تاریخ اسلام میں جو نام صدیوں سے جگمگا رہا ہے اور تا ابد
جگمگاتا رہے گا وہ پیغمبر اعطم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ
وسلم کے چہیتے نواسے سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا ہے ۔ آپ نے طلم و
جبر کے سامنے جھکنے سے انکار کیا اور اس ضمن میں سر کٹانا تو گوارہ کر لیا
مگر اپنے موقف پر قائم رہ کر ہمت و استقامت کی ایک لا زوال مثال قائم کی ۔
کوفہ کے لوگوں نے بدعہدی کی اور آپ کاساتھ چھوڑ دیا مگرپھر بھی آپ نے اپنے
موجودہ جاں نثاروں سے یہی کہا کہ ان میں سے اگر کوئ انہیں چھوڑنا چاہتا ہے
تو اس کو اجازت ہے ‘ مگر چشم فلک نے دیکھا کہ جن کے جذبے صادق تھے وہ آخر
دم تک ڈٹے رہے اور تاریخ میں اپنے ناموں کو امر کر لیا ۔ بر خلاف اس کے
مخالف قوتوں کے لوگ جو اگرچہ کہنے کو مسلمان تھے مگر ان کو اب تک ملامت اور
نفرت کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا ۔
علامہ اقبال نے کیا خوب خراج عقیدت پیش کیا:- “ انسان کو بیدار تو ہو لینے
دو ‘ ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین “۔
ویسے بھی ایمان کا تقاضہ تو یہی ہے کہ صحابہ کرام اور اہل بیت طہار سے بغض
رکھنے کی بجائے ان کی محبت اور تعلیمات کو اپنی زندگی کے مشن میں شامل کیا
جائے تاکہ اسلام ہم سے جس عملی پیکر کا تقاضہ کرتا ہے اس پر ہم پورے اتر
سکیں ۔
|