جناب محمد سعید جاوید کاشمار پاکستان کے ممتاز دانش
وروں اور بہترین لکھاریوں میں ہوتا ہے ۔ آپ انتہائی سلجھے ہوئے پروقار
انسان ہیں ۔ آپ کواپنے بچپن ٗ لڑکپن ٗ جوانی اور اب بڑھاپے سے بھی والہانہ
لگاؤ ہے ۔ غربت ٗ بے وسائلی اور پسماندگی کے ماحول میں پلنے والے سعید
جاوید آج ایک ایسے مقام پر فائز ہیں جہاں انہیں ادب اور صحافت کے لوگ نہایت
عزت احترام سے دیکھتے ہیں ۔ اس کے باوجود کہ آبائی گاؤں بہاولنگرٗ فورٹ
عباس سے کچھ فاصلے پر ایک قدیم اور پسماندہ گاؤں تھالیکن ابتدائی تعلیم آپ
نے کراچی سے حاصل کی جہاں اس وقت آپ کے والد ٗصدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد
ایوب خان کے ساتھ بطور اے ڈی سی وابستہ تھے ۔ آپ نے زندگی کے نشیب و فراز
اور گزرے ہوئے واقعات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب ( اچھی گزر گئی ) بھی لکھی۔
جسے دور حاضر کی بہترین سوانح عمر ی بھی قرار دیاجاسکتا ہے۔جسے زبان کی
خوبصورتی اور بیان کی سادگی کی بنا ء پر حلقہ ء ادب میں زبردست پذیرائی ملی
۔ ملک کے تمام اخباروں ٗادبی جریدوں اور نقادوں نے خاص طور پر اس کاوش کو
بے حد سراہا ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہ پاکستانی معاشرے کی 60
سالہ تاریخ تھی ۔میری عمر کے تمام لوگ اس کتاب کو اپنی ہی زندگی کی کہانی
قرار دے چکے ہیں ۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بھی بتاتاچلوں کہ آپ نے
ہوٹل کراچی انٹر کانینٹل ٗ پیکجز لمیٹڈ اورحبیب بنک لمیٹڈ میں بطور منیجر
ملازمت بھی کی ۔پھر ایک نئی دنیاکی دریافت آپ کو سعودی عرب لے گئی جہاں 25
سال تک "ریاض شہر" میں دنیا کے سب سے بڑے طبی مرکز "کنگ فیصل سپیشلسٹ
ہسپتال" کے شعبہ اکاؤنٹس کے انچارج رہے ۔پسماندگی سے ترقی تک سعودیہ کے
سفرکے آپ چشم دید گواہ ہیں ۔ وطن سے دور ی سے تنگ آکر آپ جب پاکستان لوٹے
تو یہاں مشہور زمانہ ڈاکٹر ز ہسپتال لاہور کے ساتھ بطورسینئر ایڈمنسٹریٹر
کی حیثیت سے وابستہ ہوگئے۔سیر کا شوق آپ کو روزانہ ماڈل ٹاؤن پارک ( جہاں
آپکی رہائش گاہ ہے ) اور سیاحت کا شوق آپ کو دنیا کے 22 ممالک میں لیے
پھرتا رہا ۔ جہاں بھی گئے وہاں سے خالی ہاتھ واپس نہ آئے بلکہ ان ممالک کی
معاشرت ٗرہن سہن اور ناقابل فراموش یادیں اور انمٹ تاریخی حوالے اپنے ساتھ
لیتے آئے ۔
مصر اسلامی دنیا کاایک بہت ہی خوبصورت ملک تصور کیاجاتاہے جہاں کے حسن و
جمال کے بہت چرچے ہیں کوئی وہاں جائے یا نہ جائے لیکن دل میں یہ خواہش ضرور
جنم لیتی ہے کہ مصر کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جائے ۔مصر کے ہو ٹلوں میں ہونے
والے بیلے ڈانس اور قہوہ خانوں سے لطف اندوزہوا جائے ۔جہاں تاریخی اعتبار
سے مصر بہت قدیم ملک تصور کیاجاتاہے وہاں دور حاضر میں بھی مصری حکمرانوں
کو فرعون ثانی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ مصر میں صرف وہی شخص برسراقتدار
رہ سکتا ہے جو امریکہ کی کٹھ پتلی بن کے رہے اور اس کے چہتے اسرائیل کے ناز
و نخرے بھی برداشت کرے ۔ جن دوستوں کے پاس مصر جانے کے لیے زاد راہ یعنی
اتنے پیسے نہ ہوں کہ وہ چاندانی رات میں اپنی آنکھوں سے دریائے نیل کی
لہروں اورفرعونی سرزمین کا مشاہدہ کرسکیں وہ ممتاز دانش ور ٗ عظیم مصنف
جناب محمد سعید جاوید کی کتاب "مصریات" پڑھ لیں ۔جس میں قلو پطرہ کے حسن و
جمال کی کہانیاں بھی ہیں ٗ فرعونیت کے مختلف ادوار کی داستانیں بھی اور سب
سے بڑھ کر ممیوں کی بناوٹ اور تدفین کے طریقہ کار کے بارے میں حیرت انگیز
باتیں بھی اسی کتاب کا حصہ ہیں ۔اس سفر نامے میں قاہرہ آمد ٗ شہر خموشاں ٗ
ذرا سی بخشش ٗ چین اک پل نہیں ٗ قاہرہ کا عجائب گھر ٗ مصری ممیاں ٗ ذلتوں
کا مارا فرعون ٗ نیل کنارے ٗ مصری مہمان نوازی ٗ رقابتیں ٗاہرام مصر ٗ کچھ
آوارہ گردیاں ٗ شارع قصر نیل ٗ مصری تاریخ و جغرافیہ ٗ میمفس ٗ ممی کی
تیاری ٗ مصریوں کی چالاکیاں ٗ خان الخلیلی بازا ر ٗمسجد اور مدرسہ سلطان
حسن ٗ فرعونوں سے ایک ملاقات ٗ بے بس خدا ٗ جامعہ ازہر یونیورسٹی ٗ قبطی
عجائب گھر اور ہیلی پولیس ٗ تحریراسکوائر ٗ کیبرے اور بیلے ڈانس ٗ الاقصر ٗ
کرناک مندر ٗ محفل رنگ ونور اور سازو آواز ٗ الاقصر کی شام ٗ وادی مرگ ٗ
ایک مصری گاؤں ٗ مردہ شاہوں کے مقابر ٗ جوں مرگ بادشاہ توت ٗ خدائی کے
دعویدار فرعون کا مقبرہ ٗ ملکہ حسن ٗ نفر تاری ٗ ملکہ نیل ٗ نفر تیتی ٗ
ملکہ مصر ٗ قلوپطرہ ٗاسوان شہر ٗ ریلوے اسٹیشن ٗ ہاتھیوں کا جزیرہ ٗ ادھورا
ستون ٗفاطمیوں کا قبرستان ٗ اسوان ڈیم ٗ لارڈ کچزگارڈن ٗجریزہ پھلائے ٗ
مقبرہ محمد شا آغا خان ٗ ابو سمبل ٗ مائل بہ پرواز ٹکٹ ٗ فرعون بادشاہ
رعمیس ثانی کا مندر ٗ فرعون ملکہ نفر تاری کا مندر ٗ یہ ابواب شامل ہیں ۔
میں یہ بات وثوق سے کہتاہوں کہ محمد سعید جاوید کی یہ کتاب پڑھنے والا ہر
قاری نہ صرف خود کو وادی مصر میں محسوس کرتا ہے بلکہ خواب کی حالت میں
فرعون سے بالمشافہ ملاقات بھی ہوسکتی ہے ۔
