مزدور بے چارگی سے گھر کے مالک کو اپنےکیے ہوئے کام گنوا
رہا تھا،،،مالک مکان یا
مالک محل اس وقت حاکمِ وقت بنا ہوا ہے،،،جیسے آج کے دن کےلیے وہ خدا ہو،،،
اس نے بڑی حقارت سے اسے دیکھا،،،گندے سے آلودہ لباس میں اس کے چہرے پر صرف
آنکھیں نظر آتی تھیں،،،مالک گلابی رنگ کا ہو رہا تھا،،،وہ مزدور کو اس کے
کام اور اس کی
اوقات کم سے کم بتا رہا تھا،،،اس نے حقارت سے چند روپے اس کے ہاتھ میں دے
دئیے،،،
وہ مایوس سا دل برداشتہ نظر آ رہا تھا۔۔
مالک پاؤں پٹختا ہوا بڑے سے گیٹ کو کھول کر اس میں غائب ہو گیا تھا،،،
مزدور نے آسمان کی طرف دیکھا،،،اک بار ہی کیوں نہیں مار دیتا۔۔۔
سرکاری ہسپٹل کے ڈاکٹر نے لمبی سی لائن دیکھی،،،پھر اس خزاں رسیدہ سی لڑکی
کو دیکھا
جو اکیس میں اکتالیس کی لگ رہی تھی،،،ڈاکٹر نے اس کی جانب دیکھا تک نہیں،،،
سادہ سی پرچی پر لکھنےکو تیار ہو گیا،،،جب کچھ سیکنڈز آواز نہیں آئی،،،تو
نفرت اور غصے
سے کہا،،،اوہ بی بی! اتنی لمبی لائن ہے،،،میں نے سارا دن آپ کا دکھڑا نہیں
سنتے رہنا،،،
پھر اس نے ہرپانچ منٹ بعد حسبِ عادت اپنی کلائی کی گھڑی کی طرف دیکھا۔۔
لڑکی نے بوڑھی ماں کو بمشکل بٹھایا،،،اور ڈاکٹر کو اس کی تکلیف بتانے
لگی،،،
اس نے سامنے بیٹھے فرعون کی طرف دیکھا،،،خود میں ہمت جمع کی،،،ڈاکٹر
صاحب!!!
بہت دور سے آتے ہیں،،،ماں چل بھی نہیں سکتی،،،یہ پانچواں ہفتہ ہے ہر ہفتے
آنا ہوتا ہے
کرائے کے پیسے بھی نہیں ہوتے،،،مجھے گھروں میں کام سے چھٹی کرنا پڑتی ہے،،،
آپ مہربانی کیجئے،،،ماں کو اچھی طرح سے دیکھ لیجئے،،،
کتنی عمر ہے مریضہ کی؟؟؟
لڑکی نے سوچ کربولا،،،جی چھپن سال،،،ڈاکٹر طنزیہ انداز میں بولا،،،اور کتنا
جینا ہے،،،بہت ہے
آبادی بہت ہے ویسے بھی،،،،ماں نے بات سن لی،،،اپنے بیٹےکی عمر کے ڈاکٹر کو
دیکھا
اک بار مار ہی کیوں نہیں دیتا،،،روز روز مرناپڑتا ہے۔۔
ڈاکٹر نے حیرت سےبڑھیا کو دیکھا،،،حقارت سے بولا،،،یہ لو پرچی،،،دوائیاں
باہر میڈیکل سٹور
سے لے لینا،،،
اک بار ہی مار کیوں نہیں دیتا
روح کو جسم سے نکال کیوں نہیں دیتا
عجب ہے آدم عجب دستور
کیا کرو گے جب نہ ہوگا مزدور
اک دن ملے گاخاک میں تمہارا غرور
|