجت پر میں اپنی ہی زندگی کی کہانی لکھوں گا تاکہ تم وہ سیکھ سکو اور بچ جاؤ جسے کرکے میں نے بہت کچھ کھو دیا۔

میں جب چھوٹا تھا تو ہمارے گھر کے حالات کچھ خاص اچھے نہیں تھے۔ خرچے پر ہمارا ہاتھ بہت تنگ تھا۔ مشکل سے گزارا ہوتا تھا۔ کئی خواہشات دبانی پڑ جاتی۔ میں چھوٹا تھا بہت اس لیے شروع میں نے اس چیز کو زیادہ محسوس نہیں کیا۔ لیکن آہستہ آہستہ اسی ماحول میں بڑا ہوتے ہوتے میں سمجھنے لگ کیا کہ "کمپرومائز" کسے کہتے ہیں۔
بچپن میں ہم جس ماحول میں رہتے ہیں وہ ہمارے ذہن پر اور ہمارے تربیت پر بہت زیادہ اثر چھوڑدیتا ہے۔
چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لیے اداس ہونا، خاموش ہوجانا، سوچ کو رد کردینا۔ یہ سب میری عادت بن گئی تھی۔ کرنا ہی پڑتا ہے۔ ہم باغی بن کر اپنے والدین کو کوس نہیں سکتے کہ یہ سب انہیں کا کیا دھرا ہے۔
خیر! میں نے اتنا سوچ لیا تھا کہ کچھ بنوں گا اور اپنی ہر خواہش بڑے ہوکر پوری کروں گا۔ ایک دن ایک کامیاب آدمی بنوں گا۔ وہ دن آئے گا جب میرے پاس سب ہوگا۔ سب۔۔۔
کسی خواہش تو کیا ۔۔۔کسی سوچ کو پورا کرنے کہ لیے بھی سوچنا نہیں پڑے گا۔
اور اس کے لیے میں نے بہت محنت کی۔ پڑھائی دل لگا کر کی۔ انتھک محنت ، رت جگے، پارٹ ٹائم جابز۔۔
اور جانتی ہو مجھے وہ سب مل بھی گیا۔۔ لیکن مجھے بہت کچھ کھونا بھی پڑا۔بہت کچھ۔۔۔
میری کہانی ایک ہی دفعہ میں پوری نہیں ہوگی ، کچھ صفحوں بعد بقیہ حصہ۔۔

ساتھ میں مسکراہٹ تھی۔ مہوش بے چین سی ہوگئی۔ ایک پل کو دل میں خیال آیا فوراً آگے بڑھ کر پڑھ لے۔ لیکن باقی صفحوں پر بھی کچھ نا کچھ لکھا تھا۔ "آگے جا کر پڑھ لوں گی"۔ وہ نہیں جانتی تھی یہ الفاظ کس کے تھے۔ اس نے صفحے پلٹا۔۔

دوسرا حصہ:

ڈئیر مہوش!
یار جب تم نے مجھے ڈائری دی تو مجھے اپنا آپ ایک celebrity جیسا لگا۔
میری مداح میری فین مجھ سے آٹوگراف مانگنے آئی ہے واہ۔ لیکن تم بے وقوف لڑکی نے میرا خواب چکنا چور کردیا۔ ورق تو میں سیاہ کردوں گا لیکن مجھے بتاؤ ذرا یہ کیا لیکچر بازی تم نے شروع کی ہے؟ حد ہوگئی مطلب کہ۔ اگر ایسے ہی لوگ اپنے کارناموں کے بارے میں بتانے لگے تو سب کے چہرے سیاہ نظرآنے لگیں گے۔
لیکن چلو اتنی تم نے میری خاطر مدارت کی ہے اور تعاریفیں کی ہیں کہ ماشاءاللہ میں بہت اچھا اور حسین ہوں (نوٹ : یہ میرا اپنا بیان ہے۔ جی نہیں میاں مٹھوں کا لقب دینے کی ضرورت نہیں ہے) تو میں نے سوچا کچھ بیان بازی کر ہی دوں۔
(دیکھو میری ڈائری پڑھ کر یہ نا کہنا کہ استغفراللہ تختی لکھا کرو۔ لکھائی بہت گندی ہے آپ کی۔ مجھے تو ایسے لگتا ہے اپنی لکھائی دیکھ کر جیسے کسی نے کاغذ پو موتی بکھیر دیے ہوں۔ واہ! شکریہ بیٹھ جائیں، پیچھے والوں کو بھی مجھے دیکھنے کا موقع دیں۔ اچھا اچھا بہن بس)
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کچھ سال پہلے میری جامع میں ایک لڑکی ہوا کرتی تھی۔ میں چونکہ زیادہ لائق نہیں تھا اسی لیے زیادہ تر لفنٹریاں کرنے میں مصروف رہتا تھا۔ اور کچھ دوست بھی ایسے ماشاءاللہ لفنگے تھے کہ میں سیر تو وہ سوا سیر۔
ایک سال ہم نے کلاسس بنک کرکے گزاری ، خوب موج مستی کی اور کھانوں اور آوارہ گردیوں پر پیسے اڑائے۔ (میں ہی جانتا ہوں کہ امی وہ پیسے کتنی مشکل سے دیتی تھیں، اور میں نئے نئے بہانے کرتا کہ امی نوٹس لینے ہیں کتابیں لینی ہے وغیرہ وغیرہ)
یہ نہیں تھا کہ ہمیں پیسوں کی کمی تھی ، لیکن اتنی عیاشی والے دن نہیں تھے ہمارے کہ بلا جھجک اڑائی جاؤ۔ امی ہمیشہ کہتی "پڑھ لو! باپ پیسے درختوں سے توڑ کر نہیں لاتا"۔ لیکن میں ٹھہرا ڈھیٹ، اثر ہی نہیں ہوتا تھا۔
دوسرے سال کے شروع میں فریشرز آئے۔ ہم pranks بھی بہت کرتے تھے۔ میرے یار دوستوں کو ایک پرینک سوجھا۔ اور یہ پرینک میری زندگی سب سے برا پرینک تھا۔
جس نے سب بدل دیا، یہاں تک کہ مجھے بھی۔
وہ ایک بے حد معصوم سی لڑکی تھی۔ بہت زیادہ گوری چٹّی نہیں تھی لیکن اس کے چہرے کہ نقوش بہت پیارے تھے۔اسکی آنکھیں گہری تھی، معصومیت سے بھرپور۔۔۔ وہ ایک سیاہ چادر اوڑھے رکھتی تھی۔
علی کا کہنا تھا کہ اسے الّو بنایا جائے۔ کیسے؟۔۔ dare مجھے دیا جا چکا تھا۔
پہلا دن
"سنیے! میں آپ کا سینئر ہوں پڑھائی میں کوئی مدد چاہئے ہو تو بتائے گا" ایک مسکراہٹ کے ساتھ کہہ کر میں پلٹ آیا۔ اور وہ۔۔۔ وہ گھبرا گئی تھی۔
دوسرے دن بھی میں اسکے پاس گیا اور اسکو اپنے نوٹس دیے( جو لائق کلاس فیلو سے اپنے وقت میں چھاپا مار کر لیے تھے)۔
"لیکن مجھے نہیں چاہئے"۔ اس نے سادہ اور دھیمے لہجے میں کہا۔
"رکھ لیں کام آئے گا"۔ اور اس نے میرے اسرار پر رکھ لیے۔
کچھ دین یونہی میں اس کے پاس جاتا رہا اور اسکی مدد کرتا رہا۔
ایک دو ہفتے بعد میں نے اپنا dare پورا کرلیا۔
"سنیں آپ بہت اچھی ہیں۔ میں آپ کو پسند کرنے لگا ہوں۔ ہمیشہ ایسی رہنا آپ، اور کوئی بھی بات ہو تو میں ہمیشہ حاضر ہونگا۔ مجھ سے زیادہ آپ کو بھلا کون چاہ سکتا ہے"۔
میری اس بات پر پہلے وہ گھبرائی لیکن پھر مسکرائی اور فوراً مٌڑ گئی۔ اور پھر خود میرے پاس کوئی مدد لینے آنے لگی۔ میرے دوستوں نے مجھے داد دی کہ میں نے کیسا بے وقوف بنایا ہے اسے۔ اور میں ہنس دیا۔ اور میں ہنسنا بھول گیا جب میں نے دیکھا کہ وہ یہ سب سن چکی ہے۔
"ارے یہ لوگ مذاق کر رہے ہیں بس۔۔" میں نے صفائی دینا چاہی۔
"سچ؟" ان نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔ میں جواب نا دے سکا کیونکہ میرے دوستوں کے قہقہوں میں میرے الفاظ دب گئے۔
ایک لمحے میں اسکی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ کسی نے اسے پکارا تو وہ فوراً پلٹی اور چلی گئی۔ ہمیشہ کے لیے۔۔
اور اس نمی میں، میں آج بھی تیر رہا ہوں۔ دوتین ہفتوں بعد مجھے کسی جونئیر نے ایک رقعہ دیا۔
"دوسروں کے احساسات کے ساتھ کھیلنا بہت آسان ہے۔ دوسروں کے خواب چھیننا اور بھی آسان ہے۔ جانتے ہیں آپ کتنی مشکل سے مجھے آگے پڑھنے کے اجازت ملی تھی؟ آپ کی وہ ماہان باتیں میرے بھائی نے سن لیں اور میں قید ہوگئی۔ میرے خواب چھن گئے۔
تم قاتل ہو شہباز! میری خوشی میرے خواب اور میرے۔۔قاتل ہو تم"۔
میرے دل کا حال کیسے بدلا میں نہیں جانتا۔ میں کیسے بدلا میں نہیں جانتا۔
وہ مجھے کبھی نظر نہیں آئی اور میں اسے کبھی بھول نا پایا۔ میں سنجیدہ ہوگیا اور وہ۔۔وہ جانے اس دنیا میں کہاں کھوگئی۔۔۔ معلوم نہیں بےوقف وہ تھی یا میں؟
یہ چند سطور آج بھی میرے ذین میں تازہ ہیں۔ وہ آنسو اب بھی مجھے ڈبوتے ہیں۔ انجانے میں ہی سہی ہم دوسرے لوگوں کا بہت نقصان کردیتے ہیں۔ ہم انجانے میں ہی لوگوں کی زندگیوں کی ڈوریں پکڑ لیتے ہیں اور اپنے ہاتھوں سے انکا خسارہ کردیتے ہیں۔
تو ڈئیر! میں تو نقصان کرکے ایک پچھتاوے کے ساتھ کافی آگے بڑھا آیا ہوں۔ شادی ہوگئی بچے ہوگئے۔ اب تمہیں میری کہانی سے کیا سبق ملتا ہے وہ تم منحصر کرتا ہے کہ تم کسی چیز کو کس نظریے سے دیکھ رہی ہو۔
دعاؤں میں یاد رکھنا، شاید دعاؤں سے ہی میری غلطیاں جھڑ جائیں۔
تمہارا سب سے پیارا والا کزن
شہباز علی
(اور سنوں یہ واقعہ میری بیگم کو نا بتا دینا، ایویں بعد میں کفگیر اور بیلنے سے میری دھلائی ہورہی ہوگی) خوش رہوں کیونکہ جو ہوگیا سو ہوگیا، آگے بڑھو سبق سیکھو، ہوسکے تو ازالہ کرو ورنہ اللہ سے دعا کرو کہ وہ سب بہتر کرے۔

چند صفحے چھوڑ کر لال روشنائی میں الفاظ بکھرے ہوئے تھے جنہیں دیکھ کر مہوش الرٹ ہوکر بیٹھ گئی۔ بقیہ حصہ۔۔

تیسرا حصہ :
میں اس وقت بارویں جماعت میں تھا۔ اپنی پڑھائی کے دوران کے میں چھوٹی موٹی جاب ڈھونڈتا اور کرلیتا۔ جاب مل جانا بھی ایک الگ ہی سیاپا تھا۔ اس کے لیے بھی بہت خواری کرنی پڑی۔ ان جابز سے ملنے والے پیسوں سے گھر میں تو خاص فرق نا پڑا لیکن میری فیس کے لیے پیسوں کا ضرور بندوبست ہوجاتا۔ میں امی ابو سے پیسے مانگنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ اس کے بعد یہ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ مجھے کیا کیا سننے کو ملے گا۔

یہ تو میں سمجھ گیا تھا کہ کامیاب ہونے کے لیے علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔
تو یونہی زندگی گزرتی رہی، میں پڑھتا کام کرتا اور اپنی الگ ہی دنیا میں مصروف ۔ گھر والوں سے کھانے کے دوران یا کبھی کبار بات چیت ہوجاتی۔ میں بس ان سے کٹ کر رہ گیا تھا۔ کام اور کتابیں بس۔۔
یونیورسٹی لائف میں میری زندگی میں ایک نیا موڑ آیا۔
محبت۔۔
ہاں مجھے محبت ہوگئی۔ اپنی کلاس میٹ سے۔ وہ حد درجہ خوبصورت اور فیشن سینس کی مالک تھی۔ اسے دیکھ کر یوں لگتا کہ وہ ابھی اٹھے گی اور ریمپ پر واک کرےگی۔
لیکن میں اسے دیکھتا رہتا اور مجھے محبت ہوتی رہی۔
محبت ہی تو ہے ہوتے رہے گی
تم دیکھتے رہو گے، وہ دل میں اترتی رہے گی۔
ہمارے درمیان کلاس فیلو ہونے کے ناطے سلام دعا کے علاوہ کوئی بات نہیں ہوتی تھی۔ میرا دل چاہتا میں اسے سنتا رہوں۔ میں نے اس سے دوستی کے لیے ہاتھ بڑھایا اور اس نے تھام لیا۔
عالیہ قریشی میری دوست بن گئی۔
باتیں ہونے لگیں، ملاقاتیں ہونے لگیں
میں اس بھنور میں پھنستا چلا گیا۔ ۔۔
اپنے سمسٹر کے فائنلز سے پہلے میں نے اس سے اظہارِ محبت کیا۔۔ اور جانتی ہو اس نے کیا کہا؟ اس نے کہا۔۔۔!

مہوش نے صفحہ پلٹا، آگے لکھائی کسی اور کی تھی۔ "اف پھر انتظار۔۔"۔

چوتھا حصہ:

لوگ کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے۔ لیکن مجھے تو محبت دیکھ کر ہی ہوتی ہے۔ جب جب میں دیکھوں میری محبت گہری ہوجاتی ہے۔
ارے نہیں نہیں ! میں کسی انسان کی بات نہیں کر رہی۔ اس خوبصورت دنیا کی بات کر رہی ہوں۔
ہم انسانوں کو لوگوں میں پتا نہیں کیا نظر آتا ہے جو محبت کا روگ لگا لیتے ہیں۔
میں تو حسین منظر دیکھ لوں تو تھوڑی دیر کے لیے اپنا آپ بھٌلا دیتی ہوں۔
مجھے اس دنیا کے سارے حسین منظر اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔
اس لیے مجھے لوگوں کی محبت سے کوئی سروکار نہیں۔ ہاں ٹھیک ہے آپ سب کرو محبت، لیکن مجھے حسین منظروں کی طرف سے جو فیلنگ آتی ہے وہ چارم لوگوں میں نہیں۔
Temporary محبت سے بڑے روگ بھی ہے اس دنیا میں۔ آج ادھر دل لگ گیا، دل ٹوٹا۔۔۔کل ادھر لگا لیا۔۔ بے نام رشتہ۔۔بے لوث محبت۔۔
میں نے زندگی سے بڑا کوئی کھیل نہیں دیکھا۔ میں اس کھیل کا ایک کھلاڑی ہوں جسے کھیلنا ہے اور کھیلے بغیر وہ گیم سے باہر نہیں جا سکتا۔ اس کے لیے اسے جان ہارنی پڑے گی۔
اور جیتنے کے لیے اسے کھیلنا پڑے گا، ہر لیول سے گزرنا ہوگا۔ جب تک مر نہیں جاتے تب تک۔۔۔
میں اس کھیل میں اس قدر گم ہوں کہ مجھے وقتی طور پر ملنے والی محبتیں، خوشیاں اپنے چارم میں نہیں لیتی۔
میں بس اپنی زندگی کو اچھا بنانے، خود کو اچھا بنانے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مصروف ہوں۔ یہ آج لوگ پتا نہیں کیسے ابھی زمین سے نکلے نہیں ہوتے اور محبت کا وائرس دل، گردے، پھیپڑوں ہر جگہ لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔
میری زندگی کے کچھ گولز ہیں۔ ایک اچھا انسان بننا، ایک اچھا مسلمان بننے کی خوشش اور اپنے اوپر ڈیپنڈ کرنا۔ میں ایسا بننا چاہتی ہوں کہ مجھے بس میری ضرورت پڑے لوگوں کی نہیں۔ ایک مضبوط اور اعلٰی کردار۔۔بس۔۔۔
میری ایک سوچ ہے، کہ اگر آپ لوگوں کو اور ان کی باتوں کو اگنور کرنا سیکھ لیں تو زندگی تھوڑی خوشگوار ہوجاتی ہے۔ یہ لوگ نا رکاوٹیں ہوتی ہیں آپ کی راہ میں۔۔۔
(لوگ بھی عجیب کانٹیں ہیں جو کپڑوں میں پھنس بھی جاتے ہیں اور چُبب بھی جاتے ہیں)۔

ہم یہ سوچنا چھوڑ دیں کہ "لوگ کیا کہیں گے؟" اور یہ سوچنےا شروع کردیں کہ "اللہ دیکھ رہا ہے، وہ کیا کہے گا؟" تو ہماری زندگی کا پاسا پلٹ کر ہی رہ جائگا۔
(اور شاید لوگ پاسے پلٹ نا جائیں اس لیے 'پاسے' سنبھال کر بیٹھے ہیں اور روتے دھوتے ہیں ۔۔۔ ہاہا طنز تھا یہ)
اچھا خیر ۔۔۔ لیکچر بازی میں تو میں ماہر ہوں تمہاری ڈائری ختم ہوجائے گی۔
آخری بات محبت کے بارے میں کہ مجھے کچھ لوگوں سے محبت ہوتی ہے لیکن وہ احترام اور عزت والی ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ دیکھا اور پیچھے بولی وڈ کے گانے بجنے لگے۔ نا نا ۔
کبھی کسی کی بات یا کوئی حرکت اچھی لگ جانا، کسی سے تھوڑا اٹیچ ہوجانا۔۔یہ سب ہوتا ہے ! ہونا بھی چاہیے لیکن ایک حد میں رہ کر۔ ہماری منزل یہ نہیں ہے۔ اچھا سلوک، پیار محبت سب ہوتا ہے۔
دوسری والی محبت بھی میں کروں گی لیکن ایک ہی بار ایک ہی انسان سے ایک خاص اور خالص رشتے کے بعد۔
لیکن ان چیزوں کے پیچھے سب چھوڑ کر ،سب بھلا کر بھاگا نہیں جاتا مہوش بی بی!
میاں مٹھوں نہیں بن رہی لیکن میں یہ ضرورکہوں گی کہ مجھے خود پر ناز ہے مہوش ناز۔۔ اور میں چاہتی ہوں تم اور ہر لڑکی اتنی پر اعتماد ہو کہ کوئی بھی راہ چلتا اسے اپنے لفظوں میں پھانس نہ سکے۔

دعاگو
سمرین احمد

پانچواں حصہ:
"ہاں کہو کیا بات کرنی ہے تمہیں؟"۔ وہ میرے سامنے کھڑی تھی۔ سیاہ پینٹ پر سرخ ٹاپ پہنے اپنے ہوا سے اڑتے شولڈر کٹ بالوں کو جھٹکا دے کر پیچھے کرتی وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔
"عالیہ میں تم سے اپنے دل کی بات کہنا چاہتا ہوں"۔ اس نے کچھ اچھنبے سے اسے دیکھا۔
"آئی لو یو عالیہ قریشی۔ کیا آپ میری زندگی کا حصہ بننا پسند کریں گی؟"۔ میرے چہرے پر اس وقت جتنی خوشی پھیلی ہوگی اسے دیکھ کر سارا جگ چہک سکتا تھا۔
"واٹ؟" عالیہ کا منہ کھلا کا کھٌلا رہ گیا۔
"یس۔ آئی ایم ان لو ود یو"۔ میں نے پھر مسکرا کر کہا۔
"شٹ اپ! سٹوپڈ! نان سینس! یہ کیا کہہ رہے ہو؟"۔ اس کا لہجہ جھنجلا گیا۔
"میں۔۔" میرے الفاظ گڈ مڈ ہوگئے۔
"اپنی اوقات کا ہی لحاظ کرلیتے، ایک مڈل کلاس لڑکے ہو ، فیوچر تمہارا برائٹ نہیں ہے اور چلے عشق لڑانے مجھ جیسی لڑکی سے۔ واہ مسٹر واہ!"۔ اس کے چہرے پر بڑی عجیب مسکراہٹ تھی۔ چہرے کا رنگ اڑ جانا کیا ہوتا ہے میری شکل دیکھ کر اس وقت اچھے سے اندازہ ہوسکتا تھا۔
"میں جانتا ہوں کہ ابھی میں سٹیبل نہیں ہوں لیکن فیوچر کے لیے میرے عزم بڑے ہیں۔ میرا یقین کرو تمہیں خوش رکھوں گا"۔
"جب اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤ تب بول کر دکھانا اونہہ۔ ہٹو راستے سے پلیز۔ خود کو آئینے میں دیکھتے نہیں ہیں چلے چاند پر پہنچنے۔۔۔ " وہ بڑبڑاتی ہوئی آگے بڑھی۔
"عالیہ۔۔" میں نے تڑپ کر پکارا۔
"ایک لفظ اور کہا تو اوقات دکھادوں کی تمہیں تمہاری، دوستی کا لحاظ کر رہی ہوں بس۔ جاؤ اب"۔ وہ تن فن کرتی وہاں سے غائب ہوگئی۔
اور اوقات۔۔۔۔ وہ تو مجھے وہ دکھا ہی گئی تھی۔۔۔
عالیہ قریشی چلی گئی تھی۔ ہمیشہ کے لیے میری زندگی سے۔
لیکن مجھے بہت کچھ دکھا گئی تھی۔۔ میری آنکھوں میں چبنے کے لیے کچھ چھوڑ گئی تھی۔۔۔
میں اس دن رویا تو نا تھا لیکن میں کئی دن کئی راتیں ان باتوں کے زیرِاثر رہا۔ مجھے یوں محسوس ہوتا کہ میں ایک شیشہ ہوں جسے بار بار پتھر مار کر کوئی توڑتا ہے۔
عالیہ نے مجھے جو دکھایا تھا وہ مجھے توڑ کر دوبارہ جوڑنے کے لیے کافی تھا۔
میں نے سوچا عالیہ سے دوبارہ رابطہ کروں لیکن میرا دل نہیں مانا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ مجھے ایک بڑا آدمی بنا دیکھے اور شرم سے پانی پانی ہوجائے اپنے رویے پر۔

میری زندگی میں اب صرف اپنا برائٹ فیوچر دیکھنا باقی رہ گیا تھا۔ اپنے لوگ کہیں بہت پیچھے چھوٹ گئے تھے۔
ایک گھر میں ہوکر بھی میں ان کے ساتھ نہ تھا۔خود سے ناراض ہو کر میں ہر ذی روح سے روٹھ گیا۔ گھر والوں کے چہرے بہت کچھ کہتے لیکن اب خاموشی کے عادی ہونے لگے۔
جانی کیسا غم و غصہ تھا کہ میں ہر کسی سے روٹھ چلا۔ بے فکر اور خود غرض۔۔۔ خاموش اور اپنے آپ میں۔۔۔۔

بہت محنت کی میں نے وہ سب پانے کے لیے جو آج میرے پاس ہے۔
اپنی راتیں ، اپنے دن
اپنی نیند ، اپنے لوگ۔
آگ کے شعلوں کا بھی اپنا کھیل ہے۔ اگر موم بتی کو بجھانا ہو تو ایک پھونک ماری جاتی ہے۔
اور اگر کسی جگہ پھیلی آگ بجھانی ہو تو زیادہ محنت۔
میں بھی آگ بجھانے نکلا تھا۔۔۔ مجھے لگا اگر میں وہ سب نا پا سکا تو میری زندگی میں بچے گا ہی کیا۔ خود کو آگے سیکھنا اور اونچا دیکھنا، یہ خواب کئی آنکھوں میں بستی ہیں۔ اور ان کو پانے کے لیے کچھ نا کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ میں نے بھی کھو دیا۔ اور پھر میں نے وہ پالیا جو مجھے چاہیے تھا۔
سب کھویا تھا میں نے تب جا کر کامیاب ہوا۔


ہزار خوشیوں کے بعد بھی کچھ غم دل سے نہیں جاتے
مسکان جتنی بھی سجا لو ہونٹوں پہ کچھ زخم نہیں سل پاتے
ناجانے کیوں دل روتا ہے سسکیاں لے کر
سکوں ہی نہیں ملتا دل کو تسلیاں دے کر
کچھ حادثے زندگی کو یوں بدل جاتے ہیں
کہ نا جی پاتے ہیں نا سنبھل پاتے ہیں
نا چاہتے ہوئے بھی تلخ باتیں یاد آتی ہیں
جتنی مسکان سجاؤں آنکھیں بھیگ جاتی ہیں
کیا کہوں؟ کس سے کہاں؟ کچھ نہیں سمجھ آتا
درد ہی ایسا ہے کہ سمجھایا نہیں جاتا
کسی کو پانے کی حسرت نا رہی
محبت تھی جس سے اس سے نفرت بھی نا رہی
مجھے اب خوف آتا ہے کسی کے پاس آجانے سے
کہ مجھے کچھ بھی نہیں چاہیے کسی انجانے سے
کچھ انجان باتوں میں، کسی نامکمل شخص میں
نا کچھ باقی رہتا ہے
جب بھی خود کو مضبوط کرتی ہے وہ
پھر اندر ہر اندر ٹوٹ جاتی ہے وہ
پھر خود سے بس یہی کہے جاتی ہے وہ
کوئی کتنی ہی کوشش کرلے مگر یہ مار جاتی ہے
محبت جیت ہوتی ہے مگر یہ ہار جاتی ہے۔
(نظیفہ اختر)

چھٹا حصہ :
میں کوئی بہت لمبی تقریر نہیں کروں گی۔ صرف چند باتیں کہوں گی کیونکہ کسی پر اپنی کسی بات کا اثر کروانے کے لیے شاید کہہ دینا کافی ہوتا ہے اگر وہ عقلمند ہے تو۔
دو مہینے پہلے کی بات ہے ہم ایک شادی کی تقریب میں گئے۔ ہال کھچا کھچ لوگوں سے بھرا ہوا تھا۔ ہر "رنگ" میں رنگیں لوگ نظر آرہے تھے۔
میں اپنے بچوں کے ہمراہ ایک میز پر بیٹھی تھی جس پر کچھ جاننے والے لوگ بیٹھے تھے۔ دفعتاً میرا فون بج اٹھا جسے میں نے پرس نے نکال کر دیکھا۔ شاید مس کال تھی۔ میں ہاتھ میں فون تھامے بیٹھی رہی کہ شاید دوبارہ کال آجائے۔
"افوہ امی! اس "ٹھیپے" کو تو اندر رکھیں"۔ چھوٹی شازیہ جھنجلا کر بولی۔
"کیوں؟" میں نے تعجب سے پوچھا۔ اس کا اشارہ میرے فون کی طرف تھا۔ جس سے میرے بچوں کو چڑ تھی۔
"کسی نے دیکھ لیا تو کیا کہے گا"۔
"کیا کہے گا؟"
"یہی کہ کونسے زمانے کا ننھا منھا بٹنوں والا فون رکھا ہوا ہے اور اس نمونے کو دیکھ کر قہقہے لگائے گا"۔ اس نے فون اٹھا کر پرس کے اندر باقاعدہ سب سے نیچلے حصے میں "ٹھونسا"۔ یوں جیسے کوئی پرس کھول کر دیکھ لے گا۔
میں تو اس حرکت پر حیران ہی رہ گئی۔ لیکن مجھے ہنسی بھی آئی کہ ایسا زمانہ بھی آگیا ہے کہ لوگ اپنا آپ چھپائے پھرنے لگے ہیں کہ کوئی دیکھ کر ہنس نا دے۔ کیوں؟ کیونکہ ہم نت نئے چلتے پھرتے معیار پر جو نہیں اتر پاتے۔
خیر جیسے تیسے کرکے نیا فون لے لیا۔ جی ٹچ سکرین والا۔
اب اگلا مسئلہ اس کو چلانا کیسے یہ تھا۔
ارے بچے تو یو چٹکی بجا کر چلا لیتے ہیں مسئلہ تو ان کے لیے ہوتا ہے کہ ہم بڑوں کو کیسے سکھایا جائے۔ خیر بڑا جھنجلا کر ، پیار سے ، نخرے سے، اترا کر ، ایک ماہر استاد کی طرح فون کھولنا اور کال کرنا سکھا ہی دیا تھا۔
"ارے بیٹا یہ نسرین کو سکائپ پہ کال کیسے کرنی ہے؟" علی، شازیہ سے چھوٹا بال سے کھیلنے میں مصروف تھا۔
"افوہ امی آپ کو تو فون بھی استعمال کرنا نہیں آتا ۔۔۔۔ یہ لیں ایسے کرتے ہیں"۔ کہہ کر دوبارہ کھیلنے لگا ۔ "رہنے دو پھر کبھی کرلوں گی۔ میں کھانا لگا رہی ہوں آجاؤ بچوں کھالو" ۔ میں مسکراتی ہوئی کچن کی طرف بڑ گئی۔

