حضرات شیخین ؓ کے دشمنوں کا انجام
گستاخوں کی سازش اور ان کا انجام
خلاصۃالوفاء میں علامہ طبری کے حوالہ سے منقول ہے۔صاحب خلا صۃ الوفاء نے
بیان کیا ہے کہ مجھے ہارون بن عمر بن رغب (جو ایک ثقہ عالم دین ہیں)نے بیان
کیا ہے وہ اپنے والد محترم سے روایت کرتے ہیں۔وہ فرماتے ہیں کہ مجھے شمس
الدین صواب اللمطی جو کہ خدام مسجد نبوی کے سردار تھے نے بیان کیا ہے۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ آ ج میں تمہیں ایک عجیب واقعہ بیان کرتا ہوں۔میرا
ایک ساتھی تھا جو بادشاہ کی مجلس میں جایا کر تا تھا اور میرے لئے اہم
خبریں لے کر آتا تھا۔ایک دن میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آج ایک عظیم
واقعہ رونما ہوا ہے۔حلب سے کچھ لوگ آئے انہوں نے امیرکو بہت سا مال
دیا۔تاکہ وہ ان کے لئے حجرۂ مباکہ کادروازہ کھول دے،اور وہ وہاں سے حضرت
ابوبکر صدیق ؓ و حضرت عمر فاروق ؓکے مبارک جسموں کو نکال کر لے جائیں۔امیر
بھی ان کا ہم مذہب ہے۔
کچھ دیر بعد میر ے پاس امیر کا قاصد آیا اور مجھے بلا کر لے گیا امیر نے
مجھ سے کہا اے صواب!آج رات کچھ لوگ مسجد نبوی کے دروازے پر دستک دیں گے۔تم
ان کے لئے دروازہ کھول دینا اور ان کے ارادہ کی تکمیل کے لئے ہر ممکن تعاون
کرنا۔میں نے کہا آپ کی ہر بات پر عمل کیا جائے گا۔یہ سننے کے بعد میں روضۂ
رسول ﷺ کے پیچھے چلا گیا اور جی بھر کر رویا۔پھر میں نے عشاء کی نما ز ادا
کی اور تمام دروازوں کو بند کردیا، تھوڑی ہی دیر بعد باب السلام پر دستک
ہوئی۔میں دروازہ کھول دیا۔ایک ایک کر کے چالیس افراد اندر آئے ان کے پاس
اسلحہ، کدالیں،شمعیں اور کھودنے کے آلات تھے۔ وہ سیدھے حجرۂ مباکہ کی سمت
بڑھنے لگے۔اللہ کی قسم! وہ لوگ جونہی منبر رسول تک پہنچے تو زمیں نے ان کو
نگل لیا ان کے ساتھ ان کا سازوسان بھی زمین میں دھنس گیا۔امیران لوگوں کا
بے تابی انتظار کرتا رہا، باالآخر اس نے مجھے بلایا اور کہا اے صواب!کیا
تیرے پاس وہ لوگ نہیں آئے تھے۔میں نے کہا وہ لوگ آئے تھے لیکن تمام کے تمام
زمین میں دھنس گئے۔امیر نے مجھ سے کہا غور کرو تم کیا کہہ رہے ہو۔میں نے
کہا ان کی تباہی ایک حقیقت ہے۔اس نے کہا اٹھو اور مجھے وہ جگہ دکھاؤجہاں ان
کو زمین نے نگل لیا۔اگر یہ واقعہ جھوٹا ہوا تو میں تمہیں قتل کر دوں گا۔
میں نے امیر کو دعوت دی کہ وہ اپنی آنکھوں سے موقع دیکھے۔امیر نے اس جگہ کو
دھنسا ہو ا پایا،تومجھ سے کہنے لگا۔تم اس معاملے کے بارے میں زبان نہ
کھولنا،ورنہ میں تمہارا سر اڑا دوں گا۔
مطری کہتے ہیں میں نے یہ واقعہ ثقہ کے سامنے بیان کیا اس نے کہا ایک دن میں
شیخ ابو عبداللہ القرطبی کے پاس تھا۔شیخ شمس الدین صواب نے وہاں یہ واقعہ
بیان کیا۔ابو عبداللہ بن ابی عبداللہ نے ”تاریخ مدینہ“میں اس واقعہ کو
اختصار کے ساتھ لکھا ہے۔وہ فرماتے ہیں میں نے اس واقعہ کو اپنے والد محترم
سے سنا ہے۔ وہ فر ماتے ہیں میں نے یہ واقعہ حجرۂ مباکہ کے خادم سے سنا ہے۔
(حجۃاللہ علی العالمین،جلد دوم،صفحہ نمبر:۱۹۴)
اے فاسق تو اس منزل میں مسخ ہو جائے گا
امام مستغفری ؓ نے کتاب ”دلا ئل النبوۃ“میں بیان کیا ہے کہ تین آدمی یمن کو
جاتے تھے۔ایک شخص کو فہ کا تھا وہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ اور حضرت عمر فاروق
ؓ کو برا بھلا کہا کرتا تھا، ہر چند اسے منع کرنے پر باز نہ آتا تھا۔جب یمن
کے نزدیک پہنچے تو ایک جگہ اتر کر سو رہے، جب کوچ کا وقت آیا تو سب نے اٹھ
کر وضو کیا اور اس (گستاخ)شخص کو بھی جگا یا وہ اٹھ کر کہنے لگا افسوس میں
تم سے جدا ہو کر اسی منزل میں رہ جاؤں گا۔ ابھی میں نے سید الصادقین ﷺ کو
خواب میں دیکھا کہ آپ ﷺ میرے سر پہ کھرے فرما تے ہیں کہ اے فاسق تو اسی
منزل میں مسخ ہو جائے گا!۔ہم نے کہا وضو کر،اس نے پاؤ ں سمیٹے۔ہم نے دیکھا
کہ وہ انگلیوں سے مسخ ہونا شروع ہوا،اس کے دونوں پاؤں بندر کے ہو گئے،پھر
گھٹنوں تک، پھر کمر تک،پھر سینہ،سر اور منہ تک پہنچا، پھر وہ (گستاخ
شخص)بالکل بندر بن گیا۔ہم نے اس کو پکڑ کر اونٹ پر باندھ دیا اور وہاں سے
روانہ ہوئے۔غروب آفتاب کے وقت ایک جنگل میں پہنچے وہاں چند بندر جمع تھے
انہیں دیکھ کروہ رسی تڑوا کر ان بندروں میں جا ملا۔
(دلائل النبوۃ مستغفری ؓ۔ مجموعہ سعادت،ص:۲۲۲۔شواہد النبوت،ص: ۸۶۲۔شاہ ولی
اللہ اور ان کی سیاسی تحریک،از مولانا عبید اللہ سندھی،ص:۰۹۱۔)
اس گستاخ کی گردن اڑا دو
ایک نیک شخص حج کے لئے روانہ ہو۔زائد سامان بغداد کے ایک زاہد کے پاس رکھ
گیا۔رخصت کے وقت زاہد نے اس سے کہا کہ جب مدینہ منورہ پہنچو تو شفیع امت
ﷺسے میرا سلام عرض کرنا اور یہ بھی کہنا کہ اگر آپ ﷺکے دونوں ہم پہلو نہ
ہوتے تو میں ہر سال آپ ﷺ کی زیارت کو آتا۔مدینہ طیبہ پہنچ کر اسے رسالتمآب
ﷺکی زیارت نصیب ہوئی کیا دیکھتا ہے کہ آپ ﷺکی مجلس میں حضرت صدیق اکبر ؓ ا
ور حضرت فاروق اعظمؓ بھی موجود تھے۔آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ کو جو وہاں موجود
تھے فرمایا:فلان شخص کو حاضر کرو۔وہ شخص فوراً رحمت کائنات ﷺکے سامنے پیش
کیا گیا۔ارشادفرمایا: اس گردن اڑا دو!۔ حضرت علی ؓ نے فوراً اس کا سر قلم
کر دیا اس کے خون کے تین قطرے میرے کپڑوں پر آلگے۔جب میری آنکھ کھلی تو خون
کے وہ قطرے میرے کپڑوں پر موجود تھے۔جب میں واپس بغداد پہنچا تو اس کا
ہمشکل بیٹامجھے ملا میں نے اس سے زاہد کی بابت دریافت کیا۔اسکے بیٹے نے کہا
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ وہ گھر میں سویا ہوا تھا کہ اچانک کوئی شخص اسے اٹھا
کر لے گیا اس کے بعد اس کا کہیں پتہ نہ چلا۔
میں نے خواب کی کیفیت اور اس کے قتل کا واقعہ اس کے بیٹے کو سنایا، وہ یہ
سن کر رونے لگااور حضرات شیخین ؓ کی دشمنی سے توبہ کی۔ میرا سامان مجھ کو
واپس کر دیا۔
(خیر الموانس،جلد:دوم، ص: ۷۶۳)
حضرت عثمان غنی ؓ کے گستاخ کی سزا
میرا جہنم میں داخل ہونا باقی رہ گیا ہے
حضرت ابو قلابہ ؓ کا بیان ہے کہ میں ملک شام کی سر زمین میں تھا تو میں نے
ایک شخص کو بار بار یہ صدا لگاتے ہوئے سنا کہ ”ہائے افسوس! میرے لئے جہنم
ہے“ میں اٹھ کر اس کے پاس گیا، تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس شخص کے
دونوں ہاتھ اور پاؤں کٹے ہوئے ہیں اور وہ دونوں آنکھوں سے اندھا ہے،اور
چہرے کے بل زمین پر اوندھا پڑھا ہوا باربار لگا تار یہی کہہ رہا ہے کہ
”ہائے افسوس! میرے لئے جہنم ہے“ یہ منظر دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں
نے اس سے پو چھا کہ اے شخص! تیرا کیا حال ہے ؟ کیوں اور کس بناء پر تجھے
اپنے جہنمی ہونے کا یقین ہے؟ یہ سن کر اس نے کہا۔ اے شخص میرا حال نہ
پوچھ۔میں ان بد بخت لوگوں میں سے ہوں جو امیرالمومنین حضرت عثمان غنی ؓ کو
قتل کرنے کے لئے ان کے مکان میں گھس پڑھے تھے۔میں جب تلوار لے کر ان کے
قریب پہنچا تو ان کی بیوی صاحبہ نے مجھے ڈانٹ کر شور مچانا شروع کر دیا۔میں
نے ان کی بیوی صاحبہ کو ایک تھپڑ مار دیا۔یہ دیکھ امیرالمومنین حضرت عثمان
غنی ؓ نے یہ دعا مانگی کہ ”اللہ! تیرے دونوں ہاتھوں اور دونوں پاؤں کو کا ٹ
ڈالے،اور تیری دونوں آنکھوں کو اندھی کر دے اور تجھ کو جہنم میں جھونک دے“
اے شخص! میں امیر المومنین ؓ کے پر جلال چہرے کو دیکھ کر اور ان کی اس
قاہرانہ بد دعاکو سن کر کانپ اٹھااور میرے بدن کا ایک ایک رونگٹا کھڑا ہو
گیا اور میں خوف و دہشت سے کاپنتے ہوئے وہاں سے بھا گ نکلا۔امیر المومنین ؓ
کی چار دعاؤں میں سے تین کی زد میں آچکا ہوں۔ تم دیکھ رہے ہو کہ میرے دونوں
ہاتھ اور دونوں پاؤں کٹ چکے اور دونوں آنکھیں اندھی ہو چکی ہیں۔ اب صرف
چوتھی دعا یعنی میرا جہنم میں داخل ہونا باقی رہ گیا ہے اور مجھے یقین ہے
کہ یہ بھی یقیناً ہو کر رہے گا۔ چنانچہ اب میں اسی کا انتظار کر رہا ہوں
اور اپنے جرم کو بار بار یاد کر کے نادم و شرمسار ہو رہا ہوں اور اپنے
جہنمی ہونے کا اقرار کررہاہوں۔
(ازالۃ خلفاء،:جلد:دوم۔ص:۷۲۲)
نوٹ: یہ سزا صرف دنیا میں حضرت عثمان غنی ؓ کی بیوی سے بد کی ہے۔تو ان بد
بختوں کی دنیا اور آخرت میں سزا کا خود اندازہ لگا لیں۔ جنہوں نے حضرت
عثمان غنی ؓ کو قتل کیا اور قتل میں شریک ہوئے۔
حضرت علی المرتضی ؓ کے گستاخوں کی سزا
اس گستاخ کو ذبح کر دو
مولانا عبدالرحمن جامی اپنی کتاب”شواہد النبوۃ“میں تحریر فرماتے کہ امام
مستغفری نے اپنی کتاب ”دلائل النبوت“میں بیان کیا ہے کہ ایک نیک و پرہیز
گار بزرگ نے خواب میں دیکھا قیامت قائم ہے۔ تمام لوگ حساب کتاب کے لئے
بلائے جارہے ہیں۔میں پل صراط سے گزر گیا اور دیکھا کہ سید الانبیاء ﷺ حوض
کو ثر پر کھڑے ہیں۔حسنین کریمین ؓ لوگوں کو آب کو ثر پلا رہے ہیں۔ لیکن
مجھے پانی پلانے سے انکار کر دیا،میں سید کونین ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر
ہوا اور عرض کی کہ حسنین ؓ نے مجھے پانی پلانے سے انکار کر دیا ہے۔اس پر آپ
رحمت العالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا!تیرا ایک ہمسایہ ہے۔ جو علی کو برا بھلا
کہتا ہے اور تو اس کو منع نہیں کرتا،میں عرض کی وہ قوی ہے مجھ میں اتنی
طاقت نہیں کہ اسے روک سکوں وہ مجھ کو مار ڈالے گا۔حضور پر نور ﷺ نے مجھ کو
چھری عنایت فرمائی اور فرمایاجاکر اس کو اس سے ذبح کردے!۔میں نے خواب ہی
میں اس کو ذبح کر ڈالا اور نبی پاک ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں
نے اس کو قتل کر ڈالا ہے۔تب آپ ﷺ نے حضرت حسن ؓ سے فرمایا اس کو آب کو ثر
پلادو۔جس پر انہوں نے مجھے پانی کا پیالہ عنایت فرمایا لیکن یاد نہیں پانی
پیا کہ نہیں اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔نہایت خوف زدہ تھا جلدی سے وضو کر
کے نماز میں مشغول ہوگیا۔دن نکل آیا کہ لوگوں کا شور و غل سنا کہ فلاں آدمی
کو اس کے بستر پرکوئی قتل کردیاگیا۔حاکم کے پیادے ہمسائیوں کو پکڑ کر لے
گئے۔میں نے دل میں سوچا اللہ پاک ہے یہ تو وہ ہی خواب ہے جو میں نے دیکھا
ہے،جلدی سے جاکر حاکم کو سارا ماجرا کہہ سنایا۔حاکم نے سن کر کہا اللہ
تعالی تمہیں کی جزا دے۔”خیر اب اٹھو اور اپنا راستہ لو کہ تم واقعی بے گناہ
ہو“یہ سب لوگ جنہیں میرے سپاہی گرفتار کر کے لائے ہیں بے قصور ہیں۔
(شواہدالنبوۃ،از مولانا عبدالرحمن جامی۔ص:۴۴۔دلائل النبوت۔از امام مستغفری)
اس شخص کا منہ سور کا ہو گیا
شا م کے ایک شخص کا منہ سور کا ہو گیا لوگوں نے اس کا سبب پوچھا۔ اس نے
بتایا کہ میں امیر المومنین علی المرتضیؓپر ہر روز ہزار مرتبہ اور جمعہ کے
روز چار ہزار مرتبہ لعنت کرتا تھا۔(نعوذ با اللہ)اور ان کی اولاد کو بھی
شریک کر لیتا تھا۔ایک رات سید کائنات ﷺکو خواب میں دیکھا۔کہ حضرت حسین ؓ آپ
ﷺ سے میری شکایت کر رہے ہیں۔
رسول مقبول ﷺنے مجھ پر لعنت کرکے میرے منہ پر رھوک دیا۔ جس جگہ پر آپ ﷺ کا
تھوک پڑا اتنا جسم سور کا سا ہوگیا۔
(الصواعق المحرقہ،از :علامہ ابن حجر مکی)
ایک خارجی کی ہلاکت
ایک گستاخ نے حضرت علی ؓ کو گالی دی (نعوذ با اللہ)حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ
یہ سن کر رنج و غم میں ڈوب گئے اور جو ش میں آکر یہ دعا کی ”یا اللہ! اگریہ
تیرے اولیا ء میں سے ایک ولی کو گالیاں دے رہا ہے۔تو اس مجلس کے برخاست
ہونے سے قبل ہی اس شخص کو اپنا قہر و غضب دکھا دے“۔آپ ؓ کی زبان اقدس اس
دعا کا نکلنا تھا کہ اس مردود کا گھوڑا بدک گیا اور وہ پتھروں کے ڈھیر میں
منہ کے بل گر پڑا اور اس کا سر پاش ہو گیا۔جس سے وہ ہلاک ہو گیا۔
(حجۃ اللہ علی العالمین،جلد: دوم۔ص:۶۶۸)
دشمن صحابہ کا عبرت ناک انجام
ایک شخص حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے سامنے صحابہ کرام ؓ کی شان میں گستاخی و
بے ادبی کے الفاظ بکنے لگا۔ آپ ؓ نے فرمایا: کہ تم اپنی اس خبیث حرکت سے
باز رہو، ورنہ میں تمہارے لئے بد دعا کروں گا۔ اس گستاخ وبے باک نے کہہ دیا
کہ مجھے تمہاری بد دعاکی کوئی پروا نہیں۔تمہاری بد دعا سے میرا کچھ بھی
نہیں بگڑسکتا۔یہ سن کر آپ ؓ کو جلال آگیا اور آپ ؓ نے اس وقت یہ دعا مانگی
کہ ”اے اللہ! اگر اس شخص نے تیرے پیارے نبی ﷺ کے پیارے صحابہ ؓ کی توہین کی
ہے، تو آج ہی اس کو اپنے قہر کی نشانی دکھادے تاکہ دوسروں کو اس سے عبرت
حاصل ہو۔اس دعا کے بعد جیسے ہی وہ شخص مسجد سے باہر نکلا،تو بالکل ہی اچانک
ایک پاگل اونٹ کہیں سے دوڑتا ہوا آیا اور اس گستاخ شخص کو دانتوں سے
پچھاڑدیا اور اس کے اوپر بیٹھ گیا۔یہ منظر دیکھ کر لوگ دوڑ دوڑ کر حضرت سعد
ؓ کو مبارک باددینے لگے کہ آپ ؓ کی دعا مقبول ہوگئی اورصحابہ کرام ؓ کا
دشمن واصل جہنم ہوگیا۔
(دلائل النبوۃ،جلد:۳،ص:۷۰۲۔حجۃ اللہ علی العالمیں،جلد: ۲، ص:۶۶۸) |