ممتاز ادیب و دانش ور اختر عباس جناب محمد سعید جاوید کی اس کتاب پر تبصرہ
کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سفر ہمیشہ حیرتیں لاتے ہیں اور سفر نامے ان حیرتوں
کے پیچھے چھپی ہوئی رفاقتوں ٗ رقابتوں اور مسکراہٹوں کی تفصیل ۔ اس سفر
نامے کی خوبصورتی اور دلچسپی اس کا شگفتہ انداز بیاں ہی نہیں واقعات کی
ندرت بھی ہے اور مصنف کی سادگی اور معصومیت بھی ۔آج کا مصر ایک بار پھر
فرعونوں سے بھرا ہوا ہے کل ان کے مقبرے بنیں گے ٗ پھر ممیاں بنیں گی ۔کون
جانے کہاں بکیں گی اور کن بھٹیوں میں جلائی جائیں گی ۔ حقیقت یہی ہے کہ ہر
فرعون تاریخ کی دیواروں میں گاڑ دیا جاتاہے ۔جب کبھی اس عہد کے فرعونوں کی
قبر بنے گی تو پھر کوئی سعید جاوید سیاحت پر نکلے گااور مصریات کا نیاباب
لکھ ڈالے گا ۔
مصنف کتاب جناب سعید جاوید پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ مصر ی فرعونوں کے بارے
میں تو بچپن سے ہی کتابوں میں پڑھا کرتا تھا لیکن صرف ایک عام سی کہانی کی
طرح جو پڑھنے کے بعد فورا ہی بھول جاتی ۔ پھر جب تخیل کادائرہ تھوڑا وسیع
ہوا تو ان کے کچھ اور قصے بھی منظر عام پر آنے لگے ۔ اس وقت تو ایسالگتا
تھا کہ فرعون کوئی مافوق الفطرت لوگ تھے ۔ جن کا ذکر گو چند حوالوں تک ہی
محدود تھا تاہم ان کے ارد گرد پھیلی ہوئی پراسراریت کی وجہ سے ان کے حقیقی
کردار عام لوگوں کے سامنے نہ آسکے ۔ حضرت موسی علیہ السلام کے حوالے سے ایک
بے نام فرعون کا قصہ مقدس کتاب "قرآن پاک " میں بھی موجود ہے ۔ جس سے
تقریبا ہر مسلمان واقف تھا۔
اسی طرح اہرام مصر کا تذکرہ بھی ایک تواتر سے ہوتارہتا تھا اور ان کے ساتھ
بیٹھے ہوئے ایک انسان نما شیر ابوالہول کابھی ۔ اس لیے میں جب تک مصر نہیں
گیا میرے ذہن میں یہی تین اہرام چپکے ہوئے تھے ۔ یہ اتنے بڑے اور بلند تھے
کہ ذہن میں ان کے پیچھے چھپے ہوئے اسرار و رموز کو تلاش ہی نہ کرپایا ۔یہ
بات بھی سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر جگہ جگہ اتنے دیو قامت اور بلند پتھروں
کے ڈھیر لگاکر وہ فرعون آخر کیا ثابت کرنا چاہتے تھے ۔ کتابوں اور تصویروں
میں تو ان کو دیکھ کر چپ چاپ آگے بڑھ جاتے مگر جب ان دیوقامت اورسمجھ نہ
آنے والی عمارتوں کو قریب سے بلکہ اندر جاکر دیکھا تو بے نام سا خوف ذہن
میں ضرور آیا۔ میں ایک لمحے کے لیے کانپ سا گیا پھر نہ چاہتے ہوئے بھی ان
کی عظمتوں کا قائل ہوگیا ۔
مصنف مزید لکھتے ہیں کہ مصر کی تاریخ کو کئی ادوارمیں تقسیم کیاجاسکتا ہے
۔جس میں چار ہزار سال پہلے کے فرعونی ادوار سے شروع ہوکر یونانیوں اور
رومیوں کی حکومتوں اور حکمرانوں کے قصے ٗ پھر مصر کے مشرف بہ اسلام ہونے کے
بعد ابتدائی دور کی کہانیاں ہیں ۔بعد ازاں فاطمیوں کا عظیم اور سنہری زمانہ
بھی اپنا جوبن دکھاکر گزر گیا تو ترک آن پہنچے ۔ جن سے بالآخر اس دور کی سب
سے بڑی استعماری قوت برطانیہ نے اقتدار چھینا اور پیچھے بیٹھ کر وہاں برائے
نام بادشاہت قائم کرا دی ۔ جو اس کی جنبش لب کی منتظر رہتی۔ وہ وہی کچھ
کرتے رہے جو ان کوکرنے کے لیے کہاجاتارہا ۔ جنگ عظیم کی مسلسل ناکامیوں کے
سبب سلطنت برطانیہ کا جب سورج غرب ہونے لگا تو مصر کی باگ ڈور ایک کمزور
اور عیاش بادشاہ فاروق اول کو پکڑا دی ۔ جن سے 1952ء کے وسط میں چند فوجی
جرنیلوں نے حکمرانی چھین لی ۔ اس طرح فوجی جرنیلوں کے ہاتھوں میں کھیلتا
ہوا مصر آج ہمارے سامنے ہے ۔
مصر کے جغرافیائی محل و قوع کا تعارف کرواتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ مصرکو
اگر شمالا جنوبا دیکھاجائے تو یہ کوئی ایک ہزار کلومیٹر طویل بنتا ہے اسی
طرح شرقا غربا یہ فاصلہ تقریبا بارہ سو کلومیٹر ہے ۔ مغرب میں مصر کی سرحد
یں طویل صحرائی سفر کے بعد ایک اسلامی ملک لیبیا سے جا ملتی ہیں جبکہ مشرقی
سمت یہ صحرائے سینا ٗ شرم الشیخ اورنہر سویز سے ہوتا ہوا اسرائیل اور بحیرہ
احمر کی طرف جانکلتا ہے ۔ مشرقی صحرا مصر کے باقی وسیع و عریض مغربی
ریگستان سے تھوڑا مختلف ہے کہ اس میں ریت کے ساتھ ساتھ بڑے چھوٹے پہاڑی
سلسلے بھی پھیلے ہوئے ہیں ۔ دوسری جانب نشیبی مصر ہے۔ جہاں سے دریائے نیل
قاہرہ کے قریب سے گزرتا ہوا شمال کی طرف چلاجاتاہے پھر ایک ڈیلٹا بنا کر
اسکندریہ کے پاس بحیرہ روم میں جاگرتا ہے اور یوں دنیا کے اس طویل ترین
دریا کا سفر تمام ہوتا ہے جس نے اپنا سفرافریقہ کے گھنے جنگلات سے شروع کیا
تھا۔
ایک اور جگہ مصنف اپنے قارئین کو ممی کی تیاری کے مختلف مراحل کے احوال
بتاتے ہوئے لکھتے ہیں ۔عبدو(گائیڈ) مجھے لے کر ایک احاطے میں گھس گیا جہاں
ایک بہت ہی وسیع و عریض تالاب کی موجودگی کے آثا ر ابھی تک باقی تھے اور اس
کے پاس ہی کچھ سنگی چبوترے بنے ہوئے تھے ۔ قریب ہی ایک قطار میں بنے ہوئے
کچھ چھوٹے چھوٹے کمروں کے کھنڈرات موجود تھے ۔یہ وہ جگہ تھی جہاں ممیاں
تیار کی جاتی تھیں ۔ گائیڈ نے بتایا کہ جب کوئی شخص مرجاتاتھا تو موت کی
