از افادات:حضرت مولانا پیر محمد رضا ثاقب مصطفائی نقشبندی
(بانی ادارۃ المصطفیٰ انٹرنیشنل)
کربلا میں جو جنگ ہوئی ہے؛ جو معرکۂ کربلا جو ہوا ہے ؛ یہ یزید اور امام
حسین کے درمیان نہیں تھا بلکہ حسینیت اور یزیدیت کے درمیان تھا۔یعنی یہ
شخصی لڑائی نہیں تھی بلکہ نظریات کا تصاد م تھا۔ اگر شخصی لڑائی ہوتی تو
یزید جیت گیا تھا؛ بطورِ شخص حضرت امام حسین شہید کر دیے گئے اور یزید تو
تخت و تاج پہ متمکن رہا۔ اگر یہ شخصی لڑائی قرار دیں تو یزید جیت گیا اور
امام حسین ہار گئے؛ اگر یہ شخصی لڑائی قرار دیں تو۔ اور اگر یہ لڑائی
نظریات کی قرار دیں اور یہ حقیقت میں نظریات کی لڑائی ہے؛ تو یزیدیت ہار
گئی اور حسینیت زندہ باد ہوگئی۔ یزیدیت کا جنازہ نکل گیا۔
وہ تخت و تاج جس کے لیے یزید نے اتنا کچھ کیا تھا اس کے اپنے بیٹے نے اس
تخت پہ تھوکا۔ یزید کا بیٹا معاویہ بن یزید جب تخت نشین ہوا ہے تو وہ گھر
سے باہر چھ ماہ نہیں نکلا؛ اس کا جنازہ ہی نکلا۔ لوگوں نے کہا تھا آیئے نا
! تخت پہ بیٹھیے ۔ کہا: مَیں اس تخت پہ نہیں بیٹھنا چاہتا جس سے آلِ پیغمبر
کے قتل کی بو آرہی ہو؛ مَیں اس تخت پہ نہیں بیٹھنا چاہتا۔ اور پھر اس کا
تخت سمٹ گیا۔ اس کا نام مٹ گیا کلنج کے مرض سے تڑپتا ہوا مرا۔ اور انتہائی
ذلت کی موت مرا۔ رسوا ہوگیا اس کا نام بھی باقی نہیں ہے۔
مَیں گزشتہ برس کربلامیں حاضر ہوا تو امام حسین کا چمکتا ہوا روضۂ نور
دیکھا ۔ وہ لمحے بڑے درد ناک تھے جب ہم کربلا میں پہنچے اور رات کا موقع
تھا تو ہمارے ڈرائیور نے کہا کہ یہ نہرِ فرات ہے۔ وہ نہرِ فرات کہ چمکتی
رہی اور جس کی لہریں اچھلتی رہیں اور کربلا کا یہ مقدس قافلہ پیاسا رہا۔ تو
قلب میں کیفیات کا ایک عجیب جہان تھا۔ یہ تو امام حسین کا روضہ ہے نا۔ لیکن
یزید کا نشان نہیں ملا۔ مَیں نے تاریخ کی کتب میں ڈھونڈا کہ یزید کی قبر
کہاں ہے؟ تو مجھے تاریخ نے بتایا کہ’’ مسفلۂ دمشق‘‘دمشق میں کوئی جگہ ہے
جہاں لوگ کوڑا پھینکتے ہیں۔ اس کوڑے کے نیچے کہیں یزید کی قبر ہے۔ نشان بھی
نہیں ہے کہ کہاں ہے؟ لیکن اتنا پتا ہے کہ اس روہڑی کے نیچے یزید کی قبر ہے۔
یزید کی قبر مسفلۂ دمشق میں ہے۔ اور امام حسین کا قبضہ آج بھی کربلا پہ ہے۔
یزید کا نام مٹ گیا؛اس کا تشخص مٹ گیا۔ امام حسین کا نام بھی باقی ، آپ کا
ذکر بھی باقی اور آپ کے تذکروں کے خوش بو بھی باقی۔
تو یہ شخصی لڑائی نہیں تھی۔مَیں نے اس سے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ طرح بن
عدی بن حاتم نے تیس ہزار لوگوں کے پشت پہ کھڑے ہونے کی بات کہی تھی لیکن