میں ایک ماں ہوں۔ اپنے بچوں کو سب کچھ سکھانا میرا فرض ہے۔ لیکن اگر یہی کام اولاد کو کرنا پڑ جائے تو وہ جنھجلا کیوں جاتی ہے؟ اس کے دماغ میں یہ سوچ کیوں نہیں آتی کہ ہمیں بھی برا لگ سکتا ہے؟ کیا ہم واقعی پڑھے لکھے نا ہوکر اپنے بچوں کو پڑھا کر ان سے ایسے رویہ کے حقدار ہیں؟ جن کے لیے اتنا کچھ کیا۔۔کیا وہ یہ بات محسوس نہیں کر سکتی؟ کیا واقعی؟

"والدین کو اف تک نا کہو" والی حدیث پر عمل کرنا کیا چھوڑا جا چکا ہے؟
مجھے تو لگتا ہی کہ آجکل اولاد کو اف تک نا کہو والا معاملہ چل رہا ہے۔ والدین تو کسی کونے میں بیٹھ کر اشک بہا لیتے یا باخوشی ضبط کر لیتے ہیں، مسکرا دیتے ہیں لیکن اولاد کو "اف" تک نہیں کہتے۔

ساتواں حصہ :
پیاری مہوش!
مجھے اپنی ڈائری دینے کے لیے شکریہ۔ یہ میرے لیے بہت خوشی کی بات ہے کہ کوئی میرے الفاظ پڑھ سکے گا۔
میں اپنے دکھڑے لکھ کر تمہیں اداس نہیں کرنا چاہتی لیکن میں چونکہ ایک لڑکی ہوں اس لیے مجھے اگر کسی ٹاپک پر بات کرنے کا موقع ملا ہے تو سب سے پہلے میں "لڑکی" پر ہی بات کروں گی۔
ایسا نہیں ہے کہ ہم بہت کمزور یا victim ہیں لیکن پھر بھی اپنی سوسائٹی میں لڑکیوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اس پر نظر ڈالوں گی۔
اور ایسا بالکل نہیں ہے کہ میں کسی پر انگلی اٹھا رہی ہوں یا گزارش کر رہی ہوں کہ لڑکیوں کے ساتھ ایسے نا کرو ویسے نا کرو۔۔۔ میں صرف ایک رخ دکھانا چاہتی ہوں۔ یہ فقط میری سوچ ہے آپ اس سے اپنا دل برا نا کریں۔ کسی کی سوچ کا رخ بدل جائے تو مجھے خوشی ہوگی۔
سب سے پہلے تو ہم لڑکیوں کو سکھایا جاتا ہے کہ بھئی ہم "لڑکیاں" ہیں۔ ہاں جی، ہم لڑکیاں ہیں اس لیے ہم ہر چیز نہیں کر سکتے۔ ہمارے سامنے جتایا جاتا ہے کہ یہ کام لڑکے کر سکتے ہیں تم نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ لڑکیاں ایک دو قدم پیچھے ہی اچھی لگتی ہیں۔
پھر کہا جاتا ہے ہمیں کہ ہم برداشت کرنا سیکھیں کیونکہ عورت ذات ہیں ہم، دنیا مردوں کی ہے۔ بہت کچھ سکھایا جاتا ہے ہمیں کیونکہ ہمیں "اگلے گھر" بھی جانا ہوتا ہے۔ کئی پریشانیاں راہوں میں ہم پر پھول برسانے کو منتظر کھڑی ہیں۔ ناجانے ہمارے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا؟ اس لیے ایسے ویسے سلوک کے آگے ڈٹ کر کھڑے ہونے کی تیاری ہمیں شروع سے ہی کروائی جاتی ہے۔
ارے لڑکیاں زیادہ دیر نہیں سوتیں، فلاں کیا کہے گا؟ فلاں کیا سمجھے گا کہ آپ کی بچیاں کیا گھوڑے بیچ کر سوتی ہیں؟
ارے اتنی سی عمر میں لڑکیاں گھر بار سنبھال لیتی ہیں ہانڈی روٹی کرتی ہیں۔ لڑکیاں پڑھ کر کیا کریں گی؟ انہیں تو ہانڈی روٹی ہی کرنی ہے آخر۔۔۔
لڑکیاں دبی دبی اچھی لگتی ہیں، لڑکیاں مردوں کے شانہ بشانہ نہیں چلتی۔ لڑکیاں چپ اچھی لگتی ہیں۔۔ لڑکیوں کو زبان دراز نہیں ہونا چاہیے۔
ارے لڑکیاں یہ ، ارے لڑکیاں وہ۔۔۔