مروجہ رسومات کے مکمل ہونے کے بعد اس کی لاش کو مرکزی معبد میں لاکر بڑے
پجاری کے حوالے کردیاجاتا جو اسے اس چبوترے پر لٹاکر حنوط کرنے کے عمل کا
آغاز کرتا ۔ چونکہ ان کا ایمان تھا کہ مرے ہوئے لوگ ایک بار پھر زندہ ہوں
گے اس لیے ان کے جسم کے سارے اعضا کو بھی نکال کر محفوظ کرلیاجاتا۔ سب سے
پہلے مردے کے بائیں پہلو میں شگاف لگا کر جسم میں نسبتا جلد خراج ہونے والے
نرم اجزاء جیسے معدہ ٗ انتڑیاں ٗ جگر ٗدل اور پھیپھڑ ے نکال لیے جاتے۔ پھر
نا ک کے ذریعے اس کے دماغ کو بھی ایک خاص ترکیب سے باہر کھینچ لیاجاتا ۔
انکے نزدیک یہ ایک غیر ضروری چیز تھی جس کو حنوط کرنا ضروری نہیں تھا ۔ اس
لیے وہ اس کو ضائع کردیتے ۔ دل کو البتہ اس کو اپنی جگہ پر ہی چھوڑ دیاجاتا
کیونکہ اس کو عقل و دانش کا منبع تصور کیاجاتاتھا ۔ اس دوران لاش کی چیر
پھاڑ کرنے والے پجا ری اپنے چہرے پر ایسے نقاب چڑھائے رکھتے جن پر مختلف
جانوروں کی شکلیں بنی ہوتیں تاکہ مردے کی حفاظت کرنے والے دیوتا ان کوپہچان
نہ سکیں اور ان کا یہ عمل بعد میں انکے لیے کسی تباہی کا باعث نہ بن جائے ۔
چبوترے کے پاس ہی کھڑا ہوا بڑا پروہت اس دوران بلند آواز میں منتر
پڑھتارہتا اور چیر پھاڑ کرنے والے پجاریوں پر مسلسل چھوٹی چھوٹی کنکریاں
پھینکتا رہتا تاکہ دیوتاؤں کو ان لوگوں سے اپنی نفرت کے اظہار کا تاثر
دیاجاسکے جو اس لاش کی بے حرمتی کررہے تھے ۔یہ ان کی رسم یاعقیدے میں شامل
تھا ۔اس کے بعد وہ لاش کے اندرونی اجزا کوایک خاص قسم کے نمک اور مصالحے
لگاکر دھوتے ۔پھر ان کو خشک ہونے کے لیے محفوظ جگہ پر رکھ دیتے ۔پھر لاش کو
حنوط کرنے کاعمل شروع ہوجاتا ۔پجاری لاش کو اچھی طرح ایک خاص نمک والے پانی
سے مسلسل دھوتے ۔ اس کے لیے وہ شراب بھی استعمال کرتے جو اینٹی بائیوٹک
کاکام کرتی ۔ پھر وہ کچھ اور کیمیاوی اجزاء استعمال کرکے لاش کو چالیس دنوں
کے لیے ملحقہ کمرے میں سوکھنے کے لیے رکھ دیاکرتے ۔جب لاش اچھی طرح خشک
ہوکر سوکھ جاتی تو وہ سکڑ جاتی اور اس کے جسم پر جھریا ں بھی پڑ جاتیں جن
کو نرم کرنے کے لیے اس پر مسلسل کئی روز تک مختلف تیلوں کی مالش کی جاتی جس
سے جسم ایک بار پھر نرم پڑجاتا تھا اور جھریاں بھی غائب ہوجاتیں ۔ اس کے
پیٹ اور دیگر خالی ہوجانے والی جگہوں کو بیروز ے میں بھیگے ہوئے لکڑی کے
برادے ٗ گھاس پھوس اور کپڑے کی کترنوں سے بھر دیتے تاکہ وہ ابھرے ہوئے
محسوس ہوں اور قدرتی نظرآئیں ۔
آخری مرحلے میں اس پر موم اور تیل کی ڈوبی ہوئی سوتی پٹیوں کو باندھنا شروع
کیا جاتا ۔ پٹیوں کی کچھ پرتوں کو لپیٹنے کے بعد ان میں مرنے والے کا نام
اور قبیلے یا سوسائٹی میں اس کے مقام کے بارے میں لکھی ہوئی لکڑی کی چھوٹی
چھوٹی تختیاں رکھ دی جاتیں ۔ اس کے علاوہ مردے کی مالی حیثیت کے مطابق ان
پٹیوں میں طلائی زیورات قیمتی پتھر یا ہیرے جواہرات وغیرہ بھی رکھے جاتے ۔
علاوہ ازیں پٹیوں کے آخری سرے پر ایک بار پھر مردے کانام وغیرہ تحریر کرکے
ان کے اوپر کوئی گوند نما مصالحہ ڈال کر جوڑ دیا جاتاتھا۔اس طرح لاش کو
حنوط کرنے کا عمل مکمل ہوجاتا۔جبکہ جسم کے اندر سے نکالے گئے اجزا خشک
ہوجاتے تو انکو بھی ایک خاص طریقے سے حنوط کرکے مٹی کے مزین مرتبانوں میں
رکھ دیاجاتا۔یہ چار مرتبان ہوتے جن کے ڈھکن مختلف اشکال اور جانوروں کے
چہروں سے مشابہ ہوتے ۔ یہ ان کے چار اہم دیوتاؤں سے مشابہت رکھتے تھے جو ان
کے عقیدے کے مطابق ان کے اجزاء کی حفاظت کے ذمہ دار تھے ۔پھر غالبا کسی
تحقیق کے نتیجے میں انہوں نے یہ راز پایا کہ ان اعضا کوجسم سے باہرنکال کر
حنوط کرنے کی ضرورت نہیں ہے لہذا وہ بعد میں ان اعضا ء کو لاش کے اندرہی
چھوڑ دیتے تھے ۔
سچ تو یہ ہے کہ "مصریات " ایک مختصر مگر بڑا ہی جامع سفر نامہ ہے ۔ سفرنامہ
کیا قدیم اور جدید مصر کی عمومی تاریخ ہے ۔ خاص طور پر کچھ اہم فرعونوں ٗ
ان کی ملکاؤں ٗان کے انداز حکومت اور اس وقت کے معاشرتی حالات پر ایک ایسی
دستاویز ہے ٗ جو قاری کو شروع کرتے ہی اپنے حصارمیں لے لیتی ہے پھرمصرٗ مصر
کی ملکاؤں اور فرعونوں کی کہانیاں کبھی ذہن سے محو نہیں ہوتی۔یہ کتاب مصر
پر تحقیق کرنے والوں کے لیے ایک ریفرنس بک کادرجہ رکھتی ہے ۔ جسے ہر انسان
کو پڑھنا چاہیے ۔ کیونکہ اس کتاب میں مصر کے چہرے سے بناوٹ کا نقاب اتار کر
جس طرح اصلی چہرہ دکھایا گیا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں یہ کتاب ان کی پہلی کتاب
"اچھی گزر گئی" کی طرح انہیں ہمیشہ زندہ رکھے گی ۔ انسان کی زندگی
ناپائیدار ہے لیکن اچھی کتاب جب تک اپنا وجود قائم رکھتی ہے ٗ وہ اپنے مصنف
کو بھی زندہ رکھتی ہے ۔
یہ کتاب 216 سادے صفحات اور100 رنگین تصاویر پر مشتمل ہے جس کی قیمت صرف
800/- روپے ہے جو بہترین طباعتی معیار کی بنا پر نہایت مناسب ہے ۔ یہ کتاب
بک ہوم 46 مزنگ روڈ لاہور کے علاوہ35K/IV ماڈل ٹاؤن لاہور سے دستیاب ہے ۔
رابطہ موبائل نمبر 0300-4381655 |