ٹرمپ اور عالمی امن

دنیا میں عزت بنانے سے زیادہ مشکل کام اس عزت کو برقرار رکھنا ہے، لیکن بعض لوگ اپنی ناقابل ِقبول حرکات سے بڑی محنت کے بعد دنیا میں اپنے منفی تاثر کا سکہ جمانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اس کوبرقرار رکھنے کے لیے آخری حد تک جاتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا شماربھی انھیں لوگوں میں ہوتاہے۔ ایک مسلم دشمن سیاست دان کے روپ میں سامنے آنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اقتدار کے چند ماہ میں ہی اپنے غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے مستقبل میں اس دنیا کو ایک خطرناک جنگ کی طرف دکھیلنے میں کوئی کسر نہیں رہنے دی اور یہ تو چند ماہ کی داستان ہے۔ اپنے اقتدارکے ختم ہونے تک یا تو وہ لاکھوں لوگوں کی زندگی ختم کرنے کے ذمہ دار قرار دیے جائیں گے یا پھر یہ اپنی ریاست کے لیے تمام دنیا کے دروازے بند کرکے امریکہ کو ہی تباہی کے دہانے کھڑا کر د یں گے۔بقول شاعر؂
یہ ان کے لہجے بتاتے ہیں کیا ہے ہونے کو
انھی کے ہونٹوں پر ان کا ذوال بولتا ہے
(عثمان جامعی)

14" جون 1946ء نیویارک کے علاقے کوئنز میں پیدا ہونے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے1968ء میں یونیورسٹی آف پینسلوینیا سے معاشیات میں گریجوایشن کیا۔ اپنے والد سے قرض لے کر ذاتی کاروبار شروع کیا،لیکن خاطرخواہ کامیابی حاصل نا کرسکے 1971ء میں خاندانی کمپنی کا کنٹرول حاصل کیا اور اُس کا نام بدل کر ٹرمپ آرگنائزیشن رکھا۔ 70 سالہ ٹرمپ کے مطابق، ان کے اثاثے 10 بلین ڈالر سے زائد ہیں۔ ٹرمپ کی پہلی دو شادیاں ناکام رہیں۔ سابق ماڈل میلانیا کناوس سے ٹرمپ نے 2005ء میں تیسری شادی کی۔ ٹرمپ شوبز انڈسٹری اور ذرائع ابلاغ سے بھی خاصے متعلق رہے۔شہرت حاصل کرنے کے خواہش مند ڈونلڈ ٹرمپ نے مشہور ٹی وی سیریز دی اپرنٹس کے 14 موسموں کی میزبانی کی اور متعدد کتابیں بھی لکھیں۔’جمائکا اسٹیٹس‘ کے امیر ترین مضافات میں پلنے والے ٹرمپ کا انداز ہمیشہ سے حاکمانہ رہا۔"

" ڈونالڈ ٹرمپ پر مختلف مقدمات بھی قائم ہوئے جن میں ایک مشہور مقدمہ ان کی پراپرٹی میں سے اقلیتوں کے جائیداد کرایہ پر لینے یا خریدنے سے روکنے کے خلاف کیا گیا۔ ٹرمپ ایک مشہور بزنس مین کی صورت میں امریکہ میں سامنے لیکن ساتھ ہی اپنے متعدد کاروبار میں دیوالیہ پن کا شکار ہوئے۔ 1990 میں جب جائیداد کی مارکیٹ ’کریش‘ ہوئی، تو اُن کی ملکیت 1.7 ارب ڈالر سے گِر کر 50 کروڑ ڈالر رہ گئی۔قرقی سے بچنے کے لیے، اُنھوں نے رقوم ادھار لیں، اور نئے سرمایہ کار تلاش کیے۔ اُن کے ریئلٹی ٹی وی شو ’دِی اپرنٹس‘ نے ٹرمپ کو ایک اداکار کا درجہ دیا۔ ٹرمپ کی املاک کے منتظم بننے کی خواہش رکھنے والے سخت مقابلے کی دوڑ میں شامل ہوئے۔ ناکام ہونے والوں کی فائل پر ٹرمپ ’یو آرفائرڈ‘ تحریر کیا کرتے تھے۔"
ایک شخص جو اپنی زندگی کے اتنے سال میں متنازع رہا اوراس کے سو میں سے نوے فیصد فیصلے خود اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے وہ کیوں کر اور کیسے اس دنیا کے لیے ایک اچھا لیڈر بن کر سامنے آسکتا ہے۔

غیر سنجیدہ بیان دینے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار میں آتے ہی ایران ،عراق ،شام،سوڈان،لیبیا ،سومالیا اور یمن کے مسلمانوں کو نوے دنوں تک ویزا نہ دینے کی پالیسی کا اعلان کیااور مسلمانوں کو امریکہ کی سیکورٹی کے لیے خطرہ قرار دیا۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ مستقبل میں مسلمانوں کے حوالے سے ان کی پالیسی یقینامایوس کن ہی رہے گی․ان کی پالیسیز کو نا صرف دنیا بھر میں ناقابل قبول قراد دیا جارہا ہے بلکہ خود امریکہ کے شہری ویزا پالیسی کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔لیکن ٹرمپ اور اس کی انتظامیہ کے سخت رویے برقرار رہے۔

بھارت اور جاپان سے دوستی افغانستان میں اپنی حکومت کو مستحکم بنانے اور بلوچستان میں چین کے دروازے بند کرنے کی پالیسززرکھنے والی ٹرمپ حکومت کا پاکستان کے لیے سخت الفاظ استعمال کرناکوئی اچنھبے کی بات نہیں۔ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بہت سی قربانیوں کو نظر انداز کرتی ہے۔جبکہ اس حقیقت سے انکار کرنا ناممکن ہے کہ دنیا میں کسی ملک نے پاکستان سے بڑھ کر دہشت گردی کے خلاف قربانیاں نہیں دی ۔

بلوچستان کی غیر مستحکم صورت حال میں امریکہ بھارت اور اسرائیلی ایجنسی موساد کے اس صوبے میں نیٹ ورک ہونے کے انکشاف کے بعد امریکہ کے الزامات پر تشویش ہے کہ آخر ٹرمپ جیسا غیر سنجیدہ صدر اب ہمارے لیے مزید کن مسائل کو سامنے لانے کا باعث بن سکتا ہے۔ دوسری طرف مودی سرکار نے ٹرمپ کے پاکستان کے ساتھ سخت رویے پر خوشی کے ڈھول پیٹنا شروع کردیے ہیں اور اپنی پاکستان مخالف سرگرمیوں کو مزید بڑھاوا دینے کے لیے سرگرم ہوگئی ہے۔نریندر مودی کی حالیاں تقریر اس بات کا واضح ثبوت ہے جس میں وہ پاکستان سے اپنے بلوچستان سندہ گلگت ،پختونسزکو سنبھالنے کی بات کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ پہلے اپنے ملک کو سنبھالیے پھر کشمیر کی بات کیجئے گا تو مودی صاحب اگر آپ کے اپنے ملک میں آپ کی ریاستوں کو سنبھالنے کی بات کی جائے تو ایک لمبی فہرست سامنے آجائے گئی بہرحال عالمی امن کے لیے تو اس وقت آپ کی حکومت ہی بہت بڑا خطرہ ہے پاکستان کو موردِالزام ٹھرانے سے کیا حاصل بہرحال مودی صاحب کو کسی اور کالم میں جواب دیا جائے گا۔ ٹرمپ حکومت بھی شاید یہ سمجھتی ہے کہ بھارت کے ذریعے ہمیں دبایا جایے گا اور پاکستان شاید اس بات سے خوف زدہ ہوجائے کہ افغانستان میں دس ہزار فوجی بھیجے گئے مزید بھیجے جائے ۔تو یہ ٹرمپ حکومت کی غلط فہمی ہے پاکستان کبھی بھی انڈیا کے کسی قسم کے ہتھکنڈو سے ڈرنے والا ہے۔ٹرمپ صاحب کہتے ہیں کہ اگر پاکستان دہشت گردوں کو سپورٹ نہیں کرتااور امریکہ رسد کو پاکستان کے راستے افغانستان جا رہی ہے کہ راستے میں رکاوٹ نہیں بنتااور ہمیں ہمارا کام کرنے دیتاہے تو ہم افغانستان میں موجود انڈین فوج کے ہونے کی مخالفت کریں گے۔