ہاں میں مانتی ہوں ہمیں بہت کچھ سکھایا جانا چاہیے۔ لیکن ہمیں "تیار" کرنے کے چکر میں ہمیں کتنا ہرٹ اور دُکھایا جاتا ہے یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے؟
برداشت، صبر۔۔۔ حالات سکھا دیتے ہیں۔ ہم رو لیں تو کہا جاتا ہے کمزور ہیں۔ ہنس لیں تو کہا جاتا ہے بے باک ہیں، لاپرواہ ہیں۔
ہاں ! ہمیں سب آنا چاہیے، والدین صحیح کرتے ہیں ہماری تربیت لیکن تربیت میں جب "زیادتی" شامل ہوجائے تو دل کو جو درد ہوتا ہے اس کا کیا؟
ایک لمٹ میں ایک حد تک بھی ہمیں سکھایا جاسکتا ہے۔ سیدھی سی بات کو ضرور کسی تلخ جملے سے سمجھانا ضروری ہیں؟ "لڑکیاں کو ایسا ہونا چاہیے کہ بجائے۔۔۔۔" اگر لوگ "یوں کرنے سے اچھا ہوگا ۔۔۔" یا کوئی پیار بھرا جملہ کہہ دیں تو کیا وہ ہم نہیں کریں گے؟بالکل کریں گے!
اور کیا پھر اس سے ہمارا دل دکھے گا؟ نہیں!
میں سوچتی ہوں اگر لڑکوں کی تربیت بھی ہم لڑکیوں کی طرح ہونے لگے تو کیا ہوگا؟
جواب میں ایک تلخ ہنسی کے ساتھ سر جھٹک دیتی ہوں۔
ہم کر بھی کیا سکتی ہیں؟ بس پھر ہر لڑکی کوئی فرار ڈھونڈ لیتی ہے۔ کوئی رو کر بہل جاتی ہے، کوئی خود کو کسی اور چیز میں مصروف کرلیتی ہے، کوئی کتابوں میں ، کہانیوں میں، کوئی فینٹیسی میں، کوئی محبت ڈھونڈنے میں ، کوئی کہیں تو کوئی کہیں۔۔۔ پھر ہم میچور ہو یا نا ہو، ہمارا رویہ ضرور بدل جاتا ہے۔

میں جب بڑی ہوئی اور یہ سب گردان سننا پڑی تو بے سکون ہوتی گئی۔ پھر میری دوست نے تسلی دی کہا استغفار پڑھو، اللہ کا ذکر کرو، ان معاملوں میں نیوٹرل ہوجاؤ اور بس خود کے لیے موجود رہو۔ اپنا خیال ہمیں خود ہی رکھنا پڑتا ہے۔ مضبوط بننے کے لیے خود ہی قدم اٹھانا پڑتا ہے۔
ہم لڑکیاں ایک حد میں رہ کر بہت آگے تک جانے کا جنون رکھتی ہیں۔ اگر ہماری زنجیریں کھل جائیں تو ہم ایک فرماں بردار پنچھی کی طرح اڑ سکتے ہیں اور واپس وفا لوٹانے اپنے ہی گھونسلے پر آسکتے ہیں۔ اگر۔۔ بس ۔۔۔۔ اگر۔۔۔۔

تو پیاری مہوش تم پہ کیا اثر کرتا ہے اور تم کیا سوچتی ہو یہ تم پر منحصر کرتا ہے۔ میں بس یہ سب کہنا چاہتی تھی سو لکھ دیا۔ اگر کچھ سیکھتی کو تو کسی دوسرے کا خیال بھی رکھنا۔ اسے بھی سکھانا۔ خود کو پراعتاد بناؤ کہ کوئی بھی تمہیں اپنے لفظوں یا رویوں سے زیر نا کرسکے۔
اپنے آپ میں خود کو تلاش کرو، کامیابی تمہاری ہوگی۔ خوش رہو اور خوش رکھنے کی راہیں ڈھونڈو۔
بہت محبت کے ساتھ
ایک لڑکی۔
سحرش اسلم
آٹھواں حصہ:

بھئی میں سیدھا اہم باتوں پر روشنی ڈالوں گا۔ سلام دعا سمجھیں میں نے لے لیا ہے۔
1. دشمن۔۔ وبالِ جان ہو یا (وبالِ دل۔۔اف) جیسا بھی ہو۔ اسے ایسا سمجھو کہ ایک ننھی سی چیونٹی ہے۔ جسے لڑکیاں اپنی تیز دھار تلواری ہیل سے مسل کر رکھ سکتی ہیں۔ (مبالغہ آرائی کی انتہاء ہوگئی)۔ اب دشمن چاہے واقعی دشمن نا بھی ہو لیکن ایسا انسان ہو کہ آپ اس سے چڑ بیٹھیں تو بس یہ سلوک بلا ناغہ نہار منہ اپنائے۔ افاقہ ضرور ہوگا۔
2. کہتے ہیں مرد رویا نہیں کرتے۔ میرا ایک دوست تھا وہ اس بات پر دل و جان سے یقین رکھتا تھا اور مجال ہے کہ ایک آنسو اپنی آنکھ سے بہنے دے۔ نا بابا نا! وہ بہت مضبوط آدمی تھا۔ لیکن کیا ایسا بھی کبھی ہوا ہے کہ انسان کبھی نا روئے؟ یا کوئی ایسی چیز جو اسے خاک نا کرسکے؟ میرا دوست اپنے گھر والوں کے ہمراہ عمرہ کرنے گیا۔ بقول اسکے "جب میں نے دور سے مکہ کا مینار دیکھا۔ ایک لمحے کو میرے اندر ٹھاٹے مارتا سمندر ساکت ہوگیا۔ قریب جانے پر مجھے لگا مسجد کی روشنیوں سے میری آنکھیں چندھیاں جائیں گی۔ میری اندر موجود سمندر یہ منظر دیکھ کر بےقرار ہوا اور آنکھوں سے بہہ نکلنے کو بے تاب ہوگیا۔ اور میں نے باخوشی انہیں نکلنے دیا۔ کیا اس سے بڑا سکون کچھ ہوسکتا تھا ؟" ۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ ہم نہیں روتے، ہم بس ضبط کرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ ہم اپنے چہروں سے کچھ چیزیں عیاں نہیں کرتے۔
3. میں کہتا ہوں کہ اگر ہم کسی صحیح چیز کے لیے آواز اٹھا سکتے ہیں تو ضرور اٹھانی چاہیے۔ " گن وٹّا" بن کر بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ملتا۔
میں گھر کا بڑا بیٹا ہوں۔ اور بڑوں کے اوپر زیادہ ذمہ داریاں آتی ہیں۔ انہیں ہر چیز سے پہلے خود سامنا کرنا ہوتا ہے۔ جیسے آتے طوفان سے پہلے خود لڑنا ہوتا ہے تاکہ اس کے پچھلے محفوظ رہیں۔
ان ذمہ داریوں کے لیے ہمیں اپنی کچھ خواہشیں پسِ منظر ڈالنی پڑتی ہیں۔ اپنے غم چھپا کر خوشی چھلکانی ہوتی ہے۔ پیار بانٹنا ہوتا ہے ۔ کیونکہ ہم بڑے ہوتے ہیں، ہمیں خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ہمیں خود کو اچھا انسان بنانا پڑتا ہے تاکہ اپنے سے چھوٹو کے لیے ایک اچھی مثال قائم کرسکیں۔
چھوٹوں کی ہر پریشانی اپنے سر لینی ہوتی ہے۔ ہم جو گھر کے بڑے ہوتے ہیں نا انہیں "خیال" رکھنا ہوتا ہے۔ اپنا نہیں دوسروں کا۔ اور یہی کرنا ہمیں "بڑا" بناتا ہے۔

امید ہے زندگی میں تم دوسروں کے ساتھ اچھا کروگی اور لوگوں کا جتنا ہو سکے خیال رکھوگی۔ اس کا صلہ لوگوں سے ملے نا ملے، خدا سے ایک دن ضرور ملے گا۔
نیک تمنائیں ،
دانیال عزیز

آخری حصہ:

کبھی کبار ہم اپنی زندگی میں اتنے آگے نکل جاتے ہیں کہ پیچھے مڑ کر دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ ہمارے الفاظ ، ہمارے رویے لوگوں ہر کیسا اثر چھوڑ جاتے ہیں ہم پلٹ کر دیکھتے بھی نہیں ہیں۔
ہم ایسے بےفکر ہوکر غیر اہم چیزوں کے پیچھے دوڑ لگا دیتے ہیں کہ اہم اور اپنے لوگوں کو بھلا بیٹھتے ہیں۔ آگے بڑھنا بہت آسان ہوتا ہے واپسی کا سفر ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔
مشکل اور درد بھرا۔۔
میں اپنی زندگی میں اتنا آگے نکل آیا کہ امی ابو بہن بھائی سب کو بھول گیا۔
میرے سیٹل ہونے کے بعد بہن بھائیوں کے شادی ہوگئی اور مزید کچھ عرصہ بعد ابو کی وفات ہوگئی۔ بہن بھائی میرے رویے کی وجہ سے دور دور رہتے ۔ لیکن امی۔۔۔وہ میرے لیے پریشان ہوتی ۔ پھر زبردستی انہوں نے بلیک میل کرکے میری شادی کردی کہ کوئی پتا نہیں وہ کتنا عرصہ جی سکیں گی۔ امی نے جس لڑکی کو پسند کیا وہ آج تمہاری ماں ہے۔ (مہوش ساکت رہ گئی۔۔۔ ڈیڈی؟ ڈیڈی کی کہانی؟ وہ رائیٹنگ بھی نا پہچان پائی)۔
رہی بات عالیہ قریشی کی تو وہ محبت نہیں تھی۔ یہ میں سمجھ گیا ہوں۔ ہر چمکتی چیز کے پیچھے بھاگنا محبت نہیں ہوتی۔ میں اس چمکتی چیز کی طرف متوجہ ہوا لیکن مجھے میرا سبق مل گیا۔
میں نے اپنی ساری زندگی کا تذکرہ اپنی بیوی سے کیا۔۔ اس نے کہا کہ واپس پلٹ جاؤ اپنے اہم لوگوں کی طرف۔۔ جنہوں نے آپ سے بہت پیار کیا لیکن قدر نا پاکر آپ سے دور ہوتے گئے۔
یہ بہت مشکل تھا لیکن میرا دل یہ کرنے سے مطمئین ہونے لگا تو میں یہ کرتا گیا، سارے فرق ، سارے فاصلہ مٹاتا گیا۔ پچھتاتا بھی رہا کہ میں اتنے پیار سے دور کیسے رہا؟
مہوش بیٹا زندگی بنانا یا بگاڑنا ہمارے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ ایسی چیزوں کے پیچھے مت بھاگو جو غیر اہم ہیں۔ جو اہم ہیں، اپنے ہیں اور آپ کے پاس ہیں۔۔ اس کی قدر کرو اور شکر کرو۔
تمہارے ڈیڈی،
ناز حسین۔

یوں تو زندگی ایک خواب ہے مگر
چاہو تو جی لو چاہو تو کردو وقف۔
یوں تو زندگی حسین ہے مگر
چاہو تو مہک جائے چاہو تو بنا لو نرکھ۔
یوں تو زندگی ایک پھول ہے مگر
چاہو تو کھِل جائے چاہو تو یوں بھی گزر جائے۔
یوں تو زندگی ایک احساس ہے مگر
چاہو تو محسوس کرو نہ چاہو تو بے آواز ہے۔
یوں تو زندگی ایک امتحان ہے
چاہو تو آسان ہے نہ چاہو تو چٹان ہے۔
یوں تو ہے زندگی بہت سنسان
چاہو تو رنگ برنگ ہے چاہو تو ویران ہے۔
یوں تو زندگی ہے کام آنے کا نام
چاہو تو کردو وقف نہ چاہو تو گمنام ہے۔
(محمد ملک مراد اعوان)

----ختم شد----

Amna Shafiq
About the Author: Amna Shafiq Read More Articles by Amna Shafiq: 14 Articles with 21394 views I'm a Student. I love to read novels . And i like to write too just so i can share my words with world... View More