امام نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا تھا اس لیے کہ آپ حق اور باطل کی راہیں
اُجالنا چاہتے تھے اور وہ انہوں نے اُجال لیں۔
حضرت امام حسین کی شہادت کے بعد بھی یہ جنگیں جاری رہیں۔ مالک اشتر کی
قیادت میں مختار ثقفی کی فوجیں ابن زیاد کی فوجوں کے مقابلے میں فرات کے
کنارے لڑ رہی تھیں۔ اﷲ تعالیٰ نے فتح دے دی۔ ابن زیاد نے گھوڑے کو ایڑ
لگائی اور میدان چھوڑ کے بھاگ گیا۔ باقی جو بھی قابو میں آتا اسے پکڑ کر
قتل کردیا جاتا۔ خیر یہ لوگوں کی پہنچ سے بہت دور نکل گیا تھا۔ لیکن اس کا
جی گھبرا رہا تھا۔ پیاس کی شدت تھی۔ گھوڑا بھی ہانپ رہا تھا۔ تو یہ چلتے
چلتے صحرا میں گیا تو اس نے دیکھا کہ ایک خیمہ ہے تو سوچا کہ مَیں چلتے
چلتے ان سے پانی کا گھونٹ مانگ لوں تاکہ اپنے جگر کی پیاس بجھا سکوں ۔ اس
نے گھوڑا کھڑا کیا اور ہانپتا ہوا پردہ اُٹھایا ؛ دیکھا تو خیمے میں امام
زین العابدین قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔
جب ابن زیاد نے دیکھا تو شرم سے پانی پانی ہوگیا۔ لیکن مرتا کیا نہیں کرتا۔
پیاس کی شدت تھی۔ کہا حضرت ! پانی دیجیے۔ امام زین العابدین نے دیکھا اور
پھر گھڑے سے کٹورہ بھرا اور اس کے ہاتھ میں تھمایا۔ اس نے سمجھا کہ حضرت نے
مجھے پہچانا نہیں۔ پانی پی لیا۔ شدت کی پیاس تھی۔ پھر مانگا۔ آپ نے پھر سے
دیا۔ تیسری مرتبہ پھر مانگا؛ آ پ نے پھر سے دیا۔ تین کٹورے پانی کے پینے کے
بعد امام زین العابدین سے کہنے لگا حضرت! شاید آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔
امام زین العابدین ابھی تک ضبط کیے ہوئے تھے۔ آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو
نکلے۔ کہا ؛بد بخت تجھے نہیں جانتا! جس نے میرا خاندان اجاڑ دیا۔ چھ ماہ کے
بچے بھی نہ چھوڑے۔ جس نے مخدرات کو اونٹوں پہ بٹھایا! کیا تجھے مَیں نہیں
جانتا جس نے خاندانِ نبوت اُجاڑ دیا! …… ابن زیاد نے کہا حضرت! اگر جانتے
ہیں تو میرے ساتھ یہ سلوک کیوں کِیا؟…… امام زین العابدین نے کہا ایک دن ہم
مہمان بن کے تمہارے گھر آئے تھے۔ جو تم نے کیا وہ تمہارے خاندان کی ریٖت
تھی۔ آج مہمان بن کے ہمارے دروازے پہ تم کھڑے ہو جو ہم کررہے ہیں وہ ہمارے
خاندان کی ریٖت ہے۔
تو یہ شخصی لڑائی نہیں تھی بلکہ نظریات کا تصادم تھا۔ امام حسین رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ جو چاہتے تھے وہ
ہوا۔ حق اور باطل کی سرحدیں بالکل واضح ہوگئیں۔
نہ یزید کا وہ ستم رہا، نہ زیاد کی رہی وہ جفا
رہا تو نامِ حسین جسے زندہ رکھتی ہے کربلا
(ماخوذ از افاداتِ مصطفائی، زیر ترتیب)
٭٭٭ |