ایرانی حکومت کوڈونلڈ ٹرمپ’’سرکش قوم‘‘ اور ’’خونی حکومت‘‘کہتے ہیں مزید یہ کہ اُن کی نظر میں ایران سے ہونے والا جوہری معاہدہ تاریخ کا بدترین معاہدہ اور امریکا کے لیے باعث شرمندگی ہے کہ وہ اس کا حصہ ہے۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ ایران دہشت گردی کو فروغ دینے والا ملک ہے اور اگر جوہری معاہدے کی آڑ میں ایران اپنا ایٹمی پروگرام آگے بڑھا رہا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایران دہشت گردوں کی معاونت کرتاہے۔وہ کہتے ہیں کہ ایران موت اور تباہی کا ذمہ دار ملک ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ، شام، عراق، وینزویلا میں جمہوریت کو پروان چڑھنے پر زور تو ضرور دیتے ہیں لیکن ساتھ ہی مختلف ممالک میں کی جمہوری حکومت کو اپنی پالیسیز پر زبردستی عمل پیراہونے کے لیے دباو بھی ڈالتے ہیں۔

شمالی کوریا کی ہی بات کر لیجئے۔ڈونلڈ ٹرمپ ہوں یا شمالی کوریا کے کم جونگ دونو ہی لیڈران کے بیانات ایسے ہیں جیسے ناپختہ ذہن کے نوجوان لڑنے کے دوران گفتگوکررہے ہوں قطع نظر اس کے کہ یہاں ایٹمی تجربوں کی اور میزائیل داغے جانے کہ دعوے ہورہے ہیں جو کہ رہتی دنیا تک اپنی تباہی ساتھ لے کر آئیں گے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کو متنبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر شمالی کوریا نے اسے (امریکہ)کو اپنے دفاع پر مجبور کیا تو امریکہ اسے تباہ کر دے گا۔جواباشمالی کوریا نے بحرالکاہل (پیسیفیک) میں ہائیڈروجن بم کا تجربہ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو جنونی قرار دیا ۔اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق ٹرمپ حکومت نے شمالی کوریا کے لیے نئی پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیئے۔ صدارتی حکم نامے سے امریکی وزارت خزانہ کو کوریائی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ پیانگ یانگ کو اس کے ایٹمی میزائل پروگرام سے روکا جا سکے۔اس صدارتی حکم نامہ کے تحت کسی شخص، کمپنی یا مالیاتی ادارے کو شمالی کوریا کے ساتھ کاروبار کی اجازت نہیں ہو گی۔دوسری طر ف شمالی کوریا کا سخت رویہ بھی برقرار ہے اور وہ یہ کہتے ہیں کہااقوام متحدہ کی پابندیاں بھی جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے نہیں روک سکتیں۔

دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے میں ترقی یافتہ ممالک کو ہی اپنا مثبت کردار اداکرنا ہوگا ناکہ جنگ اور بدامنی کی فضاکو برقرار رکھنے کی بات کی جائے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ یقینی طور پر ایک جذباتی لیڈر ہیں جو دنیا کے لیے خطرناک بھی ثابت ہو سکتے اور اگر چاہے توبدامنی کی اس صورتحال پر قابوبھی پاسکتے ہیں ۔لیکن اس کے لئے اپنی پالسیسز پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔اور ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ مسلم ممالک مل کر مسلمان مخالف حکمت عملی کو ختم کریں اور مل کر دنیا کے امن کے لیے کام کریں باقی امریکہ کا تو خداہی حافظ ہے۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311941 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.