میدان کربلا میں چمن اسلام کی آبیاری کے لیے خانوادۂ
نبوت کے متعدد افراد اور رفقائے کار نے جام شہادت نوش کیا۔ اقربااوررفقا کے
جام شہادت نوش فرمانے کے بعد امام عالی مقام، راکب دوش رسول، شہزادۂ بتول،
حضرت علی کے نور نظر، جنتی نوجوانوں کے سردار، شہنشاہ کربلا، پیکر صبر ورضا
حضرت سیدنا امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ باقی تھے۔سیدناامام حسین رضی اﷲ
عنہ نے اپنے فرزند ارجمند عابد بیمار حضرت زین العابدین رضی اﷲ عنہ کو تمام
ذمہ داریوں کا حامل کیا، اپنی دستار مبارک اتار کر ان کے سر پر رکھی اور اس
صبر ورضا کے پیکر کو بستر علالت پر لٹا دیا۔ اب امام پاک اپنے خیمہ میں
تشریف لائے، صندوق کھولا، قبائے مصری زیب تن فرمائی، اپنے ناناجان کا عمامہ
مبارک سر پر باندھا، سید الشہدا حضرت امیر حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ڈھال
پشت پر رکھی، شیر خدا حضرت سیدنا علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تلوار ذو
الفقار گلے میں حمائل کی اور حضرت جعفر طیار کا نیزہ ہاتھ میں لیا اور اپنے
برادر اکبر سیدنا امام حسن کا پٹکا کمر میں باندھا۔ اس طرح شہیدوں کے آقا،
جنتی نوجوانوں کے سردار سب کچھ راہ حق میں قربان کردینے کے بعد اب اپنی
جانِ عزیز کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اہل خیمہ نے اس منظر کو
کس آنکھوں سے دیکھا ہوگا، ان کا سردار ان سے طویل عرصہ کے لیے جدا ہونے
والا ہے، ناز کے پالوں کے سرو ں سے شفقت پدری کا سایہ اٹھنے والا ہے،
نونہالان اہل بیت کے گرد یتیمی منڈلا رہی ہے، ازواج کا سہاگ رخصت ہورہا ہے،
بیکس قافلہ حسرت بھری نگاہوں سے امام کا چہرہ دیکھ رہا ہے، نورانی آنکھوں
سے آنسو جاری ہیں، حضرت امام پاک نے اہل بیت اطہار کو خدا کے سپرد فرمایا،
سب کو صبر وشکر کی تلقین فرمائی اور سب کو اپنا آخری دیدار کرایا اور آخری
سلام کرکے گھوڑے پر سوار ہوگئے۔
تین دن کے بھوکے پیاسے اور اپنی نگاہوں کے سامنے اپنے بیٹیوں، بھائیوں،
بھتیجو ں اور جانثاروں کو راہِ حق میں قربان کردینے والے امام پہاڑوں کی
طرح جمی ہوئی فوجوں کے مقابلے میں شیر کی طرح ڈٹ کر کھڑے ہوگئے اور میدان
کربلامیں ایک ولولہ انگیز رِجز پڑھی جو آپ کے نسب اور ذاتی ناخوشی وناراضگی
اور ظلم کے انجام سے ڈرانا تھا، اس کے بعد آپ نے ایک فصیح وبلیغ تقریر
فرمائی، اس میں آپ نے حمدو صلوٰۃ کے بعد فرمایا:
’’اے لوگو! تم جس رسول کا کلمہ پڑھتے ہو اسی رسول کا ارشاد ہے کہ جس نے حسن
وحسین سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے مجھ سے دشمنی کی اس نے
اﷲ تعالیٰ سے دشمنی کی۔ تو اے یزیدیو! اﷲ تعالیٰ سے ڈرو اور میری دشمنی سے
باز آؤ، اگر واقعی خدا اور رسول پر ایمان رکھتے ہو تو ذرا سوچو، اس خدائے
سمیع وبصیر کو کیا جواب دوگے ؟ اور محسن اعظمﷺکو کیا منہ دکھاؤ گے ؟ اپنے
رسولﷺکے لاڈلوں کا گھر اجاڑنے والو! اپنے انجام پر نظر کرو۔ بے وفاؤ! تم نے
مجھے خطوط اور قاصد بھیج کر بلایا اور کہا کہ ہماری رہنمائی فرمایئے ورنہ
ہم خدا کے حضور آپ کا دامن پکڑ کر شکایت کریں گے، اس لیے میں چلاآیا اور جب
میں یہاں آگیا تو تم نے میرے ساتھ برا سلوک کیا اور مظالم کی انتہا کردی۔
ظالمو! تم نے میرے بیٹوں، بھائیوں اور بھتیجوں کو خاک وخون میں تڑپایا،
میرے رفقا کو شہید کیا اور اب میرے خون کے پیاسے ہو۔ اے یزیدیو! سوچوکہ میں
کون ہوں ؟ کس کا نواسہ ہوں ؟ میرے والد گرامی اور میری والدہ صاحبہ کون
تھیں؟بے غیرتو! اب بھی وقت ہے شرم سے کام لو اور میرے خون سے اپنے ہاتھ کو
رنگین کرکے اپنی عاقبت برباد نہ کرو۔ اتنے میں یزیدی لشکر سے شور اٹھا اور
کسی ظالم نے کہا :اے حسین! ہم کچھ سننا نہیں چاہتے، آپ کے لیے سیدھا راستہ
یہ ہے کہ آپ یزید کی بیعت کرلیجیے یا پھر جنگ کے لیے تیار ہوجایئے۔ امام
عالی مقام نے فرمایا: اے بد بختو!مجھے خوب معلوم ہے کہ تمہارے دلوں پر مہر
لگ چکی ہے اور تمہاری غیرت ایمانی مردہ ہوچکی ہے۔ اے یزیدیو! میں نے یہ
تقریر صرف اِتمامِ حُجت کے لیے کی تھی تاکہ کل تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم نے
حق اور امام برحق کو نہیں پہچانا تھا۔الحمد ﷲ! میں نے تمہارا یہ عذر ختم
کردیا، اب رہا یزید کی بیعت کا سوال تو یہ مجھ سے ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتا کہ
میں فاسق وفاجر کے سامنے سر جھکادوں‘‘۔
امام عالی مقام نے جب دیکھا کہ یہ بد بخت میرے قتل کا وبال اپنی گردنوں پر
ضرور لیں گے اور میرا خون بہائے بغیرچین سے نہیں بیٹھیں گے تو آپ نے
فرمایا:’’ اب تم لوگ جو ارادہ رکھتے ہو اسے پورا کرو اور جسے میرے مقابلہ
کے لیے بھیجنا چاہتے ہو بھیجو۔ ‘‘بالآخر نیزہ اور شمشیر کے 72؍ زخم کھانے
کے بعد آپ سجدے میں گئے اور اﷲ کا شکرادا کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ 56؍
سال 5 ماہ 5 دن کی عمر شریف جمعہ کے دن محرم کی دسویں تاریخ 61ھ مطابق 680ء
کو امام عالی مقام اس دار فانی سے رحلت فرما گئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ
اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ
تو زندہ ہے واﷲ، تو زندہ ہے واﷲ! میری چشم عالم سے چھپ جانے والے
قارئین کرام! امام عالی مقام رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے اگر آپ کو سچی محبت کا
دعویٰ ہے اور ان کی بارگاہ میں خراجِ عقیدت پیش کرنا ہے تو واقعاتِ شہادت
سُن کر آنسو بہا دینا یا ان کے نام سے نذر و نیاز کر دینا ہی کافی نہیں ہے
بلکہ حقیقتاً خراجِ عقیدت یہ ہے کہ ان کے نقشِ قدم پہ چلنے کا جذبہ پیدا
ہو، تا کہ ہم ان کی بارگاہ میں یہ عرض کر سکیں ’’اے امام ہم آپ کے عاشق ہیں
اور آپ سے محبت رکھتے ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ ہم نے اپنی زندگی کو آپ کے
عظیم کردار کے سانچے میں ڈھال دیا ہے‘‘ اور ترکِ صلوٰۃ، ترکِ سُنت، شراب،
جوا، زنا، ناچ، گانا وغیرہا منکرات سے بچنے کا عہد کر کے یہ ظاہر کریں کہ
’’اے امام ہم آپ کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے ہیں، جس کی دلیل یہ ہے کہ ہم ان
تمام بُرے کاموں اور غلط عادتوں سے نفرت بھی کرتے ہیں اور ان سے بچتے بھی
ہیں کیوں کہ یہ ایسے اعمال و عادات ہیں کہ آپ کا محب کبھی بھی ان کا مرتکب
نہیں ہو سکتا‘‘۔ ہمارا یہی خراجِ محبت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی خوشنودی اور
جنت میں ان کی رفاقت کا سبب بنے گا، کیوں کہ امام عالی مقام کی قربانی کا
مقصد امتِ مسلمہ کو بُرائیوں سے بچانا ہی تھا۔ کاش! ہم عقل و شعور سے کام
لیتے اور ان کے مقصدِ شہادت کو سمجھ کر اسی جذبے سے ہم بھی سرشار ہوتے۔ اﷲ
عزوجل ہم سب کو امام عالی مقام کی خوشی اور ان کے مشن کو باقی رکھنے اور
یزیدی کردار سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین |