اسلامی سال کا آغاز ماہ محرم سے ہوتاہے ،یہ مہینہ
اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں اسلام کی عظیم ترین ہستیوں خلیفہ راشد
امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروقؓ اور نواسہ رسولؐ جگر گوشہ بتول جنت کے پھول
سیدنا حسین ؓ نے جام شہادت نوش کیا۔سیدنا عمرؓ نے اسلامی خلافت کی مضبوطی و
استحکام کیلئے مثالی قوانین واضع کرنے کے ساتھ عملی اقدامات کیے کہ انسان و
حیوان سب کے حقوق کی نگہداشت کا مکمل انتظام کیا کہ کسی بھی ذی روح پر ظلم
و عدوان کی اجازت نہ دیتے تھے۔ جبکہ سیدنا حسین ؓ نے نبی اکرمؐ کی آغوش میں
اولین تربیت پائی جس کے نتیجہ میں اسلام کے دشمنوں اور براچاہنے والوں کے
سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے کہ شمر ذی الجوشن نے انہیں ہمرایوں کے ساتھ
شہید کردیا ۔یہ ایک ایسا افسوسناک واقعہ ہے کہ جس کے اثرات آج بھی مسلمانوں
پر اثرانداز ہورہے ہیں۔اور اس واقعہ کے نتیجہ میں ملت اسلامیہ منقسم ہوگئی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی کامیابی کا دارومدار نبی اکرمؐ کی پاک جماعت
اور آل اطہار کی بیک وقت محبت و عقیدت کو سینہ میں جاگزیں کرنے میں مضمر
ہے۔جیساکہ ہمارے آقا و مولاؐ کا ارشادِ پاک ہے کہ جب تک تم قرآنِ کریم اور
میرے اہلِ بیت ِ پاک سے اپنا تعلق ، اپنا رشتہ اور اپنی نسبت مضبوط رکھو گے
گمراہ نہ ہو گے اور میرے صحابہ رضوان اﷲ تعالی ٰ علیھم اجمعین ستاروں کی
مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے ۔ بالخصوص نواسہ رسول ؓحضرت
امام حسین ؓ کی عظیم اور تابناک قربانی قیامت تک آنے والی انسانیت کے لئے
مشعلِ راہ ہے ۔ حضرت امام عالی مقام ؓ نے حق و صداقت، عشقِ الہی و عشقِ
رسول ؐکی جو عظیم داستان اپنے اور اپنے عظیم خانوادے کے لہو سے رقم کی وہ
ہمیشہ تاریخ میں سنہرے حروف سے نقش رہے گی اور خیر و شر کے درمیان کسوٹی کا
کام دیتی رہے گی ۔ حضرت امام عالی مقام ؓ نے اپنی عظیم قربانی سے یہ سبق
دیا کہ حق و صداقت کے راستے میں آنے والی تمام مشکلات عارضی ہوتی ہیں اور
حق و صداقت پر استقامت سے قائم رہنے والوں کے لئے حیات ِ ابدی ، لازوال
عروج اور عزت ہے ۔ آج بھی امت مسلمہ فلسفہ حسینی ؓ پر کاربند ہو کر اور
اپنے روحانی مرکز مدینہ منورہ کی جانب سچے دل اور خلوص ِ نیت سے رجوع کر کے
درپیش تمام مسائل و چیلینجز سے نبردآزما ہو سکتی ہے اور اقوامِ عالم کے
درمیان اپنا کھویا ہوا وقارومقام دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔ |